پاکستان میں سرمایہ کاری کا ماحول
FDI کا مسئلہ
گزشتہ دنوں سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں بتایا گیاہے کہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں بیرونی سرمایہ کاری 52 فیصد کم ہوئی۔ رپورٹ کے مطابق 9 ماہ میں سٹاک مارکیٹ سے 26 کروڑ ڈالر کا انخلا ہوا جب کہ اِس دوران براہ راست بیرونی سرمایہ کی شرح گزشتہ برس سے 35 فیصد کم رہی۔ اِس کے قومی معیشت پر یقیناً شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے اور حکومتی سطح پر قومی اقتصادیات کی بحالی کے لیے جو کوششیں کی جا رہی ہیں، اُن کے زائل ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ جائے گا۔
اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان تحریک انصاف کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان میں، بالخصوص سیاحتی اور زراعتی شعبوں میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری (FDI) میں اضافہ کیا جائے۔ پی ٹی آئی کا عزم ہے کہ وہ 2019-20ء کے مالیاتی سال میں 2.8 بلین ڈالر رہنے والے FDI کو اپنی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری حکمت عملی کے تحت مالیاتی سال 2022-23ء میں 7.4 بلین ڈالر تک پہنچا دے۔ تاہم FDI میں اضافے کی حکومتی کوششوں کے باوجود سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق مالیاتی سال 2020-21ء کے ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران FDI میں 30 فیصد کمی آئی ہے اور یہ 1.85 بلین ڈالر سے گھٹ کے 1.3 بلین ڈالر رہ گئی ہے۔
2013ء میں چین پاکستان اقتصادی راہداری کے آغاز پر پاکستان کے FDI میں چین کا حصہ نمایاں بڑھ گیا اور اِس نے امریکا اور برطانیہ کی جگہ لے لی تھی۔ تاہم مالیاتی سال 2021ء کے ابتدائی چھ ماہ میں چین سے ملنے والے نیٹ FDI میں بھی گراوٹ آئی اور یہ 395.8 ملین ڈالر سے 358.9 ملین ڈالر رہ گئی۔ پاکستان کی FATF (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کی گرے لسٹ میں موجودگی کے ساتھ ساتھ ٹیکس اور شرح سود کی کڑی پالیسیوں نے اِس کے غیر ملکی سرمایہ کاری کے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے۔ FDI میں مزید کمی سے بچنے کے لیے داخلی معاشی پالیسوں میں تبدیلی نہ لائی گئی تو پاکستان کو طویل معاشی بحران سے سامنا ہو سکتا ہے۔
غیرملکی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں
درآمدات کی بنا پر ہونے والی نمو کے باعث عدم مطابقت کی حامل معاشی پیداواری شرح اور ادائیگیوں میں توازن کا بحران، قرض کی بڑھتی ہوئی ادائیگیاں نیز ٹیکس کا ناقص نظام ملک کے موجودہ اکاؤنٹ اور مالیاتی خساروں میں اضافے اور پاکستانی منڈیوں میں سرمایہ کاروں کی دلچسپی میں کمی لاتے ہیں۔ اندرون ملک دہشت گردی نے بھی غیرملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مجروح کیا ہے۔ باوجود اِس امر کے کہ گزشتہ کچھ برس میں سلامتی کی صورت حال میں بہتری آئی ہے، پاکستان کے FDI میں اطمینان بخش نمو دیکھنے کو نہیں ملی ہے۔ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور رقوم کے ناجائز تبادلے کے خلاف ملکی قوانین تاحال بین الاقوامی معیار سے مطابقت اختیار نہیں کرپائے ہیں۔ پاکستان وقفے وقفے سے FATF کی گرے لسٹ پر ہے جس کا نتیجہ معیشت کو 38 بلین ڈالر کے نقصان اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے ماحول کے حوالے سے سرمایہ کار کا اعتماد متاثر ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اِس کے علاوہ سیاسی عدم استحکام اور سول ملٹری تعلقات میں مسلسل عدم توازن، غیرملکی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے مزید حوصلہ شکنی کا باعث بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر، غیرملکی سرمایہ کار وزارت داخلہ سے سکیورٹی کلیئرنس کے حصول میں دشواری نیز وفاقی، صوبائی اور مقامی سطح پر سرمایہ کاری کے قوانین میں عدم مطابقت کی اکثر شکایت کرتے ہیں۔
سال 2020ء کے لیے امریکی حکومت کی انویسٹمنٹ کلائمیٹ سٹیٹمنٹ کے مطابق پاکستان کی ٹیکس پالیسیاں بھی عدم مطابقت کی حامل ہیں اور یہ اِس بنیاد پر تبدیل ہوتی رہتی ہیں کہ کون سی حکومت کون سے شعبے کو ترجیح دینا چاہتی ہے۔ جیسا کہ ورلڈ بینک کی ڈوئنگ بزنس 2020ء رپورٹ میں درج کیا گیا، پاکستان دیگر ممالک سے پیشگی ٹیکس کی ادائیگی اور 34 مختلف قسم کے ٹیکسز کی ادائیگی کا مطالبہ کرتا ہے جب کہ دیگر جنوبی ایشیائی ممالک اوسطاً 26.8 ٹیکسوں کی ادائیگی کی درخواست کرتے ہیں۔ مزید برآں پاکستان سرمایہ کاری کے لیے رسمی ترغیبات جیسا کہ ٹیکسوں کی ادائیگیوں میں التوا اور قرضوں پر سبسڈی بھی سرمایہ کاروں کو مہیا نہیں کرتا جو کہ غیرملکی کمپنیوں کی پاکستان میں سرمایہ داری کے مواقع ڈھونڈنے میں مزید حوصلہ شکنی کا باعث ہوتے ہیں۔ کڑی شرائط، تنازعے کے حل کے لیے طویل طریقہ کار، اور بےجا بیوروکریٹک رکاوٹیں، یہ تمام عوامل سرمایہ کار کے اعتماد کو تہس نہس کردیتے ہیں۔
IMF بیل آؤٹ منصوبے کے تحت اُٹھائے گئے کڑے اقدامات نے ملک میں کاروباری ماحول کو مزید ابتر کیا ہے۔ شرح سود کو 12.25 فیصد سے کم کرکے تقریباً سات فیصد پر لانے سے غیرملکی سرمایہ کاری میں کشش کم ہوئی ہے۔ ’’ہاٹ منی‘‘ جسے سرمایہ دار زیادہ شرح سود سے فائدہ اُٹھانے کی خاطر تجارتی منڈیوں میں ایک سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہیں، شرح سود میں کمی واقع ہونے پر ملک سے باہر نکل جاتی ہے کیوں کہ غیرملکی سرمایہ دار اپنی رقوم بلند شرح پر واپسی کی حامل معیشتوں میں منتقل کردیتے ہیں۔
پاکستان اگرچہ اپنی جغرافیائی تزویراتی حیثیت اور تجارتی راستوں کو کلی طور پر استعمال میں لانے میں ناکام رہا ہے تاہم غیر ملکی سرمایہ کار جیسا کہ چین اور امریکا نے پاکستان کی منفرد جغرافیائی خوبیوں سے منافع کمایا ہے۔ تاہم ایسی FDI بالعموم شکنجے اپنے ہمراہ لاتی ہے۔ پاکستان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنے سرمایہ کاروں کے جغرافیائی اور تزویراتی مفادات پورے کرے۔ مثال کے طور پر 2000ء کے وسط میں عسکری تعاون کی مد میں اربوں روپے وصول کرکے پاکستان نے خطے میں امریکا کے جغرافیائی سیاسی مفادات کو پورا کیا۔
سرمایہ کاری ماحول کو درپیش چیلنجز سے نمٹنا
FDI کے حصول کے لیے پاکستان کو FATF کی گرے لسٹ سے باہر آنا ہوگا جس کے لیے اسے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے خلاف بین الاقوامی معیار کے مطابق کارروائی اور پر زور طریقہ سے ٹاسک فورس کی جانب سے باقی ماندہ ایکشن پوائنٹس کو پورا کرنا ہوگا۔ مزید برآں سرمایہ کاروں کی اعتماد سازی کے لیے پاکستان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اِس کی ٹیکس پالیسی مطابقت کی حامل ہو، ٹیکسوں کا موثرنظام ہو اور ملک میں ایک مستحکم سیاسی ماحول قائم ہو۔ خاص کر ٹیکس پالیسیوں کو ایک سے دوسری حکومت کے درمیان زیادہ مطابقت کا حامل ہونا چاہیے۔ انکم اور سیلز ٹیکس میں اضافے کی شکل میں تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے دولت مند طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے۔ مزید برآں، پاکستان کا زراعتی شعبہ جو ملکی معیشت میں اہم حصہ ڈالنے کے باوجود بھی سب سے کم ٹیکس دیتا ہے، اِس پر متناسب ٹیکس لاگو کیے جانے چاہییں۔
صنعت و حرفت کے شعبے میں حصہ لینے کے لیے مزدوری کی عمر میں موجود آبادی کے حصے کی تعلیم و تربیت بھی FDI کو اپنی جانب کھینچ سکتی ہے۔ ایسا کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی بجٹ ترجیحات کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔ بجٹ کی بھاری مقدار دفاع کے شعبے کے لیے مختص کرنے کے بجائے تعلیم و تحقیق کے مواقع کو مناسب مقدار میں رقوم کی فراہمی ہونی چاہیے اور مستقبل میں FDI حاصل کرنے کی خاطر اِس کی ترویج کی جانی چاہیے۔
اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ پاکستان کو غیرملکی سرمایہ کاری کے لیے اپنی شراکت داری کو چین، امریکا، سعودی عرب، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے آگے بڑھانے کی بھی ضرورت ہے اور اِس کے لیے بھرپور سفارتی کوششیں کرنا ہوں گی تاکہ اِس ڈومین میں نئے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ پاکستان مشرقی ایشیا اور اُبھرتی ہوئی افریقی معیشتوں کے ہمراہ معاشی سفارت کاری کی کوششیں تیز کرسکتا ہے اور جنوبی ایشیا کے معاشی مرکز کے طور پر خود میں موجود صلاحیتوں کی تشہیر کرسکتا ہے۔ خوش قسمتی سے پاکستان خطے میں تجارت اور روابط کے ضمن میں وسط ایشیائی ممالک کے ہمراہ بات چیت کے سلسلے میں پہلے ہی متحرک ہوچکا ہے۔
حاصل کلام
چوں کہ پاکستان ہرکچھ برس بعد ادائیگیوں کے توازن کے مسئلے سے دوچار ہوتا ہے لہٰذا اِس کی برآمدات اور بیرون ملک سے وصول ہونے والے زرمبادلہ میں مناسب اضافہ نہیں ہوسکا ہے۔ کووڈ 19 نے عالمی معاشی نمو کوسست کیا ہے جس سے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں پر بھی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اِس نے آنے والے برسوں میں غیرملکی سرمایہ کاری کا حصول مزید مشکل بنا دیا ہے۔ پاکستان اگرچہ 190 ممالک کی درجہ بندی پر مشتمل ورلڈ بینک کی ڈوئنگ بزنس 2020ء میں 28 درجے بہتری کے بعد 136 سے 108ویں درجے پر آچکا ہے تاہم اِسے ابھی بھی بہت ساری رکاوٹوں کو عبور کرنا ہے۔ مزید سرمایہ کاری کے حصول کے لیے پاکستان کو سرمایہ کاروں کو اہم ترغیبات اور اپنی معاشی سفارت کاری کی کوششوں کو وسعت دینا ہوگی، ملک میں امن و امان کی بہتر صورت حال کا مؤثر پرچار کرنا ہوگا، ٹیکس اور سرمایہ کاری سے متعلقہ دیگر پالیسیوں میں مطابقت یقینی بنانا ہوگی اور ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے سرمایہ کاری کے لیے شرائط میں عمومی نرمی لانا ہوگی۔ پاکستان کا نیا جغرافیائی معاشی ہدف صرف اُسی صورت میں پورا ہوسکتا ہے جب FDI کی راہ میں حائل داخلی رکاوٹیں دور ہوچکی ہوں۔