روس اور یوکرین میں ترکی کی ثالثی
روس اور یوکرین کی جنگ میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہوئی وہ معاش اور خوراک کا بحران ہے۔ روس تیل و گیس کے ساتھ گندم برآمد کرنے والا بھی بڑا ملک ہے۔ یوکرین بھی گندم کی برآمد میں سرفہرست ہے۔ اسی طرح خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافہ بھی یوکرین کی سپلائی منقطع ہونے سے ہوا ہے۔ اس مسئلے کو روس اور امریکا دونوں اپنی انا کے مسئلے کے باعث حل کرنے کی طرف نہیں آرہے تھے۔ لیکن ترکی نے اس حوالے سے ہمت دکھائی اور روس کو محدود مدت کے لیے سہی اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ یوکرین کو گندم کی برآمد کے حوالے سے اجازت دے۔
22جولائی 2022ء کو اس حوالے سے ایک تاریخی معاہدہ ہوا جس میں بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کو گندم کی تجارت کے لیے کھول دیا گیا۔ اس سے یہ اُمید پیدا ہوئی کہ اس جنگ کی وجہ سے دنیا میں جو خوراک کا بحران پیدا ہوگیا تھا اِس میں کمی آسکے گی۔
یہ معاہدہ ترکی کے شہر استنبول میں ہوا جہاں ترک صدر طیب ایردوان کی موجودگی میں روسی اور یوکرائین کے نمائندوں نے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس موقعہ پر اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گٹرر بھی موجود تھے۔ اصل میں ترکی کے ساتھ اقوام متحدہ بھی ثالثی کی کوششوں کا حصہ تھا۔
روس اور یوکرین کی سختی بدستور قائم
اِس سے قبل روس نے چاہا تھا کہ یوکرین سے کوئی براہ راست معاہدہ ہوجائے لیکن یوکرین نے اس کا سختی سے انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد ترکی اور اقوام متحدہ درمیان میں آئے اور دونوں کو معاہدے پر راضی کیا۔ معاہدے کے وقت میں بھی تلخی اس قدر تھی کہ دونوں نے الگ الگ فائلوں پر دستخط کیے اور میز کے مخالف سمتوں میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے۔ روس کے وزیر دفاع سرگئی شوئیگو نے سب سے پہلے ماسکو کے معاہدے پر دستخط کیے، اس کے بعد یوکرین کے انفراسٹرکچر کے وزیر اولیکسینڈر کوبراکوف نے کیف کے ایک جیسے معاہدے پر دستخط کیے۔
محدود مدت کا معاہدہ
یہ معاہدہ ابھی صرف 120دنوں کے لیے طےپایاہے البتہ اس میں توسیع کے امکانات ہیں اوراسی صورت میں اسے کامیاب کہا جاسکے گا اگر اس میں توسیع ہوسکی۔ اس کے مطابق بحیرہ اسود کی بندرگاہوں اوڈیسا، چرنومورسک اور پِوڈینیی کو تجارت کے لیے کھول دیا گیا ہے اور اس سے گندم کی ترسیل ساری دنیا کو شروع کردی گئی ہے۔ گو معاہدے سے تمام رکاوٹیں تو ختم نہیں کی جاسکیں لیکن اس سے گندم کی قیمتوں پر بہر حال فرق ضرور پڑے گا۔
ترکی کا کردار
ترکی کے صدر طیب ایردوان دنیا کی سیاست میں ایک اُبھرتی ہوئی شخصیت ہیں اور وہ سیاسی اور معاشی بحرانوںسے نبردآزما ہوچکے ہیں۔ اب بھی ترکی معاشی بحران کا شکار ہے۔ اپنی عالمی سیاست میں ایک اور جھنڈا گاڑنے کے لیے اُنھوں نے اس معاہدے کے انعقاد کے لیے اپنی بھرپور کوشش کی اور اس میں کامیاب ٹھہرے۔طیب اردوان نے اس موقعہ پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ’ہمیں ایک ایسے اقدام میں اہم کردار ادا کرنے پر فخر ہے جو خوراک کے عالمی بحران کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا جو ایک طویل عرصے سے ایجنڈے پر ہے۔‘ا س کے علاوہ اُنھوں نے اُمید ظاہر کی یہ اقدام گندم کی فراہمی اور اس کی قیمتوں میں کمی کا باعث بنے گا۔ اس موقع پر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی ترکی کے کردار کو سراہا اور اُمید ظاہر کی کہ ترکی اس معاہدے کو مستقل بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ترکی کا کردار اس حوالے سے بھی فطری ہے کہ وہ گندم درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہوتا ہے اور اسے اس گندم کی اشد ضرورت ہے۔
معاہدے پر عمل درآمد کی صورت حال
جیسے کہ بیان ہوا کہ معاہدہ عارضی مدت کے لیے اور اس کے اصل ثمرات اس کو مستقل بنانے پر ہی حاسل ہوسکتے ہیں۔ اسے مستقل بنانے میں ایک رُکاوٹ امریکی صدر جوبائیڈن کی حمایت ہے لیکن کیوں کہ وہ کرونا کی وجہ سے قرنطینہ میں ہیں اس لیے ابھی اُن کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں آرہا۔ ہوسکتا ہے کہ آپس کی کسی گفتگو میں اس کی یقین دہانی ہوچکی ہو۔ بہر حال ابھی اس سلسلے میں پیش رفت ہورہی ہے اور ا س کے اچھے نتائج آنے کی توقع ہے۔
معاہدے پر عمل ہونے کے ممکنہ فوائد
اس معاہدے پر عمل درآمد کی صورت میں دو کروڑ بیس لاکھ ٹن گندم، مکئی اور دیگر فصلوں کو یوکرین کے ساحل سے کارگو جہازوں کے ذریعے اکٹھا کر کے پوری دنیا میں منتقل کرنے کی اجازت دے گا، جس سے خوراک کے عالمی بحران کے خدشات کو ٹالا جا سکے گا۔اس وقت یہ صورت حال ہے کہ گندم کی قیمتیں اپنی پہلی والی حالت پر آچکی ہیں۔ شکاگو کے بورڈ آف ٹریڈ کے مطابق گندم کی قیمت میں 5.9فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔ یعنی گندم کی قیمتیں ایک دفعہ پھر وہی ہوگئی ہیں جو فروری سے قبل تھیں جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا۔ مئی کے مہینے میں یورپ میں فی ٹن گندم کی قیمت چار سو یورو تک پہنچ گئی تھی۔
گندم کے ساتھ روس کی کھاد بھی ضروری ہے
اِس سلسلے میں ایک اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ مسئلہ صرف گندم کا نہیں بلکہ دوسرے ملکوں میں گندم اُگانے کا بھی ہے جس کے لیے کھادایک اہم عنصر ہے اور اس کا بھی بہت بڑا برآمد کنندہ روس ہے۔ اِس لیے یہ ضروری ہے کہ گندم کے ساتھ ساتھ کھاد کی ترسیل کو بھی ممکن اور آسان بنایا جاسکے۔
اوڈیسا پر میزائل حملہ
گندم کے معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ بحیرہ اسود سے آبنائے باسفورس کی طرف گندم کے جہاز جائیں گے اور اس طرح ترکی کے ذریعے یہ تجارت جاری رہے گی۔ گندم کے ان جہازوں پر کسی قسم کا حملہ نہیں کیا جائے گا۔ البتہ اس معاہدے کے چار دن بعد ہی اوڈیسا پر روس کی طرف سے میزائل حملہ کیا گیا جس سے یہ خدشہ پیدا ہوا کہ یہ معاہدہ زیادہ دیر نہیں چل سکے گا۔ البتہ روس نے یہ واضح کیا میزائل حملے میں صرف انفراسٹرکچر کو نشانہ بنایا گیا اور وہ گندم والے معاہدے پر پوری طرح قائم ہے۔
یوکرین کی بحری بارودی سرنگیں
ایک مسئلہ جوروس نے اُٹھایا یہ ہے کہ یوکرین نے اس کی بندرگاہوں میں بارودی سرنگیں بچھائی ہیں۔ اس معاہدے کے بعد بحری رہنما جہاز بحری بارودی سرنگوں سے محفوظ رستوں کی نشاندہی کی اور اس کے بعد یوکرین نے گندم کی ترسیل کے عمل کی یقین دہانی کرائی۔ اب چورنومورسک کی بندرگاہ سے گندم کی ترسیل کا کام شروع ہوچکا ہے۔
ایسی شکوک و شبہات والی صورت حال میں یہ معاہدہ زیادہ دیر قائم رہتا نظر نہیں آتا کیوں کہ دوسری طرف امریکا مسلسل روس کے حوالے سے کوئی نہ کوئی مسئلہ پیش کررہا ہے جس سے شکوک و شبہات مزید بڑھ رہے ہیں۔ تادم تحریر ابھی تک امریکا کی طرف سے ردعمل کا انتظار کیا جارہا ہے کہ وہ آگے کے لیے یوکرین کو کیا لائحہ عمل دیتا ہے۔
روس پر پابندیوں کا تناظر
روس پر امریکی اور یورپی پابندیاں بدستور موجود ہیں اور روس اس بات کا بھی مطالبہ کررہا ہے کہ ان پابندیوں کو ختم کیا جائے۔ اب یہ امریکا پر منحصر ہے کہ وہ اس معاہدے کو جاری رکھنا چاہتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اسے روس پر لگی پابندیاں ختم کرنا ہوں گی وگرنہ معاہدے کی کیا حیثیت رہ جائے گی یہ سب کے سامنے ہے۔