National Security Policy نیشنل سکیورٹی پالیسی
پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں
پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک باقاعدہ قومی سلامتی پالیسی بنائی گئی ہے جس میں اگلے چار سال کے فوجی، معاشی ، معاشرتی، خارجہ پالیسی اور عام آدمی کے تحفظ سے متعلق اہداف طے کر دیے گئے ہیں یعنی اب ہمارے پاس ایک پیمانہ موجود ہے جس سے ہم حکومت اور ریاستی اداروں کی کارکردگی کے بارے میں اس پالیسی کی روشنی میں اُن اہداف کی تکمیل کے بارے میں جان سکیں گے قومی سلامتی پالیسی پاکستان کی تاریخ کی پہلی باقاعدہ تحریر ہے جسے ضبط تحریر میں لانے کے لیے پوری پاکستانی قوم کو تقریباً 74سال انتظار کرنا پڑا ہے۔ پہلی قومی سلامتی پالیسی کا بلاشبہ کریڈٹ موجودہ حکومت کو جاتا ہے لیکن قومی سلامتی پالیسی کو تحریری صورت میں قوم کے سامنے لانے کے کام کا آغاز جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں شروع ہوا۔ اُنھوں نے چند لوگوں کو اس کام پر مامور کیا۔ لیکن کام شروع ہوتے ہوتے اُن کی دوسری مدت ملازمت اور پیپلز پارٹی کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ اُن کے بعد قومی سلامتی پالیسی کی تیاری کا کام قومی سلامتی کے مشیر جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کے سپرد ہوا۔ اُنھوں نے اس پر ابتدائی کام شروع کیا لیکن پھر بھی بات قومی سلامتی پالیسی کے ابتدائی مسودے سے آگے نہ بڑھ سکی جس کی سب سے بڑی وجہ ملکی سیاسی عدم استحکام تھا۔ اب تحریک انصاف کی حکومت اپنے دور حکومت کے ساڑھے تین سال بعد قومی سلامتی پالیسی کو حتمی شکل دے کر عوام کے سامنے لائی ہے۔
قومی سلامتی پالیسی کے مطابق پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک بشمول بھارت سے پُرامن تعلقات کو اہمیت دیتا ہے اور ہمسایہ ممالک کے ضمن میں سب سے زیادہ ذکر بھارت کا ہی ہوا ہے۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کسی بھی صورت کشمیر کے مسئلے کے پُرامن حل کے بغیر نہیں ہوں گے کیوں کہ مسئلہ کشمیر دوطرفہ تعلقات میں بنیادکی حیثیت رکھتا ہے۔ پاکستان نے اس امر کا اعادہ کیا ہے کہ آرٹیکل 370جس کے رو سے بھارت نے کشمیر کا Status بدلنے کی کوشش کی ہے اسے بھی واپس لیا جائے۔ ان تمام وجوہات کے باوجود پاکستان نے بھارت کو معاشی میدان میں مل کر کام کرنے کی پیشکش بھی کی ہے اور اس ضمن میں ایک طویل مدتی امن عمل کو شروع کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ پاکستان نے بڑی خوشدلی سے بھارت کے ساتھ 100سالہ جنگ بندی کا مشورہ دیا ہے تاکہ دونوں ممالک معاشی ترقی سے اپنی عوام کی حالت بہتر بنا سکیں۔ بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کا بھی اس پالیسی میں عندیہ دیا گیا ہے اور تمام تصفیہ طلب مسائل کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے بھی تحریر کیا گیا ہے
بھارت کے ساتھ سرحدی تنازعات میں لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باونڈری کے مسائل کو بھی حل کرنے پر توجہ دینے کا کہا گیا ہے کیوں کہ لائن آف کنٹرول پر دونوں اطراف سے ہونے والی فائرنگ سے نہ صرف افواج کو بلکہ مقامی آبادی کو بھی آئے روز خطرات لاحق رہتے تھے اور موجودہ سیز فائر کے دونوں اطراف میں خاطر خواہ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اگر اسی طرح امن کو موقع دیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے دونوں ممالک جہاں قیمتی زرمبادلہ کی بچت کر سکتے ہیں بلکہ لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف بسنے والے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو بھی محفوظ بنایا جا سکتا ہے کہ وہ بھی امن کے ثمرات سے بالکل اُسی طرح فائدہ اُٹھا سکیں جس طرح دوسرے سرحدی علاقوں کے لوگ اُٹھاتے ہیں جس سے وہ اپنی معاشی حالت بہتر کر سکتے ہیں۔
بھارت میں پاکستان کی نیشنل سکیورٹی پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے اور اس پالیسی کو ایک نئے دہشت گردی کے پھندے کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اپنی سکیورٹی پالیسی کی آڑ میں بھارت کو کسی نئی دہشت گردی میں پھنسانا چاہتا ہے حالانکہ پاکستان کی اس پالیسی کا بنیادی مقصد امن اور معاشی ترقی ہے۔ اس ضمن میں ایک اور سوال جو بار بار اُٹھایا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا واقعی بھارت پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان پر اعتماد کر سکتا ہے۔
پلوامہ حملے کے بعد سے بھارت کا پاکستان کے ساتھ رویہ کبھی بھی خوشگوار نہیں رہا جس میں بھارت نے بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے پلوامہ حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا تھا۔ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی روز بروز زور پکڑتی گئی اور ددنوں ممالک کے درمیان جنگ کا سا ماحول پیدا ہو گیا۔ طرفین سے دھمکیوں اور الزامات کا سلسلہ پوری شد د مد سے جاری ہے۔ پاکستان کے اندر دراندازی کی کوشش جو فروری 2019ء میں کی گئی اور بالاکوٹ پر فرضی حملے کاپرچار کیا گیا اور بعدازاں بھارتی ونگ کمانڈر ابھی نندن کی گرفتاری اور پاکستان کی طرف سے جذبہ خیر سگالی تحت اُس کی بحفاظت واپسی کو بھی درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اُلٹا پاکستان پر دھمکیوں سے مرعوب ہونے کا جھوٹا پراپیگنڈا کیا گیا۔
پاکستان کی طرف سے اعتماد سازی کی ہر کوشش کو بھارت میں پاکستان کی کمزوری سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس پر کبھی دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دینے اور کبھی ہر اندرونی خلفشار کو پاکستان کے سر تھوپنے کی بھونڈی کوشش کی جاتی ہے۔ حالیہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کو بھارت کے چند نام نہاد دفاعی تجزیہ کار سراہنے یا مثبت جواب دینے کے بجائے اُلٹا اس کا سطحی جائزہ لینے کے بعد منفی پراپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ایک سابق بھارتی فوجی لیفٹیننٹ جنرل (ر) سنجے کلکرنی نے نیشنل سکیورٹی پالیسی کو محض دکھاوا قرار دیا ہے اور بھارت کے ساتھ تجارت کو پاکستانی بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال کو سہارا دینے کی کوشش قرار دیا ہے۔ دیگر دفاعی تجزیہ کار پاکستان کی سو سالہ امن کی پیشکش کو بھی سابقہ بیانات جس میں ہزار سال تک جنگ کرنے کی دھمکی کے ساتھ نتھی کرکے اس کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔
پاکستان کا انڈیا کی طرف سے تجارتی روابط رکھنے کے جو اعلان کو بھی آئی ایم ایف کی طرف سے پیش کی گئی کڑی شرائط اور فیٹف میں پاکستان کی پوزیشن کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے کہ پاکستان بھارت سے اپنے اقتصادی بچائو کے لیے تجارتی روابط رکھنا چاہتا ہے جو کہ سراسر دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ رکھنے جانے والے تجارتی روابط کی نفی ہے۔ کچھ بھارتی دفاعی تجزیہ کار پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کو دنیا کی نظر میں اپنا تصور بہتر کرنے کی ایک حقیر سی کوشش سمجھ رہے ہیں کیوں کہ اُن کے مطابق پاکستان دنیا میں ایک بدمعاش ریاست کے طور پر مشہور ہے حالانکہ بھارت کے اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ ماسوائے ایک آدھ چھوڑ کے نہ صرف سرحدی تنازعات ہیں بلکہ ان ممالک کے داخلی مسائل میں بھی ملوث ہونے کے دنیا کے سامنے بین ثبوت موجود ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان نے انڈیا کو بڑے کھلے دل سے متذکرہ بالا تمام پیشکشیں کی ہیں جن کا انڈیا کی طرف سے مثبت جواب وقت کی ضرورت تھی لیکن انڈیا کی طرف سے پاکستان کی اس پُرخلوص کوشش کا بھی اُسی طرح جواب دیا گیا جس طرح ماضی میں وہ دیتا چلا آیا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بی جے پی کی حکومت نریندر مودی کی قیادت میں انڈیا کو اُس مقام پر لے آئی ہے کہ جس میں اُن کی سیاست کا محور ہی پاکستان دشمنی ہے لہٰذا وہ کسی بھی سنجیدہ کوشش کو پاکستان کی کمزوری کے طور پر پیش کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہی حال انڈیا کے طرف سے پاکستان کی سکیورٹی پالیسی کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ انڈیا کی یہ تنگ نظری حالیہ کرناٹک میں حجاب پر پابندی ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کے شرمناک رویہ سے عیاں ہے کہ انڈیا بی جے پی کے نظریے کے مطابق سیکولر سے ایک خالص ہندو ریاست بننے جا رہا ہے۔ اندریں حالات پاکستان کا انڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا نظر نہیں آتا اور آنے والے دنوں میں بھی پاکستان کی انڈیا کے ساتھ امن اور تجارتی تعلقات کی خواہش پوری ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔
For Magazine Subscription Please visit our Facebook Page or WhatsApp on 0302 5556802 For Institute’s Information, please join our Facebook Page or you can contact us on 0302 5556805/06/07 For Books Order please Visit our Facebook Page or WhatsApp us on 0302 5556809 You can follow us on Twitter too |