Wednesday , March 22 2023
Home / Archive / روس چین فوجی مشقیں

روس چین فوجی مشقیں

Listen to this article

روس چین فوجی مشقیں

اپنے نقطۂ نظر کے پیش نظر روس اور چین آپس میں زیادہ قریب رہے ہیں اور ہیں بھی۔ دونوں ملکوں میں دوسری مشترک بات امریکا کا حریف ہونا ہے۔ روس عملاً یوکرین کے محاذ پر امریکا سے ٹکر لیے ہوئے ہے جب کہ چین تائیوان کے محاذ پر امریکا سے مقابلے کے لیے پرتول رہا ہے۔ سپیکر آف ہائوس نینسی پیلوسی کے تائیوان کے دورے کے بعد خطے میں حالات کشیدہ ہوچکے ہیں اور چین یوکرین کی طرز پر تائیوان پر دانت تیز کرر ہاہے۔ ان حالات میں روس اور چین کی مشترکہ فوجی مشقیں عالمی سیاست کے لیے کئی سوالات چھوڑتی ہیں۔
یہ فوجی مشقیں یکم ستمبر سے شروع ہوکر ایک ہفتہ تک جاری رہیں اور انھیں ’’ووسٹوک 2022ء‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ روس کے مشرقی حصے (سائبیریا) میں ہوئیں۔ اِن مشقوں میں چین کے علاوہ انڈیاا ور دیگر کئی ممالک کے 50 ہزار سے زیادہ فوجیوں نے حصہ لیا۔ یہ سٹرٹیجک سرگرمی مختلف ممالک کے پانچ ہزار جنگی اور فوجی سازوسامان، 140 طیارے، 60 جنگی جہاز اور دیگر بحری جہازوں کے ساتھ ہوئی۔ان مشقوںکو اتنی اہمیت دی گئی کہ روسی صدر نے خود سرگیوسکی ملٹری رینج میں ہونے والی ان کثیر الجہتی فوجی مشقوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر اُن کے ساتھ وزیر دفاع سرگئی شوگو اور چیف آف سٹاف ویلری گیراسموو بھی موجود تھے۔اس سے قبل اس طرز کی مشقیں جس میں کہ کئی ممالک نے حصہ لیا تھا 2018ء میں ہوچکی ہیں۔ تین بڑے ملکوں کے علاوہ ان مشقوں میں آذربائیجان، الجزائر، آرمینیا، بیلاروس،لاؤس، منگولیا، نکاراگوا، شام شامل ہیں۔ ان مشقوں کا آخری مرحلہ بحریہ کا تھاجو جاپان کے قریب سمندر کے ساحلی علاقوں میں ہوا۔اس مشق کی افتتاحی تقریب 31 اگست کو منعقد ہوئی۔ چین نے اس مشق میں ناردرن تھیٹر کمانڈ میں شامل اپنے زمینی، فضائی اور بحریہ کے تقریباً دو ہزار فوجی بھیجے تھے۔
ان مشقوں کی اہمیت
یہ مشقیں اپنے حجم کے اعتبار سے پہلے سے زیادہ ہیں۔ زیادہ ملکوں کے فوجیوں نے حصہ لیا اور فوجی سازوسامان بھی زیادہ استعمال کیا گیا۔ لیکن اصل چیز اس کا حجم نہیں بلکہ اس کے پیچھے چلنے والی سیاست ہے۔ یہ مشقیں یوکرین کی جنگ کے دوران ہورہی ہیں۔ یعنی روس کی فوج یوکرین میں مصروف ہے اس کے باوجود مشقیں جاری ہیں اور بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ دوسری چیز اس میں روسی اور چینی صدور کی ملاقات ہے۔ اس سے قبل یہ ملاقات یوکرین جنگ کے شروع ہوتے وقت ہوئی تھی۔ اس ملاقات کو مغرب تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔ تیسری چیز اس میں بہت سے ملکوںکا اکٹھا ہونا ہے۔ امریکا اور یورپ پوری دنیا کو یہ یقین دلا رہے ہیں کہ اُنھوں نے روس کو تنہا کردیا اس لیے اس کی طرف جانا بے سود ہے لیکن روس نے ان مشقوں میں کئی ممالک جن میں بھارت بھی شامل ہے کو اکٹھا کرکے یہ ثابت کردیا کہ وہ تنہا ہرگز نہیں۔
اس سے کچھ دن پہلے روس نے ایک اسلحے پر مبنی ایکسپو کا اہتمام کیا جو وسط اگست میں ماسکو میں منعقد ہوئی اور اس میں اپنے اسلحے کی اشتہاری مہم چلائی گئی۔ اس ایکسپو میں چین اور ایران کی اسلحہ کمپنیوں نے بھی حصہ لیا۔ چین کا اس ایکسپو میں آنا پھر سیاسی مقاصد کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ البتہ چین روس کے ہی دیے گئے ڈیزائن کے مطابق اب زیادہ بہتر اسلحہ بنا رہا ہے اور اب روس سے خریدنے کے بجائے اُسے بیچنے کی پوزیشن میں آگیا ہے۔
مشقوں کا مقام
مشقوں کا مقام بھی ایک اہم پہلو ہے۔ بحیرہ جاپان اور بحیرہ اخوتسک ایسا سمندر ہے جہاں مختلف حریف اپنی سیادت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر مغرب نے بحری تجارت کے حوالے سے جو پابندیاں عائد کررکھی ہیں اس حوالے سے یہ اہم ہے۔ اس کے علاوہ یہ جاپان کے بالکل نزدیک ہے اور جاپان امریکا کا اتحادی ہے۔ تیسری اہم وجہ یہاں دوسری جنگ عظیم میں 3ستمبر کو ہونے والی جنگ کی یاد تازہ کرنا ہے جس میں روس نے جاپان کو شکست سے دوچا رکیا تھا۔ اس لیے یہ تاثر عام ہے کہ ان مشقوں کو مختلف علامات کے ذریعے معنی خیز بنایا گیا ہے۔
ایسٹرن اکنامک فورم کا انعقاد
ان مشقوں کا اس وقت منعقد کرانا ایک اور پہلو بھی رکھتا ہے اور وہ انھی دنوں میں ولادی وستوک میں ہونے والا ایسٹرن اکنامک فورم کا اجلاس تھا۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے جس دن وستوک مشقوں کا جائزہ لیا اُس سے اگلے دن اکنامک فورم کے اجلاس سے خطاب کیا۔ یہ فورم 2015ء میں قائم ہوا اور اس کا مقصد پیسفک میں تجارت کو بڑھانا ہے۔ اس وقت اس فورم کے انعقاد کا مطلب مغرب کو یہ پیغام دینا تھا کہ وہ روس کو تنہا نہیں کرسکے اور روس فوجی اور معاشی دونوں محاذوں پر جاگ بھی رہا اور اپنے ہمدرد بھی رکھتا ہے۔
یوکرین کی جنگ پر اثرات
البتہ روس نے اس وقت یہ مشقیں شروع کرکے یوکرین کے محاذ کوبھی متاثر کیا ہے۔ ظاہر ہے ان مشقوں کے شروع کرنے سے فوج کی توجہ بٹ گئی اور یوکرین کے کئی محاذوں سے ناکامی کی خبریں موصول ہوئیں جس کی وجہ سے کئی اہم فوجی عہدے داروں کو اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش بھی ہونا پڑا۔
چین کے مقاصد
چین کے ان مشقوں میں شرکت کے مقاصد کو نینسی پیلوسی کے تائیوان دورے سے جوڑا جارہا ہے۔ چین اِس حوالے سے بہت حساس ہے۔ اُس نے تائیوان کے اردگرد بھی جنگی مشقیں شروع کررکھی ہیں اور تائیوان کی درآمدات پر بھی پابندی عائد کردی ہے اور اس کے بعد اُس نے روس کے ساتھ مشقیں بھی شروع کیں ۔ گو چین اس سے قبل بھی روس کے ساتھ مشقیں کرتا رہا ہے اس دفعہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اُس نے اپنی بری، فضائی اور بحری تینوں افواج کو ان مشقوں میں حصہ لینے کے لیے بھیجا ہے اور پہلی دفعہ اُس نے اپنے جنگی بحری جہازوں کو بحیرہ جاپان میں داخل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس دفعہ روس کے ساتھ اپنی منصوبہ بندی کو بھی شریک کیا گیا ہے جو اس سے پہلے صرف چین اپنے تک ہی رکھتا تھا۔
فروری میں بیجنگ سمٹ میں چین اور روس نے عزم ظاہر کیا تھا کہ اُن کے تعلقات لامحدود ہیں۔ چین اور روس کی مشقوں کو اس تناظر میں دیکھا جارہا ہے۔ لیکن چین نے اب یوکرین کے محاذ پر اپنا اسلحہ بھیجنا بند کردیا ہے جس کے باعث یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ لامحدود تعاون کا یہ عزم اپنے اندر حقیت نہیں رکھتا۔ البتہ یہ دونوں ملکوں کی اندر کی گیم بھی کہی جارہی ہے کہ وہ اس طرح کھل کر سب کچھ نہیں کرنا چاہ رہے جو کچھ وہ بیانات میں کہہ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم چیز سیمی کنڈکٹر کی ترسیل ہے جو چین روس کو کر رہا ہے کیوں کہ چین اس میں خود کفیل ہے۔ دوسری طرف حال ہی میں امریکا میں پاس ہونے والے چپس ایکٹ کو اس تناظر میں دیکھا جاسکتا ہے کیوں کہ امریکا اس وقت سیمی کنڈکٹر کی اندسٹری کے بحران کا شکا رہے۔
امریکا کا ردعمل
امریکا ظاہر ہے اس پر تنقید کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتا۔ اُس پر روس اور چین کے عزائم واضح ہیں لیکن وہ اس پر تنقید کیسے کرسکتا ہے۔ حال ہی میں امریکا نے اپنی فوجی مشقوں میں انڈیا، تاجکستان اور منگولیا کی شرکت کو ’خودمختار فیصلہ‘ قرار دیا تھا۔یہ بڑی طاقتوں کے لیے معمول کی بات ہے اور نہ صرف بڑی طاقتوں کے لیے بلکہ ہر وہ ملک جسے دفاع کے مسائل لاحق ہیں اُس کے لیے بھی۔ امریکا ایشیا پیسفک کے علاقے میں ہر سال ایسی 10 مشقیں کرتا ہے۔
امریکا کے حوالے سے حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا نے انڈیا کے شامل ہونے پر کچھ نہیں کہا۔ دیگر معاملا ت میں بھی جب انڈیا نے روس کی حمایت کی یا اُس کے کسی معاہدے میں شرکت کی تو امریکا نے چپ سادھ لی۔ یہ ’انڈو پیسیفک سٹریٹجی‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ اصل میں انڈوپیسفک میں اس طرح کی کھچڑی پکی ہوئی ہے کہ اس میں واضح طور پر جنگ کرنا بھی نقصان دہ ہے اور خاموش رہنا بھی۔ اس وقت ہر کوئی اس خطے میں اپنی ڈپلومیسی چلا رہا۔ نینسی پیلوسی کے حالیہ دورے میں یہ بات صاف واضح ہوگئی کہ چین کے انتباہ کے باوجود امریکانے یہ دورہ منسوخ نہیں کیا لیکن چین نے امریکا کے خلاف کوئی جنگی کارروائی نہیں کی بلکہ تائیوان کو سبق سکھانے کا ہی سوچا اور وہ بھی ایک بالواسطہ طریقے سے۔ ظاہر ہے پیسفک میں کسی قسم کی کارروائی ایک پینڈوراباکس کھول سکتی ہے جس کے نتائج بہت بھیانک نکل سکتےہیں۔
چین کی طرف سے معنی خیز بیانات
نیشنل ڈیفنس جرنل کے ایک اور سوشل میڈیا اکاؤنٹ، ڈِنچنگ زوجیاؤ نے کہا کہ یہ مشقیں روس اور چین کے لیے ایک موقع کی طرح ہیں۔ اس کے ذریعے وہ امریکا کی قیادت میں ’یک طرفہ عالمی نظام‘ کو چیلنج کرتے ہوئے ایک ’کثیر قطبی دنیا‘ کی تشکیل کر سکتے ہیں۔
چین کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں کسی ایک ملک کو ہر معاملے پرحاوی نہیں ہونا چاہیے۔ چین اور روس ایسے نظام کے حامی ہیں جہاں سب کے لیے یکساں ترقی اور مواقع ہوں۔
عوام اس چیز کو کس طرح سے لے رہے ہیں؟
چین کی فوجی مشقوں پر چین کے لوگوں نے ٹک ٹاک بنائی ہیں اور اسے خاص طور پر جاپان کے لوگوں کو دکھانے کے لیے بنایا گیا۔جاپان کی سرحد کے قریب بحری مشقوں کا ہونا اس کا پس منظر ہے۔ یعنی جاپان کو یہ پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ اس سے سبق پکڑے اور یہ سب کچھ سوشل میڈیا پر ہورہا ہے۔ ویڈیو پر جو Comment (رائے زنی) سب سے زیادہ پسند کیا گیا ہے وہ یہ ہے: ’اگر یہ دونوں فوجیں اکٹھی ہو جائیں تو دنیا میں کوئی افراتفری نہیں ہو گی۔‘

Check Also

HEC’s Undergraduate Education Policy

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *