Wednesday , March 29 2023
Home / Archive / ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ اسرائیل پر نسل پرستی کی فرد جرم

ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ اسرائیل پر نسل پرستی کی فرد جرم

Listen to this article

ایمنسٹی انٹرنیشنل رپورٹ

اسرائیل پر نسل پرستی کی فرد جرم

انسانی حقوق کی تنظیم نےجس کا ہیڈ کوارٹر لندن میں ہےیکم فروری کو جاری کی گئی تفصیلی رپورٹ میں کہا ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ ’کم تر درجے کے نسلی گروپ والا سلوک کیا جا رہا ہے اور اُنھیں منظم طریقے سے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل پرستی کا الزام بھی عائد کیا ہے اور امریکا برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر ملکوں کو کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر غور کریں ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 278صفحات کی رپورٹ میں اسرائیل کے خلاف انسانیت سے متعلق الزامات عائد کیے ہیں۔ یہ رپورٹ چارسال کے عرصے میں مرتب ہوئی ہے۔

اسرائیل کی دہائیاں
دوسری طرف اسرائیل کے احکام نے اس رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا ہے اور اسے جھوٹ کا پلندہ کہا ہے۔ اسرائیل کے وزیر خارجہ یائر لاپید نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے متعلق بہت سخت زبان استعمال کی ہے۔ اُنھوں نے اسے بنیاد پرست تنظیم کہا جو دیگر دہشت گرد تنظیموں کے الزامات اسرائیل پر لگارہی ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر اُنھوں نے کہا کہ اصل میں ایمنسٹی انٹرنیشنل دنیا کو اسرائیل کے خلاف کارروائی پر اُکسا رہی ہے اورلوگوں کا حوصلہ بڑھا رہی ہے کہ وہ دنیا میں جہاں کہیں بھی یہودیوں کو دیکھیں اُنھیں نقصان پہنچائیں۔اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ اُن تنظیموں اورملکوں کی ملی بھگت ہے جو اسرائیل کے خلاف ہیں ۔ اسرائیلی وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اپنی رپورٹ کو واپس لے۔
اسرائیل کی صہیونی ریاست کے کئی امریکی اور یورپی حامیوں نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے حوالے سے لائحہ عمل ترتیب دینے کے بلند بانگ دعوے کرتے ہوئے ’بیانیے کی جنگ‘ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔اس طرح کی اصطلاحات کا استعمال ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے خلاف سچائی جاننے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ اسرائیل کی نسل پرستی کو بے نقاب کرنے والی لاتعداد رپورٹوں کو تل ابیب اور اُس کے حمایتی پروپیگنڈا کی جنگ کا حصہ سمجھتے ہیں۔یہ بیانیہ ظاہر کرتا ہے کہ اسرائیل اپنے ہی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ظالمانہ نسل پرست نظام کی خامیوں سے اعراض برت رہا ہے۔

یاد رہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے علاوہ بھی بے شمار تنظیموں نے اسرائیل کو اس قسم کے جرائم کا مرتکب قراردیا ہے۔ ان میں خود اسرائیل کی تنظیمیں بتسلیم اور ییش دین بھی آتی ہیں۔ گزشتہ سال اپریل میں ہیومن رائٹس واچ وہ پہلا ادارہ تھا جس نے اسرائیل پر نسل پرستی کا الزام لگایا۔

اسرائیل میں نسل پرستی کے اشارے تو شروع دن سے ہی ملنا شروع ہو گئے تھے۔ اسرائیل کی تاریخ اور صہیونی نظریے سے آگاہ نقاد اچھی طرح جانتے تھے کہ فلسطین کے اصل باشندوں کو بے دخل کر کے اُن کی جگہ یورپی یہودیوں کے لیے وطن قائم کرنے کی کوششوں کا نتیجہ 20 ویں صدی کے آغاز پر وہاں کے 95 فیصد فلسطینیوں کے حقوق کی انتہا درجے کی پامالی کی صورت میں سامنے آئے گا۔ ایسے نظام کو نسل پرستی اور ظالمانہ پالیسیوں کے ذریعے ہی قائم رکھا جا سکتا تھا۔اسرائیل کے چند نرم خو ناقدین صہیونی منصوبے پر دو ٹوک رائے دینے سے اس لیے گریزاں رہے کہ شاید مستقبل بعید میں کسی نہ کسی طرح تل ابیب کو نسل پرستی کے راستے پر چلنے سے روک سکے۔

نسل پرستی کیا اور اسرائیل کیسے اس کا مرتکب ہورہا ہے
نسل پرستی کا نظام ایک نسلی گروہ کا دوسرے گروہ پر جبر اور تسلط کا منظم طریقہ کار ہے۔ عالمی فوجداری قانون کے مطابق وہ مخصوص غیر قانونی کارروائیاں جو نسل پرستی کے نظام کے اندر رہ کر اور اس نظام کو برقرار رکھنے کی نیت سے کی جاتی ہیں انسانیت کے خلاف نسل پرستی کا جرم بنتی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل مطابق یہ اقدامات جن میں غیر قانونی ہلاکتیں، تشدد، جبری منتقلی اور بنیادی حقوق اور آزادیوں سے انکار شامل ہے،یہ سب کچھ نسل پرستی کے خلاف معاہدے اور روم دستور میں بیان کیا گیا ہے۔اسرائیل نے 1967ء میں عربوں کے ساتھ ہونے والی چھ روزہ جنگ کے دوران مغربی کنارے، مشرقی بیت المقدس اور غزہ پرقبضہ لیا تھا۔ اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس پربھی قبضہ کر لیا جسے 1980ء میں اسرائیل کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔ اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری کی طرف سے سخت تنقیدکا سامنا ہے۔

غزہ جہاںفلسطینی 20 لاکھ کی تعدادمیں آباد ہیں، 2005ء میں اسرائیل نے وہاں سے فوج اور آبادکاروں کو واپس بلا لیا تھا لیکن دو سال بعد حریت پسند تنظیم حماس جسے برطانیہ نے دہشت گرد قرار دے رکھا ہے، اقتدار میں آ ئی تو اسرائیل نے غزہ کی سخت ناکہ بندی شروع کر دی۔

مغربی کنارے میں اب تقریباً پانچ لاکھ یہودی آباد کار ایسے بستیوں میں مقیم ہیں جنھیں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق اسرائیل اب بھی 430 میل طویل باڑ اس علاقے کے اندر اور ارد گرد پھیلا رہا ہے۔ اسرائیل نے ’فلسطینی برادریوں کو فوجی علاقوں میں الگ تھلگ کر دیا ہے۔

گزشتہ چند سالوں کے دوران اسرائیل کے سابق وزیراعظم بن یامین نتن یاہو نے بارہا کہا ہے کہ وہ مغربی کنارے کے کچھ حصوں کو باضابطہ طور پر اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔ یہ چیز واضح طورپر بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی ہے۔ اس دھمکی نے نسل پرستی پر بحث کو ہوا دی حالانکہ تب تک اقوام متحدہ کے حکام نسل پرستی کے لفظ کا استعمال چھوڑ چکے تھے۔

حالیہ رپورٹ میں ایمنسٹی نے بتایا ہے وہ کیوں اسرائیل کو نسل پرستی کا مرتکب قرار دے رہی ہے۔ اس کے مطابق اسرائیل نے فلسطینیوں کو اُن کے بنیادی حقوق اور آزادیاں دینے سے جان بوجھ کر انکار کرنے کے لیے متعدد اقدامات کا سہارا لیا جن میں فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر’ظالمانہ‘ پابندیاں، اسرائیل میں مقیم فلسطینی برادریوں والے علاقوں میں ’امتیاز پر مبنی‘ کم سرمایہ کاری اور پناہ گزینوں کی واپسی کے حق سے انکار شامل ہیں۔ایمنسٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس نے اسرائیل کے اندر اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ’زبردستی منتقلی، انتظامی حراست، تشدد اور غیر قانونی ہلاکتوں‘ کو بھی دستاویزی شکل دی ہے۔ اسرائیل اپنے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں قوانین، پالیسوں اور ضوابط کے ذریعے نسلی علیحدگی کی ایک ایسی مربوط پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں برابری کے حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ اس کا مقصد فلسطینی لوگوں کو دبانا اور اُن پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔ یوں تو سرکاری طور پر تمام اسرائیلی شہریوں کو مذہب ونسل کے امتیاز کے بغیر برابر کا شہری تصور کیا جاتا ہے لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل اس چیز سے متفق نہیں اور اس کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل فلسطینوں کے ساتھ ’کم تر غیر یہودی نسل‘ کے طور پر برتاؤ کرتا ہے۔

ایمنسٹی کا مطالبہ
برطانیہ میں موجود ایمنسٹی انٹرنیشنل کی چیف ایگزیکٹیو افسر ساشا دیش مکھ نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آنکھیں کھول لے۔ اُنھوں نے برطانیہ پر زور دیا کہ لندن کو چاہیے کہ وہ اپنا اثرورُسوخ استعمال کرکے اسرائیل کی سوچ کو تبدیل کرے۔ اُس نے برطانیہ یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو فوجی اور پولیس کے ضمن میں امداد کو روک دے۔ دیش مکھ کے بقول: ’جب انسانی حقوق کے معاملے میں اسرائیل کے شرمناک ریکارڈ کی بات ہوتی ہے، برطانیہ اسے درخور اعتنا نہیں سمجھتا اور ایسا لمبے عرصے سے ہوتا چلا آرہاہے ۔‘

دیش مکھ کا مزید کہنا تھا کہ برطانیہ کو تمام اسرائیلی بستیوں سے مصنوعات کی درآمد کے حوالے سے جامع پابندی لگا نی چاہیے خا ص طور پر کھدائی کے استعمال ہونے والی مشینوں کی برآمد روک دے کیوں کہ وہ مکانات کے غیر قانونی انہدام میں استعمال کی جاتی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے سیکرٹری جنرل کالامارڈ نے بھی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیل کو’نسل پرستی کا نظام‘ لازمی طور پر ختم کرنا ہو گا۔ اُنھوں نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ ’انصاف کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کرے۔ کتنے شرم کی بات ہے ابھی تک ان راستوں پر چلنے کا کسی نے سوچا ہی نہیں۔‘

دوسری طرف برطانیہ کے وزیراعظم کا نقطہ نظر بھی اس سے ملتا جلتا ہے ۔ بورس جانسن کا تعلق ایسے مکتبہ فکر سے ہے جو حقائق کے بجائے عقیدے کو گرو مانتے ہیں۔جب وہ وزیر خارجہ تھے تو انہوں نے 2017ء میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ ’تل ابیب کو نسل پرستی یا اسرائیلی علاقوں کی تقسیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔‘ جانسن کے اس بیان کے بعد قابض ریاست کے فلسطینیوں کے ساتھ سلوک کا موازنہ جنوبی افریقہ پر حکمرانی کرنے والی سفید فام اقلیت سے کیا جانے لگا۔فلسطینیوں کے حق خود اختیاری سے متعلق سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ڈپلومیسی پر مبنی بیان کا جواب دیتے ہوئے بورس جانسن کا کہنا تھا کہ ’کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ کو دو ریاستی حل پر عمل کرنا پڑے گا، یا پھر آپ کا شمار نسل پرستانہ نظام کے پیروکاروں میں کیا جائے گا۔‘مطلب یہ کہ حق خودارادیت کے ذریعے فلسطینیوں کو اُن کے حقوق دینا ہوں گے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ اسرائیلیوں اور صہیونیت کے بانیوں کی بڑی تعداد تو فلسطینیوں کو انسان ہی نہیں سمجھتی ایسے میں اُن کے استصواب رائے کے حق کی بات بھلا کیا حیثیت رکھتی ہے؟

باراک اوباما کابینہ میں امریکی وزارت خارجہ کا عہدہ رکھنے والے جان کیری بھی اسرائیل کے مستقبل سے متعلق واضح نظریات کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ واشنگٹن میں 2014ء کے دوران ایک خصوصی اجلاس کے دوران جان کیری نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’اگر فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدے کی کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئیں تو اسرائیل کو نسل پرست ریاست قراردینے کے دن دور نہیں اور اس کا مطالبہ بہت زیادہ زور پکڑ جائے گا۔‘

فرانس کے وزیر خارجہ جین یوزلی ڈریان بھی کم وبیش ایسے خیالات پیش کر چکے ہیں۔ ڈریان کے الفاظ میں: ’نسل پرستی کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔‘ اُنھوں نے خبردار کیا کہ معاملات جوں کہ توں برقرار رہنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔

اوپر ذکر کیے گئے دونوں رہنما بڑی آسانی سے یہ بات فراموش کر بیٹھے کہ ‘Status quo’ اسرائیل میں مستقل حقیقت ہے اور اسرائیلی جمہوریت سے متعلق اُن کے خیالات ایسے مستقبل سے وابستہ ہیں جس کا دُور دُور تک نام و نشان نہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل بان کی مون کا اسرائیلی جمہوریت سے گمان بلکہ بدگمانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ گزشتہ برس ایک بیان میں بان کی مون کا کہنا تھا ’فلسطینی علاقوں میں غیر انسانی اور جارحانہ اسرائیلی اقدامات سے عبارت صہیونی ریاست کے انداز حکمرانی کا منطقی نتیجہ نسل پرستی کے سوا اور کچھ نہیں۔‘
ب

ان کی مون کے تبصرے پر اقوام متحدہ کے کان کھڑے ہوئے اور اُس نے اس طرف سوچنا شروع کردیا۔ اقوام متحدہ اسرائیل کے لیے کتنا نرم گوشہ رکھتی ہے اس کا ثبوت اس بات سے سامنے آیا کہ موجودہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیریش نے اسرائیل کو نسل پرست قرار دیے جانے سے متعلق اقوام متحدہ کی 2017ء میں جاری کردہ رپورٹ ختم کرانے کی بھر پور کوشش کی۔بہر حال یہ رپورٹ آنی ہی تھی۔ یہ اقدام یہود مخالف الزامات کے بعد سامنے آنے والے شدید دباؤ کے بعد کیا گیا۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں سے روا رکھے جانے والے سلوک کا جائزہ اور ان دنوں غزہ پر حملے کی تحقیقات کے لیے مستقل کمیشن تشکیل دے دیا۔اب اسرائیلی حکومت اس بات پر پریشان ہے کہ ایسا نہ ہو یو این کمیشن کی حتمی رپورٹ کی اشاعت میں صہیونی ریاست کو نسل پرست اقدامات کا قصور وار ٹھہرا دیا جائے۔

یہودی قیادت کو اس بات سے مکمل آگاہی ہے کہ اسرائیل کے جمہوری چہرہ صرف نام کا ہی جمہوری ہے ۔ پانچ برس قبل سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک ایک انٹرویو میں اسی خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل کے موجودہ حالات ’اب تک نسل پرستانہ نہیں۔‘

اس خدشے کا اظہار کرنے والوں کی بات ایہود باراک کے مؤقف تک محدود رہتی تو کچھ بُرا نہ تھا یہاں تو سابق وزیر اعظم ایہود اولمرٹ بھی خبردار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اسرائیل کو جنوبی افریقہ طرز کی صورت حال پیش آسکتی ہے۔ فلسطینی ریاست قائم نہ ہونے کی صورت میں تل ابیب کو بے شمار مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے جو اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتی ہیں۔‘

ایک تجربہ کار اسرائیلی لیڈرکے بقول ’جس دن دو ریاستی حل ناکامی سے دوچار ہوا اور ہمیں جنوبی افریقہ کی طرز پر مساوی ووٹ کی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا تو اسرائیل کو ختم ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔‘

اسرائیلیوں کی رائے عامہ میں یہ خیال عام ہے کہ نسل پرستی مستقبل کا خطرہ نہیں بلکہ زمانہ حال کی زندہ وجاوید حقیقت ہے۔سابق اسرائیلی وزیر تعلیم شولامیت علونی کہتے ہیں کہ ’اسرائیل مقامی فلسطینیوں کے خلاف پُرتشدد نسل پرستی کا ارتکاب کر رہا ہے۔‘ اِسی طرح سابق اسرائیلی اٹارنی جنرل مائیکل بنیائر کی رائے میں ’اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں میں نسل پرستی قائم کر رکھی ہے۔‘اسرائیل بڑی مدت تک ہسبارہ نامی پبلک ڈپلومیسی تکنیک کو کامیابی سے انفارمیشن وار فیئر اور اسٹرٹیجک اہداف کے ساتھ ملا کر اپنا روشن چہرہ مغرب کے سامنے پیش کرتا چلا آیا ہے، مگر سابق صدر جمی کارٹر نے ’ہسبارہ مشین‘ کو اپنی کتاب کے ذریعے ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی جس کوشش کا آغاز کیا، ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ اسی کا نقطۂ عروج بننے جا رہی ہے۔

اصل میں اسرائیل سے متعلق نسل پرستی کی بحث کا آغاز 2006ء میں ہوا جب جمی کارٹر کی کتاب ’فلسطین: نسل پرستی نہیں، امن‘ منظر عام پر آئی۔کارٹر کے ناقدین نے روایت کے مطابق اُنھیں یہود مخالف خیالات کا علم بردار قرار دیا، تاہم اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ مغربی دنیا کو جمہوریت کے لبادے میں لپٹا اسرائیل کا وہ مکروہ چہرہ دکھائی دینے لگا جو دراصل نسل پرستی کی گرد سے اٹا ہوا تھا۔

پندرہ سال گزرنے کے بعد جمی کارٹربجا طور پر ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کی روشنی میں اپنے خیالات کو دہراتے ہوئے پوری جرات سے کہتے سنائی دیں گے کہ ’اسرائیل اپنی نام نہاد جمہوریت کو دنیا کے سامنے زیادہ دیر تک بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرسکتا۔‘

Check Also

EMOJI

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *