امریکا کو نئی اسرائیل پالیسی کی ضرورت ہے
برنی سینڈرز
20 مئی کو امریکی سینیٹ میں سینیٹر برنی سینڈرز نے فلسطینیوں کی حمایت میں ایک قرارداد پیش کی جس میں اُنھوں نے اسرائیل سے فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ یہ قرارداد امریکا اور دنیا بھر کے اکثریتی عوام کے جذبات کی عکاس ہے اور فوری فائر بندی کا مطالبہ کرنے میں اُنھیں یورپی یونین، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل، پاپائے روم اور دیگر کی حمایت حاصل ہے۔سینیٹر سینڈرز نے مزید کہا کہ وہ اور اُن کے ہم خیال سینیٹرز اس تنازعے کا سفارتی حل چاہتے ہیں تاکہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔ اُنھوں نے یہ کہتے ہوئے کہ بعض امریکی سینیٹرزکا صرف اسرائیلی ہلاکتوں کی مذمت کرنا افسوس ناک ہے، ایوان سے یہ سوال بھی کیا کہ 64 بچوں اور 38 خواتین سمیت فلسطینیوں کی ہلاکتوں کو اہمیت کیوں نہیں دی جا رہی؟ قبل ازیں 14 مئی کو سینیٹر سینڈرز نے معروف امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں The U.S. Must Stop Being an Apologist for the Netanyahu Government کے عنوان سے ایک مضمون بھی تحریر کیا ۔ ذیل میں مذکورہ مضمون کا اُردو ترجمہ پیش خدمت ہے:
’’اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا پورا حق ہے‘‘۔ جب کبھی اسرائیلی حکومت غزہ سے ہونے والے راکٹ حملوں پر اپنی بھرپور قوت کا استعمال کرتی ہے تو ہر ڈیموکریٹک یا ریپبلکن حکومت کی جانب سے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ یہاں ایک بات واضح کرتے چلیں کہ کوئی یہ نہیں کہہ رہا کہ اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے یا اپنے عوام کا تحفظ کرنے کا حق نہیں ہے، لہٰذا ٰ سال ہا سال سے ہر جنگ کے بعد یہی الفاظ بار بار کیوں دہرائے جاتے ہیں؟ کبھی یہ سوال کیوں نہیں پوچھا جاتا کہ کیا فلسطینی عوام کے بھی کوئی حقوق ہیں یا نہیں؟ ہم اسی وقت ہی اسرائیل یا فلسطین میں تشدد کا نوٹس کیوں لیتے ہیں جب اسرائیل پر راکٹ فائر کیے جاتے ہیں (جن میں سے محض ایک فیصد ہی پھٹ پاتے ہیں، باقی تمام راکٹس اسرائیل کے ڈیفنس سسٹم کے تحت فضا میں ہی تلف کر دیے جاتے ہیں) بحران کے اُن لمحات میں امریکا کو چاہیے کہ فوری طور پر دونوں فریقوں کو جنگ بندی پر مجبور کرے۔ ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اگرچہ اسرائیلی آبادی پر راکٹ برسانا کسی طور قابل قبول نہیں ہے، لیکن موجودہ تنازع کی وجہ یہ راکٹس نہیں ہیں۔
یروشلم کے محلہ شیخ جرح میں رہنے والے فلسطین خاندانوں کو ہر وقت یہ خطرہ لاحق رہتا ہے کہ کسی بھی لمحے اُنھیں اُن کے گھروں سے بیدخل کر دیا جائے گا۔ اسرائیل نے ایسا لیگل سسٹم وضع کر رکھا ہے جو ہر طرح سے اُن کی جبری بے دخلی کو سپورٹ کرتا ہے۔ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انتہا پسند آباد کاروں نے اُن فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی کوششیں مزید تیز کر دی ہیں۔ بدقسمتی سے بے دخلی کا یہ عمل سیاسی اور معاشی استحصال کے سسٹم کا ایک جزو ہے۔ ہم سال ہا سال سے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں اسرائیل کے سیاسی اور معاشی جبر کی خلیج کو مزیدگہرا ہوتے دیکھتے ہیں۔ غزہ، جہاں بیس لاکھ سے زائد فلسطین شہری آباد ہیں، میں بسنے والوں کا محاصرہ بھی جاری ہے جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ستر فیصد سے زائد نوجوان بے روزگار ہیں اور وہ اپنے مستقبل سے بھی مایوس نظر آتے ہیں۔
ہم نے نیتن یاہو کی حکومت کو بھی دیکھا ہے کہ وہ کس طرح اسرائیل میں رہنے والے فلسطینی عوام کو دیوار سے لگانے اور مشکلات میں ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہے۔ وہ اِس طرح بستیاں بسانے کی پالیسی پر عمل کر رہی ہے جس سے دو ریاستوں کا تصور ہی چکنا چور ہو جاتا ہے۔ اِس نے ایسے قوانین بھی پا س کر رکھے ہیں جو اسرائیل میں بسنے والے فلسطینی اور یہودی شہریوں کے درمیان ناانصافی کی خلیج کو مزید گہرا کر دیتے ہیں۔ اسرائیل پر ہونے والے حملوں کا جواز کوئی نہیں پیش کر رہا اور نہ ہی فلسطینی اتھارٹی کے بارے میں کوئی جواز پیش کرنا ممکن ہے جس نے وہاں ہونے والے الیکشن کو عرصے سے ملتوی کر رکھا ہے مگر اِس حقیقت کو کس طرح نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین میں صرف اسرائیل ہی ایک خود مختار حکومت کے طور پر اپنا وجود رکھتا ہے اور یہ وہاں امن و امان اور انصاف قائم کرنے کے بجائے وہاں غیر منصفانہ اور غیر جمہوری کنٹرول مستحکم کرنے میں مشغول رہتا ہے۔
موجودہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے گزشتہ دس سال سے اسرائیل میں دائیں بازو کی حکومت قائم کر رکھی ہے۔ اِس عرصے میں اُنھوں نے اسرائیل میں جارح اور مطلق العنان قوم پرستی کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے ہیں۔ بہرصورت اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش اور کرپشن کیسز سے بچنے کی کوشش میں نیتن یاہو نے انتہاپسند سیاسی جماعت جیوئش پاور پارٹی، جس کے سربرا ہ اٹمار بن گویر ہیں، کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر رکھا ہے۔ تکلیف دہ اور افسوس ناک امر یہ ہے کہ یروشلم کی سڑکوں پر وہ نسل پرست عناصر حملہ کرتے ہیں جو اِس وقت حزب اقتدار کا حصہ ہیں۔ یہ خطرناک رجحانات اسرائیل کے لیے نئے نہیں ہیں۔ ہم نے پوری دنیا میں، یورپ میں، ایشیا میں، جنوبی امریکا میں اور امریکا میں بھی ایسی مطلق العنان قوم پرست تحریکوں کو اُبھرتے اور پروان چڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اُن تحریکوں کو اکثریت کی خوشحالی، امن اور عدل فراہم کرنے کے بجائے نسلی منافرت کی مدد سے چند کرپٹ لوگوں کو برسر اقتدار رکھنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اُنھیں گزشتہ چار سال کے دوران وائٹ ہائوس میں رہنے والے سب سے طاقت ور شخص کی حمایت اور اعانت میسر تھی۔ اسی دوران ہم نئی نسل کے ایسے ایکٹوسٹس کو بھی دیکھ رہے ہیں جن کی خواہش ہے کہ ایسی سوسائٹی تشکیل دی جائے جس کی بنیادیں انسانی ضروریات اور سیاسی مساوات جیسی اقدار پر استوار ہوں۔ جب امریکا میں گزشتہ موسم گرما میں جارج فلائیڈ کو دن دہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تو عین اسی دوران ہم نے اُنھی ایکٹوسٹس کو امریکا کی سڑکوں پر متحرک دیکھا تھا۔ ہم نے اُنھیں اسرائیل کے اندر بھی اپنا کام کرتے دیکھا ہے۔ ہم نے اُنھی لوگوں کو فلسطینی علاقوں میں بھی اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
اب امریکا میں انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد ایک نئے صدر وائٹ ہائوس میں براجمان ہو چکے ہیں۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اُنھیں پوری دنیا کے بارے میں ایک نئی اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے۔ ایسی اپروچ جو عدل اور انصاف اور جمہوریت جیسی اعلیٰ اقدار پر قائم ہو۔ اسے ایک طرف غریب ممالک کی مدد کرنا چاہیے جنھیں کووڈ کی ویکسین کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔ اِس اپروچ کو دنیا بھر کے اُن ممالک کی بھی مدد کرنی چاہیے جو اِس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑے خطرے ماحولیاتی تبدیلی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ جمہوریت اور انسانی حقوق کے لیے پوری دنیا کے خلاف ایک جنگ میں مصروف ہیں۔ امریکا کو چاہیے کہ وہ تنازعات کا حصہ بننے کے بجائے اُن ممالک کے ساتھ تعاون کے فروغ کی تحریک کی سرپرستی کرے۔
مشرق وسطیٰ میں جہاں امریکا ہر سال اسرائیل کو چار ارب ڈالر ز کی مالی معاونت فراہم کرتا ہے، ہم دائیں بازو کی سیاسی جماعت نیتن یاہو کی حکومت کے غیر جمہوری اور نسل پرست رویے کے سامنے کسی قسم کا معذرت خواہانہ رویہ نہیں اپنا سکتے۔ ہمیں اپنا لائحہ عمل تبدیل کرکے ایک متوازن اور منصفانہ اپروچ کو اپنانا ہوگا۔ ایسی اپروچ جس میں امریکا سر فخر سے بلند کر سکے اور سویلین افراد کے تحفظ کے لیے عالمی قوا نین کو مضبوط کرنے میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔ امریکا کے موجودہ قوانین پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرور ت ہے تاکہ امریکا کی فوجی امداد کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے لیے استعمال نہ کیا جا سکے۔ اِس اپروچ میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ اسرائیل کو امن و سلامتی سے زندہ رہنے کا پورا حق حاصل ہے مگر یہ حق فلسطینی عوام کو بھی برابر کی سطح پر میسر ہے۔
مجھے پور ا یقین ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے عوام کو اپنا مستقبل سنوارنے میں مد د دینے کے لیے امریکا اپنا بھرپور عوامی کر دار اد ا کرے۔ اگر امریکا عالمی سطح پر انسانی حقوق کی ایک مؤثر آواز بننے کا خواہش مند ہے تو ہمیں سیاسی مشکلات میں بھی انسانی حقوق کے عالمی سٹینڈرڈز کی پیروی کرنے کی ضرور ت ہے۔ ہمیں یہ ادراک رہنا چاہیے کہ فلسطینی عوام کے بھی حقوق ہیں اور فلسطینیوں کی جانیں بھی قیمتی ہوتی ہیں۔