Tuesday , March 21 2023
Home / Archive / (Frozen assets of Afghanistan)افغانستان کے منجمداثاثے

(Frozen assets of Afghanistan)افغانستان کے منجمداثاثے

Listen to this article

افغانستان کے منجمداثاثے

افغانستان سے امریکا کی پسپائی اب تک کی سب سے بڑی شکست ثابت ہوتی جارہی ہے۔ ظاہری بات ہے امریکا آسانی سے اسے قبول نہیں کرسکتا اور وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ کسی طرح اس شکست کے اثرات کو زائل کیا جاسکے۔ اس کے لیے امریکا غیر قانونی طور پر افغانستان کے اثاثے روک کر بیٹھا ہوا ہے۔ بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ انہیں کسی اور طرف استعمال کرنا چاہ رہا ہے۔ 12فروری 2022کو کابل میں لوگوں کا مظاہرہ ہواجس میں انہوں نے جوبائیڈن کے اس اعلان کی مذمت کی جس میں جوبائیڈن نے ساڑھے تین ارب ڈالر کی رقم نائن الیون کے متاثرین کو دینے کا ارادہ کیا ہے۔یار رہے کہ افغانستان کے کل اثاثے جو امریکن بینک میں ہیں سات ارب ڈالر ہیں جن میں سے نصف کو جوبائیڈن نائن الیون کے متاثرین کو دینا چاہتے ہیں۔ جب کہ افغانستان کے دو ارب ڈالر جرمنی، متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ میں بھی پڑے ہیں، یہ کل ملا کر نو ارب ڈالر بن جاتے ہیں۔ اصل میں اثاثے منجمدرکھنے کے امریکی حکومت کے پاس کئی جواز ہیں۔انہیں جاری نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اب طالبان حکومت افغانستان میں ہے اور امریکا اسے دہشت گرد قراردیتا ہے۔ عالمی قانون کے مطابق دہشت گردوں کو اس طرح اثاثے جاری نہیں کئے جاسکتے۔ ایک اور چیز جس کی وجہ سے امریکی حکومت یہ اثاثے جاری نہیں کررہی، اس کا انتظار ہے کہ شاید کسی طرح طالبان نہ رہیں اور وہ اگلی حکومت کو یہ پیسے دے دے۔ اس میں ایک منطق یہ بھی پیش کی جارہی ہے کہ زیادہ وقت پڑے رہنے سے اس پر منافع لگ کر رقم مزید بڑھ جائے گی۔

آدھے اثاثے نائن الیون کے متاثرین کو دینے کے پیچھے اصل مسئلہ یہ ہے کہ ستمبر2021میں نائن الیون کے متاثرین کے 150ورثاکے حق میں سالوں پرانے مقدمے ، جس کا ٹائٹل Havlishتھا کے فیصلے کو لے کر ، جس میں کہ ان کے حق میں فیصلہ کردیا گیا تھا، اس رقم کو روکنے کی کاروائی کو ممکن بنایا گیا۔ اُن کا مطالبہ یہی تھا کہ قصاص کے طور پر افغان اثاثوں سے ایک حصہ انھیں دیا جائے۔اس کا حتمی فیصلہ آنا ابھی باقی ہے۔

ا س چیز کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر نے یہ موقف اپنایا ہے کہ آدھے اثاثے متاثرین کو دینے کی وجہ یہ ہے کہ کل اثاثوں میں آدھا عطیوں کے ذریعے اکٹھا ہوا ہے جو بیس سال میں مختلف لوگوں اور اداروں نے افغانستان کے لیے دیا تھا۔ اب امریکی حکومت ان کا اصل حق دار نائن الیون کے متاثرین کو سمجھتی ہے جس کی وجہ سے یہ عطیات اکٹھے ہوئے۔

باقی آدھے اثاثے افغانستان کے ہیں جو افغانستان کے مرکزی بینک جسے دابینک کہا جاتا ہے، کے ذریعے سے نیویارک میں پڑے ہیں۔ البتہ دابینک اس کاواحد مالک نہیں بلکہ اس میں کمرشل بینکوں کا پیسہ بھی ہے۔ یعنی آدھے اثاثے بہرحال افغانستان کے ہیں۔ جوبائیڈن نائن الیون کے متاثرین سے متعلق عدالت کا فیصلہ آجانے پر افغانستان کے اثاثے کسی ٹرسٹ کودینے کا منصوبہ رکھتے ہیں تاکہ طالبان حکومت ان کو حاصل نہ کرسکے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ نائن الیون کے متاثرین کا اس بات پر اتفاق نہیں کہ افغانستان کے اثاثے منجمد رہیں۔ بیری امنڈسن جس کا بھائی نائن الیون حملوں کی نذر ہوگیا تھا کہتا ہے کہ وہ اور اس طرح کے متاثرین نہیں سمجھتے کہ یہ پیسے انھیں ملنے چاہئیں بلکہ یہ افغان عوام کو ہی جانے چاہئیں۔ امنڈسن کے مطابق اس سے بڑا دھوکہ اور کوئی نہیں ہوگا کہ افغان عوام کا پیسہ نائن الیون کے متاثرین کو دے دیا جائے۔ امنڈس کے مطابق گو نائن الیون کے متاثرین انصاف مانگ رہے ہیں لیکن اس سے کچھ اچھا نہیں ہوگا بلکہ افغانستان بہت بری صورت حال کا شکار ہوجائے گا جو کہ پہلے ہی بڑی مصیبت سے گزر رہے ہیں۔

دوسری طرف امریکا کا افغان اثاثوں کو منجمد رکھنا کوئی آسان بات بھی نہیں۔قانون میں اس کی کوئی خاص شق موجود نہیں اور بائیڈن کو اس کے لیے ایمرجنسی اختیار استعمال کرنا پڑا ہے جسے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاور ایکٹ کہتے ہیں۔ اس کے ذریعے افغان دا بینک کے اثاثوں کو مختلف اکائونٹس میں بانٹ کررکھا گیا ہے البتہ اس چیز کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا کہ ابھی تک وہ ملکیت افغان بینک کی ہی ہیں۔ اس چیز کا حل نکالنے کے لیے امریکی قانون کے ماہرین نے فیڈرل ریزرو ایکٹ کا سہارا لیا جس کی رو سے کسی ملک کے اثاثوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے سیکرٹری آف سٹیٹ کومتعلقہ ملک کا نمائندہ بنادیا جاتا ہے۔لیکن یہ مسئلہ بھی اتنا آسان نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکی انتظامیہ اس مسئلے کو مزید گھمبیر کرتی چلی جارہی ہے اور زیادہ وقت گزرنے پر افغانستان کےمرکزی بینک کو اپنی کرنسی مستحکم رکھنا بھی محال ہوجائے گا۔

امریکی بینک بورڈ کے ایک سینئر ممبر محمد محرابی نے کہا ہے کہ امریکا کو داافغانستان بینک کو اس قابل بنا دینا چاہیے کہ وہ خود ہی ان سارے معاملات کو دیکھ لے اور اثاثوں کو طالبان کے ہاتھ نہ لگنے دے۔ ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کا مرکزی بینک طالبان کے اثر سے پاک رکھا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف اگر اس کو اثاثوں سے محروم رکھا گیا تو اس کا اس اثر وہاں کے کمرشل بینکوں پر بھی آئے گا جس کا نتیجہ مکمل تباہی کی صورت میں نکلے گا۔ محرابی کے مطابق امریکا جو کچھ کررہا ہے وہ تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

دوسری طرف کچھ امریکی ماہرین کے مطابق اگر افغانستان کے بینکوں کو منجمداثاثے جاری کربھی دئیے جائیں تو مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ امریکا نے آکر جس طرح یکدم افغانستان کی معیشت کو پیسوں سے بھر کر بوسٹ دیا اسی طرح جب وہ یہاں سے گیا تووہ خزانہ خالی ہوگیا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ امریکا کی قائم کردہ حکومت اس قابل نہ تھی کہ ان پیسوں سے ایک مستحکم معیشت کو قائم کرسکتی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ جب طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو باہر کی تمام سرمایہ کاری فوراً غائب ہوگئی کیوں کہ طالبان کے ہوتے وہ یہاں کام نہیں کرسکتے تھے۔ سرمایہ باہر جانے سے افغانستان دیوالیہ پن کی حدوں تک چلا گیا جسے امریکہ کے پاس پڑے سات بلین ڈالر واپس نہیں لاسکتے۔
اس دبائو کے تحت یہ ضرور ہوا کہ اب امریکا نے دوسرے ملکوں کو یہ اجازت دے دی ہے وہ اپنی رقوم افغانستان بھجوا سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دوسرے ممالک اس معاملے میں افغانستان کی کیا مدد کرتے ہیں۔

For Magazine Subscription Please visit our Facebook Page or WhatsApp on 0302 5556802

For Institute’s Information, please join our Facebook Page or you can contact us on 0302 5556805/06/07

For Books Order please Visit our Facebook Page or WhatsApp us on 0302 5556809

You can follow us on Twitter too

Check Also

Fiscal Federalism

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *