Wednesday , March 29 2023
Home / Archive / CSS 2021-22 رزلٹ اورMPT ایک طائرانہ جائزہ
????????????????????????????????????????????????????????????

CSS 2021-22 رزلٹ اورMPT ایک طائرانہ جائزہ

Listen to this article

CSS 2021-22 رزلٹ اور MPT

ایک طائرانہ جائزہ

گزشتہ ماہ CSS کے حوالے سے دو اہم چیزیں ہوئیں۔ پہلے تو 15 فروری کو CSS2021-22 کے فائنل رزلٹ کا اعلان کیا گیا۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق اِس امتحان میں 17240 اُمیدواران نے حصہ لیا جن میں سے 365 تحریری امتحان میں کامیاب رہ کر انٹرویو دینے کے اہل قرار پائے۔ پھر انٹرویو میں 15 اُمیدواران ناکام قرار پائے جب کہ ایک اُمیدوار کونااہل قراردے دیا گیا۔ یوں 349 اُمیدواران حتمی طور پر کامیاب ٹھہرے جن میںسے 207 (134 مرد اور73 خواتین) اُمیدواروں کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس، فارن سروس، پولیس سروس سمیت مختلف گروپس اورسروسز میں گریڈ17 کی اسامیوں پر تعینات کرنے کی سفارش کی گئی ہےجب کہ بقیہ 142 کے لیے اِس سال کے امتحان کا سفر یہیں اختتام پذیر ہوا۔ اب اگر اُن کے پاس کوئی موقعہ باقی ہوا تو اُنھیں اس دوڑ میں پھر سے لگنا پڑے گا۔ ورلڈ تائمز کامیاب ہونے والے اُمیدواران کو تہ دل سے مبارک باد پیش کرتا ہے جب کہ جو لوگ اِس مرتبہ Allocation حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے اُن کے مستقبل کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہے کہ زندگی صرف CSS پر ہی ختم نہیں ہوتی۔ اگر آپ کے پاس کوئی چانس باقی ہے تو پوری دل جمعی سے محنت کریں اور اِس سال جن خامیوں کے باعث کامیابی آپ کا مقدر بنتے بنتے رہ گئی، اُنھیں دور کرنے کی کوشش کریں اور ایک نئے جذبے سے پھر اس سفر کا آغاز کرتے ہوئے کامیابی کے حصول کے لیے دل وجان سے محنت کریں۔
اس امتحان کی تیاری کے دوران امیدواران کی معلومات اور علم کی استعداد کافی بڑھ جاتی ہے۔ بعض دفعہ امتحانات اور ان کی جانچ پڑتال میں کمی بیشی سے بھی کچھ امیدوار کامیاب نہیں ہوپاتے حالاں کہ وہ کسی سے کم نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں دیگر کئی قابل قدر شعبوں میں بھی ان کی جگہ بن سکتی ہے۔ ایسے امیدواروں کے لیے ایک اچھی رائے یہ ہے کہCSS میں اپنی ناکامی کا ماتم کرنے کے بجائے وہ جس ادارے میں بھی جائیں وہاں اپنی ان صلاحیتوں کو احسن طریقے سے بروئے کار لائیں اوراس امتحان کے دوران حاصل ہونے والے علم کو ان اداروں کی بہتری کے لیے استعمال کریں تاکہ پاکستان کے دیگر شعبے بھی ایک سطح پر آسکیں اور پاکستان کے نوجوانوں کے لیے مزید فورم بھی مہیا ہوسکیں۔ خاص طور پر تعلیم کر شعبہ جس قدر اہمیت کا حامل ہے اسی قدر دگرگوں کیفیت کا شکار ہے اور نظام کی ابتری کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ اپنے ملک کی خامیوں کمزوریوں کو درست کرنا صرف حکومت یا کسی ایک طبقے کا فرض نہیں بلکہ پوری قوم مل کر یہ فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ اس لیے اس امتحان میں ناکامی کو اپنا کمزوری کی بجائے اپنی طاقت بنائیں اور اس تیاری کے دوران حاصل ہونے والے علم اور تجربے کو تعمیر ی مقاصد میں بروئے کار لائیں۔ آپ اس طرح سے بھی قوم کی خدمت کرسکتے ہیں اور یہ کسی طرح بھی کسی دوسری خدمت سے کم ثابت نہ ہوگی ۔
چوں کہ اِس مرتبہ Allocate ہونے والے اُمیدواران امتحان دینے والے افراد کی کل تعداد کا محض 1.20 فیصد بنتے ہیں اِس لیے ایک بار پھر میڈیا میں ہمارے تعلیمی نظام کی کارکردگی زیربحث آ رہی ہے بلکہ بعض ’ماہرین‘ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے بعدتحریک انصاف حکومت بھی سول سروسز سے متعلق اہم اصلاحات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تاہم یہ اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر میں سول سروس مقابلے کا امتحان ہوتا ہے اور اِس کا مقصد ہی یہی ہوتا ہے کہ سخت مقابلے کی چھلنی سے صرف ایسے لوگ ہی اوپر آئیں جن میں واقعی اِس سروس کا حصہ بننے کی اہلیت اور صلاحیت ہو۔ اگر ہم بھارت، بنگلہ دیش اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک میں ہونے والے مقابلے کے امتحانات پر ایک نظر دوڑائیں تو واضح ہوتا ہے کہ امتحان میں کامیاب ٹھہرنے والے عمومی طور پر کل تعداد کا ایک سے ڈیڑھ فیصد ہی ہوتے ہیں۔ ابھی گزشتہ برس ستمبر میں بھارت کے یونین پبلک سروس کمیشن نے 2021ء کے رزلٹ کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق تحریری امتحان دینے والے 482770اُمیدواران میں سے محض 761یعنی کل تعداد کا محض 0.15 فیصد ہی کامیاب ہو سکے۔ ایسی ہی مثالیں ہمیں دیگر ممالک میں بھی ملتی ہیں۔
پاکستان میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ تحریری امتحان کو اتنا مشکل بنا دیا گیا ہے کہ اِس میں سے محض چند اُمیدواران ہی کامیاب ہوتے ہیں جب کہ ہونا یہ چاہیے کہ انٹرویو اورPsychological Assessment کا عمل Rigorous بنایا جائے۔ چوں کہ تحریری امتحان سے آپ کسی فرد کی سول سروس کا حصہ بننے کی صلاحیت اور قابلیت کا اندازہ نہیں لگا سکتے، ایسا صرف انٹرویو کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں FPSC کے ارکان اُمیدواران کا بھرپور تجزیہ کر کے اُن کی کسی شعبے کے لیے موزونیت یا ناموزونیت کا تعین کرتے ہیں۔ ورلڈ ٹائمز کے صفحات سے ہم اِس امر کی جانب وقتاً فوقتاً اشارہ کرتے رہتے ہیں۔ اُمید ہے کہ کمیشن حکام اِس جانب بھی جلد توجہ دیں گے۔
دوسری اہم پیش رفت MCQ Based Preliminary Test یعنی MPTکا انعقاد ہے۔ 20 فروری کو لیا جانے والا یہ امتحان ایک اچھا آغاز ہے کیوں کہ اِس کی بدولت غیرسنجیدہ اُمیدواران کے چھانٹی کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ امتحان لینے کی وجوہات کا ذکر کرتے ہوئےچیئرمین فیڈرل پبلک سروس کمیشن کیپٹن(ر) زاہد سعید کا کہنا ہے کہ ’’اصل میں ہمارے ہاں CSS کا دورانیہ بہت زیادہ ہے۔ دو سال کا عرصہ لگ جاتاہے امتحان دینے سے اکیڈمی تک پہنچنے میں ،ہم چاہتے ہیں کہ اس کو کم کر کے ایک سال تک لایا جائے۔ایک سال میں تقریباً40ہزار امیدوار CSS کے امتحان کے لیے درخواست دیتے ہیں لیکن 50فیصد ہی امتحان دینے کے لیے آتے ہیں ۔ درخواست دینے کے باوجود امتحان نہ دینے والے طلبا کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں ، کچھ کی تیاری مکمل نہیں ہوتی ،کچھ سنجیدہ نہیں ہوتے اور کچھ محدود مواقع میں سے ایک موقع ضائع نہیں کرناچاہتے۔ اِسی مسئلے کے پیشِ نظر ایک سکروٹنی ٹیسٹ کا آغاز کیا گیا ہے جس سے امتحان دینے والے امیدوار کو اپنی تیاری کا اندازہ بخوبی ہو سکے گا۔ ‘‘
پہلے MPTمیں کامیاب ہونے والوں کی شرح کافی زیادہ رہی جس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ کامیابی کے لیے درکار کم از کم سکور 66 تھا۔ چوں کہ یہ پہلا تجربہ تھا ، آئندہ کے لیے اُمید ہے کہ اِس امتحان کا عمل مزید سخت کیا جائے گا تاکہ غیرسنجیدہ اُمیدواران کا راستہ روکا جا سکے۔ اِن اُمیدواران کی وجہ سے ہی CSSکا ایک سائیکل مکمل ہونے میں ڈیڑھ سے دو سال کا وقت لگ جاتا ہے جس کا مختصر کیا جانا اشد ضروری ہے۔
اِس حوالے سے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ FPSCکو پیپر کا معیار بہتر بنانے پر بھی توجہ دینی چاہیے کیوں کہ اِس مرتبہ پیپر میں کہیں جواب غلط دیے گئے تو کہیں آپشنز میں بنیادی غلطیاں تھی جیسا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے حوالے سے سوال تھا جس میں انگریزی زبان میں درج آپشنز میں Islamic Ideology Council والا درست قرار دیا گیا حالاں کہ اِس نام کا کوئی ادارہ ملک میں موجود ہی نہیں۔ اِس کے علاوہ بھی کچھ ایسی غلطیاں تھیں جن کی ملک کے اِس اعلیٰ ادارے سے توقع نہیں کی جا تی۔

عدیل نیاز

Check Also

EMOJI

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *