چپس ایکٹ
جوبائیڈن نے امریکی صدارت ایک ایسے وقت میں سنبھالی جب امریکا کو دو بڑے مسائل کا سامناتھا۔ ایک تو کوویڈ کی وبا جس نے ساری دنیا کی معیشت کو ہلا کررکھ دیا تھا اور دوسرا افغانستان سے امریکا کی پسپائی جسے ایک نئے دور کا آغاز کہا جاسکتا ہے کیوںاس سے امریکا کے مشرق وسطیٰ میں مفادات کو دھچکا پہنچا ہے۔ ایسی صورت حال میں جوبائیڈن کو دو چیلنجز درپیش تھے ایک تو ڈوبتی معیشت کو سہار ادینا اور دوسرا امریکی ساکھ کو بحال کرنا۔
معیشت کے حوالے سے خاطر خواہ کامیابی ہوئی اور 2021ء کے سال میں بہت سی نوکریوں کا انتظام کیا گیا۔ اعدادوشمار کے مطابق 2021ء میں 642ہزار نوکریاں فراہم کی گئیں۔ تعمیری شعبے میں 116فیصد بڑھوتری مشاہدے میں آئی۔ کمپنیوں نے دوبارہ سے سرمایہ کاری شروع کی اور ایک اُمید کی فضا پیدا ہوئی۔
سیمی کنڈکٹر کا بحران
امریکا اور یورپ ایک عرصے سے سیمی کنڈکٹر کے بحران کا شکار ہیں اور چین اس حوالے سے پوری دنیا پر چھایا ہواہے۔ 1990ء کی دہائی میں امریکہ پوری دنیا کی سیمی کنڈکٹر پیداوار کا 37سے 40فیصد تک بناتا جو 2021ء میں کم ہوکر 10سے 12فیصد رہ گیا۔ اس طرح سے امریکا خاص طور پر جوبائیڈن کے آنے کے بعدمسلسل اس کوشش میں ہے کہ اس صنعت کو دوبارہ بحال کیا جائے۔
سیمی کنڈکٹر کا معاملہ ایک عرصے سے جاری ہے اور اس ضمن میں قانون سازی 2020ء سے چل رہی ہے۔ اصل میں امریکا کی کئی کمپنیوں کو اس سے شدید نقصان اُٹھانا پڑا۔ مثال کے طور پر جنرل موٹرز اورفورڈ نے چپ کی کمی کے باعث اپنے پلانٹ بند کر دیے ہیں۔
اس کے لیے سب سے پہلے سٹریجک کمپٹیشن ایکٹ کو متعارف کرایاگیا۔ یہ سینیٹ سے پاس کرایا گیا اور اسے دوطرفہ قانون (Bipartisan Act) کہا جاتا ہے جس میں حزب مخالف بھی حکومت کی حمایت کرتی ہے۔ یہ مسئلہ کیوں کہ معیشت کا ہے جو حزب مخالف کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ حکومت کے لیے۔ یہ بل پہلے جون 2021میں سینیٹ سے پاس ہوا۔اس وقت اسے سٹریجک کمپیٹیشن ایکٹ کا نام دیا گیا ۔ سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد اس میں ترامیم کی گئیں اور اس کے بعد اسے ہائوس سے پاس کرایا گیا۔ 4فروری 2022ء کو امریکی ہائوس نے اس بل کو امریکا کمپیٹ ایکٹ The America Competes Act, 2022 کے نام سے پاس کیا جس میں بائیڈن حکومت کی معاشی مشکلات کو حل کرنے کی بات کی گئی ہے، خاص طور پر سیمی کنڈکٹرز کے عالمی بحران کا اس میں ذکر کیا گیا ہے۔اس میں سیمی کنڈکٹر کے لیے 54بلین ڈالر کی رقم مختص کی گئی۔
گو یہ بل حزب مخالف کی حمایت سے پاس ہوا لیکن اس پر کچھ تنقید آرہی تھی۔ اس تنقید کو دور کرنے کے لیے سینیٹ میں اس میں کچھ ترمیم 28 مارچ 2022ء کو پیش کی گئیں۔ ہائوس کے بل اور سینیٹ کی ترمیم پر کانگریشنل کانفرنس کمیٹی میں غورو خوض کیا گیا اور 9اگست 2022ء کو بالآخر یہ چپس اینڈ سائنس ایکٹ کے نام سے باقاعدہ قانون بن گیا۔
چپس اینڈ سائنس قانون کیا ہے؟
چپس اینڈ سائنس قانون کا بنیادی محور سیمی کنڈکٹر ہے اس لیے اسے چیس کا نام دیا گیا ہے گو اس میں دیگر سائنسی منصوبے بھی شامل ہیں جو کہ شروع سے ہی اس کا حصہ ہیں۔ ان میں سپیس سائنس بھی شامل ہے اور ناسا کے لیے بھی فنڈ مختص کیا گیا ہے۔
چپس ایکٹ کی زیادہ تر تفصیلات وہی ہیں جو پہلے سینیٹ اور ہائوس میں زیربحث آچکی ہیں کہ سمی کنڈکٹر کی پیداوار کو بڑھانے کے لیے ہر پہلو سے کام کیا جائے گا۔ جہاں تحقیق کو آگے بڑھایا جائے گا وہیں سرمایہ کاری کرنے والوں کو رعایت دی جائے گی اور اُن کے لیے ٹیکس کٹوتی کاپلان بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے اس مد میں سبسڈی بھی دی جائےگی۔
سیمی کنڈکٹر کی مد میں سرمایہ کاری
ایک کمپنی مائیکرون نے 40بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے اور یہ سیمی کنڈکٹر میں امریکا کی عالمی پیداوارکے حصے کو اگلے دس سالوں میں 2سے 10فیصد تک بڑھا دے گی ۔ اسی طرح کوالم کام اور گلوبل فائونڈریز نے 4.2بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیاہے۔ ان میں سے کوالم کام کے مطابق سیمی کنڈکٹر کی پیداوار میں 50فیصد تک اضافے کا امکان ہے۔
اس ایکٹ پر تنقید کیاہے؟
اس ایکٹ پر خاص طور پرچین اور عمومی حوالے سے خود امریکا کے بعض حلقے تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔
اس ایکٹ کے مطابق جو کمپنیاں امریکا سے سیمی کنڈکٹر کی مد میں سبسڈی لیں گی یا پھر اُنھیں ٹیکس کی چھوٹ دی جائے گی تو وہ دس سال تک چین کے ساتھ کسی قسم کا کوئی بڑا لین دین نہیں کرپائیں گی۔ یہ چیز جہاں چین کے لیے نقصان دہ ہے وہیں امریکا کے کاروباری حلقے بھی اس پر اپنی تشویش کا اظہار کررہے ہیں کیوں کہ ان کے مطابق یہ چیز امریکا کے لیے بھی تباہ کن ثابت ہوگی۔
بوسٹن کنسلٹنگ گروپ اور دیگر اداروں کے اندازوں کے مطابق، اگر واشنگٹن چین کے خلاف ’’ہارڈ ٹیکنالوجی ڈیکپلنگ‘‘ کی پالیسی اپناتا ہے، تو یہ قلیل مدت میں چین کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتا ہے، لیکن امریکی سیمی کنڈکٹر کمپنیوں کو اس سے بھی زیادہ نقصان اُٹھانا پڑے گا، اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ عالمی مارکیٹ شیئر کا 18 فیصد، آمدنی کا 37 فیصد، اور 15ہزارسے 40 ہزار اعلیٰ ہنر مند ملازمتیں کھو دیں گی۔
یہ ایک طرح کی سرد جنگ کے زمانے کی پالیسی ہے جس میں امریکا اپنے مفاد کے لیے دوسروں کے نقصان کی پروا نہیںکررہا۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنی انڈسٹری کو بڑھائے اور اس میں بہتری پیدا کرے اس کی پالیسی یہ چل رہی ہے کہ ودسرے کی انڈسٹری کو تباہ کرکے اپنی انڈسٹری کو آگے بڑھایا جائے۔ ظاہر ہے چین جس طرح پوری دنیا اور خود امریکا کے ساتھ وسیع کاروباری شراکت داری رکھتا ہے اس سے یہ ممکن نہیں کہ چین کونقصان پہنچنے کی صورت میں صرف چین کا نقصان ہی ہوگا بلکہ اس کے ساتھ امریکا کو بھی نقصان اُٹھانا پڑے گا۔ لیکن اس وقت امریکا چین کو کسی نہ کسی طرح چین کو زچ کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا۔