Sunday , June 4 2023
Home / Archive / روس ایران توانائی معاہدہ

روس ایران توانائی معاہدہ

Listen to this article

روس ایران توانائی معاہدہ

ایران ایک ایسا ملک ہے جو عشروںسے امریکی پابندیوں کا ہدف بنا ہوا ہے لیکن اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں۔ تیل اور گیس کے ذخائر سے مالا مال ہونے کے باوجود ایرانی کرنسی دنیا میں اپنی قدر نہیں رکھتی۔ اگر پاکستان سے کوئی کرنسی کم ہے تو وہ ایران کی ہے۔ لیکن اپنی ملکی ضروریات کو پورا کرنے کی وجہ سے ایران ابھی تک کسی شدید معاشی بحران کا شکار نہیں ہوا۔ ایران نے ایک جوہری پروگرام بھی شروع کیا جسے سخت امریکی تنقید کا سامنا رہا۔ آخر کار2015ء کے ایک معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کی نگرانی تسلیم کرلی اور امریکا نے وہاں کیمرے نصب کردیے تاکہ یہ بات یقینی بنائی جاسکے کہ جوہری پروگرام صرف پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔
امریکاکی نفی کا سلسلہ
2021ء میں امریکا کی افغانستان میں شکست کو دیکھتے ہوئے ایران نے بھی جرأت پکڑی اور ویانا مذاکرات میں وہ شرائط تسلیم کرنے سے انکار کردیا جو 2015ء میں تسلیم کی گئی تھیں۔ نیز جوہری پروگرام پر لگے کیمرے بھی ہٹا دیے گئے۔ اسی دوران یوکرین کو معاملہ بھی شروع ہوگیا اور روس نے اپنے اتحادی تلاش کرنا شروع کردیے۔ یوکرین کی جنگ کے بعد روسی صدر ولادی میر پوٹن نے سب سے پہلا دورہ تہران کا کیا جہاں ترکی،ایران اور روس نے آپس میں مذاکرات کیے۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ روس اور ایران دونوں ہی امریکی کی طرف سے عائد کی گئی پابندیوں کا شکار ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ دونوں ممالک گیس کے بڑے ذخائر رکھنے میں دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اس حوالے سے دونوں کا اتحاد فطری ہے۔ ایران بھی اپنی عشروں کی پابندیوںکا حساب چکانا چاہتا ہے اور روس اپنی اُس ہزیمت کا جو اُسے افغانستان میں اُٹھانا پڑی اور اس کی بڑی طاقت ماضی کا حصہ بن گئی۔
گیس معاہدے کی تفصیلات
صرف روس اور ایران کی بات کریں تو دونوں ملکوں میں گیس کا معاہدہ طے پایا۔ یاد رہے کہ روس کے بعد ایران دنیا میں گیس پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ایران اور روس کے گیس کے ذخائر مجموعی طور پر 70 ٹریلین کیوبک میٹر ہیں جو دنیا کے کل گیس ذخائر کا 30 فیصد حصہ ہے۔ یہ دنیا کو گیس کی توانائی فراہم کرنے والے دو بڑے ممالک ہیں۔ اس لیے روس نے ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ امریکا پوری دنیا میں توانائی کا منبع اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا ہے اور اس سلسلے میں حال ہی میں امریکی صدر نے مشرق وسطیٰ کا دورہ بھی کیا حالاں کہ امریکا مشرق وسطیٰ کو اپنی ترجیحات سے نکال چکا تھا۔ لیکن گیس اور تیل کی کمی کے باعث امریکا کو دوبارہ مشرق وسطیٰ کی سیاست میں آنا پڑرہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ روس اس سلسلے میں بہت متحرک ہے۔ اس کا ایک ثبوت اُس کا ایران کے ساتھ حالیہ گیس کا معاہدہ ہے۔
ایران کا دیرینہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ امریکی پابندیوں کی وجہ سے وہ آج تک جدید ٹیکنالوجی حاصل نہیں کرسکا اور ا س وجہ سے وہ اپنے ذخائر سے ابھی تک کماحقہ فائدہ نہیں اُٹھاسکا۔ روس کے ساتھ معاہدے کی بدولت اُسے ایسی ٹیکنالوجی کےحصول کا ذریعہ مہیا ہوجائے گا اور دونوں ملک اس معاہدے سے بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
روس یوکرین جنگ کے بعد روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا دوسرا اہم دورہ تہران تھا۔ پیوٹن کے دورہ تہران سے عین قبل روس کی گازپروم کمپنی اور ایرانی نیشنل کے ساتھ 40 ارب ڈالر مالیت کے توانائی کا معاہدہ ہوا۔ یہ معاہدہ ایران اور روس کے درمیان تعاون کا ایک اہم ستون ہے۔مذکورہ معاہدے میں، گازپروم کمپنی نے 10 ارب ڈالر مالیت کے شمالی پارس اور کیش گیس فیلڈز کی ترقی میں ایرانی نیشنل آئل کمپنی کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
ایران کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق روسی کمپنی ایران کی شمالی پارس گیس فیلڈز اور چھ دیگر آئل فیلڈز کی ترقی میں ایرانی نیشنل کمپنی کو مدد فراہم کرے گی۔ یہ روسی کمپنی ایرانی مائع گیس ( ایل این جی) کے دیگر منصوبے مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ ایسی پائپ لائنوں کی تعمیر میں بھی مدد فراہم کرے گی، جن کے ذریعے تہران حکومت ملکی گیس برآمد کرنا چاہتی ہے۔
خبروں کے مطابق ایران نیشنل آئل کمپنی کے سی ای او نے ایران اور روس کے درمیان تیل کے شعبے میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ روس سے 4 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر مشتمل 7 آئل فیلڈز کی توسیع کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں اور یہ منصوبہ، پابندیوں کے باوجود ترقی کررہا ہے۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ غیر ملکی سرمایہ کو راغب کرنے کے لیے نیشنل آئل کمپنی کے منصوبوں میں سے ایک روسی کمپنی کی صلاحیت کو استعمال کرنا ہے اور ہم نے گزشتہ کچھ عرصہ سے بھی روسی معروف کمپنیوں سے کچھ معاہدے اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے۔(ارنا) یاد رہے کہ ایران اور روس کی کمپنیوں کے درمیان معاہدے کا آغاز جنوری 2022ء سے شروع ہوچکا ہے البتہ ا س میں مزید پیش رفت یوکرین کی جنگ سے ہوئی جب روس امریکی پابندیوں کا شکار ہوا اور اسے اپنے جیسے اتحادیوں کی ضرورت پڑی۔
ایران میں روسی سرمایہ کاری سے 7 آئل فیلڈز کے توسیعی منصوبے 4 ارب ڈالر کے معاہدوں میں بدل گئے ہیں اور اب نفاذ کے مرحلے میں ہیں؛ ان 7 میدانوں میں سے 2 پایدار غرب اور آبان کے فیلڈز مشترکہ فیلڈز میں شامل ہیں۔
روس کی سپلائی لائن میں تبدیلی
روس جو کہ یورپ کو گیس اور دیگر چیزیں فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک تھا اب اپنا تجارتی رستہ تبدیل کررہا ہے۔ اس سے قبل چیزیں روس کے دارالحکومت ماسکو سے چلتی تھیں اور سینٹ پیٹرزبرگ پہنچتی تھیں۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ یورپ کی طرف مال کی ترسیل تدریجاً کم ہورہی ہے اور اب یہی مال وسط ایشیائی ریاستوں قازقستان اور ترکمانستان سے ہوکر ایران پہنچ رہا ہے اور وہاں سے بھارت جارہا ہے۔ گو اس کے لیے اُسے چارہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑ رہا ہے لیکن یہ اس چیز کا عندیہ ہے کہ روس اب اپنے لیے ایک نئی دنیا آباد کررہا ہے اور باقی ممالک بھی اس سلسلے میں اُس سے تعاون کا سوچ رہے ہیں اور ان میں ترکیہ ایک اہم ملک ہے۔
گیس کے معاہدے کے ساتھ دونوں ملکوں میں معیشت کے حوالے سے دیگر اُمور پر بھی اتفاق رائے پایا گیا اور منصوبہ بندی کا ڈول ڈالا گیا۔ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے یہ خواہش ظاہر کی کہ اپنی اپنی کرنسی میں تجارت ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں حالیہ ملاقات میں ایک اور پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ ایک نیا بینکنگ نظام تشکیل دینے پر رضامندی ظاہر کی گئی ہے جس کا مقصد ڈالر سے ہٹ کرتجارت ہے۔ یعنی دنیا اب روس کے ساتھ مل کر ڈالر کے بغیر لین دین کرسکے گی۔ امریکا نے روس کو یورپ کے سوفٹ نظام سے بے دخل کردیا ہے جو کہ امریکا کی روس پر ایک بہت بڑی معاشی پابندی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے جواب میں اب روس ا س کوشش میں ہے کہ کسی طرح ڈالر کے متوازی ایک مارکیٹ قائم کی جائے۔ اس سلسلے میں وہ چین سے بھی رابطے میں ہے اور پاکستان کے وزیراعظم کے فروری 2022ء کے دورے میں اس پر بات ہوئی تھی۔
ایران نے گیس اور تیل کے حوالے سے اپنی عمل داری قائم کرنے کے لیے نئے اعلانات بھی کیے ہیں۔ ان میں سے ایک برکس کی تنظیم میں شمولیت کی تیاری ہے۔ ایران نے اس کی درخواست جمع کرادی ہے اور اُمید ہے کہ اُسے اس اتحاد میں شامل کرلیا جائے گا۔ ایرانی اور روسی میڈیا نے اسے ایک نئے دور کا آغاز قرار دیا ہے۔ شمالی جنوبی روٹ کا یہ ایک ایسا منصوبہ ہے، جو برسوں پہلے ماسکو میں شروع ہوا تھا اور پھر اسے بھلا دیا گیا تھا۔ اب اس منصوبے میں نئی رُوح پھونکی گئی ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق روسی صدر مغربی دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ اُن کے پاس متبادل راستے موجود ہیں۔
مغرب کی تشویش
یہ ایک بدیہی بات ہے کہ امریکا اور اُس کے مغربی حواریوں کو اس معاہدے اور اتحاد سے تشویش لاحق ہوگی۔ ایک ایسے ہی امریکی تجزیے میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ’’آئل پرائس‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے تجزیے میں صحافی سیمون واٹکنزنے اس طرف اشارہ کیا ہے۔ تجزیے میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایران کے پاس روس کے بعد گیس کے دوسرے بڑے ذخائر ہیں، یہ معاہدہ کریملن نے تیار کیا تھا۔ اس طرح ماسکو مستقبل میں ایرانی قدرتی گیس پر مزید کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے اور ضرورت پڑنے پر اس گیس کو جنوبی یورپ تک پہنچانا چاہتا ہے۔
اِس معاہدے سے اُس کا مقصد ایل این جی کے حوالے سے قطر پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ یہ صورت حال مغربی ممالک کو پریشان کر رہی ہے۔

Check Also

25 Years of the Good Friday Agreement

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *