اینمل پروٹین کی فراوانی اورحکومتی اقدامات
شہباز احمد
زرعی معیشت کے حامل ملک پاکستان کے طول و عرض میں نہ صرف تمام موسم اور قدرتی وسائل پائے جاتے ہیں بلکہ یہ ہر طرح کے پیداواری خطوں سے مزین دیس ہے۔ اِس کے کل رقبے 79.6ملین ایکڑ کا 28 فیصد یعنی 23.9ملین زرعی اراضی پر مشتمل ہے۔ یہاں کے موسم اور پیداواری خطے زراعت کے لیے موزوں ترین ہیں اور یہاں کی 75فیصد آبادی زراعت کے پیشہ سے منسلک ہے۔ اِس کے22 کروڑ کے قریب باشندوں میں سے ساڑھے پندرہ کروڑ سے زائد افراد کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی اور مویشی پالنے سے بالواسطہ یا بلا واسطہ ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور اِس کی آبادی 11کروڑ سے زائد نفوس پر مشتمل ہے۔ تیزی سے بڑھتی اِس آبادی کی غذائی ضروریات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں۔ ایسے میں محض زرعی اجناس اور نقد آور فصلوں کی پیداوار سے غذائی خودکفالت کی منزل حاصل کرنا امر محال بھی ہے اور مختلف امراض کو دعوت دینے کے مترادف بھی ۔ حیوانی لحمیات (Animal proteen)کی عدم دستیابی بچوں میں بڑھوتری کے عمل کو بری طرح سے متاثر کرتی ہے۔ حیوانی لحمیات کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے جانوروں سے حاصل ہونے والے دودھ اور گوشت کی پیداوار کا بڑھایا جانا ازحد ضروری ہے۔
اگرچہ پاکستان کی معیشت میں زراعت کو بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے اور اِس کا ملکی پیداوار میں 20فیصد کے لگ بھگ حصہ بھی ہے لیکن یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ تمام شہری اور دیہی آبادی کی زرعی اراضی تک رسائی بھی ممکن نہیں اور ہمارا 8 ملین ایکڑ رقبہ کاشت نہ ہونے کے سبب بے کار پڑا ہے۔ ایسے میں غذائی خود کفالت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ کھیتی باڑی کرنے والے زرعی فارمرز اور کسانوں کے ساتھ ساتھ بے زمین فارمرز اور مویشی پال خواتین و حضرات کو لائیوسٹاک فارمنگ کے جدید اُصولوں سے روشناس کرواتے ہوئے ملکی ترقی کی رفتار کو مزید تیز کیا جائے۔
پاکستان کی 48فیصد آبادی کے روزگار کا ذریعہ معاش زراعت ہے جن میں سے اکثریت گائے، بھینسیں اور بھیڑ بکریاں پال کر اضافی آمدنی کا بندو بست بھی کرتی ہے۔ اِن مویشی پال خواتین و حضرات کی تکنیکی معاونت اور پیشہ ورانہ سہولت کے لیے محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ پنجاب مختلف منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچاتا رہتا ہے جن سے عوام الناس کی غذائی ضروریات بھی پوری ہوتی ہیں اور اُن کی مالی حالت میں بھی استحکام آتا ہے۔
محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈیویلپمنٹ پنجاب نے حال ہی میں ایسا ہی ایک منصوبہ شروع کر رکھا ہے جس کے تحت بھینسوں کے کٹڑے یا کٹے کم عمری میں اور لاغر نحیف حالت میں ذبح کرنے کے بجائے لائیوسٹاک فارمرز کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ وہ ان نومولود کٹوں کو پال کر اور فربہ کرکے غذائیت سے بھر حیوانی لحمیات کا ذریعہ بنائیں۔ اِس کٹا بچائو اور کٹا فربہ منصوبہ کے پہلے 2فیز کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔ اِس منصوبہ کی تھرڈ پارٹی ویلی ڈیشن (TPV)یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز لاہور اور ایک پرائیویٹ چارٹرڈ اکاونٹنٹس فرم سے کروائی جا چکی ہے۔ اِن اداروں نے اِس منصوبہ کو مفید قرار دیتے ہوئے جاری رکھنے کی سفارش کی ہے۔
صوبہ پنجاب اپنی جغرافیائی سرحدوں اور معاشی پوزیشن کی بدولت ملک بھر میں اہمیت کا حامل ہے۔ صوبہ پنجاب جنوب کی طرف سندھ، مغرب کی طرف خیبر پختونخواہ اور بلوچستان، شمال کی طرف کشمیر اور اسلام آباد جب کہ مشرق کی طرف ہندوستانی پنجاب اور راجستھان سے ملتا ہے۔ اس جغرافیائی پوزیشن اور معاشی پیداواری اہمیت کے سبب پنجاب کے کامیاب منصوبے دیگر صوبوں پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ شاہد یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں کامیابی سے ہم کنار ہونے والے کٹا پال اور کٹا فربہ منصوبہ جات کو ملک بھر میں جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
وزیر اعظم پاکستان نے قوم سے اپنے ابتدائی خطاب میں حیوانی لحمیات کی عدم دستیابی، غذائی قلت اور اِس سب کے باعث بچوں میں پیداہونے والی بڑھوتری کی بیماری یا سٹنٹڈ گروتھ کا تفصیلی تذکرہ کیا اور اِن مسائل کے حل کے لیے اقدامات اُٹھانے کو اپنی بنیادی ترجیحات میں شامل کرنے کا عندیہ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کی جانب توجہ مرکوز کی اور وزیر اعظم پاکستان کا زرعی ایمرجنسی پروگرام متعارف کروایا۔
وزیر اعظم کے زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت ایک پروجیکٹ Enhancing Beef Production Through Save the Buffalo Calves and Feedlot Fattening”سال 2019ء میں شروع کیا گیا جس کی تکمیل کی مدت 4سال متعین کی گئی۔ 2019 تا 2023کے 4 سالہ دورانیے پر مشتمل پراجیکٹ کو نیشنل ایگری کلچر ایمرجنسی پروگرام کا اہم حصہ بنایا گیا ہے۔ اس کٹا پال اور کٹا بچائو پراجیکٹ کے دو حصے ہیں۔ نئے پیدا ہونے والے کٹے کو کم عمری میں ضائع یا ذبح ہونے سے بچانے کے لیے کٹا بچاو منصوبہ متعارف کروایا گیا ہے جس میں کٹوں کو کم عمری میں ذبح کیے جانے کی بجائے پال کو بڑا کرنے کی رغبت دلانے کی غرض سے منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ یاد رہے کہ ہمارے ہاں نومولود کٹوں کو پالنے کے بجائے تلف کرنے کا عام رجحان پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے حیوانی لحمیات کے قیمتی ذرائع ضائع ہو رہے ہیں۔ اِس غیر پیشہ ورانہ طرز عمل کی اصلاح کے لیے کٹا بچائو منصوبہ متعارف کروایا گیا ہے جس میں نومولود یا کم عمر کٹے کو کم از کم 4 ماہ تک صحت بخش ماحول میں پروان چڑھایا جاتا ہے اور اِس منصوبہ پر عمل پیرا مویشی پال حضرات /حضرات کو معقول رقم دے کر اُن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اِس پراجیکٹ کے دوسرے Component میں جوان ہوتے کٹوں کو توانا و تنومند کر کے اُن کے گوشت کی کوالٹی اور غذائیت میں بہتری لائی جاتی ہے۔
مویشی پال خواتین و حضرات کی حوصلہ افزائی کی خاطر حکومت پنجاب نے کٹابچائو منصوبہ کے تحت ایک لاکھ 60ہزار کٹے رجسٹر کرنے کا ہدف متعین کیا ہے جب کہ کٹا فربہ یا کٹاپال منصوبہ کے تحت ایک لاکھ پچاس ہزار کٹے رجسٹر کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان کے اِس قومی زرعی ایمرجنسی پروگرام کے تحت صوبہ پنجاب کے لیے 1839ملین روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے 1640ملین روپے مویشی پال خواتین وحضرات کو سبسڈی (Subsidy) کی مد میں دیے جائیں گے جب کہ بقایا رقم دیگر اخراجات مثلاً سٹاف کی تربیت، ادویات اور ویکسینز کی خریداری کی مد میں خرچ ہو گی۔
اس منصوبہ کے دونوں Segments یعنی کٹا بچائو اور کٹا فربہ کے مثبت اثرات کی بدولت مویشی پال خواتین وحضرات کی مالی معاونت کے ساتھ ساتھ ملک حیوانی لحمیات کی پیداوار میں بھی خود کفیل ہو گا جس کی بدولت غذائی قلت اور سٹنٹڈگروتھ کا سدباب بھی ممکن ہوسکے گا۔