انسان کا فطری ذوق تجسس
اور اسلام کا نظریہ ایمانیات
طاہرہ رئوف ملک
انسان کی فطرت میں تجسس و جستجو کا مادہ پایا جاتا ہے جس کے آثار نومولودیت ہی سے مشاہد کیے جا سکتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب انسانی شعور مختلف ماحول کے زیراثر ارتقا کی منازل طے کرتا ہے تو جستجوئے علم بھی مرحلہ وار ارتقا پذیر ہوتی ہے۔ یہی تجسس و جستجو عالم ارضی میں مختلف ایجادات و اختراعات کا سبب بنتی ہے۔
کیا، کیوں اور کیسے کے سوالات انسانی ذہن کو تفکر کی نئی منزلوں سے آشنا کرتے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ شعور انسانی مسلسل ارتقا کی منازل طے کررہا ہے۔ پرندے کی اُڑان سے اُڑن کھٹولے کا تصور اور اُڑتے ہوئے قالین سے روشنی اور فضا کی فطری بندشوں کو عبور کرکے خلا کی وسعت بے کراں میں محو سفر نئی جہتوں کی تلاش میں ہے۔ انسانی شعور کو فطرت نے بے قراری عطا کی تو یہ بے قراری خود فطری قوانین کی تسخیر کی طرف مائل ہوتی نظر آئی، حتیٰ کہ انسان نظام محسوسات سے غیر حسی نظاموں مثلاً فنا و بقا کے نظام کو مسخر کرنے کے مشن پر کمربستہ ہوگیا۔ مختلف مذاہب کو ماننے والے موت کے بعد جسم انسانی پر فطری قوانین کے تحت جاری ہونے والے نظام کا مشاہدہ کرنے کے درپے ہوئے اور جسم انسانی پر اچانک طاری ہو جانے والی فنا کو روکنے کے لیے تجربات کیے جانے لگے۔
غیرمرئی اشیا و مخلوقات مثلاً جنات اور ملائکہ کے بارے میں تحریرات کے پلندے انسانی فکر و شعور کے اسی تجسس کے غماز ہیں۔ کیا انسان کے اس ذوق تجسس کی کوئی حد ہے؟ انسانی شعور کے اس ارتقائی سفر کی انتہا کیا ہے؟ کیا فطرت اور خدائی قوانین اس تجسس پر کوئی قدغن لگاتے ہیں یا اسے شتر بے مہار کی طرح ہر جگہ طبع آزمائی اور تحقیق کا حق دے دیا گیا ہے؟
تمام الہامی مذاہب کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ انسان کے فطری تجسس علم کو یہ کہہ کر محدود کر دیا گیا ہے کہ تمہاری جاننے کی تمام سعی و کوشش بعض انتہائوں پر پہنچ کر سر پٹخ کر دم توڑ دیں گی لیکن ایک خاص حد سے آگے تمہیں رسائی نہیں دی جائے گی جہاں بشری رسائی کی تمام منازل اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں وہاں یقینی و حقیقی علم الٰہی کے وسیع و لامتناہی سمندروں کی ابتدا ہوتی ہے۔
تمام محسوسات و مشاہدات کی اصل حقیقت تک بھی انسان کی مکمل رسائی ممکن نہیں ہوسکی تو غیر محسوس و غیر مرئی حقائق تک رسائی کیسے ممکن ہو سکتی ہے لیکن انسان نے اس منزل پر بھی کمند ڈالنے کی کوشش کی اور الہام و وجدانیات کو باقاعدہ علم روحانیت کی ایک شاخ تسلیم کر لیا گیا اور علم لدنی تصوف و احسان کی اصطلاح قرار پائی۔ اگرچہ انسان نے اس میدان میں ٹھوکر بھی کھائی اور اپنے وجدان کو یقینی مان کر کبھی نبوت اور کبھی خدائی کا جھوٹا دعویٰ کیا۔
انگلستان کے بہت بڑے فلسفی بریڈلے کی کتاب Appearance and Reality میں لکھا ہے کہ جو کچھ نظر آ رہا ہے، وہ حقیقت نہیں ہے۔حقیقت اس کے پیچھے ہے۔ فلسفی کنفیوشس کا کہنا تھا کہ:
“There is nothing more real than what cannot be seen; and there is nothing more certain than what cannot be heard.”
یعنی وہ حقائق جو آنکھوں سے دیکھے نہیں جاسکتے اور کانوں سے سنے نہیں جا سکتے، اس سے زیادہ یقینی اور واضح حقائق کوئی اور نہیں ہیں۔ یہی الٰہی علم کا نقطہ آغاز ہے کہ انسان یہ سمجھ لے کہ جو الٰہیات کی حقیقت ہے، وہ اس کی نگاہوں سے مستور ہے۔ جیسے کہ قرآن میں ارشاد ہے:
و عندہ مفاتیح الغیب لا یعلمھا الا ھو … (سورہ الانعام: 59)
یعنی انسان کے علم کا نکتہ اختتام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم کا نکتہ آغاز ہے اور اس علم کو انسان نہیں جان سکتا بجز اس کے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کسی معتبر واسطہ و ذریعہ سے خود کسی شے کی خبر اس کو دے دے۔ پیغمبران خدا اس علم کو انسان تک پہنچانے کا معتبر ترین ذریعہ رہے ہیں لیکن ان کی رسائی بھی خدا کے خزانے تک اسی حد میں ممکن ہے جہاں تک اللہ سبحانہ و تعالیٰ خود رسائی دے دے۔ ان پیغمبروں پر کامل ایمان و یقین ایسی چیزوں کو بھی مان لینے پر آمادہ کرتا ہے جو انسانی حواس و عقل کے دائرہ کار سے باہر ہیں۔ چنانچہ ’’توحید‘‘ یعنی وجود باری تعالیٰ کا اقرار اور اس کی ذات و صفات کا یکتا و کامل ہونا؛ ’’رسالت‘‘ یعنی بعض مخصوص و ممتاز انسانوں کا نمائندہ الٰہی کے مقام پر فائز ہونا اور ’’آخرت‘‘ یعنی موت کے بعد کی ایک دوسری دنیا اور اس کے مخصوص نظام و احوال پر یقین، انھی اخبار علم پر یقین ہے جو ایسے نفوس قدسیہ کے ذریعے انسانوں تک منتقل ہوئے جن کو اصطلاح مذہب میں پیغمبر کہا جاتا ہے اور جن کے صادق اور امین ہونے پر ان کے شدید ترین مخالف بھی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔
دنیا میں مادیات کے علم کے مقتضی کو جان لینا اور تسلیم کر لینا علم کے حصول کا شرط آغاز ہے۔ مثلاً فلسفہ کی بنیاد مبادیات سائنس سے بالکل مختلف ہے لہٰذا جو شخص فلسفہ کی تعلیم حاصل کرنا چاہتا ہے، اُس کو یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ فلسفہ کا دارومدار قوت تخیل و فکر پر ہے اور جو سائنس کی تحصیل کا شوق رکھتا ہے، اُس کو یہ ماننا ہوگا کہ سائنس کی بنیاد مشاہدہ و تجربہ پر ہے۔ اِسی طرح الٰہی علم کے حصول کے لیے چند بنیادی مقدمات کو تسلیم کیے بغیر قدم آگے بڑھانا ممکن نہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پیغمبر خدا نے تمھیں جس چیز کی تعلیم دی ہے تمھاری عقل اس کو تسلیم کرے یا نہ کرے، حواس کی گرفت میں آئے یا نہ آئے اُس پر ایمان و یقین ضروری ہے۔ ان حقیقتوں کو بغیر دیکھے ماننا، اس اعتماد اور یقین کی بنیاد پر کہ خبر دینے والا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرستادہ ہے، تمام الہامی مذاہب کی شرط اول ہے، رہے وہ لوگ جو کسی بھی چیز کو ماننے کے لیے حواس و ادراک یا مشاہدے کی شرط لگائیں تو وہ ایمان کی تعریف سے خارج و باہر ہیں۔
اسی کو سورہ بقرہ کی ابتدا میں ذکر کیا گیا ہے
الذین یؤمنون بالغیب … ویؤمنون بما أنزل الیک وما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون (البقرہ:3,4)
پیغمبروں کا دائرہ علم و معرفت چوں کہ دوسری تمام مخلوقات سے وسیع تر ہوتا ہے، اِس لیے انھیں بے شمار ایسی مخفیات کا علم ہوتا ہے جو غیر انبیاء کے لیے غیب ہی ہوتی ہیں۔ توحید اور رسالت و آخرت کے اس عقیدے پر کامل درجے کا یقین رکھنے والوں کو قرآن مومنین و موقنین، مشکین و مذبذبین کو منافقین (کہ تذبذب و شک یقین و اعتماد کی ضد ہے) اور انکار کرنے والوں کو مکذبین و کافرین قرار دیتا ہے۔