امریکی صدر کا دورہ مشرق وسطی
تیل کی سیاست کا احیا
یہ بات کئی پہلوئوں سے واضح ہے کہ امریکا اب اپنی پہلے والی آب وتاب میں نہیں رہا، شاید اسی لیے امریکی صدر جوبائیڈن کو برسراقتدارآنے کے بعدا س چیز کا اعلان کرنا پڑ اکہ امریکا اب پہلے کی طرح مضبوط ہوچکا ہے اور دوبارہ عالمی سیادت سنبھالنے والا ہے۔ حالیہ مہینوں میں بھی ہونے والی پیش رفت اس طرف توجہ دلاتی ہیں۔ امریکی صدر اس وقت اس پریشانی میں مبتلا ہیں یہ اُن کے آگے وسط مدتی انتخابات بھی کھڑے ہیں اور اُنھوں واضح طور پر کانگریس کے دوایوانوں میں سے کسی ایک میں برتری کھوجانے کا ڈر پیدا ہوگیا ہے۔
اِسی طرح امریکا نے حاتم طائی بن کر یوکرین کے لیے 50ارب ڈالر کی امداد کا اعلان تو کردیا ہے لیکن اب اُسے خود جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال میں امریکی صدر نے سعودی عرب اور اسرائیل کا دورہ کیا۔ یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اس دورے کے محرکات کیا تھے اور اب اسے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
مشرق وسطیٰ اور امریکا کے سابقہ عزائم
افغانستان سے انخلا کے بعد خود امریکا نے بھی یہ اشارہ دے دیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ سے اپنی بساط لپیٹ رہا ہے کیوں کہ اب اُس کا مقابلہ چین کے ساتھ انڈوپیسفک میں ہے اور اگلا میدان وہیں سجے گا۔ افغانستان کے ساتھ ساتھ امریکا کو عراق اور شام میں بھی سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔شام میں خاص طور پر امریکا کو روس کے مقابلے میں ہار ماننی پڑی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ خود خلیجی ممالک نے بھی یہ سوچ لیا تھاکہ اب وہ امریکا کی دلچسپی نہیں رہے ہیں یا پھر امریکا کے پاس وہ قوت نہیں رہی ہے کہ اب زیادہ دیر وہ مشرق وسطیٰ کی نگرانی کرسکے۔
اِس سلسلے میں ایران کا کردار قابل ذکر ہے کہ اُس نے 2015ء کے جوہری معاہدے میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اُس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے نیز اُس نے اپنے جوہری پروگرام پر کیمرے نصب کرنے کی اجازت بھی دی تھی لیکن حالیہ سالوں میں ہونے والے ویانا مذاکرت میں ایران نے واضح طور پر اپنے جوہری پروگرام کی نگرانی کی اجازت سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور وہاں نصب کیمرے میں ہٹا دیے گئے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران اب مشرق وسطیٰ میں امریکا کی پہلے والے حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا۔
جوبائیڈن کا سعودی عرب سے متعلق رویہ
ڈونلڈ ٹرمپ تک تو امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات درست تھے لیکن جوبائیڈن نے آتے ہی سردمہری کی روش اختیار کرلی۔اس کی ایک وجہ تو وہی ہے جو اوپر بیان کی جاچکی ہے کہ امریکا سمجھ رہا تھا کہ اُسے اب مشرق وسطیٰ کی نہ ضرورت ہے اور نہ وہ ایشیا پیسفک سے فراغت حاصل کرسکتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کی طرف توجہ دے سکے۔
جوبائیڈن نے نہ صرف سعودی عرب کے ولی عہد کو سست الفاظ کہے اور اُسے تنقید کا نشانہ بنایا بلکہ سعودی عرب کو اسلحہ بیچنے سے بھی انکار کردیا۔ علاوہ ازیں ریاض کے لیے قائم شدہ میزائل سسٹم اور پیٹریاٹ کو بھی ہٹا دیا گیا ۔ اُس وقت سعودی عرب کو یہ اندازہ ہوا کہ امریکا اُس کے ساتھ زیادہ خوشگوار تعلقات قائم رکھنا نہیں چاہتا۔ اسی طرح نوبت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ یہ افواہیں گردش کرنے لگ گئیں کہ امریکا مختلف خلیجی ممالک میں تعینات اپنے فوجی واپس بلا رہا ہے۔
آئی ٹو یوٹو: امریکاکی جزوی واپسی
گو ایسا نہیں کہ امریکا نےمشرق وسطیٰ کی طرف سے بالکل ہی آنکھیں بند کرلی ہوں ۔ اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے اُس نے گزشتہ مہینوں میں آئی ٹویوٹو کے نام سے ایک اتحاد قائم کیاہے۔ امریکا، متحدہ عرب امارات، انڈیا اور اسرائیل پر مشتمل اتحاد اصل میں کواڈ کو مشرق وسطیٰ تک وسیع کرنے کا سلسلہ ہے۔ اس میں دو آئی انڈیا اور اسرائیل کے لیے ہیں اور دو یو یونائیٹڈ سٹیٹس اور یونائیٹڈ عرب امارات کے لیے ہیں۔ یو اے ای جو اس سے قبل اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے والا پہلا خلیجی ملک بن چکا ہے اور انڈیا سے بھی جابجا معاہدے کررہا ہے اب بڑے ملکوںکے اتحاد کی طرف گامزن ہے۔ گو اس وقت دو چیزیں سروں پر منڈلا رہی ہیں: ماحولیاتی آلودگی اور معاشی بحران اور ہر معاہدے میںا سی چیز کو پیش کیا جاتا ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک ماحول کو درست کرنے اور معیشت کی بحالی پر لگے ہوئے ہیں لیکن آخر میں یہ بات سکیورٹی تک لی چلی جاتی ہے اویہ دوسری بڑی طاقتوں کے خلاف محاذ آرائی کا ایک معقول بہانہ بن جاتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کے ممالک کی ڈپلومیسی : امریکا کی جگہ اسرائیل
جیسا کہ ہم نے خیال ظاہر کیا کہ اب مشرق وسطیٰ کے ممالک بھی اتنے سمجھ دار ہوگئے ہیں کہ وہ مزید اب امریکا یا بڑی طاقتوں کے ہاتھوں کھلونا نہیں بننا چاہتے ۔ خاص طور پر سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلیمان سعودی عرب کو جدید بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ شہزادہ محمد بن سلیمان کی ملکی معاملات میں دلچسپی اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات اس چیز کو واضح کرتے ہیں کہ محمد بن سلیمان خود سربراہ حکومت بننے سے پہلے مکمل طور پر خودمختار ہونا چاہتےہیں اور شاید وہ شاہ فیصل کی سی حیثیت کواختیار کرنا چاہتے ہیں۔
دوسری چیز جو واضح ہے وہ یہ ہے کہ اب عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنارہے ہیں۔ گو ابھی تک سعودی عرب نے اسرائیل سے اپنے تعلقات قائم نہیں کیے لیکن اسرائیل اس کے کے لیے پوری طرح تیار ہے اور کوشش بھی کررہا ہے کہ یواے ای کی طرح سعودی عرب سے بھی سفارتی تعلقات قائم ہوجائیں۔ شہزادہ محمد بن سلیمان جس مزاج کودنیا کے سامنے پیش کررہے ہیں اُس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں۔
اِسی طرح سعودی عرب اور ایران بھی ایک دوسرے کے قریب ہونے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں اور سعودی عرب اپنی تجارت کو بڑھانے کے لیے ایران سے اچھے تعلقات کا خواہاں ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ ایران نے جب سے امریکا کا نوٹس لینا چھوڑ دیا ہے اور جب سے امریکا نے مشرق وسطیٰ سے اپنی توجہ ہٹائی ہے سعودی عرب ایران سے رابطے بڑھانے میں بھی کوئی ہرج نہیں سمجھتا اور عملاً ایسا ہورہا ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آنے کی کوشش کررہے ہیں۔
امریکی صدر کے دورے سے متعلق
امریکی صدر نے سعودی عرب کے لیے اسرائیل سے براہ راست پرواز کی اور اسے بڑی کامیابی بھی قراردیا کیوں کہ وہ پہلے امریکی صدر ہیں جو اسرائیل سے جدہ براہ راست پرواز کے ذریعے گئے۔ اصل میں حال ہی میں سعودی عرب نے تمام دنیا کی پروازوں کے لیے اپنی فضا کو کھول دیا ہے۔ امریکا کے صدر کا یوںاسرائیل سے براہ راست سعودی عرب آنا اسی منصوبے کا حصہ قراردیا جا رہا ہے۔ امریکی صدرنے سعودی عرب کا مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اہم ترین ملک قرارد یا۔ امریکی صدر کا سعودی عرب کا یہ دورہ 15جولائی 2022ء کو ہوا اور وہ جدہ میں سعودی نمائندوں سے ملے۔
دورے کا اصل مقصد: تیل کی پیداوار کو بڑھانا
دورے کا اصل اور اہم مقصد سعودی عرب کا اس چیز پر راضی کرنا ہے کہ وہ تیل کی پیداوار کو بڑھائے۔اس وقت یورپی یونین اور نیٹو کے کئی ممالک روس کے تیل اور گیس پر انحصار کرتے ہیں اور اس حوالے سے وہ شدید مشکل کا شکار ہیں۔یورپ اس وقت روس سے یومیہ 25 لاکھ بیرل تیل درآمد کرتا ہے۔ دوسری طرف امریکا روس پر پابندیاں بڑھانا چاہتا ہے تاکہ اُسے اُ س کی مبینہ جارحیت سے باز رکھا جاسکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ یورپی ممالک اور نیٹو کو متبادل ذریعہ توانائی فراہم کرے اور اس کے لیے سب سے بہترین حل اسے سعودی عرب کی شکل میں نظرآیا ہے۔ اگر امریکا سعودی عرب کو اس بات پر آمادہ کرلیتا ہے کہ وہ اپنی تیل کی پیداوار کو بڑھائے اور اسے تیل فراہم کرے تو وہ اس پوزیشن میں آجائے گا کہ روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردے۔
یہ امر ابھی تک ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرنے والا ملک سعودی عرب ہی ہے اور امریکا کو بہرحال اُس کی طرف جھکنا پڑے گا۔ دوسری طرف ولی عہد کا ملکی معاملات میں ایک خودمختار حکمران کی طرح دلچسپی لینا اس چیز کو واضح کرتا ہے کہ اب امریکا صرف ڈکٹیشن نہیں دے سکا گا بلکہ اب اُسے برابری کی سطح پر سعودی عرب سے معاملات طے کرنے پڑیں گے اور یہی امریکا کی کمزوری کا مظہر ہے اور ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ امریکا کا وقت گزر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دورے کے بعد یہ تاثر عام ہے کہ دورے کی کامیابی کا انحصار اب سعودی عرب کے جواب پر مبنی ہے۔
سعودی عرب کا جواب: اوپیک کا اجلاس
سعودی عرب کا جواب کیا تھا؟ یہ بہت اہم چیز ہے۔ پہلے تو صرف امریکی صدر کا فون یا تحریری پیغام ہی کافی تھا لیکن اب صورت حال یہ ہوچکی ہے کہ امریکی صدر براہ راست پرواز کے ذریعے سعودی عرب آیا اور سعودی حکمرانوں سے کوئی واضح جواب لیے بغیر واپس چلا گیا۔ سعودی عرب نے جواب کو التوا میں ڈال دیا ہے اور کہا ہے کہ مسئلہ اوپیک کے اجلاس میں رکھا جائے گاجو ماہانہ بنیادوں پر ہوتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ روس اوپیک پلس کا ممبر ہے۔ اوپیک کے ممبر تو صرف عرب دنیاکے ممالک ہیں اور وہ تعداد میں 13ہیں لیکن اس کو اوپیک پلس کے ذریعے وسعت دی جاچکی ہے اور اب یہ کل 23ممالک ہیں جن میں کہ روس بھی شامل ہے۔
اوپیک پلس کو روس کی خواہشات کا بھی احترام کرنا ہے کیوںکہ روس اس اتحاد میں دو بڑے شراکت داروں میں سے ایک ہے۔روس خود یہ چاہتا ہے کہ تیل کی پیداوار زیادہ نہ ہوکیوں کہ اُسے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ اصل میں یہ سلسلہ 2020ء سے چل رہاہے۔ اس سال سے اوپیک پلس کے ممالک نے یہ طے کیا تھا کہ تیل کی پیداوار زیادہ نہیں کی جائے گی۔ اوپیک پلس نے مئی 2020 میں تیل کی فراہمی میں ایک کروڑ بیرل یومیہ کی کمی لائی تھی تو یہ بہت زیادہ کمی تھی اور یہ سلسلہ جوں کا توں چل رہا ہے۔ جوبائیڈن کے ساتھ برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن بھی سعودی عرب کی منت سماجت کرچکے ہیں کہ وہ تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے لیکن سعودی عرب اس کا جواب دے چکا ہے کہ اس کا فیصلہ اوپیک کا اجلاس ہی کرے گا۔ گو اوپیک نے گزشتہ ایک اجلاس میں یہ طے کیا تھا کہ اب سے تیل کی پیداوار میں ہلکا سا اضافہ کیاجائے گا لیکن یہ اضافہ بہت معمولی ہوگا اور اب دیکھنا یہ ہے کہ جوبائیڈن کا دورہ اس سست روی کو تیز کرسکتا ہے یا نہیں۔
جمال خشوگی کا قتل : طویل مکالمہ
سعودی عرب کے دورے پر سب سے زیادہ زیربحث آنے والا موضوع صحافی جمال خشوگی کا قتل تھا جو 2018ء میں ترکی میں قتل کر دیے گئے تھے اور اس قتل میں شہزادہ محمد بن سلیمان کو ملوث قراردیا جارہا تھا۔ ظاہر ہے سعودی حکومت کی طرف سے اس کی تردید بھی کی گئی اور شہزادہ محمد بن سلیمان اس سے بریت کا اظہار کرچکے ہیں لیکن پھر بھی جوبائیڈن اور شہزادے کے درمیان اس موضوع نے طول پکڑ لیا۔جمال خشوگی شہزادہ محمد بن سلمان پر تنقید کرنے کے حوالے سے مشہور تھے اورمبینہ طور پر اُنھیں سعودی عرب سے افراد روانہ کرکے استنبول میں قتل کروایا گیا اور ان کے لاش کے ٹکڑے کردیے گئے۔
جوبائیڈن نے واضح طور پر محمد بن سلمان کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا اور یہاں تک کہہ دیا کہ اُن کے مطابق ولی عہد اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس ددران خشوگی کی منگیتر بھی خبروں کا مرکز بنی رہیں اور دہائیاں دیتی رہیں کہ یہ مذاکرات اُن کے منگیتر کے خون پر ہورہے ہیں۔ یادر رہے کہ صدارت کا منصب سنبھالنے سے پہلے جو بائیڈن نے سعودی صحافی جمال خشوگی کے بہیمانہ قتل میں سعودی عرب کے ملوث ہونے پر اُسے ‘خارج شدہ ملک قرار دیا۔ بطور صدر رواں برس فروری میں اُن کی انتظامیہ نے امریکی خفیہ اداروں کی ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں سعودی ولی عہد کے اس قتل میں ملوث ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا۔ لیکن اب صورت حال یہ تھی کہ خشوگی کی منگیتر کے جواب میں صدر بائیڈن نے کہا: ’’خشوگی کی منگیتر کے لیے یہ کہنا بہت آسان ہے کہ ان ہزاروں افراد کی فکر نہ کریں جو مر سکتے ہیں بلکہ میرے منگیتر کی موت کا بدلہ لیں۔ آپ کو ایسے میں سمجھ داری کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔‘‘
خطے کی صورت حال میں دلچسپی لیکن عمل ندارد: مسئلہ فلسطین
سعودی عرب کا ایک مسئلہ یمن بھی ہے جس میں اُسے امریکا کی مدد درکار ہے۔ اقوام متحدہ نے یہاں جنگ بندی سے متعلق کچھ پیش رفت کی لیکن ابھی تک یہاں مستقل بندوبست نہیں کیا جاسکا۔ جوبائیڈن نے اپنے دورے کے دوران اس سلسلے میں بات چیت ضرور کی لیکن اس کے حل کی یقین دہانی نہیں کرائی اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی عملی اقدام کا وعدہ کیا۔ اِسی طرح فلسطین کا مسئلہ تھا۔ جوبائیڈن نے سعودی عرب کے ساتھ اسرائیل اور فلسطین کا دورہ بھی کیا اور فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس سے ملاقات کی اور یہاں ایک ہسپتال کو امداد دینے کا وعدہ بھی کیالیکن فلسطینیوں کے دکھوں کا مداواکرنے کا کوئی عملی اقدام سامنے نہ آسکا۔
امریکا بظاہر اس بات پر گامزن ہے کہ کسی طرح اسرائیل اور فلسطین کو امن کے عمل میں لایا جائے لیکن ظاہر ہے وہ اسرائیل کو اس سلسلے میں ناراض نہیں کرسکتا۔
صدر محمودعباس سے بات کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے بڑی مشکل میں ر ہ رہے ہیں اور اُنھیں روزانہ کی بنیاد پر کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن امریکی صدر کے پاس ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل نہ تھا اور وہ صرف الفاظ سے تسلی دے کر چلے گئے۔ اس حوالے سے فلسطین میں مختلف جگہوں پر مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے جن میں یہ آواز بلند کی گئی کہ امریکا اُن کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لیے آیا تھا۔جواب میں محمود عباس نے واضح طور پر کہا کہ فلسطینیوں کے لیے وہ حل قابل قبول نہیں جو امریکا نے ٹرمپ کے دور میں پیش کیا تھا جس میں یروشلم کو اسرائیل کا داراحکومت قرار دیا گیا تھا۔ لیکن بہرحال یہ تو ایک ملاقات تھی اور مذاکرات ہرگز نہ تھے کہ امریکی صدر ایسے سوالوں کا جواب دیتے۔
صدر بائیڈن کا مشرق وسطیٰ کا دورہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اسرائیل کے عرب ملکوں کے ساتھ نئے اتحادوں کو مضبو ط کرنے، علاقائی انضمام کو فروغ دینے اور ایران کا مقابلہ کرنے کے لیے فوجی شراکت داری کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔