امریکہ محکمہ خارجہ میں چائینہ ھاوس کا قیام
امریکا چین کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ شروع کرچکا ہے اور اِس کے لیے اپنی پوری طاقت صرف کررہا ہے۔ حال ہی میں امریکا کے محکمہ خارجہ نے چائنا ہائوس کے نام سے ایک سنٹر قائم کیا ہے جسے چائنا وار سٹڈیز کانام دیا جاسکتا ہے۔ امریکا کے سیکرٹری آف سٹیٹ انٹونی بلنکن نے اپنے بیان میں بیجنگ کو ایک طویل المیعاد خطرہ قرار دیا تھا تو ظاہر ہے ایسے خطرے سے نمٹنے کے لیے مستقل بنیادوں پر ایک سٹڈی سنٹر کا قیام ضرور ی تھا۔
چائنا ہائوس کیا چیز ہے ؟
امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے ایک طویل خطاب میں اِس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’ عوامی جمہوریہ چین کی جانب سے لاحق مسئلے کا حجم اور وسعت امریکا کی سفارت کاری کا اس انداز میں امتحان لیں گے جس کا ہم نے پہلے کبھی مشاہدہ نہیں کیا۔ میں دفتر خارجہ اور اپنے سفارت کاروں کو ایسے ذرائع مہیا کرنے کا عزم رکھتا ہوں جن کی اُنھیں میرے جدید کاری کے ایجنڈے کے تحت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ضرورت ہے۔ اِس میں دفتر خارجہ میں چائنا ہاؤس کے نام سے ایک مربوط ٹیم کی تشکیل بھی شامل ہے جو حسب ضرورت کانگریس کے ساتھ کام کرتے ہوئے مختلف مسائل پر اور مختلف خطوں کے حوالے سے ہماری پالیسی کو مربوط کرنے اور اس پر عمل درآمد میں مدد دے گی۔ یہاں مجھے یہ بتانا ہے کہ بیجنگ میں اور پورے چین میں قائم ہمارے قونصل خانوں میں سفیر نِک برنس کے زیرقیادت ایک غیرمعمولی ٹیم کام کر رہی ہے۔ یہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر غیرمعمولی کام کرتے ہیں اور ان میں بہت سے لوگ حالیہ ہفتوں میں کووڈ کے سبب سخت لاک ڈاؤن میں بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ انتہائی شدید حالات کے باوجود وہ ڈٹے رہے ہیں۔ ہم اس شاندار ٹیم کے شکرگزار ہیں۔‘‘
اِس کا مطلب ہے کہ یہ سلسلہ ایک عرصے سے چل رہا ہے اور امریکا نے اب آکر اِسے ایک باقاعدہ شکل دی ہے۔ البتہ ابھی تک امریکا نے اس کے بارے میں پوری تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔
گو امریکی وزیرخارجہ نے اپنے خطاب میں یہ کہا کہ امریکا نہ تو چین کی تجارتی سرگرمیوں کو روکنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا چاہتا اور نہ ہی ایک اور سرد جنگ شروع کرنا چاہتا ہے لیکن چین کے مقابلے میں تجارتی معاہدے اور اُس کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کی ٹکر کے منصوبے یہ ساری باتیں واضح کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکی سیکرٹری خارجہ نے اپنے بیان میں کہا، ’’ہم چین کو یا کسی دوسرے ملک کو ایک بڑی طاقت کا کردار ادا کرنے اور اُنھیں اپنی معیشت کو ترقی دینے یا اپنے لوگوں کے مفادات کو فروغ دینے سے روکنا نہیں چاہتے۔ لیکن ہم بین الاقوامی قانون اور اُن معاہدوں، اُصولوں اور اداروں کا دفاع کریں گے اور اُنھیں مضبوط بنائیں گے جو امن و سلامتی برقرار رکھتے ہیں، افراد اور خودمختار ممالک کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں اور امریکا اور چین سمیت تمام ممالک کے لیے بقائے باہمی اور تعاون ممکن بناتے ہیں۔ آج کا چین 50 سال پہلے کے چین سے بہت مختلف ہے جب صدر نکسن نے اِس کے ساتھ دہائیوں پر مشتمل کشیدہ تعلقات کا خاتمہ کیا اور چین کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بنے۔ اُس وقت چین دنیا سے الگ تھلگ تھا اور بڑے پیمانے پر پھیلی غربت اور بھوک سے لڑ رہا تھا۔‘‘
امریکا کی شکایت کیا ہے؟
اپنے خطاب میں سیکرٹری بلنکن نے واضح طور پر چین کی تجارتی بالادستی کی طرف اشارہ کیا کہ بہت طویل عرصہ تک چین کی کمپنیوں کو ہماری منڈیوں تک جس قدر بھرپور رسائی حاصل رہی ہے، اُتنی رسائی ہماری کمپنیوں کو چین میں نہیں ملی۔ مثال کے طور پر ہمارے ہاں چائنا ڈیلی پڑھنے یا وی چیٹ کے ذریعے دوسروں سے روابط قائم کرنے کے خواہش مند لوگوں کے لیے ایسا کرنا بہت آسان ہے لیکن چین کے لوگوں پر نیویارک ٹائمز پڑھنے اور ٹویٹر استعمال کرنے پر پابندی ہے اور اِس سے صرف وہی لوگ مستثنیٰ ہیں جو حکومت کے لیے کام کرتے ہیں اور اُنھیں پروپیگنڈا کرنے اور غلط اطلاعات پھیلانے کے لیے ابلاغ کے اِن ذرائع کو استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ چین میں کام کرنے والی امریکی کمپنیوں کو باقاعدہ طور سے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی ٹیکنالوجی چین کی کمپنیوں کو منتقل کریں جب کہ امریکا میں کام کرنے والی چین کی کمپنیوں کو ہمارے قانون کے تحت تحفظ حاصل ہے۔ چین سے تعلق رکھنے والے فلم ساز اپنی فلموں کو امریکی حکومت کی جانب سے عائد کردہ کسی سنسرشپ کے بغیر امریکا میں تھیٹر مالکان کو فروخت کر سکتے ہیں لیکن بیجنگ بہت سی غیرملکی فلموں کی اپنے ہاں نمائش کو سختی سے روکتا ہے اور جن فلموں کو نمائش کی اجازت ملتی ہے، اُنھیں بڑے پیمانے پر سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امریکا میں چین کے کاروبار اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے ہمارے غیرجانب دار قانونی نظام کو آزادانہ طور سے استعمال کرتے ہیں اور درحقیقت وہ تواتر سے امریکی حکومت کے خلاف عدالت میں اپنے دعوے کر رہے ہوتے ہیں۔ تاہم چین میں غیرملکی کمپنیوں کو ایسی سہولت نہیں ملتی۔یہ دوطرفہ نابرابری ناقابل قبول اور ناقابل برداشت ہے۔
چین سے متعلق سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا تاثر
سیکرٹری خارجہ کے خطاب میں یہ چیز واضح طور پر نظر آئے گی کہ وہ چین کے بارے میں اِس انداز سے بات کررہے ہیں جس میں دوطرفہ تعلقات کی خواہش بھی پائی جاتی ہے جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا اعلان بھی کیا جار ہا ہے جو خبردار کرنے کے لیے ہو جیسے کوئی جنگ نافذ ہونے والی ہے۔ اِن الفاظ پر غور کریں:
’’اب چین غیرمعمولی پہنچ، اثرورسوخ اور عزائم رکھنے والی ایک عالمی طاقت ہے۔ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے جہاں جدید ترین شہر اور نقل وحمل کے بہترین نظام ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں کا مرکز ہے اور مستقبل کی ٹیکنالوجی اور صنعتوں پر غلبہ پانا چاہتا ہے۔ اِس نے اپنی فوج کو تیزی سے جدید خطوط پر اُستوار کیا ہے اور ایک اعلیٰ درجے کی جنگ جو قوت بننا چاہتا ہے جس کی دنیا بھر میں رسائی ہو۔ اِس نے اپنا دائرہ اثر ہند بحرالکاہل میں پھیلانے اور دنیا کی نمایاں طاقت بننے کے ارادے کا اعلان کیا ہے۔ چین میں یہ تبدیلی اِس کی صلاحیتوں، اختراعی قوت اور چین کے لوگوں کی سخت محنت کے باعث آئی ہے۔ یہ سب کچھ عالمی نظام کے مہیا کردہ استحکام اور مواقع کی بدولت بھی ممکن ہوا۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اُس نظام سے جتنا فائدہ چین نے اُٹھایا ہے اُتنا روئے زمین پر کسی اور ملک نے نہیں اُٹھایا۔ تاہم بیجنگ اپنی اِس کامیابی کا باعث بننے والے قوانین، معاہدوں، اُصولوں اور اداروں کو مضبوط بنانے اور اُنھیں نئی طاقت بخشنے اور دوسروں کو بھی ان سے استفادے کے قابل بنانے کے بجائے کمزور کر رہا ہے۔ صدر شی کے زیرقیادت حکمران چینی کمیونسٹ پارٹی اندرون ملک زیادہ جابر اور بیرون ملک زیادہ جارحانہ بن چکی ہے۔‘‘
چین کی منہ زور جارحیت کا ذکر
بات اُس وقت مزید واضح ہوکر سامنے آئی جب انٹونی بلنکن نے چین کی جارحیت کے بارے میں مختلف چیزوں سے آگاہ کیا اور اِسے نہ صرف امریکا بلکہ دنیا کے امن کے لیے ایک خطرہ قراردیا:
’’اِس کا اندازہ یوں ہوتا ہے کہ بیجنگ نے اپنے ہاں بڑے پیمانے پر نگرانی کا نظام بنایا اور اِس ٹیکنالوجی کو 80 سے زیادہ ممالک کو برآمد کیا، وہ جنوبی بحیرہ چین میں سمندر پر غیرقانونی دعوے کر رہا ہے، امن و سلامتی، جہاز رانی کی آزادی اور تجارت کو کمزور کر رہا ہے، تجارتی قوانین کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کر رہا ہے یا اُنھیں توڑ رہا ہے، امریکا سمیت دنیا بھر کے کارکنوں اور کمپنیوں کو نقصان پہنچا رہا ہے اور خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا حامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے ایسی حکومتوں کا ساتھ دے رہا ہے جو ان قوانین اور اُصولوں کو کھلے عام پامال کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب روس یوکرین پر حملے کی کھلے عام تیاری کر رہا تھا اُس وقت بھی صدر شی اور صدر پیوٹن نے قرار دیا کہ اُن کے ممالک کے مابین دوستی ’’لامحدود‘‘ ہے۔ اُسی ہفتے ہی جب صدر بائیڈن جاپان کا دورہ کر رہے تھے تو چین اور روس نے علاقے میں بمبار طیاروں کا ایک تزویراتی گشت کیا۔ صدر پیوٹن کی جانب سے یوکرین کی خودمختاری کو ختم کرنے اور یورپ میں اپنا دائرہ اثر بڑھانے کے لیے چھیڑی جانے والی جنگ کے دفاع میں بیجنگ کا مؤقف دیکھ کر ہم سب کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ہند بحرالکاہل خطے کو اپنا گھر کہتے ہیں۔‘‘
چین کے بارے میں اور چین کے لیے پیغام
امریکی وزیرخارجہ نے ایک ہی سانس میں اپنے لوگوں کو تیار رہنے کا کہا اور چین کو امن کی طرف بلانے کی بات کی۔ اُنھوں نے کہا، ’’میں امریکا کی سفارت کاری کی طاقت اور مقصد نیز اِس فیصلہ کن دہائی کے مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنی صلاحیت کے بارے میں کبھی اس قدر زیادہ پُریقین نہیں رہا۔ مجھے امریکا کے لوگوں سے کہنا ہے کہ آئیے، اپنی بنیادی طاقت، اپنے لوگوں، اپنی جمہوریت اور اپنے تخلیقی جذبے کو مضبوط بنانے کا دوبارہ عہد کریں۔ جیسا کہ صدر بائیڈن اکثر کہا کرتے ہیں، امریکا کے خلاف شرط لگانا اچھا نہیں ہوتا۔ تاہم آئیے خود پر شرط لگائیں اور مستقبل کا مقابلہ جیتیں۔ مجھے کھلے، محفوظ اور خوش حال مستقبل کے لیے پُرعزم دنیا بھر کے ممالک سے یہ کہنا ہے کہ آئیے، اِن اُصولوں کو قائم رکھنے کے مشترکہ مقصد کے لیے کام کریں جو ہماری مشترکہ کامیابی کو ممکن بناتے ہیں اور ہر ملک کے اپنا مستقبل خود متعین کرنے کے حق کے لیے کھڑے ہوں۔ میں چین کے لوگوں سے یہ کہوں گا کہ ہم پُراعتماد انداز میں مقابلہ کریں گے، جہاں ممکن ہوا وہاں ہم ایک دوسرے تعاون کریں گے اور جہاں ضروری ہوا وہاں مسابقت کریں گے۔ ہم تنازع نہیں چاہتے۔ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے عظیم ممالک پُرامن طور سے ایک دوسرے کے ساتھ نہ چل سکیں اور باہم مل کر انسانی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا نہ کر سکیں۔ میں نے آج جو کچھ کہا اس کا لب لباب یہ ہے کہ ہمیں انسانی ترقی کا عمل آگے بڑھانا ہے اور اپنے بچوں کو ایک ایسی دنیا دینی ہے جو پہلے سے زیادہ پُرامن، خوش حال اور آزاد ہو۔‘‘
Please Login or Register to view the complete Article Send an online deposit slip along with your complete Name & Address through WhatsApp or Email.0302 555 68 02English Urdu For Online Payments. For Magazine Subscription Please visit our Facebook Page or WhatsApp on 0302 5556802 For Institute’s Information, please join our Facebook Page or you can contact us on 0302 5556805/06/07 For Books Order please Visit our Facebook Page or WhatsApp us on 0302 5556809 You can follow us on Twitter too |