Friday , March 24 2023
Home / Archive / اسرائیلی صدر کا یو اے ای کا دورہ مشرق وسطیٰ میں ایک گہری تبدیلی

اسرائیلی صدر کا یو اے ای کا دورہ مشرق وسطیٰ میں ایک گہری تبدیلی

Listen to this article

اسرائیلی صدر کا یو اے ای کا دورہ

مشرق وسطیٰ میں ایک گہری تبدیلی

30جنوری 2022ء کو اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے یواے ای کا دورہ کیا۔ اس سے قبل اسرائیل کے وزیراعظم دسمبر میں جب کہ وزیر خارجہ گزشتہ ستمبر میں یو اے ای کا سرکاری دورہ کرچکے ہیں۔ اس دورے کے دوران اہم بات یمن کے حوثیوں کا یواے ای پر حملہ تھا لیکن اسرائیلی صدر نے حوثی حملے کے باوجود متحدہ عرب امارات کا دورہ جاری رکھنے کا عزم کیا۔چناں چہ 31 جنوری کو اسرائیلی صدر نے دبئی ایکسپو 2020ء کا دورہ بھی کیا۔ یو اے ای سعودی سربراہی میں اُس فوجی اتحاد کا حصہ ہے، جو یمن میں ایران نواز باغی حوثیوں کے خلاف یمنی حکومت کی مدد کر رہا ہے، جس کی وجہ سے اب یہ بھی نشانہ بن رہا ہے۔

اسرائیل اور عربوں کے تعلقات کے پیچھے کیا چیز ہے
پچھلے دوسال سے مشرق وسطیٰ میں ایک نیا طاقت کا کھیل کھیلا جارہا ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ان کوششوں کا مرکز تھے۔15 ستمبر 2020ء کو اسرائیل کےوزیر خارجہ نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔یہ اسرائیل کی طرف سے پہلا سرکاری دورہ تھا۔ عشروں سے قائم دشمنی کی برف کا پگھلنا بہت سے لوگوں کے لیے ناقابل یقین خبر تھی۔اس امن معاہدے کی تقریب میں بحرین کے وزیر خارجہ نے بھی شرکت کی۔ بعد ازاں بحرین نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا معاہدہ بھی کیا۔اس کے بعد بعض دیگر خلیجی ممالک نے بھی اسرائیل کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ متحدہ عرب امارات اور بحرین کے بعد مراکش اور سوڈان نے بھی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لیے۔امریکی ہتھیار متحدہ عرب امارات کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ بی بی سی کے مشرق وسطیٰ کے ایڈیٹر جیریمی بوون کے مطابق، امریکہ نے متحدہ عرب امارات کو جدید ترین F-35 لڑاکا طیارے اور EA-18G گراؤلر الیکٹرانک جنگی طیارے دینے کا وعدہ کیا۔متحدہ عرب امارات کو یقین ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوئے تو یہ تمام جدید ترین ہتھیار امریکہ سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی افواج لیبیا اور یمن میں خانہ جنگی میں تعینات ہے، لیکن اس کا سب سے بڑا اور سب سے طاقت ور دشمن ایران ہے، جو خلیج فارس میں شیعہ اکثریتی ملک ہے۔ خلیجی ممالک کی سیاست اور سفارتی حکمت عملی کے ماہر رنجن چکرورتی کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات اپنے موجودہ حکمران شیخ محمد بن زید ال نہیان کی قیادت میں ایک پُرعزم ملک ہے۔تو کیا اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں پہل خلیجی خطے میں متحدہ عرب امارات کی اہمیت میں اضافہ کرے گا؟پنک چکرورتی کہتے ہیں ’شیخ زید ایک وژنری لیڈر ہیں۔ اُنھوں نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اُن کے اس طرح کے اقدامات کو بہت سے ممالک نے پسند نہیں کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے معاملے پر امارات کی حمایت کرتا ہے۔‘

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے ایک ایسے وقت میں یمن میں سرگرم حوثیوں کی جانب سے داغے گئے بیلسٹک میزائل مار گرانے کا اعلان کیا ہے، جب وہ اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کی پہلی بار میزبانی کر رہا ہے۔ اماراتی وزارت دفاع نے کہا کہ میزائل کو گرنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا گیا اور اس کی باقیات ایک غیر آباد علاقے میں گریں۔

اِس حوالے سے اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ نے کہا ہے کہ اُن کا ملک متحدہ عرب امارات کی سکیورٹی کی ضروریات کی حمایت کرتا ہے اور اس کے ساتھ مضبوط علاقائی تعلقات کا خواہاں ہے۔

آئزک ہرزوگ نے ابوظبی کے ولی عہد شیخ محمد بن زید ال نہیان کے ساتھ ملاقات میں سکیورٹی اور دو طرفہ تعلقات کے فروغ پرتبادلہ خیالات کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ہم آپ کے سکیورٹی کے تقاضوں کی مکمل حمایت کرتے ہیں اورہم دہشت گرد گروپوں کی جانب سے متحدہ عرب امارت کی خودمختاری پر کسی بھی حملے کی ہر شکل اور زبان میں مذمت کرتے ہیں۔ شیخ محمد نے اسرائیلی صدر سے ملاقات کے بعد ایک ٹویٹ جاری کی جس میں کہاگیا کہ ’’ہم نے اپنے دو طرفہ تعلقات، باہمی دلچسپی کے علاقائی اُمور اور دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور دوستی کے پل تعمیر کرنے کے مزیدمواقع تلاش کرنے کی اہمیت پر تبادلہ خیالات کیا ہے۔‘‘

ابراہم معاہدہ Abraham Accord
16ستمبر 2020ء کو اسرائیل، یواے ای اور بحرین نے ایک معاہدے پر دستخظ کیےجسے تین الہامی مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے حوالے ابراہم (ابراہیم علیہ السلام ) کا نام دیا گیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بطور گواہ اس پر دستخط بھی کیے۔ اس کے چیدہ چیدہ نکات ذیل میں دئیے جارہے ہیں: 
اسرائیل اور یواے ای کی حکومتیں مشرق وسطیٰ کو محفوظ، مستحکم اوراس طرح سے ترقی کرتا دیکھنا چاہتی ہیں جو کہ اس خطے کی ریاستوں اور لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو۔
فریقین اپنے اور اپنے لوگوں کے درمیان سفارتی اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہتے ہیںاور آپس کے تعلقات کو پوری طرح معمول پر لانا چاہتے ہیںتاکہ پورا خطہ اپنی توانائیاں پوری طرح اس کی فلاح وبہبود میں صرف کرسکے۔
فریقین یہ یقین رکھتے ہیں کہ خطے کے مسائل کا حل دوطرفہ تعلقات اور بات چیت میں ہے نہ کہ ٹکرائو میں۔
فریقین خطے کے امن اور تحفظ کے لیے پرعزم ہیں اور نئے طریقوں سے معیشت کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں۔
یہ یقین دلاتے ہیں کہ دوطرفہ تعلقات کے لیے سفارتی تعلقات اور معاشی معاہدات کو ذریعہ بنایا جائے گا۔
دونوں طرف کا یقین ہے کہ خطے کی بحالی دونوں طرف کے لوگوں کے قریب ہونے پر ہے۔
یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان، عیسائی اور یہودی ایک ہی ہستی کے پیروکار اور جانشین ہیں (یعنی ابراہم) اور وہ اسی روح کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے اور خطے میں موجوددوسرے مذاہب کا بھی احترام کریں گے ۔
فریقین نے جنوری 2020ء میں امریکی صدر ٹرمپ کے بیان کو یا د کیا جس میں اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن کے قیام کی کوششوں کا عزم کیا گیا ۔
اسی طرح ان تمام معاہدات اور امن کی خاطر کوششوں کا تذکرہ کیا گیا جو اسرائیل اور عرب ممالک کے درمیان ہوئیں اور ان کی تجدید کی گئی۔
ایک دوسرے کے ممالک میں سفارت خانے کھولنے، معاشی معاہدات اوردیگر ذرائع سے ایک دوسرے کے قریب ہونے کا عزم کیا گیا۔

یواے ای کی سرکاری خبررساں ایجنسی وام کے مطابق صدرہرزوگ نے متحدہ عرب امارات کے وزیرخارجہ اور دیگر حکام سے بھی ملاقات کی۔صدرہرزوگ سے قبل وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے دسمبر میں خطے کے تجارتی اور سیاحتی مرکزمتحدہ عرب امارات کا دورہ کیا تھا۔واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین نے 2020ء میں امریکا کی ثالثی میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پرلانے کے معاہدوں پر دست خط کیے تھے۔اُنھیں ’’ابراہم معاہدے‘‘کا نام دیا گیا تھا۔

اسرائیل کا کیا مفاد ہے
سوال یہ ہے کہ خلیجی ممالک سے تعلقات بہتر کرنے سے اسرائیل کو کیا ملے گا؟ مصر اور اردن کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات 1979ء سے پہلے سے موجود ہیں لیکن ان میں کبھی بھی اتنی گرم جوشی نہیں رہی۔مسئلہ فلسطین پر سخت بیانات کا تبادلہ معمول کی بات ہے۔ یہ نئی شروعات اسرائیل کے لیے ایک اہم موڑ ہے، جو کئی دہائیوں سے الگ تھلگ، پورے خطے میں دوستوں کی تلاش میں ہے۔

دوسری اہم وجہ ایران ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایران کے لیے خلیجی ممالک اور اسرائیل میں یہ گرم جوشی پریشانی کا باعث ہے۔

بی بی سی کے نامہ نگار جیرمی بوون کہتے ہیں، ’اسرائیل ایران کو اپنا اولین دشمن سمجھتا ہے۔ نیتن یاہو (سابق اسرائیلی وزیر اعظم) بھی کئی بار ایران کا موازنہ نازیوں سے کر چکے ہیں۔دیگر تجزیہ کار بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ اسرائیل اور خلیجی ممالک کے درمیان قربت کا ایک اہم عنصر ایران ہے۔ ایک بھارتی تجزیہ نگارپنک چکرورتی جو تل ابیب میں رہتے ہیں کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اسرائیل سبھی کا ایک مسئلہ ہے اور وہ ہے ایران کے جوہری ہتھیار۔‘

اسرائیل ویانا میں ایران کے ساتھ ہونے والے جوہری مذاکرات کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ ایران اپنے جوہری پروگرام میں اس حد تک آگے بڑھ گیا ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی جواز نہیں ہے۔ لیکن شاید اُسے یہ پتا نہیں کہ اب ایران کے سامنے امریکا کی وہ اہمیت نہیں رہی اسی لیے ویانا مذاکرات ہوئے ہیں۔

البتہ اس کے علاوہ بھی وجوہات موجود ہیں۔ اسرائیل متحدہ عرب امارات میں اپنی معیشت کے لیے ایک منڈی بھی دیکھتا ہے۔ اسرائیل میں رہنے والے صحافی ہریندر مشرا نے بتایا کہ متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات اور وزیر اعظم کا اس وقت دورہ اسرائیل کے لیے سیاسی اور اقتصادی طور پر بہت اہم ہے۔وہ کہتے ہیں، ’متحدہ عرب امارات کا اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا فیصلہ کافی حیران کن تھا۔ اس کے بعد کچھ دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات ہیں۔ اسرائیل کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اب اُس کی علاقائی تنہائی ختم ہو گئی ہے۔ اردن اور مصر کے ساتھ تعلقات پہلے بھی تھے لیکن ان میں وہ گرم جوشی نہیں تھی۔‘

ستمبر 2020ء میں طے پانے والے اس معاہدے سے قبل کوئی بھی اسرائیلی جہاز خلیج میں کسی بھی ملک کی فضائی حدود سے پرواز نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن پچھلے ایک سال میں ہر روز کئی پروازیں اسرائیل سے دبئی جیسے مصروف ہوائی اڈوں کی طرف موڑ رہی ہیں۔

Check Also

Prof. Dr. Abdul Wajid Khan

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *