Tuesday , March 21 2023
Home / Archive / Joseph Goebbels نازی وزیر برائے پراپیگنڈا جوزف گوئبلز جو جھوٹ کو ’سچ‘ میں بدلنے کا گُر جانتے تھے

Joseph Goebbels نازی وزیر برائے پراپیگنڈا جوزف گوئبلز جو جھوٹ کو ’سچ‘ میں بدلنے کا گُر جانتے تھے

Listen to this article

نازی وزیر برائے پراپیگنڈا

جوزف گوئبلز

جو جھوٹ کو ’سچ‘ میں بدلنے کا گُر جانتے تھے

جرمنی کے سابق ڈکٹیٹر ایڈولف ہٹلر کے پراپیگنڈے کے وزیر جوزف گوئبلز سے منسوب ہے کہ اُنھوں نے کہا تھا کہ ’جھوٹ اِس کثرت سے دہرائو تو وہ سچ لگنے لگے۔‘ اور انھوں نے نازی حکومت میں رہتے ہوئے ایسے ہی کیا اور بہت حد تک، چاہے کچھ عرصہ کے لیے ہی سہی، اِس میں کامیاب بھی رہے۔ جوزف گوئبلز سے جتنا بھی اختلاف کریں لیکن یہ بات سچ ہے کہ آمروں کو ہمیشہ ہی ایسے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا آرٹ جانتے ہوں یا کم از کم جھوٹ کو اتنی مرتبہ ضرور دہرائیں کہ لوگوں کو یہ سچ معلوم ہونے لگے۔ گوئبلز کو بھی ہٹلر نے کچھ ایسا ہی کام سونپا تھا اور اُنھوں نے اپنے ’آقا‘ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اِسے نہایت خوش اُسلوبی سے نبھایا بھی تھا۔

جرمنی میں نازی حکومت کا ظہور، مقبولیت اورعروج پروپیگنڈا کی مرہون منت تھا۔ اِسی ہتھیار سے مخصوص نظریے کی تشہیر اور عوامی پذیرائی و قبولیت کے حصول کی خاطر عوام کی ذہن سازی کی گئی۔ اِس پراپیگنڈا کا استعمال اڈولف ہٹلر کے قریبی ساتھی جوزف گوئبلزنے جو کہ نازی دور حکومت میں پراپیگنڈا وزیر تھا، سے بہتر شاید ہی کسی نے کیا ہو۔

تعارف
جوزف گوئبلز ایڈولف ہٹلر کے دور میں نازی وزیر برائے پراپیگنڈا تھے۔ اُنھوں نے جرمن عوام کو نازی حکومت کی حمایت پر قائل کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران زیادہ تر جرمن عوام کی حمایت کو برقرار بھی رکھا۔ نازی پروپیگنڈا کے سربراہ کے طور پر جوزف گوئبلز نے بہت سے جھوٹ تیار کیے جنھوں نے جرمن عوام کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف نفرت کو بڑھایا۔ یہ گوئبلز ہی تھے جو جرمنوں سے ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ وہ ہٹلر سے اپنی عقیدت کو اور بھی مضبوط بنائیں۔ اُنھوں نے 1933ء میں برلن میں ’غیر جرمن‘ کتابوں کو جلانے کا منصوبہ بھی بنایا اور پھر کتابیں جلانے کے اِس پروپیگنڈا کو پھیلانے کے لیے موشن پکچرز کا استعمال بھی کیا۔

ابتدائی حالات زندگی

جوزف گوئبلز 29 اکتوبر 1897ء کو جرمنی کے شہر راہٹ میں ایک کیتھولک شخص فریڈرک گوئبلز، جو ایک فیکٹری میں کلرک تھے، اور کیتھرینا ماریا اوڈن ہاؤسن کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ پانچ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے۔ اُنھوں نے 1920ء میں ہائیڈلی برگ یونیورسٹی سے جرمن ادب کی تعلیم حاصل کی۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اُنھیں فوجی سروس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا کیوں کہ بچپن میں اُنھیں پولیو ہو گیا تھا اور اِس وجہ سے وہ کچھ لنگڑا کر چلتے تھے۔ یونیورسٹی کے دنوں میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ خیالات کی طرف بھی اُن کا رجحان رہا، جوانی میں اینٹی بورژوا رہے اور نازی پارٹی میں شمولیت سے پہلے وہ یہود مخالف بھی نہیں تھے بلکہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہائی سکول میں جن اساتذہ کی سب سے زیادہ قدر کرتے تھے وہ یہودی تھے، اور اُن کا ایک ایسی لڑکی سے تعلق بھی رہا تھا جو آدھی یہودی تھی۔
گوئبلز کئی دوسرے جرمنوں کی طرح جنگ کے مایوس کن نتائج کی وجہ سے قوم پرستی کے جوش میں مبتلا تھے۔ اُن کی شخصیت مختلف سانچوں میں ڈھلتی ڈھلتی بالآخر ہٹلر کے نازی خیالات کا مرکز بنی اور یہی اُن کا عروج اور یہی اُن کا زوال تھا۔

نازی پارٹی میں شمولیت
جوزف گوئبلز ایک اعلیٰ پائے کے خطیب تھے اور اِسی وجہ سے وہ نازی پارٹی میں آہستہ آہستہ ترقی کرتے رہے جہاں اُنھوں نے کئی اہم ذمہ داریاں نبھائیں۔ نومبر 1926ء میں ہٹلر نے اُنھیں برلن میں نازی پارٹی کا ضلعی رہنما مقرر کیا۔ NSDAP یا نازی پارٹی، باویریا میں قائم کی گئی تھی اور اُس وقت تک جرمن دارالحکومت برلن میں عملی طور پر پارٹی کا کوئی باقاعدہ تنظیمی ڈھانچا نہیں تھا۔ کہا جاتا ہے کہ گوئبلز کی نئی تقرری اُن کے اِس ’دانش مندانہ‘ فیصلے کے مرہون منت تھی جو اُنھوں نے NSDAP کے ’بائیں بازو کے‘ سرمایہ دارانہ دھڑے کے گریگور سٹراسر اور ’دائیں بازو‘ کے رہنما ہٹلر کے درمیان تنازع میں کیا تھا۔ وہ فیصلہ کیا تھا؟ تاریخ دانوں کے مطابق اِس تنازع میں گوئبلز نے اپنے ہی اندرونی عقائد کے خلاف ہٹلر کا ساتھ دے کر موقع پرستی کا مظاہرہ کیا اور ہٹلر کے مزید قریب ہو گئے۔

نازیوں کے اقتدار پر قبضے کے بعد گوئبلز نے قومی پراپیگنڈا مشینری کا کنٹرول سنبھالا۔ اُن کے لیے عوامی روشن خیالی اور پراپیگنڈا کے لیے ایک قومی وزارت بنائی گئی، اور وہ نو تشکیل شدہ ’چیمبر آف کلچر‘ کے صدر بن گئے۔ اِس حیثیت میں وہ پریس، ریڈیو، تھیٹر، فلمیں، ادب، موسیقی اور فنون لطیفہ کنٹرول کرتے تھے اور اِن کے ذریعے پراپیگنڈا چلاتے تھے۔ گوئبلز نے ہٹلر کی شخصیت کے گرد ’فیوہرر‘ (Führer) کی ایک افسانوی تخلیق بنائی تھی اور پارٹی کی تقریبات اور مظاہروں میں اُسے بار بار دہرایا جاتا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد لوگوں کو برین واش کرنا تھا تاکہ لوگ نازیوں کو سراہیں اور ہٹلر کو اپنا مسیحا جانیں اور اِسی کامیاب پراپیگنڈا پالیسی کے نتیجے میں جرمن عوام کی سوچ نازی ازم میں تبدیل ہوتی چلی گئی۔ وہ ایک اچھے لکھاری اور خطیب تو تھے ہی اِس لیے اُن کی لکھی ہوئی تقاریر عوام میں بہت مقبول ہوتی گئیں جس سے اُن کا یہود مخالف جذبہ مزید بڑھ جاتا۔

1929تا 1945: نازی پارٹی کے پراپیگنڈا لیڈر
پراپیگنڈا کی جدید تکنیکوں میں گوئبلز کی مہارت کو دیکھنے کے بعد ہٹلر اُن سے اتنا متاثر ہوئے کہ اُنھوں نے اُنھیں 1929ء میں نازی پارٹی کے لیے پروپیگنڈا کا رائچ لیڈر مقرر کیا۔ گوئبلز نے پراپیگنڈے کے مقاصد کے لیے ریڈیو اور فلم کے استعمال کا آغاز کیا۔ اُنھوں نے نازیوں کی ریلیوں، تقاریر اور دیگر تقریبات کی فلمیں تیار کیں جو میٹنگوں میں دکھائی جانے لگیں۔ اِس کام کا بنیادی مقصد اپنے حامیوں کو مزید متاثر اور متحرک کرنا تھا۔

گوئبلز نے 1932ء میں جرمن صدارت کے لیے ہٹلر کی انتخابی مہم جدید بنیادوں پر چلائی۔ اُنھوں نے اپنے پراپیگنڈے میں دکھایا کہ ہٹلر پورے جرمنی میں لوگوں سے ملنے کے لیے نقل و حمل کے جدید ترین طریقے استعمال کرتے ہیں۔ اگرچہ ہٹلر وہ صدارتی انتخابات ہار گئے لیکن جرمن پارلیمان میں نازی پارٹی کی نمائندگی میں اضافہ ہوا۔ نازی پارٹی 37 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر پارلیمان کی سب سے بڑی جماعت بنی۔

1933 تا 1945: پراپیگنڈا اور عوامی روشن خیالی کی وزارت
جرمنی کے صدر وان ہینڈنبرگ نے مخلوط حکومت بنانے کے بعد ہٹلر کو جرمنی کا چانسلر مقرر کیا۔ 13 مارچ 1933ء کو ہٹلر نے عوامی روشن خیالی اور پراپیگنڈا کی وزارت قائم کی اور گوئبلز کو اِس کا وزیر مقرر کیا۔ پینتیس سال کی عمر کے گوئبلز ہٹلر کی کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر تھے۔
گوئبلز نے نازی خیالات کو پھیلانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم چلائی اور ساتھ ہی نازی عقائد یا حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کے بیانات کو میڈیا پر سینسر کیا جانے لگا۔ اِس طرح دوسری آواز کے عوام تک پہنچنے کا راستہ بالکل بند کر دیا گیا اور جو بھی اُن تک جاتا وہ ہٹلر اور گوئبلز کی مرضی سے جاتا۔ اِس کی ایک بڑی مثال 10 مئی 1933ء کو برلن میں سامنے آئی جب نام نہاد ’غیر جرمن‘ کتابیں جلاتے وقت گوئبلز نے ہمبولڈ یونیورسٹی کے سامنے اعلان کیا کہ ’جرمن روح کی صفائی‘ ہو رہی ہے۔ اُنھوں نے برلن کے اوپرا ہاؤس میں منعقد اس تقریب میں فاتحانہ انداز میں ہجوم سے کہا کہ ’انتہائی یہودی دانش وری کا دور ختم ہو رہا ہے۔‘ نازی طلبا نے جن کتابوں کو جلایا اُن میں یہودیوں، لبرل، بائیں بازو، امن پسندوں اور غیر ملکیوں کی لکھی ہوئی کتابیں شامل تھیں۔ پورے جرمنی میں لائبریریوں کو ہدایت کی گئی کہ غیر ملکی کتابوں سے پاک ہو جائیں۔ گوئبلز جرمن روح اور جرمن اقدار کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو بھڑکاتے رہے۔ اُنھوں نے متعدد مرتبہ اِس بات پر زور دیا کہ جرمن اقدار میں لیڈر کے ساتھ وفاداری اور آریائی نسل کی پاکیزگی سب سے اہم ہیں۔
ایک ’لبرل‘ قدامت پسند

اگر گوئبلز کو ہٹلر کے ساتھ وابستگی سے ہٹ کر دیکھا جائے تو اُن کی بہت سی ثقافتی پالیسیاں کافی حد تک لبرل بھی نظر آتی ہیں، لیکن سیاست میں گوئبلز اپنے مختلف رنگ دکھاتے رہے۔

1937ء اور 1938ء میں گوئبلز کا اثر و رسوخ مختلف وجوہات کی بنا پر ذرا کم ہوا۔ اِس دوران وہ چیکوسلواکیا کی ایک فلم سٹار کے ساتھ محبت کرنے لگے اور اپنے کریئر کو ختم کرتے کرتے رہ گئے۔ لیکن اِس سے پہلے 1931ء میں اُن کی شادی ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھنے والی میگڈا رِٹشل سے ہو چکی تھی جس سے اِن کے چھ بچے ہوئے۔
ایک دن کی جرمن چانسلری اور موت
پومسل اُس وقت گوئبلز کی سیکرٹری ہی تھیں جب دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد گوئبلز نے خود کشی کر لی تھی۔

جب ہٹلر کو خبر ملی کہ اب سب کچھ ختم ہو گیا ہے اور روسی فوجی اُن کے بنکر کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں تو اُنھوں نے اپنی اہلیہ سمیت 30 اپریل کو خود کشی کر لی۔اِس کے بعد ہٹلر کی وصیت کے مطابق گوئبلز نے ایک دن کے لیے جرمنی کے چانسلر کے طور پر خدمات انجام دیں اور اپنے لیڈر کی تقلید کرتے ہوئے خود کو روسی فوجیوں کے حوالے کرنے سے انکار کردیا۔ اُنھوں نے اور اُن کی اہلیہ نے پہلے اپنے چھ بچوں کو زہر (کہا جاتا ہے کہ وہ سائنائیڈ تھا) دیا اور اِس کے بعد دونوں نے اپنی جان لے لی۔

Check Also

Fiscal Federalism

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *