جموں وکشمیر میں مودی کا نیا کھیل
جب وزیراعظم بھارت اور قوم پرست ہندو رہنما نریندر مودی نے 5اگست 2019ء کو ریاست جموں وکشمیر کی برسوں پرانی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کیا تو موصوف کے سامنے خاص مقصد تھا:یہ کہ جیسے یہود نے فلسطین میں اپنے ہم مذہب بسا کر اِس مسلم علاقے کو ہتھیا لیا، اُسی طرح جموں و کشمیر میں اپنے ہم مذہب مہاجر بسا کر اُسے ہندو ریاست بنا دیا جائے۔ اِس چال پر پاکستان نے قدرتاً شدید غم وغصے کا اظہار کیا۔ جموں کشمیر مسلم اکثریتی ریاست تو ہے ہی، یہ تزویراتی (سٹریٹجک) لحاظ سے بھی پاکستان کے لیے اہم ہے۔ پاک سرزمین پہ بہنے والے سبھی بڑے دریا اِسی ریاست سے گزر کر وطن عزیز میں آتے ہیں۔
بھارتی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے خلاف پانی کو بھی بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتی ہے۔ اِس کی مذموم خواہش ہے کہ ریاست میں زیادہ سے زیادہ ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر کر دیا جائے۔ مسئلہ مگر یہ ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے۔ لہٰذا وہاں ڈیم بنا کر پاکستان کا پانی روکنے کی کوششیں ہوئیں تو مقامی کشمیری مجاہدین اُنھیں جب چاہے تباہ کر سکتے ہیں۔ اِسی لیے مودی کی زیر قیادت بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی سرتوڑ سعی ہے کہ جموں وکشمیر میں مسلم قوت کمزور کر دی جائے اور وہاں ہندو اسٹیبلشمنٹ کا پلہ بھاری ہوجائے۔
5اگست 2019ء کے بعد مودی سرکار نے ریاست میں ہندوئوں کی تعداد بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات کیے مثلاً غیر ریاستی ہندو سرکاری ملازمین کو ریاست میں زمین خریدنے اور وہاں بسنے کی اجازت دے دی۔ پورے بھارت کے سرمایہ کاروں کو ریاست میں نئے صنعتی و کاروباری منصوبے شروع کرنے کی دعوت دی۔ ہندووں کو جموں و کشمیر آنے کے لیے پُرکشش مراعات کی نوید سنائی۔ نئے مندر بنانے اور خصوصی کالونیاں تعمیر کرنے کا بھی اعلان ہوا۔
اِن تمام اقدامات کے باعث ہندو ریاست کا رخ کرنے لگے۔ اِسی دوران کورونا وائرس نے بھارت بھر میں وبا پھیلا دی۔ وبا نے جہاں کروڑوں بھارتیوںکو نشانہ بنایا، وہیں ریاست جموں وکشمیر میں ہندوئوں کو بڑی تعداد میں آباد کرنے کا مودی کا پروگرام بھی چوپٹ کر دیا۔
اب مودی کم از کم موجودہ دور حکومت میں ریاست کو ہندو اکثریتی بنانے کا اپنا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں کر سکتا۔ اِسے پورا کرنے کی خاطر مودی کو اگلا الیکشن جیتنا ہو گا۔ شاطر مودی نے بہرحال ہمت نہیں ہاری اور ریاست میں نیا مکارانہ کھیل شروع کر دیا۔ اِسی نئی گیم کے ذریعے بھی وہ جموں وکشمیر میں ہندو طاقت بڑھانا چاہتا ہے تاکہ مسلمانوں کا اثرورسوخ کم ہو سکے۔
مودی کا نیا عیارانہ کھیل یہ ہے کہ جموں میں انتخابی حلقے اور مخصوص نشستیں بڑھانے سے جموں وکشمیر اسمبلی میں ہندو نشستوں کی تعداد بڑھا لی جائے۔ یوں وہ سابقہ ریاست کی اسمبلی پہ قبضہ چاہتا ہے جسے مودی وفاقی علاقے(یونین ٹیریٹوری)کا درجہ دے چکا ہے۔ مودی دھونس، دھاندلی، روپے پیسے اور سبز باغ دکھا کر اپنے مذموم مقاصد پورے کرنے کا ماہر ہے۔ بعید نہیں کہ اِس کی چالوں اور سازشوں کے سبب ریاست میں مسلم آبادی زیادہ ہونے کے باوجود ریاستی اسمبلی میں ہندو اقلیت کو طاقت حاصل ہو جائے۔ یہ مودی کا نیا چمتکار ہو گا جسے انتہا پسند ہندو رام کا اچھوتا روپ(اوتار)قرار دیتے ہیں۔
انگریز حکومت نے 1901ء میں ریاست جموں وکشمیر میں مردم شماری کرائی تھی۔ اِس کی رو سے ریاست کی 74.16 فیصد آبادی مسلم نکلی۔ جب کہ ہندو 23.72 فیصد پائے گئے۔ بقیہ آبادی سکھوں اور بدھوں پر مشتمل تھی۔ بیش تر ہندو جموں ڈویژن میں بستے تھے جہاں اُن کی آبادی 49فیصد تھی۔ جموں میں بھی 51 فیصد مسلمان تھے جب کہ کشمیر ڈویژن (وادی) میں 93.6 فیصد مسلم تھے۔
1947ء میں انتہا پسند ہندوئوں نے جموں میں پانچ لاکھ مسلمان شہید کر ڈالے۔ یوں علاقے میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ نتیجتاً 1961ء میں مردم شماری ہوئی تو ریاست میں مسلم آبادی 68.30 فیصد رہ گئی۔ جب کہ ہندوئوں کی تعداد 28.40 فیصد نکلی۔ جموں وکشمیر میں آخری آدم شماری 2011ء میں انجام پائی۔ اِس کے مطابق ریاست میں 69.34 فیصد آبادی مسلمان تھی۔ جب کہ 28.43 فیصد ہندو پائے گئے۔
2011ء کی مردم شماری کی رو سے کشمیر ڈویژن یعنی وادی کشمیر میں 97 فیصد باسی مسلمان تھے جب کہ ہندو 2فیصد پائے گئے۔ جموں ڈویژن کے 65 فیصد باسی ہندو نکلے اور مسلم آبادی 31فیصد پائی گئی۔ وہاں 4فیصد سکھ بھی بستے ہیں۔ لداخ میں بھی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے۔ 46 فیصد بودھ مت کے پیروکار اور بقیہ ہندو اور سکھ ہیں۔
ماضی میں ریاست تین ڈویژنز اور چودہ اضلاع پر مشتمل تھی۔ کشمیر اور جموں ڈویژنز کے چھ چھ ضلع تھے۔ لداخ ڈویژن دو اضلاع رکھتا تھا۔ کارگل ضلع میں مسلمانوں کی اکثریت تھی جب کہ لیہہ ضلع میں بدھ مت کے پیروکار بکثرت آباد تھے۔ 2006ء میں ریاست میں مزید آٹھ اضلاع بنائے گئے یوں اِن کی تعداد بائیس ہو گئی۔
2011 ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست میں ایک کروڑ 54 لاکھ انسان بس رہے تھے۔ ان میں سے 68لاکھ 88ہزار کشمیر ڈویژن، 53لاکھ 79ہزار جموں اور 2لاکھ 74ہزار لداخ ڈویژن میں مقیم تھے۔ بائیس اضلاع میں سے سترہ میں مسلم آبادی زیادہ تھی۔ اِن سترہ میں سے دس کشمیر، چھ جموں اور ایک لداخ میں واقع تھا۔ جموں کے چار اضلاع میں ہندو اکثریت تھی۔ لداخ کے لیہہ ضلع میں بودھ زیادہ تھے۔ 5اگست 2019 ء کو مودی سرکار نے ریاست کا خاتمہ کر ڈالا۔ جموں اورکشمیر ڈویژن یونین ٹیریٹوری بن گئے جو اب انیس اضلاع رکھتے ہیں۔ دونوں ڈویژنز دس دس اضلاع رکھتے تھے۔
ریاست جموں وکشمیر کی عجب بات یہ ہے کہ وہاں بیش تر آبادی وادی کشمیر میں آباد ہوئی مگر کشمیر ڈویژن کا رقبہ جموں ڈویژن کے رقبے سے کم ہے جہاں افراد کی تعداد کم بستی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جموں کا بیش تر علاقہ پہاڑی ہے۔ جب کہ وادی کشمیر میں جگہ جگہ میدان واقع ہیں۔ کشمیر ڈویژن کا رقبہ 15,946 مربع کلومیٹر ہے۔ اِس ڈویژن میں ہر ایک مربع کلومیٹر میں 450 انسان آباد ہیں۔ جموں ڈویژن کا رقبہ 26,293 مربع کلومیٹر ہے۔ اِس ڈویژن کے ہر ایک مربع کلومیٹر رقبے پر 200افراد بستے ہیں۔ گویا کشمیر ڈویژن میں آبادی کی گنجانی زیادہ ہے جو اچھی بات نہیں۔ گنجان آبادی نئے انتظامی مسائل کھڑے کر دیتی ہے۔
جموں کے زیادہ رقبے کو بنیاد بنا کر ہی مودی سرکار ڈویژن میں مزید انتخابی حلقے قائم کرنا چاہتی ہے۔ بھارتی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق نئے انتخابی حلقوں میں سے پانچ یا چھ جموں اور صرف ایک یا دو کشمیر ڈویژن کو ملیں گے حالاں کہ ووٹروں کی اکثریت کشمیر میں آباد ہے۔ یہ مودی سرکار کی کشمیری مسلمانوں کے ساتھ ایک اور بے انصافی اور کھلم کھلا کیا گیا ایک اور ظلم ہے۔
ریاست میں آخری بار 1994ء میں نئے انتخابی حلقے بنائے گئے تھے۔ اُس وقت بھی جموں وکشمیر میں بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے گورنر راج لگا رکھا تھا۔ تب بھارتی حکومت نے من مانے طریقے سے ریاستی اسمبلی کی نشستوں میں اضافہ کر دیا۔ پہلے نشستیں76تھیں جو بڑھا کر87کر دی گئیں۔ جموں ڈویژن کی نشستیں 32سے 37کی گئیں جب کہ کشمیر ڈویژن کی 42نشستیں تھیں۔ اِن میں اضافے سے وہ 46ہو گئیں۔ لداخ ڈویژن کی نشستیں دو سے چار کی گئیں۔ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کے اِس نئے وار کو کشمیری برداشت کر گئے۔
2002ء میں مختلف وجوہ کی بنا پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے ریاست میں نئے انتخابی حلقے بنانے کا عمل 2026 ء تک کے لیے منجمد کر دیا۔ 5اگست کو ریاست کا خاتمہ ہوا تو یہ حکم بھی کالعدم قرار پایا۔ اگست 2019ء ہی میں جموں وکشمیر میں من مانی انتظامی و سیاسی تبدیلیاں لانے کے لیے مودی جنتا نے پارلیمنٹ سے ’’جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ‘‘منظور کرایا تھا۔ اِسی ایکٹ کے ذریعے مودی سرکار نے مارچ 2021ء میں ایک ادارہ’’جموں وکشمیر ڈی لمیٹیشن کمیشن (Jammu and Kashmir Delimitation Commission) قائم کر دیا۔ اِس کمیشن کے ذمے یہ کام لگایا گیا کہ وہ سابقہ ریاست میں نئے انتخابی حلقے بنا دے۔ اِس کمیشن کا سربراہ سابق ہندو جج ہے جب کہ دیگر ارکان میں مسلم پارٹیوں اور بی جے پی کے رکن اسمبلی شامل ہیں۔
اواخر جون2021ء میں نریندر مودی نے کشمیری مسلم سیاسی پارٹیوں کے رہنمائوں سے نئی دہلی میں ملاقات کی۔ مدعا یہ تھا کہ نئے انتخابی حلقوں کی تشکیل کے سلسلے میں بات چیت ہو سکے۔ تعجب خیز امر یہ ہے کہ مودی نے اکثر کشمیری رہنمائوں کو ذلت آمیز طریقے سے پابند ِسلاسل کر رکھا تھا مگر وہ اقتدار پانے کی تمنا لیے ہنستے مسکراتے مودی سے ملنے پہنچ گئے۔ اِن میں ذرا سی بھی غیرت ہوتی تو ہندو آمر سے ملنے سے انکار کر دیتے۔ آخر اُنھیں علم ہو گیا کہ مودی نئی شاطرانہ گیم کھیل رہا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ فاروق عبداللہ اور دیگر کشمیری رہنمائوں نے جموں و کشمیر ری آرگنائزیشن ایکٹ بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے۔ مگر عرصہ دراز سے اِس بابت کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ دراصل بھارتی عدلیہ بھی مودی سرکار کے تلوے چاٹنے والی غلام بن چکی۔
ملاقات کے دوران مودی نے کشمیری رہنمائوں کو یہ لارا بھی دیا کہ نئے انتخابی حلقے بننے اور مقامی الیکشن ہونے کے بعد ریاست کی خصوصی حیثیت بحال کر دی جائے گی۔ یہ دراصل کشمیری مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی سازش ہے۔ یہ دانہ اِسی لیے پھینکا گیا تاکہ کشمیری مسلمان نئے انتخابی حلقوں کے قیام میں کوئی مزاحمت نہ کریںاور یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچنے دیں۔ جب بھی نئے انتخابی حلقوں کی تشکیل کا کام ختم ہوا، جموں وکشمیر میں مودی سرکار کی قوت کہیں زیادہ بڑھ جائے گی۔
وجہ یہی ہے کہ بھارتی میڈیا کی رو سے بیش تر نئی نشستیں جموں ڈویژن میں وجود میں آئیں گی جو ہندو انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔ تب ڈویژن کی ریاستی اسمبلی میں نشستیں بڑھ کر 47یا 48ہو جائیں گی۔ مزید برآں جموں وکشمیر ڈی لمیٹیشن کمیشن شیڈولڈ کاسٹس (Scheduled Castes) اور شیڈولڈ قبائل (Scheduled Tribes) کے لیے بھی 12 نشستیں مختص کرنا چاہتا ہے۔ بھارت میں یہ دونوں اصطلاحیں نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے ہندوئوں کے لیے مستعمل ہیں۔ بھارتی میڈیا کے مطابق کشمیری پنڈتوں اور پاکستان سے آنے والے مہاجرین کے لیے بھی اسمبلی میں نشستیں مختص کی جائیں گی۔ مزید برآں دو نشستیں خواتین کے لیے مخصوص ہوں گی۔
اِس سارے گورکھ دھندے کا مقصد یہ ہے کہ جموں وکشمیر کی اسمبلی میں ہندو ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ بڑھا دی جائے۔ یوں مودی جنتا اسمبلی پہ قابض ہو کر جموں وکشمیر کی حکومت کو اپنی مٹھی میں لینا چاہتی ہے۔ مودی اپنے عیار ومکار ساتھیوں کے ساتھ مل کر منصوبہ کامیاب بنانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ اِس کی شاطرانہ گیم کے باعث جموں وکشمیر میں مسلمان اکثریت رکھتے ہوئے بھی حکومت کرنے کا حق کھو سکتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم اور اسٹیبلشمنٹ کی عیاری آئندہ مقامی الیکشن میں عروج پر ہو گی۔ اُن کی سرتوڑ سعی ہو گی کہ جموں میں خصوصاً ترغیب وتحریص اور دھونس دھاندلی کی بدولت زیادہ سے زیادہ مسلم حلقوں میں نشستیں جیت لی جائیں۔ وہ بھاری رقم کے بل پہ مسلم ووٹ حتیٰ کہ اُمیدوار بھی خرید سکتے ہیں۔ جموں وکشمیر میں تشدد مودی جنتا کا ہتھیار بن چکا ہے۔ وہ دوران الیکشن یہ ہتھیار بھی اپنے مفادات پورے کرنے کی خاطر استعمال کر سکتی ہے۔ غرض مودی جنتا ہر وہ حیلہ حربہ آزمائے گی جس سے اگلی اسمبلی میں بی جے پی اکثریت پا کر اپنی حکومت بنا لے۔
مودی سرکار کی سازشیں اور چالیں کامیاب ہو گئیں تو یہ جموں و کشمیر کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب ہو گا۔ مسلمانان جموں وکشمیر اپنے رہنمائوں خاص طور پر شیخ عبداللہ کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ قائداعظم نے 1946ء ہی میں شیخ عبداللہ کو خبردار کر دیا تھا کہ تم ہندو حکمرانوں کو نہیں جانتے، وہ کشمیری مسلمانوں کو اپنا محکوم بنا کر ہی دم لیں گے لہٰذا جموں وکشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ مودی سرکار کے کالے کرتوت اور کشمیریوں پہ خوف ناک مظالم بانی ِپاکستان کی چشم کشا پیشین گوئی کو درست ثابت کر چکے۔