ووٹنگ رائٹس بل
امریکی سینٹ قوانین میں ترمیم کا معاملہ
گزشتہ امریکی انتخابات میں ٹرمپ کی طرف سے دھاندلی کے الزامات اور پُرتشدد مظاہروں نے امریکی جمہوریت کا بھرم کھول دیا اور امریکا میں انتخابی اصلاحات اور قوانین میں ترمیم کی بحث شدومد سے جاری ہے۔ حالیہ پیش رفت میں صدر جوبائیڈن نے ’فلی بسٹر‘ کے قانون کو ختم کرنے کی بات کی ہے حالانکہ وہ اس قبل خود اس کے بہت بڑے حمایتی رہے ہیں۔ اِس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں ووٹنگ رائٹس کا قانون بنیادی چیز ہے جو آج سے ستاون سال قبل منظور ہوا تھا لیکن اس کے بارے میں شکو ک و شبہات ابھی تک موجود ہیں۔
امریکا میں ووٹنگ رائٹس ایکٹ یا حق رائے دہی کے قانون پر صدر لنڈن بی جانسن نے 6 اگست 1965ء کو دستخط کیے تھے۔ اگرچہ یہ قانون نافذ ہوئے 56 برس گزر چکے ہیں لیکن آج بھی یہ امریکا کی سیاست میں ایک اہم موضوع ہے۔
اِس قانون کو شہری حقوق سے متعلق امریکی کانگریس سے منظور ہونے والی کامیاب ترین قانون سازی قرار دیا جاتا ہے۔ اس قانون کی منظوری کے چند ماہ بعد ہی حق رائے دہی سے محروم لاکھوں سیاہ فام امریکیوں کے ووٹ رجسٹرڈ ہوگئے تھے۔
بعض ماہرین سیاسیات کے نزدیک یہ قانون سازی امریکا کی تاریخ میں اتنی بڑی ڈرامائی تبدیلی تھی کہ وہ اسے امریکا میں 1861ء سے 1865ء تک کی خانہ جنگی ختم ہونے کے بعد شروع ہونے والے ’تعمیر نو کے دور‘ کے بعد ملک کے لیے ’دوسری تعمیر نو‘ قرار دیتے ہیں۔ اِس قانون کی منظوری کو نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے لیکن ووٹنگ کے حقوق کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس تاریخی قانون سازی کو آج بھی کئی سنجیدہ خطرات لاحق ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس قانون کو امریکا کی مختلف ریاستوں میں منظور کیے جانے والے ایسے قوانین سے خطرہ در پیش ہے جو اس ووٹ کے حق کو محدود کرتے ہیں۔
امریکا میں ووٹنگ کے حقوق پر ہونے والی یہ قانون سازی تاریخ کی اہم پیش رفت سے حال کی سیاست کا اہم موضوع بننے تک کئی تدریجی مراحل سے گزری ہے۔
جب سب کو ووٹ کا حق حاصل نہ تھا
امریکا کا آئین 1788ء میں منظور ہوا تو اس میں تمام شہریوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا۔ البتہ خانہ جنگی کے خاتمے کے بعد 1870ء میں پندرھویں آئینی ترمیم منظور کی گئی جس میں تمام مرد شہریوں کو ’نسل، رنگ یا غلامی کی سابقہ حالت‘ کی تفریق کے بغیر ووٹ کا حق دے دیا گیا۔ لیکن خواتین پھر بھی اس حق سے محروم تھیں۔ خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں حاصل ہوا۔پندرھویں ترمیم کی صورت میں ہونے والی یہ تاریخی پیش رفت اس اعتبار سے عارضی ثابت ہوئی کہ امریکا کے جنوبی ریاستوں میں سیاہ فاموں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے کے لیے تعلیمی اہلیت اور دیگر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ ان اقدامات نے امریکا میں شہری حقوق کی تحریک کو جنم دیا۔
اس تحریک میں فیصلہ کن موڑ 7 مارچ 1965ء کو آیا جب ریاست الاباما کے دارالحکومت منٹگمری کی طرف پُر امن مارچ کرنے والے 600 کارکنان سیلما کے ایک پل پر پہنچے تو پولیس نے اُن پر دھاوا بول دیا۔
نوجوان جون لوئس مارچ کرنے والوں کی رہنمائی کر رہے تھے۔ اُن کی کھوپڑی میں فریکچر ہوا۔ وہ اس واقعے میں زخمی ہونے والے 58 افراد میں شامل تھے۔
بعد ازاں لوئس کا شمار امریکا میں شہری حقوق کے نمایاں ترین آوازوں میں ہوا اور وہ کانگریس کے رُکن بھی منتخب ہوئے۔
’خونی اتوار‘اس واقعے کے مناظر پورے امریکا میں ٹیلی وژن پر نشر ہوئے اور اسے ’بلڈی سنڈے‘ (خونی اتوار) کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔ اس روز نشر ہونے والے ان مناظر کے بعد ملک گیر سطح پر اس واقعے کے خلاف آواز اُٹھائی گئی جس سے ووٹنگ کے حقوق کے لیے نئی قانون سازی کی حمایت میں بھی اضافہ ہوا۔ یو اورلینز کے سابق میئر اور شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیم نیشنل اربن لیگ کے سربراہ مارک موریال کے مطابق اس فیصلے نے ’’ایک کے بعد دوسری ریاست میں‘‘ رائے دہندگان کو دبانے کے لیے ہونے والی قانون سازی کی ’’سونامی‘‘ کو بے لگام کر دیا۔فیصلے کے چند گھنٹوں بعد ہی ریاست ٹیکساس نے فوری طور پر ووٹرز کے لیے تصویری شناخت کی سخت شرط عائد کرنے کا اعلان کیا۔ یہ شرط اس سے قبل ووٹنگ رائٹس ایکٹ کے تحت روک دی گئی تھی۔ ٹیکساس کے بعد دیگر ریاستوں نے بھی اس کی پیروی شروع کر دی۔
لیکن پھر اُسی سال سپریم کورٹ نے سیکشن 2 کے تحت چیلنج ہونے والے ریاست ایریزونا کے دو ووٹنگ قوانین کی توثیق کردی۔
سپریم کورٹ نے جن قواعد کو درست قرار دیا اُن میں سے ایک کسی پریسینٹ (امریکا میں انتخابی حلقہ بندی کی بنیادی اکائی) میں رجسٹرڈ ووٹ کو کسی دوسرے پریسینٹ میں ڈالنے کی صورت میں اسے گنتی میں شامل نہ کرنے سے متعلق تھا۔ دوسرے ضابطے کے مطابق اہل خانہ یا مددگار کے علاوہ کسی اور فرد کے لیے بیلٹ حاصل کرنے کو جرم قرار دے دیا گیا۔
ڈیموکریٹس کا کہنا ہے کہ یہ دونوں قوانین نامناسب انداز میں سیکشن 2 کی خلاف ورزی ہیں اور اقلیتی ووٹروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔البتہ سپریم کورٹ کے چھ قدامت پسند ججوں نے یہ دلیل تسلیم نہیں کی کہ ان قوانین سے رائے دہندگان پر دباؤ بڑھے گا۔
ووٹنگ حقوق کے حامیوں کو تشویش ہے کہ ایریزونا سے متعلق ہونے والے فیصلے سے ووٹنگ کے متعلق دیگر ریاستوں کے قوانین کو چیلنج کرنا مشکل ہوتا جائے گا۔
محکمۂ انصاف نے حال ہی میں جارجیا کے انتخابی قانون کو سیکشن 2 کے تحت چیلنج کیا ہے۔عدالتی فیصلے سے متعلق ’لائرز کمیٹی فور سول رائٹس انڈر لا‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیمن ہیوٹ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے عدالت ہمیں بغیر کچھ کہے یہ بتا رہی ہے کہ وہ نہیں مانتی کہ نسلی امتیاز آج بھی ماضی کی طرح ایک مسئلہ ہے، اس لیے عدالت نہیں مانتی کہ ایسے قوانین کی اب بھی ضرورت ہے۔
عدالتی فیصلے اور خدشات
ووٹنگ حقوق کے حامی حلقوں میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ قدامت پسندوں کے زیر اثر سپریم کورٹ ڈیموکریٹ صدر لنڈن جانسن کے دستخط شدہ اس قانون میں فراہم کیے جانے والے قانونی تحفظ کو بتدریج کمزور کر رہی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کے سابق رُکن اور ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ سیاست دان بیٹ او رک کے مطابق ’’ہمیں پھر انہی قوتوں اور ویسے ہی متعدد انتخابی طور طریقوں کا سامنا ہے جن کی وجہ سے صدر جونسن اور اراکینِ کانگریس کو 1965ء کا ووٹنگ رائٹس ایکٹ منظور کرنا پڑا تھا۔‘‘
ری پبلکن قائدین اور کارکنان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ اُن کے خیال میں ووٹنگ قوانین میں ان کی مجوزہ تبدیلیوں سے انتخابی عمل میں شفافیت بڑھے گی اور ممکنہ بے ضابطگیوں کی روک تھام ہوگی۔
مارچ کے اواخر میں جارجیا کے گورنر بریئن کیمپ نے کہا تھا کہ جارجیا اپنے انتخابات کو مزید محفوظ، قابل رسائی اور شفاف بنانے کی جانب ایک اور قدم بڑھے گا۔
ری پبلکن کے سینکڑوں بل
رواں برس ری پبلکن قانون سازوں نے 49 ریاستوں میں انتخابی اصلاحات کے عنوان سے لگ بھگ 400 بل متعارف کرائے ہیں۔بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والےبرینن سینٹر فار جسٹس کے نزدیک یہ بلز کئی امریکیوں کے لیے ووٹ دینا مزید دشوار بنا دیں گے۔اِن 400 بلز میں سے 30 قانون بن چکے ہیں۔ یہ تعداد 2011ء میں منظور ہونے والے قوانین سے بھی زیادہ ہے جب ری پبلکنز نے اسی طرح بڑے پیمانے پر ایسی قانون سازی کی مہم شروع کی تھی۔
انتخابی قوانین میں ترامیم کی یہ مہم، جسے ناقدین لاکھوں امریکی اور بالخصوص سیاہ فام امریکی اور اقلیتی رائے دہندگان کے ووٹ دینے کے امکانات محدود کرنے کی کوشش قرار دیتے ہیں، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اُن بے بنیاد دعوؤں کے بعد سے زور پکڑ گئی ہے جن کے مطابق نومبر 2020ء میں انتخابی دھاندلی کی وجہ سے وہ دوبارہ منتخب نہیں ہوسکے۔ڈیموکریٹس کے نزدیک رائے دہندگان کے حقوق کو قانونی سطح پر کئی خطرات کا سامنا ہے۔
جولائی کے وسط میں صدر بائیڈن نے ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں خطاب کرتے ہوئے ری پبلکنز کی قانون سازی کی ان کوششوں کو جدوجہد کے بعد حاصل کیے گئے رائے دہی کے حقوق پر حملہ قرار دیا تھا۔
صدر بائیڈن نے انیسویں اور بیسویں صدی میں امریکا میں نسلی بنیادوں پر تفریق کے قوانین اور سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’جم کرو‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اکیسویں صدی میں ’جم کرو‘ کا حملہ حقیقی ہے۔رائے دہندگان کو اُن کے حقوق سے محروم کرنے کی حالیہ کوششوں کے بارے میں بھی یہ اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے۔ صدر کا کہنا تھا کہ ’’یہ چیلنج بہت شدید ہے اور ہم اس سے سختی کے ساتھ نمٹیں گے۔‘‘رائے دہی سے متعلق قانون سازی کے لیے متحرک ری پبلکن حکام اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ ان قوانین کا مقصد ووٹنگ رائٹس کو محدود کرنا ہے۔
اِس کے برعکس وہ کہتے ہیں کہ رائے دہندہ کی شناخت کے لیے سخت شرائط، غیر حاضری میں ووٹ دینے پر پابندی، ووٹر رجسٹریشن فہرستوں کو ختم کرنے اور دیگر تبدیلیوں سے انتخابات میں بے ضابطگیوں کی روک تھام ہو گی اور انتخابی عمل پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔
ٹیکساس کوششوں کا محور
ریاست ٹیکساس ووٹنگ قوانین کو انتہائی سخت کرنے کے لیے ری پبلکن پارٹی کی کوششوں کا محور بنی ہوئی ہے جہاں وہ اس سلسلے میں قوانین منظور کرانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
صدر بائیڈن نے رواں ماہ ووٹنگ حقوق سے متعلق فلڈلفیا میں خطاب کرتے ہوئے اظہارِ خیال کیا۔ٹیکساس میں یہ کوششیں اس تیزی سے جاری ہیں کہ ڈیموکریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے 50 ریاستی قانون ساز صرف اس لیے اپنی ریاست سے واشنگٹن ڈی سی چلے گئے تھے تاکہ کسی نئے قانون پر رائے شماری کے لیے درکار کورم کی شرط پوری نہ ہو اور گورنر گریگ ایبٹ اور ری پبلکن اکثریت یہ قانون منظور کرانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
صدر بائیڈن نے جب ٹیکساس میں ووٹنگ قوانین پر تنقید کی تو اس کے بعد گورنر ایبٹ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ٹیکساس ووٹ دینا آسان اور دھاندلی کرنا مشکل بنا رہا ہے۔
کانگریس میں کیا ہوگا؟
سپریم کورٹ کے فیصلوں کو دیکھتے ہوئے ڈیموکریٹس نے رائے دہی کے حق کے تحفظ کے لیے کانگریس میں دو قوانین متعارف کرائے ہیں۔ ان میں ’جون لوئس ووٹنگ رائٹ ایڈوانسمنٹ ایکٹ‘ کے ذریعے ایک بار پھر ریاستوں میں ووٹنگ کے قواعد میں تبدیلی سے قبل وفاق سے اُن کی توثیق کی شرط عائد کرنے کی تجویز ہے۔
’فور دی پیپل ایکٹ‘ کے عنوان سے دوسری مجوزہ قانون سازی میں زیادہ بڑے پیمانے پر حقوق فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔اس قانون میں رائے دہندگان کی خود کار رجسٹریشن، جرائم کی وجہ سے منسوخ ہونے والے حق رائے دہی کی سزا کی تکمیل کے بعد بحالی اور قبل از وقت اور غیر حاضری میں ووٹنگ کے حق کے لیے اقدمات تجویز کیے گئے ہیں۔ری پبلکن ان مجوزہ قوانین کے سخت خلاف ہیں اور ان کی وجہ سے رواں سال یہ تجاویز منظور نہیں ہوسکیں۔ جب تک صدر بائیڈن سینیٹ میں ان مجوزہ بلوں پر جاری طولانی بحث کو، جسے امریکی قانون سازی کی روایت میں ’فلی بسٹر‘ کہا جاتا ہے، ختم کرنے کی حمایت نہیں کرتے، اُس وقت تک سینیٹ میں ڈیموکریٹس قانون سازی کے لیے مطلوبہ 60 ووٹ حاصل نہ کرپائیں گے۔
دوسری جانب ووٹنگ رائٹس کے لیے کام کرنے والے کارکن پُراُمید ہیں کہ تمام رکاوٹوں کے باوجود امریکا میں 2022ء کے وسط مدتی انتخابات میں رائے دہندگان بڑی تعداد میں ووٹ ڈالیں گے جس طرح ریکارڈ تعداد میں وہ 2020ء میں ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے تھے۔