اقوام متحدہ فاریسٹری چیمپین
عالمی یوم جنگلات
بلاشبہ اس وقت دنیا کا سب سے سنگین مسئلہ ماحولیاتی تبدیلیاں ہیں جو روزبروز شدید ہوتی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے کئی عزم اور وعدے کیے گئے جن کی اُمید پر اب دنیا قائم ہے۔ اقوام متحدہ اس پر عمل درآمد کے لیے آئے روز معاہدے کروا رہی ہے لیکن ابھی تک عمل درآمد سست روی کا شکار ہے۔ 2012ء میں اقوام متحدہ نے 21مارچ کا جنگلات کا عالمی دن قرار دیا تاکہ اس سلسلے میں توجہ مرکوز کرکے آگاہی پھیلائی جاسکے۔ اس میں اقوام متحدہ کے دوادارے جنگلات فورم (Forum on Forests)اور غذا اور زراعت کی تنظیم (Food and Agriculture Organization)یعنی FAOسرگرم ہیں۔
جنگلات کے حوالے سے عالمی طرزعمل
ماحولیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ فریم ورک کنونشن میں کانفرنس آف پارٹیز 26کا سب سے اہم نتیجہ یہ تھا کہ دنیا کے 85فیصد جنگلات رکھنے والے 105ممالک نے جنگلات اور زمین کے استعمال پر لیڈرزکے اعلامیہ پر دستخط کیے۔ اعلامیے نے ان ملکوں کو پابند کیا کہ وہ 2030ء تک جنگلات کی کٹائی اور زمین کی بربادی کاعمل بند کریں ۔ یہ پیش رفت گرین ہائوس اثر کو کم کرنے کے لیے تھی؛ علاوہ ازیں یہ اُن آبادیوں کے لیے بھی اہم تھی جن کا مدار جنگلات پر ہے اور یہ دنیا کی آبادی کا 25فیصد بنتے ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ 2020ء کا سال جنگلات کی کٹائی کے حوالے سے بدترین قراردیا گیاہے۔
فارسٹ پالیسی کے سربراہ جو بلیک مین کا کہنا ہے کہ جن ملکوں نے گلاسگو میں جنگلات کے تحفظ کا عزم کیا ہے اُنھیں چاہیے کہ وہ اس کام کے لیے اپنے ملک میں قانون سازی کروائیں تاکہ اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قانون کے تحت زد میں لایا جاسکے خاص طور پر جو کمپنیاں لکڑی کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ اوریہ بھی کہ جس رقم کا فارسٹ فنڈ کے لیے وعدہ کیاہے وہ ناکافی ہے۔ انڈونیشیا کے صدر نے کہا کہ اُن کے ملک کے لاکھوں لوگ اپنی روزی جنگلات سے ہی کماتے ہیںاس لیے بڑے ممالک کی طرف سے جنگلات پر پابندیوں کو اس تناظر میں بھی دیکھنا چاہیے ۔ انڈونیشیا کے وزیر ماحولیات نے کہا کہ 2030ء تک انڈونیشیا میں جنگلا ت کی کٹائی کو مکمل ختم کرنے کی بات کرنا بالکل بھی مناسب نہیں۔ چھوٹے ملکوں کا یہ بھی اعتراض سامنے آیا کہ ہمارے جنگلا ت کو سب سے زیادہ امیر ملکوں نے برباد کیا ہے اب وہ ہم پر پابندیاں کیسے لگاسکتے ہیں۔
پاکستان کا طرز عمل
اِس سارے تناظر میں پاکستان کا مؤقف مثبت رہا اور پاکستان کی موجودہ حکومت نے اپنے منشور میں یہ بات رکھی تھی کہ وہ سونامی ٹری کا منصوبہ زیرعمل لائے گی۔ اس چیز کے پیش نظر گلاسگو کانفرنس میں اقوام متحدہ نے پاکستان کو فارسٹری چیمپین قراردیا۔ پاکستان کے ساتھ کوسٹا ریکا اور کانگو کو بھی یہ اعزاز دیا گیا۔ اس کی وجہ پاکستان کا ایک پروگرام تھا جس پر ابھی پوری طرح سے عمل شروع نہیں ہوا۔ اس اعزاز کے بعد پاکستان پورے خطے میں اس پوزیشن میں ہے کہ دوسرے ملکوں کی بھی اس سلسلے میں رہنمائی کرسکے۔ موجودہ حکومت نے آتے ہی ایک پروگرام شروع کیا تھا جس کا نام ’’کلین گرین پاکستان‘‘ تھا۔ اس کا آغاز وزیراعظم عمران خان نے 13اکتوبر 2018ء کو کیا تھا جس کے تحت ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے تمام اقدامات کرنے کا عزم کیا گیا تھا۔ ظاہری بات ہے اس میں بنیادی توجہ جنگلات کی طرف تھی۔ اس عزم نے پاکستان کے لیے یہ اعزاز حاصل کیا۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں دنیا کو درپیش ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلہ پر بات کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ترقی یافتہ ملکوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ترقی پذیر ملکوں کی پوری مدد کرنی چاہیے۔اس موقع پر اُنھوں نے کہا ’میں تمام قوموں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ عمران خان کی مثال کی پیروی کریں جنھوں نے صرف پاکستان میں 10 ارب درخت لگانے کا عہد کیا ہے۔‘
پاکستان کا دس بلین درخت منصوبہ
پاکستان کا دس بلین درخت کا منصوبہ دنیا کے لیے ایک کشش رکھتا ہے۔ جیسا کہ بیان ہوا کہ یہ موجودہ حکومت کے منشور میں بھی شامل تھا اور اس پر عمل درآمد بھی ہورہا ہے۔خیال رہے کہ بلین ٹری سونامی منصوبہ تحریک انصاف کی خیبر پختونخوا میں پہلی صوبائی حکومت کے دور میں شروع ہوا تھا۔بلین ٹری سونامی منصوبے کے لیے 2013ء میں ٹاسک فورس بنائی گئی تھی۔ تاہم اس منصوبے کا باقاعدہ آغاز 2015ء میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کیا تھا۔ عمران خان کی جانب سے اس ماحول دوست منصونے کا عالمی سطح پر مختلف ماحولیاتی تنظیموں کی جانب سے بھی اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔
یہ دس بلین درختوں کا ہدف پانچ برس کے لیے ہے۔
پلان کے مطابق پہلے تین سال میں 3.2 بلین درخت لگائے جائیں گے۔
حکام کے مطابق اگلے سال جون تک ایک بلین درخت لگا دیے جائیں گے۔ اس ایک بلین کے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دسمبر تک 20 کروڑ درخت لگائے جائیں گے اور پھر مزید 30 کروڑ درخت جون تک لگا دیے جائیں گے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے ماحولیات ملک امین اسلم کے مطابق اس وقت تک پاکستان 50 کروڑ درخت لگا چکا ہے۔
واضح رہے کہ ورلڈ بینک نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان میں ایسے چھ اضلاع کی نشاندہی بھی کی ہے جہاں اگر شجرکاری نہ کی گئی تو وہ 2050ء تک ریگستان بن جائیں گے۔
برطانیہ کی طرف سے پاکستان کے لیے 55ملین پونڈ کا پیکیج
پاکستان کو ماحولیاتی چیلنج سے نمٹنے کے لیے برطانیہ نے 55ملین پونڈ دینے کا وعدہ کیا ہے۔ حقیقت میں پاکستان کا ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے کا آٹھواں نمبر ہے اور اسے ماحولیاتی تحفظ کی اشد ضرورت ہے۔ جنگلات کی بڑھوتری اس کا ایک بہت بڑا حصہ ہے۔ اس درجہ حرارت کے ساتھ اس صدی کے آخر تک پاکستان کے 36فیصد گلیشیرز ختم ہونے کا امکان ہے جو ایک تباہ کن صورت حال ہوگی۔
برطانیہ نے 55ملین پونڈ کی امداد تین مدوں میں خرچ کرنے کے لیے دی ہے :
1۔ 38ملین پونڈکی رقم ایک پانچ سالہ منصوبے کے لیے دی جارہی ہے جس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف تحفظ کے لائحہ عمل پر کام کیا جائے گا۔
2۔ 15ملین پونڈ کی رقم ایک اور پانچ سالہ منصوبے کے لیے ہے جس میں پانی کے نظام کو بہتربنایا جائے گا، اس میں صاف پانی کی فراہمی اور ہرجگہ پانی کی فراہمی شامل ہے۔
3۔ اضافی 2.5ملین پونڈ کی رقم اس لیے کہ نیچرپرفارمنس بانڈ بنایا جائے۔
گلاسگو کانفرنس کے لیے جو مہم چلائی گئی اس میں بھی پاکستان نے بھرپور کردار ادا کیااور 26پاکستانی کمپنیوں نے اس بات کا عزم کیا کہ 2030ء تک اپنا کاربن اخراج کم اور 2050ء تک مکمل ختم کردیں گی۔ کانفرنس سے قبل برطانیہ پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرتا رہا ہے اور اب تک پاکستان کو اس مد میں 7ملین پونڈکی رقم دے چکا ہے۔
برطانیہ نے لاہور میں ایک پروگرام بھی شروع کیا ہے جس میں اینٹ بنانے والے کارخانوں کو تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ اینٹ بنانے کے عمل میں کاربن اخراج کو کم سے کم کیا جاسکے۔