Wednesday , March 22 2023
Home / Archive / Local body elections in Punjab پنجاب میں بلدیاتی انتخابات

Local body elections in Punjab پنجاب میں بلدیاتی انتخابات

Listen to this article

پنجاب میں بلدیاتی انتخابات

قانون سازی کے سلسلہ میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے بعد بلدیات یا لوکل گورنمنٹ کا نام آتا ہے جو اپنے محدود علاقے میں بنیادی نوعیت کے معاملات طے کرتی ہے۔ چوں کہ بلدیاتی اداروں یا نمائندوں کا تعلق کسی خاص علاقے یا حلقہ سے ہوتا ہے تو وہ کمیونٹی کے بنیادی مسائل سے مکمل طور پر آگاہ ہوتے ہیں اس لیے اُن کے حل کے لیے بھی بہت مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ پوری دنیا میں سب سے مضبوط اور کارگر مقامی حکومت کا نظام ہے۔ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے دنیا میں سب سے زیادہ کام یہی ادارہ کرتا ہے کیوں کہ مقامی حکومت کا اصل موضوع ہی عام لوگوں کے بنیادی مسائل ہیں اور یہ ادارہ ان کو حل کرنے میں دیگر اداروں کی نسبت انتہائی کامیاب اور مؤثر سمجھا جاتا ہے۔

بلدیاتی اداروں کے نمائندے چوں کہ اسی کمیونٹی سے منتخب ہوئے ہوتے ہیں اور اپنے مخصوص حلقہ کے لوگوں کو ہی جواب دہ ہوتے ہیں لہٰذا جمہوریت کی اصل روح بلدیاتی ادارے ہی ہوتے ہیں۔ قومی اور صوبائی نمائندے اگرچہ یہی عام لوگ منتخب کرتے ہیں لیکن اُن تک اپنے کام کے سلسلہ میں رسائی صرف خاص لوگوں کو ہی میسر آتی ہے اسی لیے وہ کسی خاص علاقے کے بنیادی مسائل سے کما حقہ آگاہی حاصل نہیں کر سکتے۔ مقامی حکومت کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن پاکستان میں اگر کسی جمہوری ادارے کو سب سے کم اہمیت دی گئی ہے یا اسے سب سے زیادہ نظر انداز کیا گیا ہے تو وہ یہی بلدیاتی ادارے ہیں جنھیں نہ تو کبھی کھل کر کام کرنے دیا گیا ہے اور نہ ہی اسے دیگر جمہوری ممالک کی طرح اختیارات تفویض کیے گئے ہیں۔ اُلٹا مرکزی یا صوبائی حکومت مختلف حیلوں بہانوں سے مقامی حکومت کے اختیارات اپنے ساتھ مخصوص کرلیتی ہیں۔

اکثر و بیشتر بلدیاتی اداروں کو طویل دورانیے کے لیے معطل بھی رکھا گیا ہے جب کہ بحالی کے دنوں میں بھی قومی اور صوبائی اراکین اسمبلی کی سیاسی مداخلت نے اُنھیں کامیابی سے چلنے نہیں دیا۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں سب سے زیادہ تجربات اگر کسی ادارے پر کیے گئے ہیں تو وہ بلدیاتی ادارے ہیں۔فوجی حکومتوں نے اس ادارے کو اپنے انداز میں چلانے کے لیے کبھی اس کا پورا ڈھانچا ہی تبدیل کر دیا اور جمہوری حکومتوں نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات پر اپنا کنٹرول رکھنے کے لیے اس کو اپنے انداز میں محدود اختیارات کے ساتھ چلانے کی کوشش کی۔ ملکی تاریخ میں کم و بیش پانچ مرتبہ بلدیاتی نظام میں تبدیلیاں لائی گئی ہیں اور حالیہ حکومتی مدت میں ایک بار پھر بلدیاتی ادارے تبدیلیوں کی زد میں ہیں۔

موجودہ صوبائی حکومت نے تحصیل کونسلز، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹیوں اور ٹائون کمیٹیوں کا نظام ختم کر دیا گیا ہے۔ پنجاب میں 11میٹروپولیٹن کارپوریشنز ہوں گی اور پہلی بار گجرات اور سیالکوٹ کو بھی میٹروپولیٹن کارپوریشن میں شامل کیا گیا ہے۔ لاہور میں صرف میٹروپولیٹن کارپوریشن ہو گی اور لاہور میں اس کے علاوہ دیگر کوئی سیٹ اپ نہیں ہو گا جب کہ دیگر 10میٹروپولیٹن کارپوریشنز میںدیہی علاقوں کے لیے ڈسڑکٹ کونسلز ہوں گی۔ دیگر 25اضلاع میں صرف ڈسڑکٹ کونسلز ہوں گی اور کوئی میونسپل کمیٹی یا ٹائون کمیٹی نہیں ہو گی۔ نچلی سطح پر شہروں میں نیبرہڈ کونسل اور دیہی علاقوں میں ویلج کونسل ہو گی۔ ڈسڑکٹ کونسلز میں تحصیل کی نمائندگی ڈپٹی مئیر کے ذریعے ہو گی جو براہ راست ووٹوں سے منتخب ہو کر ڈسڑکٹ کونسل کا حصہ ہوں گے۔ اس سارے سسٹم کو اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے تو دیہی علاقوں میں نچلی سطح پر ویلج کونسل اور اس کے بعد ڈسڑکٹ کونسل کا نظام رائج ہو گااور شہروں میں نچلی سطح پر نیبرہڈ کونسلز، میٹروپولیٹن کارپوریشن اور ضلع کونسل کا نظام نافذ کر دیا گیا ہے۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور کا سربراہ لارڈ مئیر جب کہ دیگر شہروں کے سربراہ مئیر کہلائیں گے۔

ایک ویلج کونسل کے لیے ووٹرز کی تعداد 12ہزار سے 15ہزار کے درمیان رکھی گئی ہے جس میں تقریباًتین سے چار گائوں شامل ہوں گے۔ ویلج کونسل کے کل ممبران کی تعداد 13ہو گی جس میں ایک چیئرمین، ایک وائس چیئرمین، ایک ایک کسان، نوجوان،خاتون اور اقلیتی ممبر ہوں گے اور اس میں جنرل کونسلر کی تعداد 7 ہو گی۔ اِسی طرح شہری علاقوں کی نیبرہڈ کونسل کے لیے ووٹرز کی تعداد 25 سے 30 ہزار کے درمیان رکھی گئی ہے۔ نیبرہڈ کونسل کی تشکیل بالکل ویلج کونسل کی طرح ہی رکھی گئی ہے یعنی 13ممبران پر مشتمل ہو گی۔

بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ کوئی اُمیدوار آزاد حیثیت سے الیکشن نہیں لڑ سکتا۔ تحریک انصاف کی حکومت نے لوکل گورنمنٹ کا جو نظام پنجاب میں پیش کیا ہے اس کے لیے عوام کی فلاح و بہبود کے حوالے سے جو تجاویز مختلف حلقوں کی جانب سے پیش کی گئی تھیں اُنھیں مدنظر رکھا گیا ہے۔ انڈونیشیا اور سنگاپور کے مقامی حکومت کے نظام کو پاکستان کے لیے مثالی قرار دیا گیا تھا۔ حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے قانون میں اس کا عکس نظر آتا ہے۔ یہ ماڈل دنیا کے 102ممالک میں بڑی کامیابی سے چل رہا ہے۔

پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں مئیر کا انتخاب براہ راست عوام کے ووٹوں سے ہو گا اور اس حوالے سے عوام سے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہونے سے مئیر سب سے بڑا عہدہ ہو گا جس کو ووٹر خود منتخب کریں گے۔ اگر دیکھا جائے تو پاکستان کے تمام آئینی اور انتظامی عہدے عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب نہیں ہوتے جیسے صدر کو منتخب کرنے کا انتخابی ادارہ بھی عام عوام نہیں۔ اِسی طرح وزیر اعظم اور وزرائے اعلی بھی براہ راست عوام سے منتخب نہیں ہوتے۔ اس لیے میئر براہ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا سب سے بڑا عہدہ ہو گا۔ اگر سندھ کے بلدیاتی نظام میں مئیر کے براہ راست انتخاب کی گنجائش ہوتی تو میئر کراچی پاکستان کا سب بڑا عوامی نمائندہ ہوتا جسے خود عوام منتخب کرتے لیکن سندھ نے اپنے قانون میں ایسی کو شق نہیں رکھی۔ یہ اعزاز پنجاب کے شہر لاہور کو ہی حاصل ہو گا کہ اس کا لارڈ مئیر سب سے بڑا عوامی نمائندہ ہو گا۔ لارڈ میئر منتخب ہونے والے شخص کا مستقبل کافی روشن بھی گا کیوں کہ دنیا میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ بڑے شہروں کے براہ راست منتخب ہونے والے افراد بعد ازاں ملکی سطح پر بڑے عہدوں پر براجمان ہوئے جن میں ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب ایردوان ہیں جو اس سے پہلے استنبول کے مئیر تھے اور فرانس کے سابق صدر شیراک بھی صدر منتخب ہونے سے قبل پیرس کے میئر تھے۔

پنجاب لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2021ء کے تحت بلدیاتی الیکشن الیکٹرانگ ووٹنگ مشینوں کے ذریعے کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق الیکشن کمیشن نے جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ انتخابات کروانے پر رضا مندی کا اظہار کیا ہے بشرطیکہ وفاقی یا صوبائی حکومت ان مشینوں کو خود تیار کروائے۔ صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے دوران اڑھائی لاکھ مشینیں درکار ہوں گی۔
خیبر پختونخوا کی طرح پنجاب میں بھی بلدیاتی انتخابات دو مراحل میں کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں جنوبی پنجاب کے ساتھ گوجرانوالہ اور جہلم میں انتخابات کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان علاقوں کے انتخابی دنگل کے نتائج کی روشنی میں ہی دوسرے مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں گے۔ ان میں دیگر اہم علاقے جن میں لاہور کی میئر شپ کا انتخاب بھی شامل ہے میں انتخابی دنگل منعقد ہو گا۔ اگر پہلے مرحلے والے علاقوں میں حکمران جماعت کو کامیابی مل جاتی ہے تو پھر خیال کیا جا سکتا ہے کہ لاہور کا میئر بھی تحریک انصاف کا ہی ہو گا۔ پنجاب کے حالیہ بلدیاتی انتخابات اس حوالے سے بھی اہمیت کے حامل ہیں کہ اگلے سال اکتوبر میں ہونے والے قومی انتخابات کی صحیح صورت حال پنجاب کے بلدیاتی انتخابات سے ہی واضح ہو گی لہٰذا مقتدر ادارے بھی پنجاب کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا بنظر عمیق جائزہ لینے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔

For Magazine Subscription Please visit our Facebook Page or WhatsApp on 0302 5556802

For Institute’s Information, please join our Facebook Page or you can contact us on 0302 5556805/06/07

For Books Order please Visit our Facebook Page or WhatsApp us on 0302 5556809

You can follow us on Twitter too

 

Check Also

15 Japanese Concepts

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *