Monday , March 27 2023
Home / Archive / International Women’s Day عالمی یوم نسواں

International Women’s Day عالمی یوم نسواں

Listen to this article

عالمی یوم نسواں

 عالمی اور پاکستانی قوانین کا تناظر

حقوق نسواں کے بارے میں آئے روز قانونی حوالے سے کوئی نہ کوئی پیش رفت ہوتی رہتی ہے۔ جدید دنیا میں یہ ایک لاینحل مسئلہ بن چکا ہے اور بے شمار قانون سازی بھی اسے کسی طرف نہیں لگا سکی۔ البتہ غیر ترقی یافتہ ممالک میں معاشرے کے تحفظ کے ساتھ ریاستی قوانین ایک بہتر تحفظ فراہم کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں ایک مجموعی تجزیے کے ساتھ پاکستان میں حقوق نسواں کے ضمن میں ہونے والی حالیہ قانون سازی کا ایک جائزہ لیا جا ئے گا۔

مسئلہ کیا ہے؟
سوال یہ ہے کہ حقوق نسواں کا کی تحریک کا آغاز جس دور میں ہوا اُس کی خصوصیات کیاہیں، یعنی یہ جاننا چاہیے کہ اس سے قبل یہ تحریک کیوں نہ چلی۔ اس دور کی بنیادی خصوصیت انسانی سوچ کی بالادستی ہے جس میں انسانی کردارکو محور بنایا گیا۔ دوسرے لفظوں میں غیبی طاقتوں کو انسانی کردار سے خارج کردیا گیا۔ اسی بنا پر مرد عورت کے تعلقات میں آنے والے مذہبی ضابطے رد کردیے گئے اور انسانی سوچ کو دنیا کی کاوشوں میں کھپا دیا گیا۔ اسی تناظر میں عورت کو مرد سے ایک الگ وجود قراردے کر اُس کی حیثیت کو متعین کرنے کی کوشش کی گئی۔ظاہری بات ہے مذہبی قوتیں اتنی آسانی سے اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی تھیں ۔ اس بنا پر ایک تحریک چلی جس میںعورت کے حق کا پرچار کیا گیا اور اس کے لیے حقوق طلب کیے گئے۔

عورتوں کے حقوق کے لیے جلسے، جلوس اور احتجاج تو بیسویں صدی کے آغاز سے مختلف ملکوں میں شروع ہوگیا تھا۔ البتہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ نے اس کے لیے ایک دن مخصوص کردیا اور آج تک 8مارچ کو عورتوں کے حوالے سے منایا جاتا ہے۔
حقوق کا تعین
 عورت کے حقوق کا تعلق اُس کی مشکل اور سخت زندگی سے جڑا ہوا۔ روایتی دور یا اب روایتی معاشروں میں اُس کے ذمہ گھر اور بچوں کی تربیت ہوتی ہے ۔ یہ کام جتنا عظیم ہے اُتنا ہی مشکل بھی۔ شاید یہاں تک کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتا لیکن جب اس کام کے ساتھ عورت کو مزید کسی نارواسلوک کا نشانہ بنایا گیا تو وہاں سے حقو ق کی بات چل نکلی۔ یعنی عورت کے حقوق کا سوال اس پر ہونے والے ظلم سے پیدا ہوا۔
روایتی دور اور معاشروں کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ عورت کوآپس کی دشمنی کے بدلے کو طور پر نشانہ بنانا تھا۔ خاص طور پر جنگوں میں عورتوں کا اغوا اور جنسی جرائم بہت بڑے مسائل سمجھے گئے اور ان چیزوں کو بہیمانہ ظلم کے زمرے میں شمار کیا گیا۔ یہ رویے عورت کی انتہادرجے کی بے حرمتی اور ذلت کے مظہر ہیں۔ حقوق نسواں کے علم بردار جنگی جرائم اور خاندانی دشمنیوں کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتےہیںاور عورت کو ہر صورت میں اس سے چھٹکارا دلانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ہر سال 25نومبر کو عورتوں پر تشددکے خاتمے کے دن کے طورپر منایا جاتاہے۔

قانون کی راہ
یہ ساری چیزیں مرد کی بالادستی کے باعث ہیں۔ عورت کی عزت اور عصمت کی نسبت مرد سے ہونا ہی وہ چیز ہے جو عورت کو مختلف مسائل کا نشانہ بناتی ہے۔ جنگوں اور خاندانی دشمنی میں عورت کی تذلیل اُس کے کفیل مرد سے انتقام لینے کے لیے ہی کی جاتی ہے۔ اس لیے عورت کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ اُس کی الگ پہچان اور بااختیار حیثیت کا قائم ہونا ہے۔ یعنی وہ مرد کے حوالے سے نہ پہچانی جائے بلکہ اُس کا حوالہ اپنا ہو۔یا یوں کہنا چاہیے کہ جو کام مرد کا حق سمجھے جاتے ہیں اُنھیں عورت کا بھی حق سمجھا جائے اور جو جو کام مرد پوری آزادی سے کرسکتے ہیں، عورت بھی اُسی طرح اور ویسی ہی آزادی سے اُنھیں کرسکے۔ لامحالہ حقوق نسواں کا اولین تقاضا یہی بات ہے۔ میراجسم میری مرضی کا نعرہ اسی بات کا غماز ہے۔
 

ریاستی قوانین کا معاملہ
مرد سے ہر معاملے میں برابری کی بات اتنی سادہ نہیں ۔ لیکن تقاضے کے مطابق مطالبہ اس کے سوا کچھ ہونہیں سکتا۔ عورت کا مرد جیسے کام کرنا ویسا ماحول پیدا نہیں کرتا جو مردوں کا آپس میں ہوتا ہے۔ دنیا میں ہرجگہ عورت کو ہراسگی کا سامنا ہے ۔ جدید دور میں مردوں کی بہت زیادہ تربیت کرنے کے باوجود غالب عنصر عورت کو اجنبی نظر سے ہی دیکھتا ہے۔ لیکن کیوں کہ حق دار اپنے حق سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ تھے اس لیے یہ کام ریاست کے سپرد کیا گیاکہ عورت ہر وہ کام کرے گی جو مرد کرتے ہیں اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اُسے ہراسگی سے بچایا جائے۔ جدید ریاست نے اسے اس حد تک قبول کیا کہ اگر کوئی عورت سرعام جنسی خواہش کو پورا کرنا چاہے تو اُسے مکمل تحفظ دیا جائے گا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں یہ بات واضح ہے کہ بغیرشادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں کے ہوتے ہیں اور اسی طرح ایسی ماں کو بھی مکمل تحفظ مہیا کیا جائے گا۔ عمرانی علوم اب طوائف کا نام بھی عزت سے لیتے ہیں اور اسے ‘Sex worker’ کہا جاتا ہے۔
دوسرے لفظوں میں ریاست نے اس کے لیے قوانین مرتب کیے اور انھیں سختی سے لاگو کیا۔ پہلے پہل تو یہ سلسلہ یورپ اور امریکہ تک رہا پھر روایتی ممالک کو بھی اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ اس کے لیے قانون سازی کریں ۔ اب سعودیہ عرب تک عورتوں کو کھیلوں تک میں آنے کی اجازت دے چکا ہے۔ اگر قانون سازی کی بات کی جائے تو حقوق نسواں کی تحریک نے یہ مرحلہ کامیابی سے جیت لیا ہے۔

پاکستان میں حقوق نسواں سے متعلق حالیہ قانون
انسانی حقوق کے حوالے سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے دسمبر 2021ء میں حقوق نسواں کے حوالے سے ایک اور قانون منطوری کے لیے پیش کیاجس میں ہراسگی کی تعریف اور دائرہ کار کو وسعت دی گئی اور اس کے خلاف 90دن کے اندر اندر کارروائی کو یقینی بنانےپر بھی زور دیا گیا ہے۔ یہ سفارشات انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری کی طرف پیش کی گئیں۔ اُنھوں نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس سے قبل ہراسگی، کام کی جگہ اور ملازم کی تعریف بہت محدود تھی جس سے بہت سے چور دروازے نکل آتے تھے لیکن اب اُنھیں تفصیل کے ساتھ بیان کیا جارہا تاکہ اس قانون کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنایا جائے۔

یہ بل سینیٹ سے پاس ہونے کے بعد 14جنوری 2022ء کو قومی اسمبلی سے بھی پاس ہوچکا ہے ۔اس کا نام Protection against Harassment of Women at the Workplace (Amendment) Act, 2022 ہے۔ پاکستان میں دفاتر یا کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراسانی سے تحفظ کا قانون 2010ء میں پاس کیا گیا تھا تاہم وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قانون میں سقم سامنے آ رہے تھے اور تشریح کے اعتبار سے ترامیم کی ضرورت پیش آ رہی تھی۔

اِس بل میں کھیل کے میدان میں عورتوں کو بھی اس میںشامل کیا گیا ہے۔ اِسی طرح سٹوڈیو اور گھروں میں کام کرنے والی عورتیں بھی اب اس بل کا سہارا لینے کے قابل ہوں گی۔پہلے اس قانون میں کسی روایتی اور باضابطہ ادارے یا دفتر میں کام کرنے والے افراد کو ملازم کی حیثیت حاصل تھی جب کہ نئے مسودے میں ’ملازم‘ کی قانونی تعریف میں فری لانسرز، فن کار، پرفارمرز، کھلاڑی، طلبہ، آن لائن کام کرنے والے افراد، گھریلو ملازمین، انٹرن، یومیہ، ہفتہ وار یا ماہانہ اُجرت پر کام کرنے والے Contract یا بغیر Contract کے کام کرنے والے افراد کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے جو کسی کے پاس بنا کسی اُجرت کے بھی کام کرتے ہیں۔

اِسی طرح پہلے ہراسگی سے مراد جنسی ہراسگی تھا لیکن اب ایساکوئی بھی عمل جو کام کرنے کی جگہ پر کسی خاتون کے لیے ناقابل برداشت ہو وہ شامل ہوگا۔ اسی طرح اس میں صنفی بنیاد پر فرق کو بھی ہراسگی میں شامل کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اب اس میں خواتین کے ساتھ ساتھ خواجہ سرا اور بچے بھی شامل ہوں گے کہ اگر اُنھیں اسی طرح کی کسی حرکت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ بھی شکایت کرسکتے ہیں۔
ترمیم کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس سے قبل دائر کیے جانے والے مقدمات میں کام کرنے کی جگہ اور ملازم کی تعریف سے متعلق تشریح کو اُلجھا دیا جاتا تھا، اب ہر چیز کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا گیا ہے۔

اس کے مطابق سرکاری ملازم اگر ہراسگی میں ملوث پایا گیا تو اس کی نوکری کی برخاستگی یا ترقی رُک جانے کی سزا مل سکتی ہے جب کہ کھیل کے میدان اور اس طرح پروفیشنل فیلڈ میں لائسنس منسوخ کردیا جائے گا۔
یہ اُمید کی گئی کہ اس بل کی بدولت خواتین زیادہ سے زیادہ باہر کے کاموں میں شریک ہوسکیں گی اور اپنے آپ کو محفوظ خیال کرکے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گی۔

مشکلات کیا ہیں؟
سب سے بڑی مشکل فطری خواہشات کا ریاستی قوانین سے ٹکرائو ہے۔ روایتی دور میں فطری خواہشات کو سماجی قوانین کے ذریعے لگام ڈالنے کااہتمام کیا جاتا تھا جس کے لیے خاندان اورمحلہ مرکز ہوا کرتے تھے۔ اس میں ہونے والی کمی بیشی کو برداشت نہ کرتے ہوئے معاملہ ریاست کے حوالے کردیا گیا۔ ریاست اپنی رٹ صرف طاقت کے ذریعے نافذ کرسکتی ہے اور طاقت قانون نافذ کرنے والے اداروں کےپاس ہوتی ہے۔ ظاہر ہے قانون نافذ کرنے والے ادارے فرشتوں کی فوج نہیں جو ہروقت ہر جگہ موجود ہو۔ اس کا دائرہ کار بہت محدود ہے۔ابھی تک فطری خواہشات ریاستی قوانین کے آگے ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہیں۔

تجربات کیا ہیں؟
مغرب کی دگر گوں صورت حال میں بہتری کی خاطر اقوام متحدہ نے 1975ء میں خواتین کا عالمی دن منانا شروع کیا۔ اس کے دو سال بعد باقاعدہ قرارداد منظور کر کے تمام ارکان ممالک میں حقوق نسواں کی بحالی کے لیے یوم خواتین منعقد کرنے کی روایت ڈالی گئی۔ 2020ء میں یوم نسواں پر اقوام متحدہ کا نعرہ تھا: ’’ میں مساوات پر یقین رکھنے والی نسل ہوں جو کہ خواتین کے حقوق کومساوات کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گی۔‘‘

ریاست کی رٹ نے خاندان کے ادارے کو بہت کمزور کردیا۔ خاندان کے کمزور پڑنے سے عصمت کا تصور بھی کمزور پڑگیا کیوں کہ اس کا براہ راست محرک خاندان ہی تھا جیسا کہ اوپر تجزیہ کیا جاچکا۔ اس کے باعث معمولی ہراسگی نظر اندا ز ہونے لگی کیوں کہ یہ سب کچھ عصمت کے تصورسے تھا۔ سنگین ہراسگی کی صورت میں حل صرف پولیس ایکشن تھا کیوں کہ اب خاندان ا س کا ذمہ نہیں لیتا۔ افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ریاست کنارے پر ہی رہی کیوںکہ اُس نے جو قوانین بنائے وہ عورتوں کے حفاظت کے لیے ناکافی تھے۔اس پر کئی بار احتجاج بھی ہوچکا ہے کہ جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں ترمیم کی جائے۔ یہ احتجاج یورپ کی بات ہے نہ کہ کسی غیر ترقی یافتہ ملک کی۔ مثال کے طور پر مزاحمت نہ ہونے کی صورت میں جنسی زیادتی کا کیس نہیں بنتا۔ اس طرح تحفظ صرف ایک ہی مہیا کیا گیا کہ اگر موقعہ پر پولیس پہنچ جائے تو عورت کو بچایا جاسکتا ہے، بعد میں فردجرم عائد کرنا ہی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائے گا۔

نتائج کیا ہیں؟
خاندان کو کمزور کرنے کے بہت سنگین مسائل سامنے آئے۔ امریکا کی کچھ رپورٹس کے مطابق اب لڑکیاں اپنے باپ کے ہاتھوں جنسی جرائم کا شکار ہیں لیکن اُن کی اکثریت اسے ظاہر نہیںکرتی۔ شادی کا ادارہ تو بالکل ہی کہیں کا نہ رہا۔ جدید دنیا میں اب مرد عورت کی کفالت نہیں کرتا بلکہ دونوں اپنا کما کر کھاتے ہیں۔ ویسے بھی ریاستی قوانین کے ہوتے ہوئے شادی کا قائم رہنا ممکن نہیں۔ شادی میں بہر حال سربراہ مرد ہوتا ہے جو کہ جدید قوانین کے خلاف ہے۔یہ شادی کی بنیادی خصوصیت ہے۔ اس کے ختم ہوجانے سے ظاہر ہے شادی کا ادارہ کیسے قائم رہ سکتا ہے۔ شادی کی حوصلہ شکنی کی وجہ سے جنسی جرائم کو بہت زیادہ فروغ ملا ہے۔

پاکستان اور روایتی اسلامی ممالک کی صورت حال
پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک میں ایک عجیب فضا پائی جاتی ہے۔ یہاں عورت کی مکمل آزادی کے حمایتی بہت کم ہیں ۔ البتہ محدودآزادی کے خواہاں وہ لوگ بھی ہیں جو بنیادی طور پر روایتی سمجھے جاتے ہیں۔ ان ملکوں میں دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ خود عورتوں میں ایسے طبقات پائے جاتے ہیں جو مغرب کی مادرپدر آزادی کے خلاف ہیں اور عورت کے روایتی انداز کی حمایت کرتے ہیں بلکہ ان کے پرچارک ہیں۔ ان ممالک میں ایسی عورتیں جو بظاہر ماڈرن لگتی ہیں وہ بھی بے محابا مردوں کے ساتھ اختلاط کو پسند نہیں کرتیں۔ یہاں پردے کا تصور اتنا گہرا ہے کہ ماڈرن خواتین بھی علامتی طور پر اسے ضروراختیار کرتی ہیں۔ خاص طور پر عبادات میں عورت کے لیے لازمی لباس کی سب ہی پابندی کرتے ہیں۔ مغرب کا جواب دینے کے لیے یہاں پڑھے لکھے طبقوں نے یہ نظریہ اختیار کیا کہ اسلام نے عورت کو وہ حقوق بھی دیے ہیں جن کا مغرب پرچار کرتا ہے۔ اس لیے اصل چیز اسلام کی تعلیمات کو اُن کی روح کے مطابق عمل کرنا ہے۔ ایک اسلامی معاشرے میں عورت کی حق تلفی نہیں ہوسکتی۔ اس نظریے پر اسلامی ممالک کا ایک بہت بڑا طبقہ یقین رکھتا ہے اس لیے حقوق نسواں کے حوالے ایسے جذبا ت عوامی سطح پر دیکھنے کو نہیں ملتے جو مذہب سے بے زاری پر مشتمل ہوں ۔

اسلامی ممالک کے حکمرانوں تک عورت کے پردے کے قائل ہیں اور اس وقت پاکستان اور ترکی جیسے ممالک کے سربراہان مملکت کی ازواج روایتی پردے کو اختیار کیے ہوئے نظر آتی ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے وزیر مذہبی اُمور نورالحق قادری نے وزیراعظم کو خط لکھا ہے کہ یوم نسواں پر ہونے والے عورت مارچ پر پابندی لگائی جائے کیوں کہ یہ اسلام کی اخلاقی اقدار کے بالکل برعکس ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے خود بھی ایک مرتبہ خواتین کے لباس کے حوالے سے کچھ خیالات کا اظہار کیا تھا جس میں اُنھوں نے ایسے لباس پر تنقید کی تھی جو جنسی رُجحان کا حامل ہو۔ اس پر اُن کو لبرل حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن ظاہر ہے پاکستان اور اس جیسے کسی بھی اسلامی ملک کا بڑا طبقہ لبرل نہیں ہے۔ اس حوالے سے ترکی کی مثال بہت اہم ہے۔ وہاں لبرل طبقہ واقعتاً یورپ کے مکمل طرز زندگی کو اختیار کیے ہوئے ہے یعنی عورتیں مکمل یورپی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ لیکن دوسری طرف روایتی طبقہ بھی اسی قدر ہے اور اپنے عقائد میں سخت ہے۔ ترکی میں اس حوالے سے خاصی کش مکش بھی پائی جاتی ہے لیکن دونوں طبقے اپنی جگہ موجود ہیں۔ البتہ اب زیادہ وزن روایتی طبقے کے پلڑے میں ہے کیوں کہ موجود صدر طیب اردوان روایتی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترکی کا یہ رجحان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جہاں لبرل طبقہ حقوق نسواں کے یورپی ماڈل کو رائج کرنا چاہتا ہے وہاں روایتی طبقہ اپنے ماڈل کو لے کر ڈٹ کر کھڑا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فکری جنگ طبقات کے درمیان ہے نہ حکومتوں کے درمیا ن اور اسلامی ممالک میں اس کا فیصلہ عوام کررہے ہیں۔ اگر حکومتوں کی بات کی جائے تو اُن کی قانون سازی مغرب کے حقوق نسواں کے ماڈل کے مطابق ہے۔ اس لحاظ سے روایتی طبقے کی ساکھ زیادہ مضبوط معلوم ہوتی ہے کیوں کہ وہ بغیر کسی حکومتی طاقت کے اپنے پیچھے چلنے والے عوام کو اپنی روایت پر پختہ طریقے سے چلا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک میں رائج ہونے والے قوانین جو حقوق نسواں سے متعلق ہیں معاشرے میں اپنا اثر نہیں رکھتے۔

For Magazine Subscription Please visit our Facebook Page or WhatsApp on 0302 5556802

For Institute’s Information, please join our Facebook Page or you can contact us on 0302 5556805/06/07

For Books Order please Visit our Facebook Page or WhatsApp us on 0302 5556809

You can follow us on Twitter too

 

Check Also

World in Focus (DEC-JAN 2022-23)

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *