عمران خان کا دورہ چین
نئے اُفق
بیجنگ اولمپکس: امریکااور بھارت کا بائیکاٹ
عمران خان کا حالیہ دورہ چین کئی حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ بیجنگ میں ہونے والے اولمپکس اس حوالے سے اہم ہیں کہ امریکا اور بھارت نے اس کا بائیکاٹ کیا ہے۔ امریکاکے ساتھ امریکا کے حواریوں نے بھی اس کا بائیکاٹ کیا ہے لیکن پاکستان نے اس میں شمولیت اختیار کی ہے اور پاکستان کے کھلاڑی دستے کو خصوصی طور پر خوش آمدید کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے سب سے بڑی پیش رفت یہ ٹھہری کہ اب پاکستان امریکا سے ڈکٹیشن نہیں لے رہا اور نہ ہی اسے امریکا کی کسی ناراضگی کی پرواہ ہے۔ یہ بات آج سے پہلے سوچی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ ابھی دوسال پہلے کی بات ہے کہ ملائشیا میں ہونے والے سمٹ میں پاکستان نے اس لیے شرکت نہ کی تھی کہ خلیجی ممالک اس کی راہ میں حائل تھے حالاں کہ پاکستان نے خود اس سمٹ کی تجویز دی تھی۔ لیکن اب صورت حال یہ ہے کہ خلیجی ممالک امریکا کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن پاکستان نے ان سب کو نظر اندا ز کرتے ہوئے چائنا کے دورے کو قبول کیا۔ یاد رہے کہ کھیلوں کے بائیکاٹ کا یہ سلسلہ نیا نہیں۔ 1980میں امریکا نے ماسکو اولمپکس کا اس لئے بائیکاٹ کیا تھا کیوں کہ روس نے افغانستان پر حملہ کررکھا تھا جب کہ اس کے جواب میں روس نے 1984میں ہونے والے لاس اینجلس اولمپکس کا بائیکاٹ کیا تھا۔
یہ تو کھیل ڈپلومیسی تھی اور اس ڈپلومیسی کے پیچھے اصل ہدف پاکستان کے مسائل تھے اور ان میں سرفہرست معاشی مسائل ہیں۔ چائنا بھی سی پیک سے حاصل ہونے والے فوائد کے پیش نظر اس دورے کو بہت اہمیت دے رہا ہے۔ امریکا کے برخلاف عمران خان کا دورہ چین چائنا والوں کی نظروں میں ایک بڑی بات ہے اس لیے عمران خان کو عزت سے نوازا گیا۔ یاد رہے کہ اس سے قبل چائنا کو یورپ سے تجارت کرتے ہوئے ایک کنٹینر کا چار ہزار یورو بھرنا پڑتا تھا جبکہ سی پیک اور گوادر کے ذریعے اسے ایک کنٹینر کا صرف پندرہ سو یورو خرچ آئے گا۔ مجموعی طور پر دیکھیں گے تو یہ رقم اربوں میں چلی جائے گی۔ وزیراعظم کے دورہ چین کی درج ذیل کامیابیوںکو گنوایا جاسکتا ہے۔
قرض کے معاملات
قرض کے حوالے سے یہ خبر خوش آئند ہے کہ مارچ میں دی جانے والی تین ارب ڈالر کی قسط کو موخر کردیا گیا ہے۔ اتنی بڑی رقم کے اداکرنے میں سہولت لازمی طور پر پاکستانی کے لیے آسانی پیدا کرے گی۔ دورہ چین کی یہ ایک بڑی کامیابی شمار ہوسکتی ہے۔
فریم ورک ایگریمنٹ
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے اس دورہ کے دوران انتہائی ضروری ’’صنعتی تعاون پر فریم ورک ایگریمنٹ‘‘ پر دستخط کیے گئے جسے CPEC منصوبے کے تحت تعلقات کے حوالے سے سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ یہ فریم ورک معاہدہ چین اور دنیا کے دیگر حصوں سے پاکستان میں خصوصی اقتصادی زون (SEZs) میں صنعتوں اور سرمایہ کاری کی منتقلی میں سہولت فراہم کرے گا۔ یہ معاہدہ CPEC کے دوسرے مرحلے اور اس کے مستقبل کے لائحہ عمل کے لیے ایک اہمیت کا حامل ہے۔ صنعتی تعاون 2016 میں CPEC کے تحت قائم کیے گئے 10 مشترکہ ورکنگ گروپس میں سے ایک ہے اور 2018 میں پاکستان کے بورڈ آف انویسٹمنٹ (BOI) اور چین کے نیشنل ڈویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن (NDRC) کے درمیان اپنے متعلقہ ممالک کی نمائندہ سرکردہ ایجنسیوں کی حیثیت سے ایم او یو (MoU) پر دستخط کیے گئے تھے۔ جیسے ہی CPEC اپنے دوسرے مرحلے میں داخل ہوا، جامع فریم ورک معاہدے کی ضرورت ناگزیر ہو گئی۔ لہٰذا، MoU کو ایک فریم ورک معاہدے میں تبدیل کرنا دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی زیادہ سے زیادہ صلاحیتوں کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ایک بروقت اقدام ہے۔ معاہدہ خیبرپختونخوا میں رشکئی SEZ، پنجاب میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی پروجیکٹ، سندھ میں دھابیجی SEZ اور بلوچستان میں بوستان SEZ کی جلد تکمیل پر بنیادی توجہ کے ساتھ نو خصوصی اقتصادی زونز کی ترجیحی ترقی اور آپریشنز پر زور دیتا ہے۔ اس کے علاوہ تین چینی کمپنیوں کے کنسورشیم نے گوادر میں دو سے تین سالوں میں 3.5 بلین ڈالر کا ری پروسیسنگ پارک اور لاہور قصور روڈ پر 350 ملین ڈالر کی لاگت سے 100 ایکڑ اراضی پر مشتمل ایک ٹیکسٹائل کلسٹر قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
فریم ورک ایگریمنٹ اس دورے کی اہم ترین پیش رفت ہے ۔ اس کے مطابق دونوں ملک صنعتی تعاون کو آگے بڑھائیں گے اس طرح کہ براہ راست سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کریں گے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ کسی حکومت یا بینک کے ذریعے سرمایہ آنے کی بجائے کمپنیاں براہ راست سرمایہ کاری کریں گی ۔یہ ایک مشکل مرحلہ بھی ہے کیوں کہ اس کے لیے ان کمپنیوں کو یہ یقین دہانی کرانی پڑے گی کہ ان کا سرمایہ محفوظ ہے اور وہ اس سے منافع بھی کما سکیں گے۔ اس کے لیے وزیر اعظم نے اپنے دورے کے دوران تقریباً اٹھارہ چینی کمپنیوں سے میٹنگ کی اور انہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دی۔ جن کمپنیوں کے ساتھ وزیراعظم نے بات چیت کی ان میں چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی، ہوازونگ ٹیکنالوجی ،سے جیانگ سی پورٹ گروپ، چیلنج اپرل، ہونان سنواک گروپ، چائنا روڈ اینڈ برج کارپوریشن، زینگ بانگ گروپ اور چائنا مشینری انجنئیرنگ کارپوریشن زیادہ اہم ہیں۔
ایم ایل ون منصوبہ
ریلوے کا ایم ایل ون منصوبہ بھی اس دورے میں اہمیت کا حامل رہا۔ اس پر 8.7ارب ڈالر لاگت آئے گی جو کراچی کو پشاور کے ساتھ تیز رفتار ٹرینوں کے ذریعے جوڑ دے گی۔ یہ ٹرینیں 200کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتا ر سے چلیں گی۔ اس منصوبے کے حوالے سے سول اور ملٹری قیادت پرعزم ہے اور اسے کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے تمام تر تیاری رکھتی ہے۔