تعلیم و تربیت میں ہم آہنگی
تعلیمات نبوی ﷺ کی روشنی میں
تعلیم وتربیت کا عمل کسی معاشرے، تہذیب یا نظام کا بنیادی ستون ہوتا ہے۔ لہٰذا بنی نوع انسان کی ان اجتماعی اکائیوں کی کامیابی کا انحصار تعلیم و تربیت کے نظام کی درستی اورصیقالت پر ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم وتربیت کا تصور جملہ شعبہ ہائے زندگی تک محیط ہے۔ لہٰذاکسی نظام میں تعلیم وتربیت کی نوعیت کا تعین اِسی بات سے ہوتا ہے کہ انسانی زندگی کے کس شعبہ کو نظام تعلیم کا محور بنایا جاتاہے۔اسی چیز سے کسی نظام میں تعلیم وتربیت کا مفہوم اور مقاصد بھی طے پاتے ہیں۔اسلام میں تعلیم وتربیت کا محور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان ہے اور اسی عقیدے سے تعلیم و تربیت کا اسلامی نظام مشتق ہے۔ زیر نظر تحریر میں اسلام کے نظام تعلیم و تربیت پر مختلف پہلوئوں کے حوالے سے بحث کی جائے گی۔
تعلیم و تربیت میں ہم آہنگی کا مفہوم
تعلیم و تربیت میں ہم آہنگی کو دو طرح سے لیا جاسکتاہے۔ اولا ً یہ کہ تعلیم صرف معلومات کے منتقل کرنے کا نام نہ ہو بلکہ یہ معلومات انسانوں کے کردار کو تعمیر کرنے میں بھی معاون ثابت ہوں۔ اُن معلومات کی نوعیت کیا ہواس کی بحث آگے آئے گی۔ تعلیم و تربیت میں ہم آہنگی کا دوسرا پہلو یہ ہوسکتاہے کہ دنیا کے ماضی اور حال میں کارفرما مختلف تعلیمی نظاموں کی خوبیوں کو کس طرح سے ایک اسلامی نظام تعلیم کی تشکیل میں بروئے کار لایاجائے؟ ان دونوں مفاہیم کو طے کرنے میں ہمیں سیرت رسول ﷺ سے جو اشارہ ملتاہے وہ ہے مکارم اخلاق کا اتمام۔ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا ایک بنیا دی مقصد مکار م اخلا ق کی تکمیل کرنا تھا جس سے مراد یہ ہے کہ بنی آدم کی صفت انسانیت کو اوج کما ل تک پہنچانے کے لیے جملہ خوبیوں کو اپنایا جانا۔ مکارم اخلاق کے اس اُصول کو اگرتعلیم و تربیت پر لاگو کیا جائے تو اس کے قائم کردہ دونوں مفاہیم کی تشریح اس ایک تناظر میں کی جاسکتی ہے۔لہٰذا اپنی بحث میں ہم دونوں مفاہیم کو مدنظر رکھیں گے۔
علم اور تعلیم کی لغوی تحقیق
علم بالفتح پیدا کرنا اور جو کچھ کہ احاطہ آسمان میں ہے اور علم بالکسر جاننا، علوم جمع اور کبھی علم بمعنی معلوم کے بھی آتا ہے اور علیم اسم فاعل ہے علم بالکسر سے یعنی جاننے والا۔ باب افعال سے تعلیم سکھانا اور آگاہ کرنا ، تعلم سیکھنا اور جاننا اور مضبوط کرناکام کا اور اسی سے ہے حدیث من تعلم القرآن اور علوم مدونہ علم صرف ہے اور علم نحو، علم لغت، علم معانی، علم بیان کہ آلات ہیں علوم دینیہ کے اور علوم دینیہ علم قرات ہے اور علم تفسیر اور علم حدیث اور علم فقہ اور علم فرائض اورعلم اُصول اورعلم کلام اور علوم دنیا سے ہے علم عروض ،قافیہ ، ہندسہ وغیرہ۔
بحث کا دائرہ کار
تعلیم و تربیت کا تصور مختلف مگر باہم پیوست نظریات کے ربط کا نام ہے جنھیں اگر صحیح طور پر آگے بڑھایا جائے تو ایک عمدہ تہذیب اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ ان تصورات میں سب سے پہلا تصور علم کا ہے ۔ اس سے اگلا مرحلہ علم کے پھیلانے اور اُسے منتقل کرنے کا ہے جسے کہ تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔ تعلیم کے عملی نتائج پیدا کرنے کا نام تربیت ہے اور مجموعی طور پر تعلیم و تربیت کا شعور ایک تہذیب کو جنم دیتاہے۔ دوسری طرف اگر ایک جگہ مختلف طریقہ ہائے تعلیم پائے جاتے ہیں یا افراد مختلف مضامین کو تخصص حاصل کرنے کے لیے اپناتے ہیں تو ان سے فارغ ہونے والے افراد کو ایک وحدت میں پرونے کے لیے ایک بنیا دی محور کا ہونا ضروری ہے۔ ان تمام تصور ات کا تجزیہ اور تشریح تعلیم وتربیت کے نظام میں ہم آہنگی کے تقاضوں کو سمجھنے میں مدد دے گا۔
علم کی حقیقت، مقاصد اور فرضیت کا تعین
علم کی فضیلت کے بارے میں بہت کچھ کہا اور لکھا جاتا ہے اور مسلمانوں کے لیے تو اسے فرضیت کا درجہ حاصل ہے لیکن یہ بحث خال ہی نظر سے گزرتی ہے کہ بذات خود علم کیا چیز ہے۔ ہم مسلمان قرآن کی عظمت کے بہت قائل ہیں لیکن جو شخص اس ساری کتاب کو سینے میں محفوظ کرتا ہے ہم اُسے اُس وقت تک پڑھا لکھا ہونے کی سند عطا نہیں کرتے جب تک وہ کسی ادارے سے گریجویشن کی ڈگری کا ٹکڑا نہ حاصل کرلے۔ اسی طرح ہم ’پڑھے لکھے جاہل ‘ کی اصطلاح بھی عام سنتے ہیں۔ یہ تضاد کہ قرآن کو حفظ کرنے والا پڑھا لکھا نہیں اور دوسری طرف ایک پڑھے لکھے کو جاہل کہا جاتا ہے ، حل طلب چیز ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو قرآن میں ’اُمی‘ کے لقب سے پکارا گیا (سورہ اعراف، 157) جس کے معنی پڑھے لکھے نہ ہونے کے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ پڑھے لکھے نہیں تھے اس کی تصدیق پہلی وحی نازل ہونے کے واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ جب فرشتے نے کہا کہ پڑھئے اپنے رب کے نام سے تو آپﷺ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ ان کی یہ صورت حال زندگی بھر رہی۔صلح حدیبیہ کے موقع پر جب قریش نے آپ کے نام کے ساتھ رسول اللہ کے الفاظ پر اعتراض کیا اور اُنھیں مٹانے کو کہا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مٹانے سے انکار کردیا۔ اُس وقت رسول اللہﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ مجھے دکھائو میرا نام کہاں لکھا ہے؛ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نشاندہی کی تو آپﷺ نے اپنی اُنگلی سے وہ الفاظ مٹادیے۔ جب کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں۔ اور یہ حقیقت بھی ہے کہ رسول اللہﷺ کے اقوال علم و حکمت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں۔ وہ زندگی کے ہر پہلو سے ایک کامیاب انسان تھے۔ اسی طرح تاریخ میں سے اور مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں کہ اَن پڑھ ہونے کے باوجود لوگوں نے کامیاب زندگیاں گزاریں۔ مغلوں میں اکبر بادشاہ باقاعدہ پڑھا لکھا نہیں تھا۔ جب اُس کا باپ ہمایوں فوت ہوا تو اُس کی عمر 13برس تھی اور ہندوستان کی حکومت تقریباً ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ اکبر کے سرپرست بیرم خان نے ایک جگہ اینٹوں کا چبوترہ بناکر اُس کی تاجپوشی کی تھی۔ اکبر کی خوش قسمتی تھی کہ بیرم خان تخت کے لیے جنگ جیت گیا ۔ اکبر نے اس کے بعد تقریباً 50سال حکومت کی اور جب وہ فوت ہوا تو سارے ہندوستان پر اُس کی حکومت تھی۔مغلوں میں سب سے زیادہ مضبوط حکومت اکبر کی ہی تھی۔ اس سے ثابت ہوا کہ لازمی نہیں کہ ایک اَن پڑھ شخص جاہل ہو اور اسی طرح لازمی نہیں کہ ہر پڑھا لکھا شخص علم رکھتا ہو۔ اسی لیے ہم ’پڑھے لکھے جاہل‘ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ یہاں سے سوال پیدا ہوتا کہ پھر اُس علم کو کیا کہا جائے گا جو سکول اور کالج میں دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ہم معلومات (Information) کے الفاظ استعمال کرسکتے ہیں اور یہ علم کے منتقل ہونے کا عمل ہے اس کے پیدا ہونے کا عمل نہیں ہے جب کہ حقیقی علم وہ ہے جو اپنے شعور اور مشاہدے سے پیدا کیا جائے۔ علم کے اس طرح سے منتقل کرنے کو ہم تعلیم کہتے ہیں۔ یہ علم کو حاصل کرنے کا ایک راستہ تو ضرور ہے لیکن زیادہ لوگ اسے تعلیم کی سطح تک ہی محدود رکھتے ہیں اور علم کی حقیقت کو بہت کم لوگ ہی حاصل کرپاتے ہیں کیوں کہ اس کے لیے گہرے غوروخوض کی ضرورت ہوتی ہے جس کی طرف ہر شخص کا میلان نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اسلامی دنیا کوئی نئی ایجاد اور کوئی نئی دریافت نہیں کررہی؛ سب کچھ باہر سے آرہا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہم اپنی زندگیاںاور نظام دوسروں کی فراہم کردہ معلومات کے سہارے چلار ہے ہیں جب کہ باہر کی دنیا اپنے مشاہدے اور غوروخوض کو مسلسل عمل میں لارہی ہیں۔ یہ مسئلہ ہر شعبہ کا ہے۔اسی طرح ایک چیز ہنر بھی ہے جسے ہم Skillیا Technologyکہہ سکتے ہیں۔ یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ اگر ایک چیز کی تربیت حاصل کی گئی ہے تو وہ تعلیم ہے جسے پیشہ ورانہ تعلیم کہا جاتا ہے ۔ علم وہ اُس وقت کہلائے گا جب کوئی تربیت حاصل کرنے والا اس میں نئے طور طریقے متعارف کرائے گا۔
علم کے مقاصد
علم کے اچھے اور برے دونوں طرح کے مقاصد ہوسکتے ہیں۔ اوپر کی مثالوں کو ہی لے لیں تو رسول اللہ ﷺ کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل کرنا تھا۔ اِسی لیے احادیث مبارکہ اخلاقیات کے ایسے نادر اور عمدہ تصورات پر مبنی ہیں جن کی اخلاقیات پر مبنی صحیفے کوئی مثال پیش نہیں کرسکتے ۔ اکبر اور رنجیت سنگھ کے متعلق بیان کیا جاچکا کہ وہ اپنے وقت کے کامیاب حکمران تھے لیکن اپنی حکمرانی کے لیے انسانوں کا قتل روا رکھتے تھے ؛ لہٰذا یہاں آکر اُن کا علم مذموم مقاصد کی طرف گامزن ہوجاتا تھا۔ یہ سلسلہ آج کی ’متمدن ‘دنیا میں بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ باریکیوں میں انسان اس حد تک پہنچ گیا کہ ذرے کا دل چیر کر اُس سے خورشید کا لہو نکال لیا یعنی ایک ایٹم سے بے بہا توانائی پیدا کرلی لیکن اُس کا تجربہ انسانوں کے دو ہستے بستے شہروں پر کیا گیا جو پل بھر میں خاک اور خون میں نہا گئے(ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکہ کا حملہ)۔ ترقی یافتہ اقوام اپنے علم کی بدولت جس طرح سے تیسری دنیا کو اپنی معاشی جارحیت کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں وہ محتاج بیان نہیں۔ یہ تو تھا علم کے مقاصد کا ایک اجمالی جائزہ۔ اب یہ بات پیش نظر ہے کہ علم کا مقصد کیا ہونا چاہئے؟ اس چیز کا تعین بھی علم کی تعریف ہی کرتی ہے۔ جس دل ودماغ کے غور وفکر سے ہم علم کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں؛ اُسی دل ودماغ کی درستی علم کا مقصد ہونا چاہیے۔ دل و دماغ کی اس کیفیت کو ضمیر کہتے ہیں۔ یعنی اپنے ضمیر کی اصلاح علم کا اولین مقصد ہونا چاہیے۔ اس ضمیر کی اصلاح سے ایک اچھا انسان بنتا ہے لہٰذا اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ علم کا مقصد ایک اچھا انسان بنانا ہے۔ لہٰذا رسول اللہ ﷺ سب سے پہلے ایک اچھے انسان تھے۔ اپنے چالیس سال کے شب وروز سے اُنھوں نے جس چیز میں نام پیدا کیا وہ تھا صدق اور امانت داری جو کہ ایک انسان کی سب سے عمدہ خصوصیات ہوتی ہیں۔ اسی طرح ایک حکمران کو سب سے پہلے ایک اچھا انسان ہونا چاہیے پھر اچھا حکمران۔ایسا ہرگز نہ ہو کہ اپنی حکمرانی کے لیے وہ لوگوں کی جان کے درپے ہوجائے۔ یہی معاملہ بقیہ شعبوں کے ساتھ ہے۔ ــــــــــــــــــــــــــــــ
علم کی فرضیت کا مفہوم۔۔۔اسلامی نظام تعلیم کا محور
اسلام میں علم کے حصول پر بہت زور دیا گیا ہے حتی کہ اسے ہر مسلمان کے لیے فرض قرار دیا گیا۔ اب جاننا چاہیے کہ وہ کون سا علم ہے جسے ہر کسی کا حاصل کرنا ضروری ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی بھی علم ایسا نہیں ہے(علم کی کی گئی تعریف کے مطابق) جو معاشرے میں ہرکسی کے پاس ہو۔ ہر کوئی عالم دین نہیں اور نہ ہی ہونا ضروری قراردیا گیا ہے۔ خود صحابہ کرام ؓ سب کے سب عالم نہیں تھے۔ پھر جو کچھ ہمارے ہاں پڑھا پڑھایا جاتا ہے وہ تو پوری طرح سے علم کی تعریف میں ہی نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم عام سی تعلیم کو اس ضروری علم کے زمرے میں لاکر بہت مطمئن ہیں کہ ہم یہ فریضہ بخوبی نبھا رہے ہیں۔ فرضی علم کا تعین کرنے سے قبل ہم ایک آیت کریمہ کی تفسیر میں جاتے ہیں جس سے یہ واضح ہوگا کہ جو تعلیم اورتعلم ہمارے ہاں رائج ہے وہ اس فرضی علم کے زمرے میں ہرگز نہیں آتا۔ سورہ فاطر میں ارشاد ہوا
اِنَّمَا یَخشَی اللَّہَ مِن عِبَادِہِ العُلَمَائُ اِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌغَفُورٌ (28)
بے شک اللہ کے بندوں میں سے عالم ہی اس کا خوف رکھتے ہیں، بے شک اللہ زبردست اوربڑا بخشنے والاہے۔
اِس آیت سے علم کی ایک خصوصیت طے ہوئی کہ اس سے اللہ کا ڈر پیدا ہوجاتاہے۔ اب ہم ذرا اس بات کا جائزہ لے لیں کہ ہمارے اردگرد پڑھے لکھے لوگ کس قدر اللہ کا ڈر رکھتے ہیں؟ انہی میں علمائے دین بھی شامل ہیں۔ وہ بے خوفی میں سب سے بڑھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہر کوئی دوسرے کو تنبیہ کرتے ہوئے یہ فقرہ بکثرت استعمال کر تا ہے کہ بھائی کچھ خدا کا خوف کرو لیکن کسی کو خدا کا خوف نہیں آتا۔ قرآن کا فیصلہ بہت سیدھا سا ہے کہ اگر کوئی حقیقی علم کا مالک ہوگا تو اُسے خدا کا خوف آئے گا۔ اب آتے ہیں فرضی علم کے تعین کی طرف تو اس کا تعین بھی علم کے معنی ہی سے ہوگا۔ دل ودماغ کا غوروخوض علم ہے؛ اس غور و خوض کو سب سے پہلے اسی دل ودماغ کی درستی پر لگانا علم کا مقصد اور اس دل ودماغ کے خالق کی پہچان اور اس سے تعلق کا تعین کرنا فرض کردہ علم ہے۔ جب ہم اپنے خالق کو پہچان جائیں گے اور اُس سے تعلق کا پتا لگا لیں گے پھر لازمی طور پر ہمارے دل میں اللہ کا ڈر پیدا ہوجائے گا۔
تعلیم و تربیت میں ہم آہنگی تعلیمات نبویﷺ کے ضمن میں
یہ چیز بدیہی ہے کہ جو اُسلوب قرآن کا ہوگا سیرت کا اُسلوب بھی وہی ہوگا۔ لہٰذا تعلیما ت نبوی ﷺ کے ضمن میں جو باتیں کی جائیں گی وہ قرآنی تصور کی ہی ایک تشریح اور تسلسل ہوں گی۔ اس سلسلے میں سنن ابن ماجہ میں جندب بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے :
کُنّا مَعَ النّبِی صَلَی اللّہ عَلَیہِ وَسَلّم وَ نَحنُ فِتیَان حَزَاوِرَۃ فَتَعَلّمُنَا الاِیمَان اِن نَتَعلّم القُرآن ثُمّ تعلّمنَا القُرآن فَازدَدنا بِہ اِیمانًا
یعنی رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام ؓ کو قبل اس سے کہ وہ قرآن سیکھتے ، ایمان سکھایا اور پھر قرآن سکھایا جس نے اُن کے ایمان کو اور بڑھا دیا۔ اس طرح سے نبی اکرم ﷺ نے پہلے اپنے صحابہ ؓ کی تربیت کی اور پھر اُن کی تعلیم کا انتظام کیا جس نے اُن کے کردار کو اوج کمال تک پہنچا دیا۔ لہٰذا تعلیم وتربیت کے عمل میں اولین چیز ایمان و عقیدہ ہے جسے ہم توحید ورسالت کے نام سے جانتے ہیں۔ اسلامی تہذیب میں یہ بنیادی اور مستقل چیز ہے اورتمام انبیا کی تعلیم میں مشترک اُصول ہے۔تعلیم و تربیت میں ہم آہنگی کے دوسرے مفہوم کو سامنے رکھیں تو وہاں بھی رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات جابجا ملتی ہیں۔قرآن و حدیث کے علاوہ علوم سیکھنے کی رسول اللہ ﷺ نے اپنے صحابہ کو تلقین کی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عبرانی سیکھنے کو کہا؛ طب سے متعلق پیغمبر اسلام ﷺ کی ہدایات انسانیت کے لیے بیش قیمت سرمایا ہیں۔ اس سلسلے میں گو رسول اللہ ﷺ کی دُعا مستجاب کا درجہ رکھتی تھی لیکن آپ ﷺ نے اکثر و بیشتر لوگوں کو بیماری کا علاج کرانے کی ہدایت کی اور اسی ضمن میں وہ روایات ہیں جن کی بنیاد پر طب نبوی کا علم وجود میں آیا۔ اسی طرح دوسرے معاملات میں بھی رسول اللہ ﷺ نے پوری طرح سے دلچسپی کا اظہار فرمایا۔رسول اللہ ﷺ کسی بھی علم میں تخصص (Specialization) کو اہمیت دیتے تھے ۔ ایک دفعہ ایک صحابی کے علاج کے لیے دو طبیبوں کا ذکر ہوا تو آپ ﷺ نے کہا کہ جو زیادہ جانتا ہے اُس سے علاج کروایا جائے ۔ ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ جس کو طب سے واقفیت نہیں اگر وہ لوگوں کا علاج کرے تو اُسے سزا دی جائے ۔ اس بات سے اس امر کی ضرورت محسو س ہوتی ہے کہ پیشہ ورانہ تعلیم کے ادارے ہونا سیرت رسول اللہ ﷺ کی رہنمائی کے عین مطابق ہیں۔ ان کے معیار کو زیادہ سے زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
اسلامی تاریخ کا نظام تعلیم ۔۔۔تعلیم وتربیت میں ہم آہنگی کا نبوی تسلسل
اسلامی تاریخ اپنے تمام تر سیاسی، معاشی اور معاشرتی المیوں کے باوجود اپنے پیغمبر ﷺ کی سیرت سے لاتعلق نہیں رہی۔ سراج منیر کے الفاظ میں ’’نبی اکرمﷺ کی ذات اقدس کی تاریخی معنویت سے ایک یہ جہت بھی وابستہ ہے کہ بحیثیت ’نمونہ کامل‘ آپ ﷺ کے اوصاف ’بیان‘ نہیں بلکہ ’عملی تجسیم‘ ہیں۔۔۔ اور اسلامی تاریخ کا کوئی ایک دائرہ، اسے آپ اپنے تصور قدر کے مطابق کتنا ہی تنگ کیوں نہ کر لیں، اس کمال کی تاریخی تجسیم کرتا ہے۔ یا ایہا النبی انا ارسلنک شٰھدا ً و مبشراً و نذیراً یہ خصوصیت دنیا میں کسی اور مذہب اور کسی اور دائرہ تاریخ کو حاصل نہیں ۔ اس بنیا دی مرکز کو تسلیم کرتے ہوئے اب اسلامی تاریخ کے پھیلائو پر نظر ڈالیے تو چاہے اس کے کسی پہلو کی تاریخی تجسیم افریقہ میں واقع ہوئی ہو یا انڈونیشیا میں، باعتبار زمان پہلی صدی ہجری کا واقعہ ہو یا پندرھویں صدی کا،وہ بہر صورت نتیجہ اسی تجسیم کمال سے زمان و مکان میں پھیلنے والی لہروں کا ہے اور اس اعتبار سے اس کمال کا ایک نہ ایک درجے میں آئینہ دار بھی ہے۔‘‘ اس تصور کے پیش نظر اسلامی تاریخ کے نظام تعلیم وتربیت میں وہی رُوح کارفرما تھی جس کا سبق رسول اللہﷺ نے اپنے عمل سے دیا تھا۔ گو رسول اللہ ﷺ ایک حکمران کے طور پر بھی اپنا مقام رکھتے تھے لیکن اُنھوں نے علم کو اپنی اورتمام انبیاکی میراث قرار دیا۔ اس طرح سے ان کے اصل وارث علما ٹھہرے نہ کہ دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ۔لہٰذا جب حکمران جو کہ خلیفہ ہونے کے ناتے رسول اللہﷺ کے سیاسی جانشین تھے، اقتدار کی کش مکش میں اُلجھ گئے تو علما نے علم کی وراثت کو نبھایا اور ہر قسم کے سیاسی اثرات سے اپنے آپ کو آزاد رکھا۔ حق بات کہنے میں کبھی تامل نہ کیا اور اس کے لیے قید وبند اور کوڑوں کی سزائیں بھی انہیں اپنے مؤقف سے نہ ہٹاسکیں۔ اِس ضمن میں بیشتر واقعات ہیں۔ امام ابوحنیفہ کو عہدہ قضا قبول نہ کرنے پر قید کی سزا، امام مالک کو جبری طلاق پر فتوی نہ دینے پر اُن کے ساتھ ذلت آمیز سلوک۔ امام سرخسی کو حکومت موافق فتوی نہ دینے پر ایک کنویں میں قید کردیاگیا لیکن اُن کا جذبہ علم اس سے قطعی ماند نہ پڑا اور وہ کنویں کے اندر ہی سے اپنے شاگردوں کو مسائل فقہی املا کروایا کرتے تھے۔اس سلسلہ میں رسول اللہﷺ کی یہ ہدایت اُن کے سامنے تھی: ’’خودبینی کی غرض سے علم حاصل نہ کرو اور نہ اس لیے کہ حکمران طبقہ تمھاری طرف توجہ دے اور نہ دنیاوی نمود ونمائش کے لیے حاصل کرے۔‘‘
تعلیم کا معاشی پہلو۔۔۔تعلیم وتربیت میں ہم آہنگی کے سلسلے میں اہم ترین پہلو
تعلیم وتربیت میں ہم آہنگی کے سلسلے میں سب سے اہم مسئلہ معاش کا ہے کہ کیا تعلیم کو معاشی مقاصد کے لیے حاصل کیا یا دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟ اِس سلسلے میں ایک تقسیم پیش نظر رہنی چاہیے جس کے مطابق دو طرح کی تعلیم کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ ایک تعلیم وہ ہے جسے پیشہ وارانہ تعلیم کہا جاسکتا ہے جب کہ تعلیم کی دوسری قسم فرضی علم سے متعلق ہے جس کی تفصیل ہم اوپر بیان کرآئے ہیں۔ ان میں پیشہ وارانہ تعلیم کو تو معاشی مقاصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ گو پیشہ وارانہ تعلیم میں بھی بہت سے پہلو ایسے ملتے ہیں جن سے خالق کی پہچان ہوتی ہے ۔ دنیا میں ہونے والی محیر العقول اور نت نئی ایجادات میں وہی روح کارفرما ہے جو کہ انبیا کے معجزات میں کارفرما تھی۔ لہٰذا پیشہ وارانہ تعلیم کا حامل شخص جس کا واسطہ کہ طبیعی علوم سے ہوتا ہے، اس چیزکا زیادہ مکلف ہوتاہے کہ اُسے خالق کی پہچان ہو۔لہٰذا اس کا مطمع نظر بھی مال نہیں ہوناچاہیے۔ جہاں تک تعلق ہے اس علم کا جس کا مطمع نظر انسانی کردار کی الٰہی ضابطوں کے مطابق تعمیر ہے وہاں معاش کا پہلو بہت نازک صورت اختیارکرجاتا ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں ایک مفہوم بکثرت وارد ہوا ہے
جو انبیا کی دعوت کے حوالے سے ہے:
وَما اَسأَ لُکُم علیہِ من اَجرٍاِن اَجرِیَ اِلاَّ عَلی رَبِّ العالَمِین
میں اس دعوت کے ضمن میں تم سے کسی اجر کا متمنی نہیں ہوں کہ میرااجر تو جہانوں کے رب کے سوا کسی کے ذمہ نہیں (الشعراء۔ 127)
لہٰذا انبیا علیہم السلام کی تعلیمات علم وتعلم کو معاش کی سطح سے بلند رکھنے کا سبق دیتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد خیرالقرون کے علما نے اس روح کو زندہ رکھا اور اپنی معاشی ضروریات کے لیے دوسرے ذرائع کو استعمال کیا اور اپنا حلقہ درس ہر کسی کے معاوضے سے بے نیاز کردیا۔بلکہ ایسا ہوا کہ علم کی ترویج کے لیے اُنھوں نے اپنے پاس سے مال کو خرچ کیا۔ لہٰذا اگر حکمران کے لڑکوں کو بھی اُن سے استفادہ حاصل کرنا ہوتا تو اُنھیں بھی عام لوگوں کے ساتھ بیٹھ کر اسی حلقہ درس میں تعلیم حاصل کرنی پڑتی۔ اسی کا نتیجہ تھاکہ وہ حکمرانوں سے اس طرح بے باکانہ مخاطب ہوتے کہ ڈر کا کوئی شوشہ بھی محسوس نہ ہوتا۔ اسلامی تاریخ میں اساتذہ کے لیے باقاعدہ تنخواہوں کا آغاز پانچویں صدی ہجری میں ہواجب سلجوقیوں کے زمانہ ساز وزیر نظام الملک نے بلاد اسلامیہ میں مختلف جگہ مدارس کی بنیا د رکھی اور مدارس کا باقاعدہ آغاز بھی یہی ہے۔ اس پرعلمائے ماورالنہرنے ایک جلسے میں افسوس کا اظہار کیا کہ اب علم کو علم کے لیے حاصل کرنے کا جذبہ ختم ہوگیا۔اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ سے بھی روایات مروی ہیں۔ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارکہ اس طرح سے ہے کہ جس شخص نے رضا ء الٰہی کے علم کو دنیوی مقصد کے لیے سیکھا تو ایسے شخص کو قیامت کے روز جنت کی خوشبو نہیں آئے گی۔ لیکن اس وقت کا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم کے لیے مشاہرہ ایک طے شدہ حقیقت بن چکی ہے۔ اس میں اگر ہم ایک درمیانی راہ کو تجویز کریں تو وہ یہ ہوسکتی ہے کہ ایک اُستاد کی اصل توجہ طالب علم اور اُن کو دی جانے والی تعلیم ہونی چاہیے نہ کہ اس کا مشاہرہ اور ترقی جیسا کہ چلن بن چکا ہے۔