Wednesday , March 22 2023
Home / Archive / یوکرین جنگ کا انجام کیا ہو گا

یوکرین جنگ کا انجام کیا ہو گا

Listen to this article

یوکرین جنگ کا انجام کیا ہو گا

جب روس نے رواں برس فروری میں یوکرین پر حملہ کیا تو بہت سے مبصرین کا خیال تھا کہ روسی فوج تیزی سے صدر پیوٹن کا یوکرینی دارالحکومت کیف (Kyiv) پر قبضے کا مشن مکمل کر لے گی، جمہوری طور پر منتخب صدروولودومیر زیلنسکی کو برطرف کرکے ایک بار پھر سے یوکرین پر روسی کنٹرول بحال کر دے گی مگر اب تو چھ ماہ سے زائد کا وقت گزر چکا ہے مگر مکمل روسی فتح کے آثار نظر نہیں آئے بلکہ یہ جنگ ایک شرم ساری اور ندامت کی جنگ بن چکی ہے۔ فی الوقت تو دور دور تک نظر نہیں آ رہا کہ اِس جنگ کا انجام کیا ہو گا؟ صدر زیلنسکی اِس کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے مسلسل ایک اُمید اور رجائیت پسندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ جون میں اُنھوں نے عالمی رہنمائوں کو بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ 2023 ء سے پہلے اِس جنگ کا خاتمہ ہو جائے۔ اُن کی خواہش تھی کہ وہ ایک مستحکم پوزیشن کے ساتھ ہی روس کے ساتھ مذاکرات کریں۔ اِس بات کے کیا امکانات ہیں کہ یہ جنگ اتنے مختصر ٹائم ٹیبل میں ختم ہو جائے گی؟ نیز اِس تنازع کا حل کیا شکل اختیار کرے گا؟
جیسا کہ دی ٹائمز کے کیف کے چیف رپورٹر اینڈریو کریمر نے رپور ٹ کیا ہے کہ یوکرین میں جنگ اب دو تھیٹرز میں تقسیم ہو گئی ہے۔ مشرق میںڈونباس ریجن جس کے بڑے رقبے پر اب روس کا قبضہ ہے اور جنوب جہاں یوکرینی فوجیں کھوئے ہوئے علاقے دوبارہ حاصل کرنے کے لیے جوابی حملے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ دونوں ممالک کو بے پناہ جانی اور مالی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ پینٹاگون کے مطابق جب سے یہ جنگ شروع ہوئی ہے، 80 ہزار سے زائد افراد جاں بحق یا زخمی ہو چکے ہیں اور یہ تعداد عراق اور افغانستا ن میں امریکا کے مجموعی نقصان سے بھی زیادہ ہے۔ روسی فوج کو بھی افرادی اور دفاعی اسلحہ کی قلت کا سامنا ہے۔ یوکرین کی طرف بھی روزانہ 100 سے 1000 اموات ہو رہی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے کے مطابق گزشتہ ماہ صدر زیلنسکی نے امریکی ارکان کانگریس سے کہا تھا کہ اُنھیں جدید اور بہتر ہتھیار دیے جائیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن سے کیف میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کی درخواست بھی کی گئی۔ جولائی میں صدر زیلنسکی نے دو اعلیٰ ترین سرکاری عہدہ داران کو برطرف کر دیا تھا جس سے اُن کی حکومت کی انتظامی نااہلی کی عکاسی ہوتی ہے۔
چوںکہ روس اور یوکرین گندم، مکئی اور جو کے بڑے پروڈیوسرز ہیں؛ چناں چہ اِس جنگ نے خوراک کے ایک عالمی بحران کو جنم دیا ہے۔ جولائی میں روس اور یوکرین نے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے تاکہ یوکرین کی گندم کو بحیرہ اسود کے ذریعے برآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔ بعدازاں ترک وزارتِ دفاع کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ یوکرین میں بحیرۂ اسود (Black Sea) کی بندرگاہ سے دو جہاز اناج کی کھیپ لے کر روانہ ہوئے ہیں۔ ایک جہاز پر 12 ہزار ٹن مکئی اور دوسرے جہاز پر 3 ہزار ٹن سورج مکھی کے بیج لدے تھے۔اِس کے بعد اناج کی خریداری کے لیے ایک اور جہاز ترکیہ سے یوکرین کے لیے روانہ ہوا۔ اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے شدہ اناج برآمد کرنے کے معاہدے کے تحت یوکرین سے روانہ ہونے والے جہازوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن 45 ممالک کے اُن پانچ کروڑ لوگوں کا کیا بنے گا جو اِس جنگ اور کورونا وائرس کی وجہ سے غذائی قلت (یایوں کہہ لیں کہ قحط) کا سامنا کر رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں، بارشوں اور سیلابوں نے صورت حال کو مزید ابتر بنا دیا ہے۔ اِس جنگ کے خاتمے کا تیز ترین حل تو یہی ہے کہ فریقین کے درمیان جلد از جلد مذاکرات کا اہتمام کیا جائے۔ جولائی میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا تھا کہ روس یوکرین کی ناقابل قبول حکومت سے چھٹکارا پانے کے لیے پُرعزم ہے یعنی روس کے جنگی عزائم میں ابھی بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ یوکرین کی قومی سلامتی کونسل کے سربراہ اولیکسی ڈینی لوف نے دی ٹائمز کو اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا تھا کہ سوال محض اتنا سا ہے کہ کس نے کس کو شکست دی ہے۔
اِس حوالے سے اہم ترین سوال یہ ہے کہ روس نے اِس جنگ میں یوکرین کے جن علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے کیا یوکرین جنگ کرکے وہ علاقے چھڑا سکتا ہے یا نہیں۔ اِس وقت یوکرین کو مغربی ممالک سے لانگ رینج راکٹ سسٹم کی سپلائی مل چکی ہے اِس لیے یوکرینی حکام یہ اُمید کر رہے ہیں کہ وہ اب اپنے کھوئے ہوئے علاقے روس سے واپس لے سکتے ہیں۔ وہ سب سے پہلے تو ایک بھرپور جوابی حملے کے ذریعے جنوبی علاقوں سے روسی فوج کو باہر نکالیں گے۔ دوسری طرف ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں یوکرین کی امداد پر غور کرنے کے لیے جمع ہونے والے 26 ممالک نے یوکرینی فوج کی امداد کے لیے ڈیڑھ ارب یورو جمع کرنے کا عزم کیا ہے۔ ڈنمارک کے وزیر دفاع مورٹن بوڈسکوف نے گزشتہ دنوں یورپی یونین کے ایک روزہ اجلاس کے اختتام پر بتایا کہ یہ رقم ہتھیاروں کی پیداوار بڑھانے اور یوکرینی فوجیوں کی تربیت پر خرچ کی جائے گی۔ برطانوی سیکرٹری دفاع بین والس نے کہا کہ اِس اجلاس سے ثابت ہو گیا کہ روسی صدر پیوٹن کی مغربی ممالک کو یوکرین کی مدد سے روکنے کی خواہش ناکام ہوچکی ہے۔ ڈیڑھ ارب یورو کی اِس رقم میں برطانیہ، ڈنمارک اور ناروے کے عطیات بھی شامل ہیں جب کہ دیگر ممالک اپنی پارلیمنٹس سے منظوری کے بعد اِس فنڈ میں حصہ ڈالیں گے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی اور اُن کی اہلیہ روس کے خلاف جنگ میں لڑائی جاری رکھنے کے لیے مغربی ممالک سے کئی بار امداد کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ کرین فیلڈ یونیورسٹی میں انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ لاء کے پروفیسر اینسی وین اینگرلینڈ نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ یوکرین کے جنوبی علاقوں میں خیرسن کی جنگ اِس حکمت عملی میں بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اِس سے یوکرین کی فوج کو ایک موقع مل سکتا ہے کہ وہ اُن علاقوں کی واپسی کا دعویٰ کرنا شروع کر دے جہاں روسی افواج تعینات ہیں اور شاید اُن علاقوںکے بارے میں بھی جن کے بارے میں روس نواز گروپس دعوے کر رہے ہیں کہ یہ اُن کی ملکیت ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یوکرین کا جوابی حملہ کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔ روسی صدر پیوٹن یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ اِس فتح کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ امریکی وزارتِ دفاع کے ایک عہدہ دار نے دی ٹائمز کو بتایا ہے کہ روس نے اپنی 85 فیصد سے زائد رضاکار فوج کو اِس جنگ میں دھکیل دیا ہے اوراب وہ مزید فوجیوںکی بھرتی کرنا چاہتا ہے۔ امریکی حکام اور بیرونی مبصرین دونوں میں اِس بات پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ اگر روس ڈونباس کے علاقے سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو اُسے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جو وہ اِس سے پہلے کرنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں تھا یعنی ایک بڑے پیمانے پر لوگوں کو متحرک کرنا پڑے گا۔ دی ٹائمز کے جولیان بارنیز نے جولائی میں ایک مضمون میں لکھا کہ روس کو جبری بھرتی کا اعلان کرنا پڑے گا، اُن فوجیوں کو واپس بلانا پڑے گا جو ماضی میں فوج میں خدمات انجام دے چکے ہیں اور اُسے اپنی فوج کو دوبارہ تشکیل دینے کے لیے تکلیف دہ سیاسی فیصلے کرنا ہوں گے۔ مگر اب تک صدر پیوٹن یہ سب کچھ کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتے۔
جہاں تک یوکرین کا تعلق ہے اِس کے لیے یہ صورت حال یک سر تبدیل بھی ہو سکتی ہے۔ حال ہی میں صدر زیلنسکی نے امریکی کانگریس کے ارکان کو بتایا ہے کہ اگر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن جنوبی یوکرین میںموجودہ محاذِ جنگ کو اِسی حالت میں لاک کر دیتے ہیں تو ہمیں ایک قابلِ عمل ریاست کے طور پر اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنا پڑے گی۔ اگر ہمارا جوابی حملہ ناکام ہو جاتا ہے اور ہمیں پسپائی اختیار کرنا پڑتی ہے تو اس کا نتیجہ ایک بڑی تباہی و بربادی کے سوا کچھ نہیں ہوگا؛ چناں چہ ہماری فوج بہت کمزور ہو جائے گی اور سفارتی محاذ پر بھی ہمیں تنہائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے سکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے پروفیسر ہال برینڈز نے بلوم برگ میں لکھا ہے کہ اگر یوکرین جنوبی علاقوں کی واپسی کے لیے ایک باہمت اور پُرجوش فوج کے بجائے ایک تھکی ہاری اور احساسِ شکست میں گرفتار فوج بھیجتا ہے تو اِس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ روس مشرقی علاقوں میں ایک نیا حملہ شروع کر دے۔
دوسری صورت میں یوکرین اپنی ہی کامیابیوں کے جال میں پھنس سکتا ہے۔ اگر اِس کی فوج ڈونباس کے اُن علاقوں کی طرف دوبارہ پیش قدمی کرتی ہے جنھیں روس جلد ہی سرکاری طور پر اپنا علاقہ قرار دے سکتا ہے تو امکان ہے کہ صدر پیوٹن جوابی حملے میںکم طاقت والے ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کر سکتے ہیں جو محاذِ جنگ پر استعمال کرنے کے لیے ہی بنائے گئے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ برطانوی جنرل رچرڈ بیرنز نے پیش گوئی کی ہے کہ اِس برس کے اختتام سے قبل ہی روس یوکرین کے کئی علاقوں کو روسی ریاست کا حصہ قرار دے چکا ہو گا؛ چناں چہ یوکرین کو اپنے جوابی حملے میں یہ نیا اور خود ساختہ بارڈر ختم کرنا ہو گا۔ اِس حملے کے توڑ کے لیے ایٹمی ہتھیاروںکے استعمال کا کوئی منصوبہ بھی ضرور زیرغور ہوگا۔ یہ ناقابل فہم بات نہیں ہے، صرف ناگوار ہے۔ دوسری طرف ایک ریٹائرڈ امریکی ایڈمرل جیمز سٹیورڈس کا دعویٰ ہے کہ اِس امر کا امکان بہت کم ہے کہ صدر پیوٹن ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کریں کیوںکہ اُن کے پاس یوکرین اور یورپی ممالک کو خوف زدہ کرنے والے دیگر کم خطرنا ک حربے بھی موجود ہیں اور وہ ہیں کیمیائی ہتھیار۔
روس کا قریب ترین حلیف چین بھی اِس جنگ میں ملوث ہو سکتا ہے اور ساری گیم اُلٹ دینے والا یہ سنگین مگر ممکنہ خطرہ موجود بھی ہے۔ تھامس فریڈمین نے دی ٹائمز میں اپنے حالیہ کالم میں لکھا ہے کہ اِس جنگ کے ابتدائی دنوں میں امریکی حکام کا کہنا تھا کہ روس نے چین سے فوجی امداد کی درخواست کی تھی جو بظاہر ابھی تک اس نے قبول نہیں کی۔ تاہم حال ہی میں ایوانِ نمائندگان کی سپیکر نینسی پلوسی نے جو تائیوان کا دورہ کیا ہے اُس پر مشتعل ہو کر چین یوکرین جنگ کے بارے میں اپنے سابقہ مؤقف پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔
یوکرین جنگ کے حوالے سے اصل آزمائش تو یوکرین کے مغربی اتحادیوں کی شروع ہونے والی ہے۔ جب سے روس یوکرین جنگ شروع کا آغاز ہوا ہے، امریکا نے یوکرین کے لیے 54 ارب ڈالرز کی فوری امداد کی منظوری دے رکھی ہے جس میں 9 ارب ڈالرز سے زائد کی حالیہ فوجی امداد بھی شامل تھی لیکن کسی مرحلے پر امریکی حکام نے یہ امر بھی تسلیم کیا تھا کہ یوکرین کو ملنے والی امداد میں آنے والے دنوں میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔ دی ٹائمز کے پیٹر بیکر اور ڈیوڈ سینگر نے رپورٹ دی ہے کہ کوئی بھی مزید 54 ارب ڈالرز کے چیک کی توقع نہیں رکھ سکتا۔ جب اُن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکا سمیت یوکرین کے تمام مغربی اتحادیوں کو اُسے مزید امداد دینے پر غور کرنا چاہیے تو یوکرین کے وزیر خارجہ ڈیمٹرو کلیبا کا موقف تھا کہ ہاں! اُنھیں امداد دینی چاہیے، جمہوریت پر اپنے پختہ عزم کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس لیے کہ یوکرین کو امداد فراہم کرنا اُن کے اپنے مفاد میں ہے۔ جولائی کے آخر میں اُنھوں نے دی ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ یوکرین کو دی جانے والی امداد کوئی خیرات نہیں ہے۔ یہ دراصل یورپ کے دفاع میں ایک دور رس سرمایہ کاری ہے۔ یوکرین کی فوج اِس جنگ میں یورپ کی سب سے باصلاحیت اور سرخرو فوج بن کر نکلے گی۔ وہ اِس وقت دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑی جنگ لڑ رہی ہے۔ پہلے مرحلے میں وہ روسی فوج کو اپنی سرزمین سے پیچھے دھکیل دے گی اور اِس کے بعد یورپ میں سکیورٹی اور استحکام کا دفاع کرتے ہوئے جمہوریت کو کسی بھی آمرانہ حکومت کے توسیع پسندانہ عزائم سے تحفظ فراہم کرے گی۔
سموئیل چارپ اور جرمی شیپریو نے دی ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل میں اِس سے مختلف مؤقف اپنایا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین کے خلا ف جنگ میں بیرونی فنڈنگ کا سلسلہ لامتناہی مدت تک اِسی طرح جاری رہا تو خدشہ ہے کہ دو سپر پاورز کے درمیان پراکسی جنگ میںخطرناک حد تک شدت نہ پیدا ہو جائے۔ روس اور نیٹو کے درمیان براہ راست کشیدگی کے خطرے سے بچنے کے لیے امریکا اور اِس کے اتحادیوں کو چاہیے کہ وہ روس اور یوکرین کے مابین جنگ بندی کرانے کو اپنا اولین ہدف بنا لیں۔ اُن کے خیال میںجنگ بندی کی طرف جانے والا راستہ کھولنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ جیسے بھی ممکن ہو سکے روس کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ اُنھوں نے اپنے آرٹیکل میں آگے جا کر یہ بھی لکھا ہے کہ اگر جنگ کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا تو مذاکرات شروع کرنے کی بات کرنا سیاسی تناظر میں بہت خطرناک اور مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ عمل شروع کرنے سے پہلے ہمیں سفارتی محاذ پر خاطر خواہ کوششیں کرنا پڑیں گی اور سب سے مشکل مرحلہ یوکرین کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرنا ہے۔ اِس حوالے سے کسی کامیابی کی ضمانت نہیں دی جا سکتی؛ تاہم یاد رہے کہ مذاکرات کرنے سے ہی پتا چل سکتا ہے کہ کس حد تک مصالحت کی گنجائش موجود ہے اور اِس میں پیش رفت کا کوئی نہ کوئی راستہ بھی تلاش کرنا پڑے گا۔
دی نیشنل انٹرسٹ میں سٹیون سائمن اور جوناتھن سٹیونسن لکھتے ہیں کہ یوکرین کے اتحادیوں کے پاس فریقین کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لیے ایک کارگر اور کامیاب ہتھیار یہ ہے کہ وہ یوکرین پر بھی یہ شرط عائد کر دیں کہ اُسے فوجی اور اقتصادی امداد اُسی صورت میں مل سکتی ہے اگر وہ یہ جنگ ختم کرانے کے لیے سفارتی محاذ پر کی جانے والی کوششوں میںمثبت رویہ اپنائے۔ اب تک یوکرین کی حکومت کا مؤقف یہی رہا ہے کہ روسی فوج نے یوکرین کے جن علاقوں پر قبضہ کر رکھا ہے جب تک وہ وہاں سے مکمل انخلا نہیں کرتی، روس کے ساتھ کسی قسم کے امن مذاکرات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اِسی لیے وہ اب تک ہر طرح کی بات چیت سے گریز کرتی آئی ہے۔ اگر ایسے حالات پیدا ہوتے ہیں کہ روس کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا جائے اور یوکرین کی حکومت اِس موقع سے فائدہ اُٹھانے سے انکار کر دیتی ہے تو اُسے متنبہ کر دیا جائے کہ ایسی صورت میں اُسے جنگی اسلحے کی فراہمی میں کمی کر دی جائے گی؛ تاہم اگر روس نے مذاکرات کرنے سے انکار کیا یا اُن کی راہ میں کوئی بے جا رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی تو یوکرین کو اسلحے کی فراہمی بڑھا دی جائے۔
اُنھوں نے اپنے مضمون میں مزید یہ لکھا ہے کہ یہ بات امریکا اور نیٹو اتحادیوں کے حق میں بہتر ہے کہ وہ یوکرین کو اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ جار ی رکھیں۔ مگر اِس کے ساتھ ساتھ دانش مندی کا فوری تقاضا یہی ہے کہ جنگ میں ملوث دونوں فریقوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ اِس قضیے کے سیاسی حل کے امکانات تلاش کریں۔ اگر اِس جنگ میں مزید شدت پیدا ہو گئی تو اِس کے سفارتی کوششوں سے حل کے امکانات اور بھی معدوم ہوتے جائیں گے۔ جنگ میں طوالت آنے کی صورت میںپوری دنیا خصوصاً یورپ کو امن اور ترقی کے لیے سنگین مضمرات کا سامنا کرنا ہوگا۔

Check Also

HEC’s Undergraduate Education Policy

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *