Monday , March 20 2023
Home / Archive / یوکرین تنازعہ

یوکرین تنازعہ

Listen to this article

یوکرین تنازعہ

امریکہ روس جنگ کا خطرہ

یوں لگتا ہے، بڑی طاقتیں سال کے اختتام سے قبل اپنے اہم تنازعات نمٹانے پر تلی ہیں۔حالیہ پیش رفت کے نتیجے میں یوکرین تنازعے پر نیٹو اور روس کے درمیان ایک بار پھر فوجی تصادم کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔اطلاعات کے مطابق روس نے اپنے نوے ہزار فوجی یوکرین کی سرحدوں پر پہنچا دیے ہیں، جب کہ امریکی اندازوں کے مطابق یہ تعداد فروری تک175000 تک ہوسکتی ہے۔نیز روس نے ٹینکس اور بھاری توپ خانہ بھی سرحد پر پہنچا دیا ہے۔ دوسری طرف، نیٹو نے بھی فوجی تیاری شروع کردی ہے۔
امریکا اور روس کے صدور کے درمیان دسمبر کے پہلے ہفتے میں اِس مسئلے پر ہنگامی ورچوئل ملاقات ہوئی، جس میں دونوں رہنماؤں نے معاملے کی سنگینی پر خدشات کا اظہار کیا۔ 11 دسمبر کو برطانیہ میں مغربی اتحاد کے سب سے طاقت ور ممالک’’ جی- سیون‘‘ کا ہنگامی اجلاس ہوا، جس میں روس کو متنبہ کیا گیا کہ اگر وہ یوکرین میں داخل ہوا، تو اس کے سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں،تاہم، صدر پیوٹن پہلے ہی ورچوئل ملاقات میں امریکی ہم منصب کو یقین دلا چکے تھے کہ روسی افواج کسی کے لیے خطرہ نہیں۔

یوکرین تنازعے پر امریکا، روس جنگ کا خدشہ؟
یاد رہے، اِس سے قبل امریکی اور چینی صدور کے درمیان بھی ساڑھے تین گھنٹے کی ایک غیرمعمولی ورچوئل ملاقات ہوچکی تھی، جس میں تائیوان پر بات ہوئی، جو علاقے کا ایک بڑا تنازع ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ امریکا کے انڈوپیسفک پر فوکس کی وجہ سے دنیا میں طاقت کے توازن کی ازسرنو صف بندی ہو رہی ہے۔ تنازعات کا سامنے آنا اور اُن پر بڑی طاقتوں کے درمیان اعلیٰ سطحی مذاکرات اسی صف بندی کا حصہ ہیں۔تاہم سب کی کوشش یہی ہے کہ یہ تنازعات فوجی تصادم میں تبدیل نہ ہونے پائیں اور انھیں کم ازکم اُسی طرح ڈیپ فریزر میں رکھا جائے، جیسے پہلے تھے۔ غالباً اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پوسٹ کووِڈ دور میں معیشت کی بحالی کسی فوجی تصادم کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
صدر جوبائیڈن اور صدر پیوٹن کے درمیان ہونے والی ورچوئل ملاقات سے متعلق کہا گیا کہ یہ خاصے خوش گوار ماحول میں ہوئی۔روسی ترجمان کے مطابق یہ ایک غیرمعمولی بات چیت تھی۔اِس ملاقات کا پس منظر یہ تھا کہ روس کے ساتھ ملحقہ یورپ کی مشرقی سرحد پر تنائو میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور یوکرین پر روس کے حملے کا خطرہ بڑھ رہا ہے کہ روس نے ہزاروں فوجی سرحد پر پہنچا دیے ہیں۔معاملہ چاہے کتنا ہی سنجیدہ اور فوجی تصادم کے امکانات لیے ہوئے کیوں نہ ہو، بڑی طاقتوں کے رہنما’’ فوٹو ڈپلومیسی‘‘ سے بخوبی واقف ہیں اور اس کا کھل کر مظاہرہ بھی کررہے ہیں۔

پیوٹن کا دورہ بھارت، دونوں ممالک پھر قریب آرہے ہیں؟
اِسی لیے دونوں صدور نے گفتگو کے آغاز میں ایک دوسرے کو خوش گوار ماحول میں نیک خواہش کا اظہار کیا۔ روسی ترجمان نے بتایا کہ’’ جب تک ضروری ہوگا، دونوں رہنماؤں میں بات چیت جاری رہے گی اور ملاقات کے اختتام کا کوئی وقت متعین نہیں۔‘‘ ایک طرح سے یہ بیان بھی بے تکلفی اور کھلی بات چیت کا عکاس تھا۔ باخبر ذرائع کے مطابق، امریکی صدر نے اپنے ہم منصب کو بتایا کہ اگر یوکرین کے خلاف فوجی کارروائی ہوئی، تو روس کو بڑے پیمانے پر اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اُنھوں نے کھلے الفاظ میں واضح کیا کہ روس کو کسی بھی جارحیت کے معاشی نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ صدر پیوٹن نے جواباً بتایا کہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کا بڑے پیمانے پر اجتماع کسی کے لیے کوئی خطرہ نہیں۔یاد رہے، اِس ملاقات سے پہلے مغربی طاقتوں نے روس پر زور دیا تھا کہ وہ یوکرین کے ساتھ کشیدگی کم کرنے کے اقدامات کرے۔ سوال یہ ہے کہ اگر روس، فوجی کارروائی کا ارادہ نہیں رکھتا، تو آخر اُس نے یوکرین سرحد پر اِتنی بڑی تعداد میں فوج کیوں بھیجی ؟ یورپ اِن دنوں شدید سردی کی لپیٹ میں ہے، اِس لیے بھی روسی فوجی نقل و حرکت کو غیرمعمولی ہی کہا جائے گا۔

یوکرین، روس اور یورپ کے درمیان ہے اور یورپ کی مشرقی سرحد پر واقع ہے۔یہ ایک زمانے میں روس کا حصہ تھا، اِسی لیے وہاں روسی زبان بولنے والوں کی بھی بڑی تعداد موجود ہے۔2014 ء میں یوکرین کے تنازعے نے جب زور پکڑا، تو وہاں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔ملک کا دارالحکومت مظاہرین کا گڑھ بن گیا اور پھر دیکھے ہی دیکھتے یہ احتجاجی مظاہرے ملک بھر میں پھیل گئے۔اِن مظاہروں کی وجہ یہ تھی کہ یوکرین کے صدر، ملک کو روس کے ساتھ ملانا چاہتے تھے، جب کہ شہریوں کی اکثریت اِسے مشرقی یورپ کے ساتھ رکھنا چاہتی تھی۔
مظاہروں نے شدت اختیار کی، تو یوکرین کے صدر نے ملک سے فرار ہوکر روس میں پناہ لے لی۔اس پر مظاہرے تھمے اور نئے صدر کا انتخاب ہوا، لیکن ملک پھر بھی پُرسکون نہ ہوسکا اور خانہ جنگی کی سی کیفیت شروع ہوگئی۔ روس نے یوکرین کے مشرقی حصے میں، جہاں روسی بولنے والوں کی اکثریت ہے، فوجی کارروائیوں میں مدد دی، بلکہ اُس نے یوکرین کے جزیرے کریمیا پر قبضہ کر کے اُسے روس کا حصہ بنا لیا۔ کریمیا میں روسی زبان بولنے والوں کی اکثریت ہے اور یہ پہلے بھی روس کا حصہ رہ چکا ہے۔ یوکرین کی جنگ میں14 ہزار افراد ہلاک اور15 لاکھ بے گھر ہوئے۔

اسے اوباما دور میں نیٹو کی ایک بدترین ناکامی کہا گیا۔ یہ جنگ صدر پیوٹن کے’’ آئرن مین‘‘ کے طور پر سامنے آنے کی بھی وجہ بنی۔مغربی میڈیا نے کہا کہ’’ پیوٹن نے ہر محاذ پر صدر اوباما کو بونا دِکھایا اور نیٹو اتحاد بے اثر رہا۔‘‘ تاہم کچھ ہی عرصے بعد مغربی طاقتوں نے نئی حکمت عملی اختیار کی اور روس کو بے بس کردیا۔ اُنھوں نے روس پر اقتصادی پابندیاں لگانی شروع کردیں اور وقت کے ساتھ اُن میں شدت آتی گئی۔ اِن پابندیوں کا اثر یہ ہوا کہ پہلے تو روسی کرنسی روبل کی قدر گرتی چلی گئی، پھر اُس کی معیشت شدید دبائو میں آنے لگی۔

روس نے جواباً مشرقی یوکرین میں کارروائیاں تیز کردیں، جس میں روسی بولنے والے یوکرینی حصے نے بھی ساتھ دیا، لیکن مغربی اقتصادی پابندیوں نے ماسکو کو خاصا کم زور کردیا۔روس پر ایک اور مشکل 2016ء میں آئی، جب تیل کی قیمتیں گرنا شروع ہوئیں۔روس کی معیشت کا بڑا انحصار تیل اور گیس کے ذخائر پر ہے۔ ظاہر ہے، اُس کے لیے بجٹ کا توازن برقرار رکھنا ممکن نہ رہا۔یوں یوکرین میں روسی پیش رفت رُک گئی اور اُسے اپنی تمام تر توجّہ معیشت کی بحالی پر مرکوز کرنی پڑی۔

واضح رہے، دنیا میں گیس کے سب سے بڑے ذخائر روس کے پاس ہیں اور وہ یورپ کو بڑے پیمانے پر گیس سپلائی کرتا ہے۔ اگر اس میں یورپ کی طرف سے کسی قسم کا تعطل آئے، تو روس کی اقتصادیات مسائل سے دوچار ہوجاتی ہے۔ جرمنی کی سابق چانسلر انجیلا مرکل نے روس اور مغربی طاقتوں کو تصادم کی طرف جانے سے روکنے میں ثالثی کا کردار ادا کیا اور یوں معاملات ایک سطح پر جا کر رُک گئے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں روس اور امریکا کے تعلقات میں ٹھہرائو آیا۔الزامات لگائے گئے کہ پیوٹن اور ٹرمپ میں ایک ذاتی انڈر سٹینڈنگ تھی۔روس پر یہ الزام بھی لگا کہ اُس نے ڈیموکریٹک اُمیدوار کے مقابلے میں ری پبلکن صدارتی اُمیدوار کی سائبر کارروائی کے ذریعے مدد کی۔

اِس الزام پر تحقیقات بھی ہوئیں، لیکن کچھ ثابت نہ ہوسکا۔نیز، صدر ٹرمپ نیٹو کے معاملے میں بھی زیادہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کرتے تھے۔ اِس ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ یورپ کو اپنے حصے کی رقم ادا کرنی چاہیے تاکہ نیٹو مضبوط ہو۔ جو بائیڈن نے عُہدہ سنبھالنے کے بعد دوبارہ اپنے اتحادیوں کو جنوب مشرقی ایشیا اور یورپ میں فعال کرنا شروع کیا۔

برطانیہ اور یورپ میں ہونے والے جی- سیون اور نیٹو کے اجلاس بے حد اہم تھے،جن میں صاف الفاظ میں بتا دیا گیا کہ انڈوپیسیفک میں چین اور یورپ میں روس مغربی طاقتوں کے لیے بڑا خطرہ ہیں۔
ان دونوں سے ہر سطح پر نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا۔نیٹو اجلاس کے بعد صدر بائیڈن اور پیوٹن کے درمیان پہلی بالمشافہ ملاقات ہوئی۔یہ کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں رہی، کیوں کہ جو اعلامیہ سامنے آیا، اُس کے مطابق دونوں رہنماؤں کی زیادہ توجہ ایک دوسرے کے ممالک میں سفیروں کی تعیناتی اور جوہری ہتھیاروں میں تخفیف تک محدود رہی۔

صدر پیوٹن سرحدوں پر فوج بھیجنے سے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟فوجی اور سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیوٹن یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ یوکرین نیٹو کا حصہ نہیں بنے گا۔ظاہر ہے، اس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ نیٹو افواج اُن کی مشرقی سرحد پر آجائیں۔ صدر بائیڈن نے روسی حملے کے خلاف اپنے مغربی اتحادیوں برطانیہ، فرانس اور جرمنی سے تمام وسائل بروئے کار لانے پر اتفاق کیا۔ یوکرین کے مشرقی حصے، ڈونو ٹسک اور لوہاناسک روس کے حمایت یافتہ علاقے ہیں۔

فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل نہ کرنے کا مطالبہ روس کے لیے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔وہ یہ یقین دہانی بھی چاہتا ہے کہ نیٹو اُس کی سرحدوں کے قریب فوجی مشقیں نہ کرے۔جب کہ نیٹو کا کہنا ہے کہ وہ ایک فوجی اتحاد ہے، جس کی ذمہ داری یورپ کو محفوظ رکھنا ہے اور مشقیں اس کے معمول کا حصہ ہیں، لیکن وہ کسی کے لیے خطرہ نہیں ہیں۔اس کے ساتھ ہی اُس کا یہ اصرار بھی ہے کہ یوکرین ایک خود مختار ملک ہے اور وہ اپنے فیصلے کرنے میں آزاد ہے۔
نیٹو کارروائیوں کی وسعت کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ افغانستان، عراق اور لیبیا میں بھی اُس نے فوجی کارروائی کی۔اُس کا دائرۂ کار خاصا وسیع ہے، جو جنوبی ایشیا تک پھیلا ہوا ہے۔تو کیا یوکرین سرحد پر روس کے فوجی اجتماع کو حملے کی تیاری کہا جاسکتا ہے؟ اِس کے جواب میں مغربی فوجی ماہرین کریمیا کی مثال دیتے ہیں، جسے روس نے فوجی قبضے کے ذریعے اپناحصہ بنایا۔ نیز ماہرین اس معاملے کو ایک اور تناظر میں بھی دیکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر یہ جنگ پھیلتی ہے، تو ہائبرڈ وارفیئر اور سائبر حملوں کے ساتھ براہِ راست فوجی ٹکراؤ بھی ہوسکتا ہے۔

اِسی لیے مغرب نے روس کی بڑے پیمانے پر تیاری پر تشویش کا اظہار کیا اور جی- سیون اجلاس میں روس سے براہِ راست مخاطب ہوکر اُسے جوابی کارروائی کی دھمکی دی گئی، جس میں اقتصادی پابندیوں پر زیادہ زور تھا۔ فی الحال فریقین کا بات چیت ہی کے ذریعے معاملات طے کرنے پر زور ہے۔روس کے ایک صدارتی ترجمان نے روسی حملے سے متعلق قیاس آرائیوں کو کم ظرفی اور بے بنیاد قرار دیا۔ مغربی ذرائع کا کہنا ہے کہ روس نے فوجی کارروائی کی، تو لڑائی دُور تک پھیل جائے گی۔ نیٹو اور روس کے فوجی حکام کے درمیان بھی مذاکرات شروع ہوچکے ہیں۔
یورپ کے تمام ممالک نے دوسری عالمی جنگ کے بعد سے خود کو جنگ سے دُور رکھا ہے اور ان میں روس بھی شامل ہے۔یوکرین وہ واحد علاقہ ہے جہاں فوجی کارروائی ہوئی اور روس اور یورپ اس جنگ میں ملوث ہوئے، تاہم بات چیت اور اقتصادی پابندیوں پر معاملہ رُک گیا۔اگر تنائو بڑھتا ہے، تو روس گیس سپلائی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے، لیکن ایسا کرنا اُس کی معیشت کے لیے نقصان دہ ہوگا کہ یورپی ممالک ہی اُس کی گیس کے بڑے خریدار ہیں۔ماہرین اِس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد تجارت اور اقتصادی تعلقات کی وجہ سے فوجی معاملات میں بہت حد تک کمی آئی ہے۔اگر دونوں ایک دوسرے کے دشمن بھی ہیں، تو دوسری طرف باہمی اقتصادی مفادات اُنھیں ایک حد سے آگے جانے سے روکتے ہیں۔

دیکھا جائے تو روس، فرانس اور برطانیہ مسلمہ ایٹمی طاقتیں ہیں اور ویٹو پاور سے بھی لیس ہیں۔ کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں روسی جاسوس کے معاملے پر سفارتی تعلقات میں دراڑ آگئی تھی اور سفارت کاروں کو واپس بلوا لیا گیا تھا۔اِسی طرح روس اور امریکا نے بھی بڑے پیمانے پر اپنے سفارت کار واپس بلوا لیے تھے، لیکن کوئی فوجی تصادم نہیں ہوا۔جب کورونا نے دوسال تک دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا، تو دشمنی کے باوجو وسیع پیمانے پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون دیکھا گیا۔
اِسی طرح امریکا نے افغانستان سے واپسی کے بعد طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے جو مطالبات رکھے، جن میں نمایندہ حکومت کی تشکیل، دہشت گردی کی روک تھام اور خواتین کے تحفظ کے مطالبات نمایاں ہیں،چین ہو یا روس یا مغربی ممالک، سب ہی ان مطالبات پر متفق ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑی طاقتیں اپنے اقتصادی مفادات کو کسی طور نقصان پہنچانے پر آمادہ نہیں۔ اب اصل مقابلہ معاشی میدان میں ہے۔البتہ،چھوٹے اور کم ترقی یافتہ ممالک کو اب بھی یہ بات سمجھ نہیں آرہی اور وہ سرد جنگ اور اسی قسم کی دیگر اصطلاحیں استعمال کر کے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اب بڑی طاقتوں کی بلاکس کی سیاست بھی اسی اقتصادی مقابلے کا ایک حصہ ہے۔اگر کسی ملک کو یہ غلط فہمی یا خوش فہمی ہے کہ اُسے بلاکس کی سیاست سے کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے یا وہ کسی بڑی طاقت کا ہم نوا بن کر دوسری طاقت کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے، تو اِسے اُس کی بین الاقوامی معاملات میں کم فہمی ہی کہا جاسکتا ہے۔ پیغام یہی ہے اور اسے اچھی طرح سمجھ بھی لینا چاہیے کہ معیشت ہی اصل میدان ہے۔
امریکا نے افغانستان میں اسی طریقے پر عمل کرتے ہوئے عالمی اور علاقائی طاقتوں کے تعاون اور مشورے سے ملک چھوڑ دیا۔اب اُس نے افغانستان، چین، روس اور دیگر علاقائی طاقتوں کے سپرد کردیا ہے۔ طالبان نے جیسے تیسے ٹیک اوور تو کرلیا، لیکن اب اُنھیں معیشت کے میدان میں شدید آزمائش کا سامنا ہے۔اِسی پس منظر میں یوکرین کے معاملے کا بھی اپنی تمام تر حساسیت کے باوجود فوجی تصادم میں بدلنے کا کوئی امکان نہیں۔

(بشکریہ جنگ )

Check Also

Fiscal Federalism

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *