یوکرین تنازعہ
نئی عالمی صف بندیاں
ڈاکٹر عدنان طارق
یوں تو 1991ء میں سوویت یونین کے زوال کے ساتھ سرد جنگ کا دور ختم ہوا۔کہا گیا کہ اشتراکیت اور سرمایہ داری میں سرمایہ دارانہ نظام جیت گیا ہے۔مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا۔یہ جنگ نظریات کی تو تھی ہی مگر دو بڑے ممالک کے مابین بھی رقابت کا شاخسانہ تھی۔ دو ممالک امریکہ اور روس یا تہذیبی تناظر میں کہہ لیجیے کہ مغربی تہذیب اور روس کی تہذیب کے مابین صدیوں کی رقابت اتنی جلدی ختم ہونے کو نہیں۔اس کا اظہار پچھلے تیس برس میں کئی مواقع پر ہوا اور اب اس کا اظہار روس اور یوکرین کے مسئلہ کے اوپر جنم لیتا ہوا نظر آتا ہے۔
مارچ 2021ء میں روس نے یوکرین کے ساتھ اپنی سرحد پر ہزاروں کی تعداد میں فوج کو متعین کرنا شروع کیا۔عالمی ماہرین کے مطابق روس عنقریب یوکرین پر حملہ کرے گا۔ایسا جاننے سے پہلے اس عالمی بحران کا تاریخی پس منظر جاننا بھی ضروری ہے۔ 1991ء میں سوویت یونین کی تحلیل کے بعد یوکرین اور روس کے مابین دوستانہ تعلقات تھے۔سوویت یونین سے علیحدگی اختیار کرنے کے باوجود یوکرین روس ہی کے حلقہ اختیار میں تھا۔موجودہ ممکنہ جنگ کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ روس کے انہدام کے موقع پر امریکہ کے وزیر خارجہ جیمز بیکر اور جرمنی کے چانسلر ہیلمٹ کوہل نے روس کے صدر گوربا چوف کو یہ ضمانت دی تھی کہ نیٹو عسکری اتحاد میں اُن ممالک کو شامل نہیں کیا جائے گا جو مشرقی یورپ میں موجود ہیں۔اس بات پر عمل نہیں کیا گیا ہنگری، شمالی مقدونیہ، پولینڈ، رومانیہ،کروشیا، بلغاریہ، چیک ریپبلک سمیت دیگر مشرقی یورپ کے ممالک کو نیٹو اتحاد کا حصہ بنا دیا گیا۔ اس موقع پر روس کے لیے اپنی معاشی حالت کی بنیاد پر خاموشی اختیار کرنا سفارتی مجبوری تھی۔
لیکن یوکرین کا معاملہ مختلف ہے۔ کیوں کہ یوکرین طویل تاریخی تناظر میں روس کا حصہ رہا ہے۔ 1917ء کے انقلاب سے پہلے بھی یہ تاریخ کے کئی ادوار میں روس کا حصہ رہا ہے۔اس لیے امریکا کی جانب سے یوکرین کے اندر ان سیاسی طاقتوں کی حمایت جو یوکرین کو نیٹو کا حصہ بنانا چاہتی ہیں روس کو اس حد تک لے آنے کا باعث بنی۔ یوکرین کے کئی علاقوں میں روس نواز سیاسی حلقے بہت طاقت ور ہیں۔ اسی وجہ سے امریکااور برطانیہ نے کئی بار عالمی سطح پر الزام عائد کیا کہ روس اپنی سابقہ ریاست یوکرین کے اندر ایک ایسی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے جو ماسکو کی مرضی کے مطابق چلے۔مغربی ممالک کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ یوکرین کے ایسے علاقے جو روس کی سرحد کے ساتھ وابستہ ہیں وہاں پر روسی نسل کی آبادی کی اکثریت ہے۔ اس اکثریت کی بنیاد پر وہ اُن علاقوں کو اپنے ساتھ انضمام یا الحاق پر آمادہ کرسکتا ہے۔ یوں اگر جنگ ہوتی ہے تو یہ علاقے یوکرین سے الگ ہو کر یا تو خود مختاری کا اعلان کرسکتے ہیں یا پھر روس میں شمولیت بھی اختیار کر سکتے ہیں۔
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ روس نے اپنی ایک لاکھ سے زائد کی تعداد میں فوجی نفری یوکرین اور روس کی مشترکہ سرحد پرمتعین کررکھی ہے بلکہ سرحد کے اوپر ہسپتال اور ایندھن کے ڈپو بھی قائم کر دیے ہیں۔ کوریا سے اپنی فوجوں کو ہٹا کر بھی مغربی سرحد پر متعین کردیا ہے اور اپنے اتحادی بیلاروس کے اندر موجود ایک بٹالین فوج کو بھی یوکرین کی سرحد پر روانہ کر دیا ہے۔ یہ تمام قرائن اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ روس کسی بھی وقت یوکرین کے اوپر حملہ کر سکتا ہے۔2008ء میں امریکی صدر بش نے یوکرین اور جارجیا کو نیٹو میں شامل کرنے کے امکانات کے بارے اپنی حمایت کا اظہار کیا۔امریکی ریاست کی جانب سے اس قسم کے اظہار خیال کے باعث روسی قیادت اس بارے میں سنجیدہ سفارتی اور عسکری تبدیلیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوگئی۔ 2014ء میں روس اور یوکرین کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے مطابق روس نے یوکرین کو باور کروایا کہ ان علاقوں کو اپنی حدود کے اندر واپس لینا چاہیے جن علاقوں میں روسی النسل کل آبادی کی اکثریت ہے۔ یہ علاقے یوکرین کے حوالے کرنے پر اصرار کرنے کا مقصد یہ تھا کہ روس یوکرین کے اندر ایک ایسا خطہ بنانا چاہتا تھا جسے وہ اپنی مرضی سے یوکرین کی ریاست اور سیاست پر اثر انداز ہونے کے لیے استعمال کر سکے۔یہ علاقے ایک طرح سے یوکرین لیے ٹروجن ہارس بن جاتے۔
یہ یوکرین کی قومی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ تھے۔ موجودہ بحران کے پیچھے بھی درحقیقت اسی ایک معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونا بھی شامل ہے۔ 2019ء میں یوکرین کے اندر الیکشن ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں ٹی وی شخصیت ولادمیر زیلنسکی صدر کے عہدے پر براجمان ہوتی ہے۔ نئے صدر کو اس بات کا احساس تھا کہ ان علاقوں کو دوبارہ سے یوکرین میں شامل کرنا یوکرین کے اندر روسی لابی کو زیادہ مضبوط کرنے کے مترادف ثابت ہوگا جو کہ مستقبل قریب یا بعید میں یوکرین کی ریاست کے لیے سلامتی کا بحران کھڑا کر سکتا ہے۔ اِسی وجہ سے اُس نے روس سے دور ہونے کا فیصلہ کرنے کے لیے عوامی حلقوں میں کھلے عام نیٹو اتحاد میں شمولیت کے بارےگفتگو کرنا شروع کر دی۔
یہ روس کے لیے اشتعال انگیزی کا باعث بنا کیوں کہ روس کبھی بھی اپنی بغل میں نیٹو جیسی تنظیم کا وجود برداشت نہیں کر سکتا تھا۔اسی وجہ سے 2021ء میں اس نے سرحدوں پر ایک بہت بڑے پیمانے پر فوجی نقل و حرکت شروع کی۔2021ء میں افغانستان سے امریکا کا انخلا عالمی منظر نامے میں اُس کی کمزوری کے مترادف تصور کیا جاتا ہے۔ امریکا کی اسی ممکنہ کمزوری کو سامنے رکھتے ہوئےروس نے یوکرین کے معاملے میں اس قدر جارحانہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک روس کے خلاف ہیں۔ مگر جنگ بھڑکانے کی کوششوں میں یہ ممالک عالمی تائید حاصل نہیں کرسکے۔ روس کو بھی اس بات کا بھرپور طریقےسے احساس ہے کہ امریکا کے لیے عالمی برادری کی غیر منقسم حمایت کرنا بہت مشکل ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کی بہت سی حکمت عملیوں کی پے در پے ناکامیوں کے باعث عالمی رائے عامہ امریکا کے ساتھ اُس طرح سے نہیں ہے جیسا کہ وہ پہلے ہوا کرتی تھی۔بھارت نے بھی امریکا کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جب کہ ترکی جیسا ملک جو روس کے خلاف امریکا کا حمایتی رہا ہے، اُس نے بھی اس موقع پر امریکا کی کھل کر حمایت کرنے سے انکار کیا ہے اور روس کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ خاطر رہے کہ ترکی تاریخی تناظر میں ہمیشہ سے روس کے خلاف امریکی گروپ میں رہا ہے۔یہی باتیں ہیں جو روس کے اعتماد کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ یوکرین کے معاملے پر اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک کا مؤقف بہت سخت ہے۔ امریکا اور دیگر مغربی ممالک بشمول برطانیہ نے جنگ کی صورت میں روس کو شدید معاشی پابندیوں کی دھمکیاں بھی لگا دی ہے۔ مگر موجودہ صورت حال کے اندر روس کو ان امریکی معاشی پابندیوں کی کوئی خاص پروا نہیں ہے۔مستقبل قریب میں بظاہر تو نظر نہیں آتا کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا مگر اپنے دو بنیادی مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے جن میں پہلا مقصد یہ ہے کہ یوکرین کو نیٹو تنظیم کا رُکن بننے سے پیچھے ہٹا دینا اور دوسرے نمبر پر یوکرین کے اندر روس نواز لابی کو سیاسی طور پر پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط بنانا۔ان دونوں اُمور میں روس کی ممکنہ کامیابی اس بحران میں روس کو عالمی سطح پر کامیاب گردانے گی۔ جب کہ امریکا اور مغربی حواری اس ضمن میں روس کے مقابلہ میں کامیابی حاصل نہیں کرتے ہوئے نظر آ رہے۔
اس مسئلہ پر امریکا اور یورپی یونین میں اختلاف ہے
گلوبل ٹائمز کے چینی زبان کے ایڈیشن میں ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کے باوجود امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان اپنی سٹریٹجک ضروریات کے حوالے سے بنیادی اختلافات ہیں۔اس مضمون میں یورپی یونین کے اعلیٰ نمائندے برائے خارجہ اور سلامتی اُمور، جوزف بوریل کے ایک انتباہ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں انھوں نے امریکہ اور روس کے نئے یالٹا معاہدے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا ہے۔ بوریل نے اس معاہدے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تھا کہ یورپی یونین کے مستقبل کا فیصلہ دونوں طاقتیں اکیلے کریں گی۔اس مضمون میں یورپ کے لیے اپنی سٹریٹجک آزادی کے فروغ کے بارے میں بھی بات کی گئی اور اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ آیا امریکہ اسے ایسا کرنے کی اجازت دے گا۔مضمون میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ امریکہ نازک لمحات میں یورپ کو خود مختار ہونے کی اجازت دیتا ہے، تب بھی یورپ کو امریکہ کی عالمی حکمت عملی میں ہمیشہ ایک پیادہ ہی تصور کیا جائے گا۔
چین کا مؤقف کیا ہے؟
چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے روس کے سکیورٹی خدشات کو ’جائز‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اُنھیں سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔‘
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر ژانگ جون نے مزید کہا کہ چین امریکہ کے ان دعوؤں سے بالکل متفق نہیں ہے کہ روس بین الاقوامی امن کے لیے خطرہ ہے۔انھوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے پر بھی امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’میگا فون ڈپلومیسی‘ سے تشبیہ دی جو بقول ان کے مذاکرات کے لیے ’سازگار نہیں‘ تھی۔
اس بحران میں سفارتی انداز میں بات کرتے ہوئے چین کا سرکاری مؤقف محتاط اور پیچیدہ رہا ہے اور اُس نے روس کے عسکری طاقت کے حقیقی استعمال کی حمایت سے گریز کیا ہے۔
لیکن چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے دو ٹوک باتیں کہیں ہیں۔ چین میں بڑھتے ہوئے مغرب مخالف جذبات کے اس دور میں یوکرین کے بحران کو مغرب کی ناکامیوں کی ایک اور مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
ان کے خیال میں یہ امریکہ کی زیر قیادت نیٹو ہے جو روس اور چین جیسے دوسرے ممالک کا اپنی سرزمین کے دفاع اور خود مختاری کے حق کا احترام کرنے سے انکار کر رہا ہے۔
اصل میں چین اور روس حالیہ عرصے میں سٹالن اور ماؤ کے دور سے بھی زیادہ قریب ہیں۔ 2014ء میں یوکرین میں کریمیا کے بحران نے روس کو چین کے مزید قریب کر دیا، جس نے بین الاقوامی تنہائی کے دوران ماسکو کو اقتصادی اور سفارتی مدد کی پیشکش کی۔تب سے یہ رشتہ مزید پروان چڑھا۔ چین برسوں سے روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے اور یہ دو طرفہ تجارت گزشتہ سال 147 ارب ڈالر کی نئی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔دونوں ممالک نے مشترکہ فوجی مشقوں کو تیز کرتے ہوئے گزشتہ سال قریبی فوجی تعلقات کے لیے ایک روڈ میپ پر بھی دستخط کیے تھے۔