کڑوروں افراد قحط کی دہلیز پر
اقوام متحدہ کیا کر رہی ہے
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس وقت دنیا کی16.6فیصد آبادی کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہورہیں۔ غذائی ضرورت پورا نہ ہونے سے مراد ہے کہ ایک سال تک انسان اتنی غذا نہ لے جتنی کہ اس کے جسم کو توانائی کی ضرورت ہے۔ اس طرح تقریباً ایک ارب انسان انتہائی غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ چھوٹے کاشتکار اور مچھیرے دنیا کی غذا کا 70فیصد پیدا کرتے ہیں لیکن وہ خود غذائی قلت کا شکار ہیں۔ بھوک کے نتیجے میں پیداہونے والی صورت حال بھی بہت گھمبیر ہے، خاص طور پر بیماریوں کے حملے بہت شدیدہیں اور بچوں کے حوالے سے صورت حال مزید خراب ہے۔ سالانہ اکتیس لاکھ بچے بھوک کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
وجوہات
یہ بات افسوس ناک ہے کہ دنیا میں غذاتو ضروت سے بھی زیادہ پیدا ہوتی لیکن پھر بھی دنیا میں بھوک ہے۔ ایک سروے کے مطابق دنیا میں گیارہ ارب لوگوں کی غذا پیداہوتی ہے جبکہ دنیا کی آبادی آٹھ ارب سے بھی کم ہے۔اس لیے بھوک کی وجوہات میں غذائی پیداوار کا تو بالکل بھی کوئی مسئلہ نہیںکیونکہ یہ ایک گلوبل دنیا ہے اور اس کاکا روبار درآمد برآمد پر چل رہاہے۔ذیل میں ہم ان وجوہات کا جائزہ لیں گے جو عالمی ادارے پیش کررہے ہیں اور کچھ دیگر معاملات پر بھی نظر ڈالیں گے جنہیں بیان نہیں کیاجاتا اور یہ بھی کہ عالمی ادارے اور خاص طور پر اقوام متحدہ اس سلسلے میں کیا کردار اداکررہے ہیں اور تیسری دنیاان سے کیا امیدیں وابستہ کرسکتی ہے۔
کرونا کی سیا ست
کرونا کی وبا اپنی جگہ درست ہے لیکن اسے مختلف چیزوں کی آڑ کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ خاص طور پر سرمایہ دار اس آڑ میں اپنا سرمایہ بچانا چاہتے ہیں۔ دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں جن کا منافع اربوں کھربوں میں ہے وہ اپنے ملازمین کو فارغ کررہی ہیں حالانکہ وہ ان ملازمین کو بڑے آرام سے ایک آدھ سال تنخواہ دے سکتی ہیں۔ پاکستان میں بعض چھوٹے کاروبار کرونا لاک ڈائون کے دوران اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیتے رہے تو ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسا کیوں نہیں کرسکتیں؟
یوں کہا جاسکتا ہے کہ کرونا سے پیدا ہونے والے معاشی بحران میں آدھا کردار وبا کا اور آدھا سرمایہ دارانہ نظام کا ہے۔ اگر ملٹی کمپنیاں اپنے منافع کو کم کرلیں تو بھوک کے بحران پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔
طلب اور رسد کا نظریہ
اقوام متحدہ کے مبصرین کے پاس ددسرا عذر طلب اور رسد کا ہے، رسد کا نظام بگڑ چکا ہے اس لیے غذا کی قلت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ جدید معاشیات کا سب سے بنیادی نظریہ طلب اور رسد کا ہے یعنی طلب کے بڑھنے سے رسد کم ہوجاتی ہے۔ جاننا چاہیے کہ یہ مسئلہ سرمائے کو آزادی دینے سے ممکن ہوتا ہے۔ اگر حکومتی نظم اس کو روکنا چاہے تو روک سکتا ہے۔خاص طور پر بحران کے دنوں میں تو اس پر خصوصی پابندی ہونا چاہیے۔ پہلے تو طلب کوکنٹرول کرنا چاہیے کہ کوئی ضرورت سے زیادہ نہ لے اور پھر رسد کو دیکھنا چاہیے کہ اس سے کوئی منافع کمانے کی نہ ٹھانے۔
طلب کا مسئلہ : طرز زندگی
محاورے کے طور پر دووقت کی روٹی کا ذکر سنتے ہیں، یہ کبھی محاورہ نہیں بلکہ عملی بات تھی کیونکہ روایتی دنیا میں دووقت کھانا کھایا جاتا تھا۔ سائنسی ایجادات کے ساتھ پیوند کاری اور دیگر طریقوں سے پیداوار کو بڑھانے کی بات ہوئی اور ہائبرڈ بیج تیار کیے گئے جن سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر پہلے ایک ایکڑ سے دس من گندم نکلتی تھی 1970میں تیار کئے جانے والے بیجوں سے اب پچاس من گندم نکلتی ہے۔ سائنسی ایجادات کی طرح نت نئے کھانے بھی ایجاد کیے گئے جنہیں فاسٹ فوڈ کا نام دیا گیا اور ان کا کاروبار بھی ملٹی نیشنل کمپنیاں کرنے لگیں اور آن کی آن میں کے ایف سی اور میکڈونلڈ جیسی فوڈ چین پوری دنیا میں پھیل گئیں۔ کھانا دو وقت کی بجائے پانچ وقت ہوگیا۔ لامحالہ اس سے طلب کئی گنا بڑھ گئی۔ دیکھا جائے تو یہ اس وقت کے غذائی بحران کا ایک بہت بنیادی قسم کا مسئلہ ہے۔ خاص طور پر ایسی اشیاء خوردنی جو صرف منہ کا ذائقہ ہیں اور بنیادی ضرورت کی چیز نہیں ان کی طلب کو کم کرکے ان کی قیمتوں کو کنٹرول میں رکھا جاسکتاہے۔
رسد کا مسئلہ : اجارہ داری
فوڈ چین کے بننے سے یہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرگیا جس سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہوگیا۔قباحت اس میں یہ پیداہوئی کہ اس سے اب منافع منسلک ہوگیا اور رسد کا مسئلہ ہمیشہ منافع کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔ جدید کاروبار کا اصول زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے اس لیے طلب بڑھنے سے منافع خوری کی صفت بھی بڑھ جاتی ہے۔دوسری بات یہ کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ کوئی بھی فیصلہ لینے میں تقریباً آزاد ہوتی ہیں۔ کرونا کی وبا میں یہی کچھ ہوا کہ بجائے اپنے صارفین کو ریلیف دینے کے ان کمپنیوں نے الٹا اپنے ملازمین کو فارغ کرنا شروع کردیا۔ اصل میں تو یہ حکومتوں کے کرنے کا کام تھا اور اقوام متحدہ کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس سلسلے میں عالمی مہم چلاتی لیکن عام آدمی بھی اس کا حل نکال سکتا ہے۔ اس کا بیان اوپر ہوچکا۔ چیزوں کی طلب کو کم یا ختم کرکے اس اجارہ داری کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ خاص طور پر ان چیزوں کی طلب کو جو صرف ذائقے کے لیے کھائی جاتی ہیں۔
غذا ہے لیکن توانائی نہیں: ایک نظرانداز شدہ مسئلہ
غذائی ضرورت کا ایک طبی نکتہ یہ ہے کہ جنہیں غذا مل رہی ہے انہیں بھی صرف چبانے کو نوالہ مل رہا جبکہ اس نوالے میں توانائی نہیں الٹا بیماری ہے۔ اس طرح سے کھانے پینے والے لوگ غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ اس وقت امریکہ کا ہر تیسرا شخص ذیابیطس کا شکار ہے اور نوجوانوں میں یہ رجحان بہت بڑھ رہا ہے۔ یہ سب ہائبرڈ بیجوں کے باعث ہے، خاص طور پر غذائی قلت کو کم کرنے کے لیے جو گندم لائی گئی وہ غذائیت کو ختم کررہی ہے اور ذیابیطس کی بنیادی وجہ ہے۔ اس طرح سے غذائی قلت دئیے گئے اعدادو شمار سے کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی میڈیکل ایسوسی ایشن کی جدید تحقیق اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس طرز زندگی کے ساتھ جس میں جسمانی کام بہت کم ہوگیا ہے رائج غذ الازمی طور پر بیماریاں پیدا کرے گی۔
خوراک کا ضیاع
خوراک کا ضائع کرنا بھی عالمی بھوک کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔سروے کے مطابق دنیا کی ایک تہائی خوراک پیدا ہونے سے لے کر کھانے کے عمل تک ضائع ہوجاتی ہے۔یورپی یونین میں سالانہ 88ملین ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔ اس کے کئی مطلب ہیں؛ ایک شخص 174کلوکھانا ضائع کررہا ہے، 143بلین یورو کا نقصان ہورہاہے اور سترہ کروڑ ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا ہورہی۔
اس کے تین پہلوہیں؛ پہلا یہ کہ یہ طرز زندگی کا مسئلہ ہے، مسلسل اور بغیر بھوک کے کھانا غذا کو ضائع کرنے کا سب سے بڑا سبب ہے، اگر کھانے کو روایتی دور کی طرح دووقت کردیا جائے تو کھانے کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکتاہے۔ دوسرا یہ کہ غذا کے اس طرح ضائع ہونے سے پیسے کا بھی نقصان ہوتا ہے؛ ضائع ہونے والی خوراک کو دوبارہ پیسے سے ہی خریدنا پڑے گا ۔تیسرا یہ کہ خوراک کے ضائع ہونے کا یہ عمل آلودگی بھی پیدا کرتا ہے۔ سروے یہ ہے کہ اگر خوراک کا ضیاع ایک ملک ہو تو یہ گرین ہائوس گیسیں پیدا کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہوگا۔
یہ ایک بہت گھمبیر مسئلہ ہے۔ اس سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ اقوام متحدہ سمیت کسی عالمی تنظیم کے ایجنڈے پر نہیں اور ہوبھی کیسے سکتا ہے۔ یہ طرز زندگی کا مسئلہ ہے جوجدید دنیا کی خصوصیت ہے۔ اس کے لیے روایتی طور طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جو روایتی عقیدہ اپنائے بغیر ممکن نہیں۔ سرمائے کی دوڑ کو روکنا ہوگا اور منافع خوری کو ختم کرنا ہوگا۔ اقوام متحدہ کے پاس اس کے لیے کوئی پروگرام موجود نہیں۔
عالمی سیاست
عالمی بھوک کی ایک وجہ عالمی سیاست بھی ہے جس میں اقوام متحدہ براہ راست ملوث نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کسی قسم کی سفارشات سامنے لے کے نہیں آتی اور نہ ہی کسی ملک پر کوئی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ اس کی کچھ مثالیں ذیل میں دی جارہی ہیں۔
بھارت کی صورت حال کا جائزہ
بھارت کی پچیس فیصد آبادی یعنی چالیس کروڑ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ بھارت اپنے جنگی جنون میں پیسہ اسلحے پر کھپا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور بڑی طاقتیں اس سلسلے میں خاموش ہیں اور بھارت کے ایسے مسائل کو یکسر نوٹس نہیں لیتیں۔ بھار ت کو ان معاملات میں کسی عالمی دبائو کا سامنا نہیں۔
صومالیہ
بیشتر افریقی ممالک اور خاص طور پر صومالیہ ایک لمبے عرصے سے قحط جیسی صورت حال سے گزر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ اس کا حل نکالنے میں اب تک ناکام رہا ہے۔ اس کا سبب صومالیہ کی سیاسی صورت حال کو قراردیا جاتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ غیر ترقی یافتہ ملکوں کی معیشت زیادہ تر منی لانڈرنگ کے باعث ابتر ہے اور منی لانڈرنگ ایک عالمی مسئلہ ہے جو کہ اقوام متحدہ جیسے اداروں کی عملداری میں آتا ہے۔ عالمی ادارے نہ صرف یہ کہ منی لانڈرنگ کو ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ ان کے ذمہ داروں کو ترقی یافتہ ممالک میں پناہ بھی مل جاتی ہے۔ خود پاکستان کے اربوں ڈالر باہر کے بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں۔
صومالیہ کے حوالے سے ذرائع اس بات کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ صومالیہ کی بھوک ختم نہ ہونے کی وجہ ڈرگ اور فارما کمپنیاں ہیں جو وہاں کے لوگوں پر دوائوں کے تجربات کرتی ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے گھنائونے کردار کے ضمن میں یہ بات بعید از قیاس نہیں۔
افغانستان
تازہ ترین صورت حال افغانستان کی ہے اور اقوام متحدہ میڈیا پر اسے خصوصی کوریج بھی دے رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ بھی معاشی سے زیادہ سیاسی ہے۔ طالبان کے برسر اقتدار آنے سے بیشتر یورپی ممالک نے افغانستا ن پر مختلف قسم کی تجارتی پابندیاں عائد کردی ہیں جس کے باعث وہاں کا کاروبار بند ہوگیا ہے۔ اس کا براہ راست اثر غذا کی رسد پر پڑ رہا ہے جو پہلے ہی بحران کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے مبصرین سنگین صورت حال کو پیش تو کررہے ہیں لیکن اس کے سیاسی پہلو کو نظرانداز کررہے ہیں یعنی سیاسی حل کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہورہی۔ دوسرا خیال یہ ہے کہ پاکستان پر دبائو بڑھانے کے لیے بھی افغانستان کو غذائی قلت کا نشانہ بنایا جارہا ہے کیونکہ قحط کی صورت میں افغانستان والے لامحالہ پاکستان کا رخ ہی کریں گے۔ حالیہ دنوں میں ڈالر کی قیمت میں اضافہ اسی ضمن میں ہورہا ہے اور پاکستان میں بھی مہنگائی کا بازار گرم ہورہا ہے۔
تجویز کردہ حل اور اس کا جائزہ
بھوک یا قحط کے حوالے سے اقوام متحدہ یا کسی بھی عالمی ادارے کی ویب سائٹ کو کھول لیں تو اس کے حل والے خانے میں ایک ہی بات نمایاں کرکے کے لکھی نظر آتی ہے اور وہ ہے DONATEجبکہ اوپر والی ساری بحث کو سامنے رکھا جائے تو یہ کوئی حل نہیں۔ پھر اگر عطیہ ہی مانگنا ہے تو یہ ملٹی نیشنل کمپنیوں سے مانگنا چاہیے ۔ اسی طرح جن سیاسی اور تہذیبی مسائل کی نشاندہی اوپر کی گئی ہے ان کو حل کرنا بھی اقوام متحدہ ہی کی ذمہ داری ہے لیکن اس کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی جاتی ۔جن معاشروں نے اپنی مدد آپ کے تحت اس خوفناک قحط سے بچنا ہے ان کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اپنے طرز زندگی میں ہرممکن تبدیلی لائیں۔