Wednesday , March 22 2023
Home / Archive / چین کے بارے میں تباہ کن امریکی پالیسی

چین کے بارے میں تباہ کن امریکی پالیسی

Listen to this article

چین کے بارے میں تباہ کن امریکی پالیسی

امریکی تاریخ کی طویل ترین تباہ کن جنگ،جو افغانستان سے شرم ناک فوجی انخلا پر تمام ہوئی، کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں بائیڈن انتظامیہ چین کی طرف سے اُٹھنے والے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیزی سے نئی خارجہ پالیسی ترتیب دے رہی ہے۔ اِ س سے ایک نئی سرد جنگ کے آثار ہویدا ہیں۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ امریکا چین کو محدود کرنے کے لیے ایک پرانا حربہ اور دقیانوسی طریقہ اختیار کررہا ہے،جو سوویت دور کی سرد جنگ تھی۔ چوں کہ اشتراکیت (کمیونزم) مخالف نظریات اب بھی پذیرائی رکھتے ہیں، اِس لیے یہی پرانا حربہ استعمال کرتے ہوئے چین کی کمیونسٹ پارٹی ( سی سی پی) کو ایک جابرانہ سفاک جماعت کے طور پر اِس طرح پیش کیا جارہا ہے جو سوویت یونین کی کمیونسٹ پارٹی کے بارے میں کیے گئے پروپیگنڈے کی یاد دلاتا ہے۔ اِس جماعت کی قیادت میں سوویت یونین تحلیل ہوگیا تھا۔ ایک مرتبہ جب دشمن ’’تخلیق ‘‘ کر لیا جاتا ہے تو پھر اُس ’’خطرے‘‘ سے نمٹنے کے لیے جوابی اقدامات کرنا قدرتی بات ہے۔

اس کے لیے سب سے اہم قدم ہم خیال ممالک کا اتحاد قائم کرنا ہے، جیسا کہ سرد جنگ میں کیا گیا تھا۔ اسی طرح نظریاتی محاذ پر تصادم کو ’’جمہوریت بمقابلہ آمریت‘‘ کے تصور کے طور پر پذیرائی ملتی ہے کیوں کہ یہ ’’اچھائی ‘‘ اور ’’برائی‘‘ کی اخلاقی کش مکش دکھائی دیتی ہے۔ تاہم امریکی پالیسی ساز یہ سمجھنے میں ناکام ہیں کہ چین کوئی سوویت یونین نہیں۔

سوویت یونین اور چین کے درمیان واحد قدر مشترک اِن کی حکمراں جماعتوں پر لگا ہوا لیبل ہے۔ درحقیقت چینی کمیونسٹ پارٹی کے اراکین کی تعداد نوکروڑ ہے اور یہ وسیع ریاستی مشینری کے ذریعے حکومت کرتی ہے، اگرچہ رسمی طور پر یہ مارکسی شناخت رکھتی ہے۔ لیکن اِس کی فعالیت آزاد مارکیٹ پر مبنی ایشیا کی جان دار اور اختراع پذیر معیشت کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ اِس کے تصورات کا روح رواں ڈینگ شیائو پنگ (Deng Xiaoping) کا مشہور مقولہ ہے: ’’دولت مند ہونے میں ہی عظمت ہے۔‘‘
ماضی میں ’’سب کے لیے ایک ہی نسخہ‘‘ یعنی سرد جنگ کا طرزعمل ایشیا کے حوالے سے امریکا کو بہت مہنگا پڑا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اِس کے پاس اِس ذیل میں نئے آئیڈیاز کا فقدان ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر ایشیامیں آزادی کے مجاہدوں، بشمول مائوزے تنگ اور ہوچی منہ کی قیادت میں نوآبادیاتی دور کے بعد امریکا سے جوش و جذبے کی تحریک چلی تھی۔ جنوری 1945 ء میں مائو اور چو این لائی نے واشنگٹن آکر صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ وہ صدر روزویلٹ کو سراہتے تھے۔ ہوچی منہ بھی جیفرسن کے تصورات سے اتنے متاثر تھے کہ اُنھوں نے امریکی آزادی کے اعلامیے کے کچھ اقتباسات کو ویت نام کی آزادی کے اعلامیے میں شامل کیا تھا۔ویت نام نے یہ آزادی فرانسیسی نوآبادیاتی نظام سے حاصل کی تھی۔ لیکن نظریاتی سیاست کے دائو پیچ کی ایک اپنی دنیا ہوتی ہے۔ یہاں دونوں کا ہاتھ ’’دشمن‘‘ کہہ کر جھٹک دیا گیا۔

موجودہ چینی صدر شی جن پنگ کے دور میں نظریات سے زیادہ چینی کمیونسٹ پارٹی کا سیاسی جوہری عنصر دو تاریخی صدمات سے کشید کیا گیا ہے جن کی جھلک شی جن پنگ کی تقاریر اور اُن کے مضامین ’’چین کی گورننس‘‘ میں ملتی ہے۔ پہلا جوہری عنصر ’’توہین آمیز صدی‘‘ (Century of Humiliation) کا تصور ہے۔ اِس سے مراد 1840ء سے لے کر 1949ء تک کا دور ہے جب کمزور چین پر غیر ملکی تسلط تھااور چین کی خود مختاری کا عملی طور پر کوئی وجود نہ تھا۔ شنگھائی کی سیر کرنے والوں کو اکثر مختلف عجائب گھروں میں لے جایا جاتا ہے، جہاں 1930 ء کی دہائی کے شنگھائی کی یادیں محفوظ ہیں۔ اُس وقت یہ غیر ملکی تسلط کی لکیروں سے منقسم تھا، جیسا کہ فرانسیسی علاقہ، امریکی علاقہ، برطانوی علاقہ اور جرمن علاقہ۔ اُن کے اپنے ملک پر قابض قوتوںکے اپنے اپنے قوانین نافذ تھے۔ اِن کے کلبوں پر یہ توہین آمیز جملہ تحریر ہوتا تھا: ’’کتوں اور چینیوں کا داخلہ منع ہے۔‘‘

اِس پس منظر کو دیکھتے ہوئے سرحدوں کی حفاظت اور چین کی خودمختاری اور اتحاد پر چینی قیادت کے شدید نظریات قابل فہم ہیں۔ شی جن پنگ کے سیاسی تصور کا دوسرا حصہ ’’سوویت ماڈل ہے‘‘ کہ کس طرح بدعنوان اور مفاد پرست سیاست دانوں کی قیادت میں زوال پذیر کمیونسٹ پارٹی سوویت یونین کی تباہی کاباعث بنی۔ اِس لیے سوویت انہدام کا خوف چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کو میخائل گورباچوف کی’’منفی مثال سے سبق سکھاتا ہے‘‘ کہ کیا کچھ نہیں کرنا ہے۔ اس لیے چینی کمیونسٹ پارٹی اِس عزم پر کاربند ہے کہ ناکام مثال کی کبھی پیروی نہیں کرنی۔ ناکام ماڈل اپنا کر ملک کو گھن زدہ نہیں کرنا۔ یہ دو عناصر چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کی سوچ کا تعین کرتے ہیں۔ اِس لیے چینی گورننس اور بیرونی ممالک سے ڈیل کرتے ہوئے وہ چینی مفاد کاہر ممکن طریقے سے تحفظ کرنے اور اسے آگے بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بنیادی مفادات کیا ہیں جو چینی قیادت کے نزدیک ان کے استحکام اور خوش حالی کی بنیاد ہیں ؟اتحاد، علاقائی سا لمیت اور چین کی خود مختاری کامطلب اِس کی سرحدوں کے تقدس کا تحفظ ہے۔ اِس میں کچھ سرخ لکیریں بھی ہیں، جیسا کہ تائیوان، تبت، سنکیانگ (Xinjiang)، ہانگ کانگ اور جنوبی چینی سمندر۔ انڈیا اور بھوٹان کے سوا اپنے چودہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ چین نے سرحدی معاہدوں پر دستخط کر رکھے ہیں۔ اِس کے بعد چین کی ’’پرامن اُٹھان‘‘ (Peaceful rise) کو ایک فطری ارتقا کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

عالمی سٹیج پر اِس کا مقام چین کا تاریخی حق قرار دیا جاتا ہے۔ سب سے پہلے اِس کا حوالہ صدر شی جن پنگ نے اکتوبر 2017ء کو چینی کمیونسٹ پارٹی کے انیسویں اجلاس میں عوامی طور پر دیا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’’دنیا صدی کی اہم ترین تبدیلی کی گواہ بن رہی ہے۔‘‘ صدر شی جن پنگ کے مطابق’’ چین دنیا کی عظیم طاقت بن کر انسانی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے … وقت آگیا ہے جب ہم دنیا کے مرکزی سٹیج پر موجود ہوں۔‘‘ چین کے مرکزی مفادات میں چینی کمیونسٹ پارٹی کی بالادستی شامل ہے کیوںکہ اِس پر ملک کے اتحاد، استحکام اور خوش حالی کا انحصار ہے۔

شی جن پنگ اور اُن کے قریبی رفقا کو یقین ہے کہ گورباچوف جیسی کھلی پالیسی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی اور اِس کے نتیجے میں چین بھی سوویت انجام سے دوچار ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتا ہے۔ دیوارچین تعمیر کرنے اورملک کو بیرونی جارح قوتوں سے بچانے والی Middle Kingdom کے وارث ہونے کے ناتے چینی کمیونسٹ پارٹی بخوبی جانتی ہے کہ موجودہ فالٹ لائنزکو اُبھار نا چین کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ امریکیوں کی یادداشت بہت مختصر مدت کے لیےکام دیتی ہے اور وہ اپنے خارجہ تعلقات تبدیل کرتے رہتے ہیں جب کہ چینی تاریخ کو گہری نظر سے دیکھتے اور اُسے اپنی سوچ کا حصہ بنائے رکھتے ہیں۔

چند سال پہلے سوچ سمجھ رکھنے والے ایک چوٹی کے چینی پالیسی ساز سے ملاقات ہوئی۔ اُنھوں نے ’’چین کے خلاف امریکی عزائم ‘‘پر بات کرتے ہوئے بہت شائستگی سے لسلائی جلب (Leslie Gelb) کے ایک مضمون کا حوالہ دیا جو تیرہ نومبر 1991ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا تھا،اور یہ وہ دور تھا جب سوویت یونین منہدم ہورہی تھی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اِس مضمون کا عنوان تھا، ’’چین کے حصے بخرے کرنا۔‘‘ لسلائی جلب نے بہت قطعی لہجے میں کہا کہ ’’ اگر بیجنگ کے لیڈر دنیا کے معمول کے رویے کو مسترد کرتے رہے تو امریکا کو انتہائی پابندیاں لگانا ہوں گی جو مڈل کنگڈم کی جغرافیائی سا لمیت کو تحلیل کردیں گی۔‘‘
جلب نے نیویارک ٹائمز میںاپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اگر چینی سرگرمیاں ناقابل قبول ہوتی دکھائی دیں تو امریکا اور دیگر ممالک اُسے روکنے کے لیے انتہائی اقدامات اُٹھاسکتے ہیں، جن میں علیحدگی کی تحریکیں شروع کرنا بھی شامل ہے۔ بیجنگ کے لیڈر کچھ اور سوچنے کی مہلک غلطی نہ کریں۔ اِس لیے یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ سنکیانگ، تبت یا ہانگ کانگ میں پھوٹنے والی شورش یا تائیوان کے بارے میں بیان بازی کو چین ’’علیحدگی پسندی کی ریاستی پالیسی‘‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔

تیس سال بعد، امریکی پالیسی ساز الائنس، قوانین اور اداروں کے ادغام سے سرد جنگ جیسا بنیادی ڈھانچا تیار کرنے میں مصروف ہیں تاکہ ’’ چین کے گرد تزویراتی دائرہ ‘‘قائم کیا جاسکے،جیسا کہ امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ دنوں جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں چین پر اپنی پالیسی تقریر میں کہاتھا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ صدر رچرڈ نکسن کے چین کے تاریخی دورے کے اِس پچاسویں سال چین میں امریکی سفیر، نکولس برنز کہتے ہیں کہ ’’امریکا اور چین کے تعلقات 50 سال میں کم ترین سطح پر ہیں۔‘‘ یوکرین جنگ کسی بھی یورپی ملک پر گزشتہ ربع صدی میں ہونے والا پہلا حملہ ہے، لیکن سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز نے واضح طور پر کہا ہے کہ سی آئی اے کی ’’اولین ترجیح اُبھرتا ہوا چین ہے۔‘‘امریکا، آسٹریلیا، جاپان اور بھارت پر مشتمل اتحاد کواڈ (Quad) کو دوبارہ فعال کر دیا گیا ہے۔

ایک نئی اینگلو سیکسن گروہ بندی، اوکس (AUKUS) بھی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ چین کو تزویراتی طور پر محدود کرنے کے لیے امریکی کانگریس نے سالانہ 300 ملین ڈالر سے ’’چینی اثر کا تدارک ‘‘ کرنے والا فنڈ قائم کردیا ہے۔ اگرچہ چین بحر اوقیانوس (Atlantic ocean) سے 3500 میل دور ہے، نیٹو اپنی رسائی اب ایشیائی بحرالکاہل تک بڑھائے گا۔میڈرڈ میں نیٹو کے حالیہ سربراہی اجلاس میںامریکا کے چار ایشیائی اتحادیوں، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور جنوبی کوریا، کے رہنماؤں کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ نے یورپی یونین کے ساتھ مل کر چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) کا مقابلہ کرنے کے لیے اِس کی نقل کرتے ہوئے ایک پروگرام بھی شروع کیا ہے جس کے اہداف بھی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے جیسے ہیں۔تاہم امریکا کی خارجہ پالیسی کا بنیادی زور عسکری اور سکیورٹی جہت ہے،جہاں چین کی طاقت کو فوجی اصطلاح میں ایک ملٹری چیلنج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔صدر باراک اوباما کی ’’ایشیا پر ارتکاز‘‘ (Pivot to Asia) کی پالیسی کو اُس کے گیارہ سال بعد بائیڈن نے نافذ کیا ہے۔ اب ایشیا پیسفک کو انڈوپیسفک کہا جارہا ہے، اور اِس کے پیچھے یہ اعلان کارفرما ہے کہ بحرہند اور بحرالکاہل اب’’امریکی جھیلیں‘‘ ہوں گی۔ اِس کامطلب ہے کہ کھلے سمندروں پر اپنا اثر قائم کرنے کی کوششوں میں تیزی دکھائی دے گی جس دوران ایسا لگتا ہے کہ امریکا پر چین کی اُٹھان کی حقیقت یک لخت آشکار ہوئی ہے اور وہ اِس کا راستہ روکنے پر کمر بستہ ہے۔ پانچ بنیادی نکات نشان دہی کرتے ہیں کہ امریکا ایک لاحاصل کوشش کرنے جارہا ہے اور وہ نہ صرف اپنے اہداف میں ناکام رہے گابلکہ چین کو روکنے کی کوشش میں اِس کے اپنے مفادات کو بھی نقصان پہنچے گا۔

پہلا، امریکی اور چینی معیشتوں کے درمیان موازنہ سامنے آئے گا۔ سرمایہ کاری اور کھلی تجارت جیسی معاشی پالیسیاں اپناتے ہوئے چین نے دنیا کا دل جیت لیا ہے۔ نیز چین نہ کسی کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے اور نہ ہی سوالات پوچھتا ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور اِس کے مالیاتی بازو، ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک نے اپنے کچھ معیار طے کیے ہیں۔ امریکا کو جس وقت ہوش آیا تو وہ یہ حقیقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کہ چین نے تجارت، سرمایہ کاری اور علاقائی روابط کا وسیع وعریض انفراسٹرکچر قائم کرلیا ہے۔ اِس کے ذریعے توانائی،معیشت، بندرگاہیں، پائپ لائنز، سڑکیں اور ریلوے لائنز تعمیر ہورہی ہیں۔ جزائر سولومن سے لے کر سعودی عرب تک،ا ور پاناما سے لے کر پاکستان، اسرائیل اور انڈونیشیا تک تمام خواہش مند پارٹنر اِن میں شریک ہوسکتے ہیں۔ دنیا کے 193 ممالک میں سے 130 کی چین کے ساتھ تجارت اُن کی امریکا کے ساتھ تجارت سے کہیں بڑھ کرہے۔ چین کے ساتھ امریکی اقتصادی بندوبست کا موازنہ کریں، تو امریکی اعلانات کے درمیان ایک وسیع فرق ہے۔ امریکی اعلانات پر عمل درآمدہوتا دکھائی نہیں دیتا۔دوسری طرف چین اپنی عملی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی منظر نامے کی ایک سست لیکن یقینی تبدیلی کو اپنے فائدے کے لیے آگے بڑھا رہا ہے جو نتیجہ خیز ثابت ہورہی ہے۔ امریکی اقتصادی سفارت کاری کے ماضی کا ریکارڈ بھی سبق آموز ہے۔ 2006ء میں بش انتظامیہ کے دوران امریکا نے بہت دھوم دھام سے، تعمیر نو کے زونزکے آغاز کا اعلان کیا۔ اِن کا مقصد پاک افغان سرحد پر رہنے والے لوگوں کے لیے اقتصادی مواقع پیدا کرنا تھا۔ کہا گیا کہ یہ اقتصادی زون جنگ کی جگہ امن اور خوش حالی لائیں گے، بے روزگار جہادیوں کو معاشی مراعات پیش کریں گے، سامان تیار کر کے اور خصوصی امریکی فنڈ سے چلنے والے صنعتی زونز میں ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے اور علاقے کو دہشت گردی کے مرکز سے امن، ترقی اور خوش حالی کے اقتصادی زون میں تبدیل کریں گے۔ ان ا علانات کو امریکی کانگریس کی حمایت نہ مل پائی اور یہ منصوبہ دم توڑ گیا۔

اوباما انتظامیہ کے دوران سیکرٹری آف سٹیٹ ہلیری کلنٹن نے جولائی 2011ء میں چنائی، انڈیا سے نیو سلک روڈکے آغاز کا اعلان کیا۔ اِس پر چینی خوش نہیں تھے۔ ہلیری کے اعلان کے کئی ماہ بعد چینی صدر جنوری 2012ء میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔ اِس موقع پر اُنھوں نے بیان دیا،’’ صرف ایک شاہراہ ریشم ہے، جو 2000 سال پہلے چین سے شروع ہوئی تھی اور ہمارے سامنے کسی نئی شاہراہ ریشم کا کوئی تصورنہیں۔ اِس کا تو ہرگز نہیں جو امریکی سرپرستی میں انڈیا سے شروع ہوئی ہے۔ ‘‘اس نئی شاہراہ ریشم کا یہ تصور کبھی عملی جامہ نہ پہن سکا۔ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکا نے بلڈ ایکٹ( (BUILD Act) شروع کیاجس کا مقصد سرمایہ کاری کا بہتر استعمال تھا جس کے نتیجے میں ترقی کے مواقع پیدا ہوں۔

اس کے علاوہ ایک نئی تنظیم ڈیویلپمنٹ فنانس کارپوریشن ( ڈی ایف سی) بھی قائم کی گئی۔ اِن منصوبوں کا مقصد محض شی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا توڑکرنا تھا۔ ڈی ایف سی کے پاس ساٹھ بلین ڈالر کے فنڈز تھے۔ لیکن اِن منصوبوں سے بھی کچھ برآمدنہ ہوا۔ بائیڈن انتظامیہ کے دور میں امریکا نے جون 2021ء میں برطانیہ میں ہونے والے جی سیون کے اجلاس میں ’’بلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘ (B3W) متعارف کرایا۔ ایک سال بعد اِس B3W کا عملی طورپر کہیں وجود تک نہیںتھا۔ اب اِسی منصوبے کا نام تبدیل کر کے Partnership for Global Infrastructure and Investment رکھ دیا ہے۔ ایک سال بعد نام کی تبدیلی ہی واحد پیش رفت ہے۔

بہرکیف امریکی پالیسیوں نے چین اور روس کو ایک دوسرے کے قریب کردیا ہے۔ اِس کے برعکس سرد جنگ میں چین امریکا کا اتحادی تھا۔ بیسویں صدی کی سرد جنگ میں سوویت یونین پر امریکی فتح کا ایک اہم عنصر چین کی ٹھوس حمایت تھی۔ پچاس سال قبل صدر نکسن کے چین کے لیے تاریخی افتتاح کے بعد، چین زیادہ تر عالمی مسائل پر امریکی اتحادی بنا رہا، چاہے امریکا سوویت یونین کا سامنا کر رہا تھا، چاہے وہ افغانستان ہو یا سوویت حمایت یافتہ ویتنامی حملہ اور کمبوڈیا پر قبضہ یا افریقہ میںسوویت توسیع پسندی کا مقابلہ۔ اِس سیاق و سباق کو دیکھتے ہوئے امریکی پالیسی سازوں کو ایک ایسے حریف کے خلاف نئی سرد جنگ میں جانے سے پہلے دوبارہ سوچنے کی ضرورت ہے جسے وہ پوری طرح سے نہیں سمجھتے۔ خاص طور پر موجودہ پیچیدہ ماحول میں جہاں امریکا اب واحد عالمی طاقت ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔

دوسراعنصرموجودہ عالمی ماحول میں امریکا کی کشش اور درحقیقت، اِس کی ’’نرم طاقت‘‘ (Soft power) کا میدان ہے جہاں اِسے بے مثال سبقت حاصل ہے۔امریکا کی کشش، امریکی زندگی کی چمک دمک اور اِس کی فطری حرکیات اور تخلیقی صلاحیت، ایک مقناطیس کا کام کرتی ہے جو دنیا کے بہترین اور ذہین ترین لوگوں کو امریکا میں تعلیم حاصل کرنے، قیام کرنے اور آباد ہونے پر آمادہ کرتی ہے۔ اسے مواقع کی سرزمین کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں میرٹ کی اہمیت ہے۔ یہ اب بھی عالمی سطح پر امریکا کا سب سے مضبوط سیلنگ پوائنٹ ہے۔ اِس کی طاقت خوف زدہ کرکے اور ڈرا دھمکا کر فوجی اتحاد بنانے میں نہیں کیوں کہ وہ ایشیا کے میدان جنگ میں مسلسل ہارتا رہا ہے۔ چین پر قابو پانے کی کوشش کا آغاز کرنا، جب چین بنیادی امریکی مفادات کے لیے براہ راست خطرہ نہیں، ایک آزمودہ اورناکام فارمولہ ہوگا۔ اِس کا نتیجہ وہی ہوگا جس طرح نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ساڑھے چھے ٹریلین ڈالر جھونک دیے گئے لیکن کچھ بھی ہاتھ نہ آیا۔

تیسرا، شی جن پنگ اور جوبائیڈن، دونوں کو اپنے اپنے ممالک میں اہم تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ صدر شی چینی کمیونسٹ پارٹی کے انتہائی اہم اجلاس کی صدارت کرنے جارہے ہیں۔ یہ اجلاس 1978 ء کے بعد سب سے اہم قرار دیا جارہا ہے جب ڈینگ شیائو پنگ نے انتہائی اہم اصلاحات نافذ کرتے ہوئے مائو کے نظریات سے رجوع کرکے مارکیٹ اکانومی، یعنی آزاد تجارت، کی دنیا میں قدم رکھا تھا۔ اِس تبدیلی کو سیاسی طور پر ’’چینی خدوخال کے ساتھ سوشلزم‘‘ (Socialism with Chinese Characteristics) قرار دیا گیا تھا۔ جو بائیڈن کے لیے نومبر میں ہونے والے وسط مدت کے انتخابات فیصلہ کن موقع ہوں گے۔ اُن کے نتائج اِس بات کا تعین کردیں گے کہ کیا 2024 ء کے بعد بائیڈن کا سیاسی مستقبل باقی ہے یا نہیں۔ اِس وقت بائیڈن کو شی جن پنگ کی ضرورت ہے تاکہ امریکی معیشت کو سہارا مل سکے۔ دوسری طرف شی بھی جانتے ہیں کہ ’’سر پر تباہی منڈلا رہی ہے‘‘جو چین کو عدم استحکام سے دوچار کرتے ہوئے کوویڈ کے تین سال کے لاک ڈائون اور قرنطینہ سے نکلنے کی کوشش کو زک پہنچاسکتی ہے۔ اِس لیے دونوں رہنمائوں کو اپنے اپنے ممالک میں سیاسی استحکام، معاشی نمو اور تنائو زدہ دنیا میں تنائو کم کرنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے ملتی جلتی کسی شراکت داری کی ضرورت ہے۔ محاذ آرائی، گھیرائو یا ایک نئی سرد جنگ کا خبط اِن مشترکہ اہداف کی منزل کھوٹی کردیں گے اور اِن کا حصول دشوار تر ہوتا جائے گا۔

چوتھا، ہاورڈ کے اہم مطالعے ’’عظیم ہائی ٹیک رقابت‘‘ (Great Hi-tech Rivalry) میں پروفیسر گراہم الیسن کہتے ہیں، ’’چین اور امریکا کے درمیان ہائی ٹیک دنیا میں رقابت سے پتا چلتا ہے کہ چین پہلے ہی ہائی ٹیک مصنوعات میں امریکا پر سبقت حاصل کرتا جارہا ہے۔‘‘
پچیس برسوں میں پہلی بار، چین، بھارت اور پاکستان نے عالمی مسئلے پر ایک جیسا مؤقف اختیار کیا۔انڈونیشیا، بنگلہ دیش اور سری لنکا سمیت بہت سے دوسرے ممالک کی طرح یوکرین پر ووٹنگ سے گریز کا انتخاب کیا۔ یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب جیسے امریکی اتحادی بھی یوکرین مسئلے پر ایک طرف ہوگئے۔ اِس منظر نامے کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ چین کا مقابلہ کرنے اور اِس پر قابو پانے میں جلدی کرنے کے بجائے ماضی کے تجربے اور عصری جغرافیائی سیاسی حقائق سے حاصل کردہ دانائی چین کے بارے میں امریکی سوچ پر نظرثانی کا تقاضا کرتی ہے۔ ’’کھیل کے اُصولوں‘‘کے بارے میں کچھ وسیع تفہیم بھی درکار ہے دونوں عالمی طاقتیں ایک دوسرے کی رقابت اور مقابلہ اِس طرح کریں کہ نظام درہم برہم نہ ہونے پائے، اور نہ ہی اِن کی خطرناک محاذ آرائی کی نوبت آئے۔ اِس وقت نہ تو یہ دونوں ممالک اور نہ ہی دنیا معاشی، سیاسی یا عسکری طور پر اِس محاذ آرائی کی متحمل ہوسکتی ہے۔

Check Also

HEC’s Undergraduate Education Policy

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *