Monday , March 20 2023
Home / Archive / چین کی ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی (China Debt Trap)

چین کی ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی (China Debt Trap)

Listen to this article

چین کی ڈیٹ ٹریپ ڈپلومیسی

ستمبر 2021ء میں شائع ہونے والی بین الاقوامی ترقیاتی ریسرچ لیب ’ایڈ ڈیٹا‘ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ چینی صدر ژی جن پنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت ریاستی بینکوں اور چینی کمپنیوں نے غیر واضح اور مبہم معاہدوں کے ذریعے کم آمدنی والے درجنوں ممالک کو ’قرضوں کے جال‘ میں پھنسا دیا ہے۔ چین نے 2013ء میں اعلان کیے گئے اِس فلیگ شپ پروگرام کے تحت افریقہ اور وسطی ایشیائی ریاستوں سمیت تقریباً 163 ممالک میں سڑکوں، پلوں، بندرگاہوں اور ہسپتالوں کی تعمیر کے لیے 843 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ’ایڈ ڈیٹا‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر بریڈ پارکس کےمطابق اِس رقم کا تقریباً 70 فیصد سرکاری بینکوں یا چینی کمپنیوں اور اُن ممالک میں مقامی شراکت داروں کے درمیان مشترکہ منصوبوں کے لیے فراہم گیا ہے جو پہلے ہی بیجنگ کے مقروض ہیں۔ بہت سے غریب ممالک جب مزید قرض نہیں لے سکے تو اِس (چین) نے تخلیقی پالیسی اختیار کی۔ یہ قرض ’مرکزی حکومتوں کے علاوہ دیگر گروپس‘ کو بھی دیا گیا اور اِن گروپس کی جانب سے قرض ادا نہ کرنے کی صورت میں حکومتی گارنٹی لی گئی ہے۔

دنیا بھر کے ممالک میں مالی امداد اور کاروباری مقاصد کے لیے دیے گئے قرض ہمیشہ سے خارجہ پالیسی کا حصہ رہے ہیں۔ لیکن چین کو جو کہ گزشتہ برسوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں قرض فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن کر اُبھرا ہے، کو لفظ ’ڈِیٹ ڈپلومیسی‘ یعنی قرض کی سفارت کاری کے استعمال سے اکثر ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ چین غریب ممالک کو جن شرائط پر قرضہ دیتا ہے اِن کی وجہ سے اِن ممالک کو قرض لوٹانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور چین اِسے اِن ممالک پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ جرمنی کے کیئل انسٹیٹیوٹ برائے عالمی معیشت کے ماہر معاشیات کرسٹوف ٹریبیش کا کہنا ہے کہ ’چین ترقی پذیر ممالک کو جو قرضے دیتا ہے، اُن میں سے نصف حصہ مخفی یا پوشیدہ قرض ہوتا ہے‘ جنھیں کہ کسی بھی بین الاقوامی ادارے میں رجسٹر نہیں کیا گیا ہے۔

چینی قرضے
اگر انفرادی ملک کی حیثیت سے دیکھا جائے تو چین کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ قرض دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ دوسرے ممالک کو قرض دینے والے ملک کی حیثیت سے چین کی حیثیت دو دہائی قبل مضبوط ہونا شروع ہوئی تھی کہ جب چین نے باہر کی دنیا کے لیے زیادہ کھلے پن کی پالیسی اپنائی۔ اِسی دوران چین میں معاشی ترقی تیزی سے ہو رہی تھی اور بین الاقوامی معاشی منظرنامے میں چین کی اہمیت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ اِس وقت چین دنیا کا سب سے بڑا سرکاری قرض دینے والا ملک بن چکا ہے۔ دنیا کی کوئی بھی حکومت اتنا قرض نہیں دیتی جس قدر چین دیتا ہے۔

حالیہ سالوں کی بات کی جائے تو گزشتہ عشرے کے دوران کم اور اوسط آمدنی والے ممالک کو دیے گئے چینی قرضوں میں تین گنا اضافہ ہوا اور 2020ء کے آخر تک اِن قرضوں کی کل مالیت 170 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی تاہم چین نے کئی ممالک کے ساتھ قرض دینے کے جو معاہدے کر رکھے ہیں اُن کی کل مالیت اِس سے شاید بہت زیادہ ہے۔

قرض پوشیدہ کیوں؟
امریکا کی ولیم اینڈ میری یونیورسٹی سے منسلک بین الاقوامی ترقی کی ایک تنظیم ’ایڈ ڈیٹا‘ کی تحقیق کے مطابق چین نے ترقی پذیر ممالک کو جو قرضے دیے ہیں اُن میں سے نصف ایسے ہیں جو سرکاری اعداد و شمار میں دکھائی نہیں دیتے۔ اکثر یہ قرضے حکومتی سطح پر نہیں دیے جاتے بلکہ چین یہ قرضے اُن ممالک کی سرکاری تحویل میں چلنے والی کمپنیوں، بینکوں، مشترکہ منصوبوں اور غیر سرکاری اداروں کو دیتا ہے اور یوں اِن حکومتوں کی معاشی دستاویزات (بیلنس شیٹ) میں اِن قرضوں کو ظاہر نہیں کیا جاتا۔ اِن ’خفیہ قرضوں‘ کا نتیجہ یہ ہے کہ اِس وقت دنیا میں 40 سے زیادہ کم اور اوسط آمدنی والے ایسے ممالک ہیں جنھوں نے چین سے اپنی مجموعی قومی پیداوار کے دس فیصد سے زیادہ قرضے لے رکھے ہیں۔

ڈیٹ ٹریپ سفارت کاری
چین کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اگرچہ چین ہر طرح کی معیشتوں کو قرض دیتا ہے (بشمول امریکا جہاں چین اپنے بینکوں کے ذریعے خزانے کے بانڈز خریدتا ہے) لیکن کم آمدنی والی معیشتوں پر اِس کا غلبہ زیادہ ہے۔ اِس طرح غریب اور ترقی پذیر ممالک پر چین کا قرض عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارہ (آئي ایم ایف) یا کسی بھی دوسری حکومت سے زیادہ ہے۔ اگر ہم چین کے سب سے زیادہ 50 مقروض ممالک کے بارے میں بات کریں تو اِن ممالک پر اوسط قرض جو 2005ء میں عالمی جی ڈی پی کے ایک فیصد سے بھی کم تھا وہ 2017ء میں بڑھ کر جی ڈی پی کے 15 فیصد سے بھی زیادہ ہو گیا تھا۔ دوسرے زاویہ سے دیکھیں تو اِس گروپ کا 40 فیصد بیرونی قرض (ایکسٹرنل ڈیٹ) چین سے حاصل ہوتا ہے۔ اِس گروپ میں چین سے سب سے زیادہ قرض لینے والوں میں لاطینی امریکا کے تین ممالک، وینزویلا، ایکواڈور اور بولیویا شامل ہیں۔ چین نے جبوتی، زیمبیا اور کرغزستان کو جو قرضے دے رکھے ہیں اُن کی مالیت اِن ممالک کی مجموعی قومی پیداوار کے کم از کم 20 فیصد کے برابر ہے۔

چین نے دنیا کے مختلف ممالک کو جو قرضے دیے ہیں، اِن میں سے زیادہ تر بڑے بڑے تعمیراتی منصوبوں کے لیے ہیں، جن میں سڑکوں، ریلوے اور بندرگاہوں کی تعمیر شامل ہے۔ اِن میں کان کنی اور بجلی کے منصوبے بھی شامل ہیں۔

برطانیہ کے بیرون ملک کام کرنے والے خفیہ ادارے، MI6 کے سربراہ رچرڈ مور نے چینی قرضوں کو ’قرضوں کا جال‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین کا مقصد اِن ممالک کو اپنے قابو میں رکھنا ہے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ ممالک جب چین کو قرض لوٹا نہیں پاتے تو وہ اپنے اہم قومی اثاثوں کا کنٹرول چین کے ہاتھ میں دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

اِس حوالے سے چین کے ناقدین اکثر سری لنکا کی مثال دیتے ہیں جس نے برسوں پہلے چینی سرمایہ کاری سے بندرگاہ بنانے کا ایک بہت بڑا منصوبہ شروع کیا تھا لیکن کچھ ہی عرصے بعد اربوں ڈالر کا یہ منصوبہ تنازعات کا شکار ہو گیا اور سری لنکا کی معاشی ترقی کا ذریعہ بننے کے بجائے اِس نے سری لنکا پر قرضوں کا مزید بوجھ لاد دیا۔ اور آخر کار سری لنکا چین کی جانب سے مزید سرمایہ کاری کے عوض بندرگاہ کے 70 فیصد مالکانہ حقوق چین کی سرکاری کمپنی ’چائنا مرچنٹ‘ کو دینے پر مجبور ہو گیا۔

سری لنکا کی بندرگاہ کے اِس منصوبے کے حوالے سے برطانیہ کے ایک تھِنک ٹینک ’چیٹم ہاؤس‘ نے اپنے ایک تجزیے میں سوال اُٹھایا ہے کہ آیا اِس معاملے کو ’قرضوں کے جال‘ میں پھنسانے کا معاملہ قرار دیا جا سکتا ہے یا نہیں کیوں کہ اِس منصوبے میں سری لنکا کی اپنی سیاسی ترجیحات پیش پیش تھیں اور چین نے کبھی بھی بندرگاہ کا کنٹرول باقاعدہ طور پر اپنے ہاتھ میں نہیں لیا۔ اِس منصوبے پر اُٹھنے والے سوالات کے باوجود اِس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ عشرے کے دوران سری لنکا میں چین کے معاشی عمل دخل میں اضافہ ہوا اور یہ خدشات بھی اپنی جگہ قائم ہیں کہ اِس منصوبے کے ذریعے چین خطے میں اپنے سیاسی عزائم کو وسعت دے سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں میں بھی چینی قرضے تنازعات کا شکار رہے ہیں کیوں کہ اِن منصوبوں میں بھی ایسی شرائط موجود ہیں جن کی بدولت چین کئی ممالک کے اثاثوں پر اپنے کنٹرول میں اضافہ کر سکتا ہے۔

چین اور اِس کے ہمسایہ ملک لاؤس کے درمیان چلنے والی ٹرین سروس کو ایسی ہی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ دہائیوں تک لائوس کے سیاست دان جنوب مغربی چین کو جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ منسلک کرنے کے اِس منصوبے کے بارے میں سوچتے رہے، تاہم انجینئرز خبردار کرتے رہے کہ اِس پر بہت زیادہ لاگت آئے گی کیوں کہ اِس پٹڑی کو بلند پہاڑوں اور گہری گھاٹیوں سے گزرنا ہو گا اور اِس کے لیے سینکڑوں سرنگیں اور پل تعمیر کرنا ہوں گے۔ اِس موقع پر چین کے بڑے بینکار اِس منصوبے میں کود پڑے اور بڑی چینی سرکاری کمپنیوں اور چین کے سرکاری قرض دینے والے اداروں کے کنسورشیم کی حمایت سے پانچ ارب 90 کروڑ ڈالر کے اِس منصوبے کے تحت دسمبر 2021ء میں ٹرین سروس شروع ہو چکی ہے۔

لاؤس اِس خطے کا غریب ترین ملک ہے اور اِس منصوبے کی لاگت کا معمولی حصہ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا چناں چہ اِس نے اپنا حصہ ڈالنے کے لیے ایک چینی بینک سے 40 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز کا قرض لیا جس کی ضمانت کے طور پر لاؤس کے اہم ذرائع آمدن میں سے ایک یعنی پوٹاش کی کانوں سے ہونے والی آمدن کو استعمال کیا گیا۔

اس منصوبے میں مبہم شرائط کے معاہدے کے ساتھ زیادہ تر ریلوے ٹریک کی مالک ایک چینی ریلوے کمپنی ہے تاہم حتمی طور پر ریلوے کے قرض کی ذمہ داری لاؤس کی حکومت کی ہی ہے۔ اِس غیر متوازن معاہدے کے باعث عالمی قرض داروں نے لاؤس کی درجہ بندی کو کم کر کے ’جنک‘ کے درجے پر پہنچا دیا ہے۔ ستمبر 2020ء میں جب لاؤس دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا تو اِس نے ملک کا ایک بڑا اثاثہ چین کے حوالے کر دیا۔ یہ اِس کے توانائی کے نظام کا ایک حصہ تھا جس کے عوض اِس نے چین سے 60 کروڑ ڈالر حاصل کیے تاکہ اسے چینی کمپنیوں سے ہی لیے گئے قرض کی واپسی میں کچھ وقت مل سکے اور یہ سب ٹرین منصوبے کے تحت سروس کے آغاز سے پہلے ہو چکا تھا۔

چین کا مؤقف
چین اِن الزامات سے انکار کرتا ہے اور اِس کا مؤقف یہ ہے کہ کچھ مغربی طاقتیں اِس بیانیے کے ذریعے چین کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ چین کہتا ہے کہ دنیا میں ایسا ایک ملک بھی نہیں جو چین سے قرضہ لینے کے بعد ’ڈیٹ ٹریپ‘ یا قرضے کے جال میں پھنس گیا ہو۔

پاکستان کی صورت حال
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا جنھیں چین کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اربوں ڈالرز کا قرض مل رہا ہے۔ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت سب سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے جن ممالک کو فنڈ دیا ہے اُن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کو چین سے ملنے والے قرض کا جائزہ لیا جائے تو 2000ء سے لے کر 2017ء تک چین نے پاکستان کو 34 ارب 40 کروڑ ڈالرز کا قرض دیا جس کا بڑا حصہ ملک میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص ہے۔

ان میں سے 80.4 فیصد فنڈنگ قرض کی صورت میں ہے جو تجارتی شرح یا تقریباً اِسی شرح کی بنیادوں پر پاکستان نے حاصل کیا ہے جب کہ پاکستان کو ملنے والی رقم کا صرف 12.1 فیصد حصہ مالی امداد کی صورت میں ہے جسے پاکستان نے واپس نہیں کرنا۔

پاکستان میں چینی فنڈنگ سے 27 ارب 30 کروڑ ڈالرز مالیت کے تحت 71 منصوبوں پر کام جاری ہے۔ پاکستان کو سی پیک منصوبے کے تحت ملنے والے قرض کا 83 فیصد حصہ توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبے پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ اِن شعبوں کے منصوبوں میں کوئلے سے چلنے والے بجلی پلانٹس، ڈیمز، سڑکوں کی تعمیر اور انڈسٹریل و اکنامک زونز کا قیام شامل ہے۔

چین کی جانب سے پاکستان کو ملنے والی رقم کا 90 فیصد حصہ قرض ہے اور توانائی کے شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاری کا 95.2 فیصد جب کہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کا 73 فیصد حصہ قرض ہے۔ چین نے پاکستان کو اوسط قرضے 3.76 فیصد کی شرح سود پر دیے ہیں جن کی بشمول سود مکمل ادائیگی 13 برس اور دو ماہ میں ہونی ہے اور اِس قرض کی ادائیگی کا عمل مکمل قرض ملنے کے بعد چار برس اور تین ماہ بعد شروع ہونا ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ چین کی طرف سے ترقیاتی امداد کا نصف حصہ پاکستان میں ایکسپورٹ بائر کریڈٹ کی شکل میں آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ چینی اداروں نے پاکستان کو آلات اور اشیا اِن اداروں سے خریدنے کے لیے دیا ہے جن کی منظوری چینی حکام نے دی ہے۔

سی پیک سے قبل 2002ء سے 2012ء کے دوران، چین سے 84 فیصد قرضہ پاکستان میں مرکزی حکومتی اداروں کو دیا تھا لیکن چین نے سی پیک کے منصوبے کے اعلان کے بعد حکمت عملی بدلتے ہوئے وفاقی حکومت کے علاوہ بھی حکومتی اداروں کو قرض دیا۔ اییڈ ڈیٹا کا کہنا ہے کہ چین کے قرض کا 40 فیصد اب سرکاری کمپنیوں، ریاستی بینکوں، مشترکہ وینچرز اور نجی شعبے کے اداروں کو دیا جا رہا ہے۔ اور اِن میں سے زیادہ تر حکومت کی بیلنس شیٹ میں ظاہر نہیں کیا جاتا۔

تاہم چین نے اکثر اداروں کو یہ قرض نادہندگی کی صورت میں حکومت پاکستان کی ضمانت پر دیا ہے یعنی اگر وہ ادارے یہ قرض ادا نہ کر سکیں تو حکومت اِس کی مکمل ذمہ داری اُٹھائے گی۔ جب کہ بعض معاملات میں قرض کی ادائیگی کی باضابطہ ضمانت کے بجائے حکومت قرض دینے والوں کو معاہدے کے تحت ایک خاص فیصد تک ادائیگی کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ اِس قسم کی ضمانت ’خفیہ قرض‘ کی ایک صورت ہوتی ہے۔

ایڈ ڈیٹا کے مطابق سی پیک کے تحت چین نے پاکستان کو بھی ایسا خفیہ قرض دیا ہوا ہے۔

چین کی طرف سے پاکستان کو ملنے والے قرضے کا دو تہائی حصہ چین کے ایگزم بینک سے ملا ہے جب کہ 8.4 فیصد چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور 6.5 فیصد انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا سے حاصل کیا گیا ہے۔ ایڈ ڈیٹا کے مطابق چین کے دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کی طرح پاکستان کے ساتھ بھی سی پیک کے تحت ہونے والی معاہدوں کی شرائط بھی عام نہیں کی گئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان کو بھی چین کو قرض کی ادائیگی کے معاملے پر لاؤس جیسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اِس سلسلے میں ایڈ ڈیٹا کے سینئرریسرچ سائنس دان ڈاکٹر عمار ملک کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عوامی تصور کے برعکس، چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری ’امداد‘ کی شکل میں نہیں ہے بلکہ کمرشل شرائط پر دیے گئے ’قرضوں‘ کی شکل میں ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہدری یعنی سی پیک کی مد میں دی گئی 90 فیصد رقم قرضوں کی شکل میں ہے اور پاکستانی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ وہ اِن قرضوں کو سالانہ 3.76 فیصد کی اوسط شرح سود کے ساتھ ادا کرے۔ وہ کہتے ہیں کہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار اور قرضوں میں تناسب جو کہ سرکاری طور پر 92 فیصد دکھایا جاتا ہے، وہ ممکنہ طور پر اِس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔ اِن قرضوں کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عمار نے بتایا کہ حکومت نے چینی سرمایہ کاروں سے اِس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ اِن کے سرمائے پر منافع ضرور دیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ منصوبے توقعات کے مطابق آمدنی نہیں پیدا کر پاتے، تو حکومت پاکستان کو اِن قرضوں کی ادائیگی کرنا ہوگی تاکہ سرمایہ کاروں سے کیے گئے وعدے پورے کیے جا سکیں۔ لیکن کیوں کہ یہ تمام معاہدے ڈالر کرنسی میں کیے گئے ہیں، اور روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے، تو مقامی کرنسی میں قرض کی ادائیگی کا بوجھ بھاری ہوتا جائے گا اور مجموعی قرضوں کا حجم بڑھتا جائے گا۔

حکومت پاکستان کا مؤقف
ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کا کہنا ہے کہ پاکستان کو قرضوں کے استحکام کا مسئلہ ہے لیکن اِس کی وجہ چین نہیں بلکہ پاکستان کے اپنے مسائل ہیں جن کی وجہ سے ہمیں قرضوں کے استحکام کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اسد عمر نے رپورٹ میں کیے گئے اعتراض دہراتے ہوئے کہا کہ اِس میں سی پیک کے حوالے سے شفافیت کے فقدان، پاکستان کے لیے خفیہ قرضوں، مہنگے قرضوں، سی پیک کی وجہ سے پاکستان کا قرض خطرناک حد تک بڑھ جانے کے مسائل اٹھائے گئے نیز یہ کہ سی پیک کے منصوبوں سے متعلق معلومات شفاف نہیں ہیں جبکہ یہ معلومات ایک سے زائد مرتبہ دہرائی جاچکی ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ پارلیمان میں، سینیٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں برائے منصوبہ بندی سی پیک کے علاوہ ایک مشترکہ کمیٹی سی پیک سے متعلق سوالات پوچھتی ہیں، یعنی اِس پر پارلیمانی نگرانی موجود ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ ہم عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کا حصہ ہیں، یہ پروگرام جب شروع ہوا تھا سی پیک کی معلومات کے بارے میں بہت بات ہوتی تھی، ہم سے یہ معلومات مانگی گئیں تو ہم نے اُنھیں فراہم کردیں، جس کے بعد آپ نے آئی ایم ایف کے مذاکرات میں سی پیک کے قرضوں کے حوالے سے کچھ نہیں سنا ہوگا۔
وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ سی پیک کے حوالے سے خفیہ قرضوں کی بات کی گئی، جو پتا نہیں کون سے قرضوں کی بات ہے۔ ہم نے ذہن دوڑانے کی کوشش کی تو ہماری سمجھ میں یہ آیا کہ شاید کسی قرض یا منصوبے کے لیے جو سوورین گارنٹیز دی جاتی ہیں، اُسے خفیہ قرض کہہ رہے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ پاکستان میں جتنی آئی پی پیز لگی، چاہے وہ کسی بھی ملک کے سرمایہ کاروں نے لگائی ہیں، سب کو یہ سٹرکچر ملتا ہے، اِسی بنیاد پر یہ منصوبے لگائے جاتے ہیں اور گارنٹیز دی جاتی ہیں، اِس میں کوئی نئی چیز ایجاد نہیں ہوئی اور نہ ہی یہ کوئی خفیہ چیز ہے۔ اِس میں کوئی انوکھی بات نہیں سی پیک کے لیے کوئی ایسی خاص گارنٹیز نہیں دی گئیں جو دیگر توانائی کے منصوبوں کو نہ دی گئی ہوں۔
اسد عمر نے کہا کہ ایک اعتراض یہ کیا گیا کہ چینی قرضوں کی وجہ سے پاکستان میں قرضے خطرناک حد تک پہنچ گئے ہیں لیکن پاکستان کا اندرونی اور بیرونی قرض اگر ملا کر دیکھا جائے تو اِس میں 10 فیصد قرض چین کا جب کہ باقی مقامی یا بیرونی قرضے ہیں۔ اگر صرف بیرونی قرض کو دیکھا جائے تو اِس میں 26 فیصد قرض چین کا ہے تو جو 74 فیصد ہم نے دیگر عالمی اداروں سے لیا اُس سے پاکستان کو خطرہ نہیں ہوگا لیکن اِس 26 فیصد سے ہوگیا، یہ بالکل لغو دلیل ہے۔

اختتامیہ
سی پیک چین اور پاکستان کے عظیم اور بے مثال تعلقات میں ایک تاریخی سنگ میل ہے اور اِسے نہ صرف چین اور پاکستان بلکہ پورے خطے کی معاشی ترقی کا منصوبہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اربوں ڈالرز سرمایہ کاری کا حامل یہ منصوبہ پاکستان کی معاشی ترقی کی راہ میں اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ ہے جس سے یقینی طور پر پاکستان میں تعمیر و ترقی کے ایک نئے باب کا آ غاز ہو چکا ہے۔ یہ عظیم منصوبہ چین اور پاکستان کے مابین دوطرفہ تعاون کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کررہا ہے۔ سی پیک سے پاکستانی عوام کو بہت سے فوائد حاصل ہوں گے، اس میں مقامی لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تعلیمی اور طبی منصوبوں کے ذریعے سے بہتری کی کوشش کی گئی ہے۔انفراسٹرکچر کی تعمیر سے سیاحت کے شعبے میں ترقی دیکھنے میں آئی ہے،زراعت میں نئےمنصوبوں سے مجموعی طور پر ملکی زرعی پیداوار میں مثبت نتائج کی توقع ہے۔اِس وقت بھارت، افغانستان سمیت کئی طاقت ور ممالک اِس منصوبے کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اِن کی سازشوں کا جواب دینے کے لیے ہمیں اپنے تمام تر اختلافات کو فراموش کر کے ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا اور دشمن ممالک کے جھوٹے پروپیگنڈے کو رد کرنا ہو گا۔

Check Also

Fiscal Federalism

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *