چین ، امریکا ٹکرائو
حالیہ امریکی بل کس چیز کا پیش خیمہ ہے
امریکا کی افغانستان سے پسپائی کونائن الیون کی طرح کا ایک واقعہ شمارکیا جاسکتا ہے۔ مستقبل قریب میں اسے بھی کسی نہ کسی اصطلاح سے موسوم کردیا جائے۔ شاید اس کے لیے’ بعد دہشت‘ (Post-Terror) کی اصطلاح زیادہ موزوں لگے یا پھر عہد افغان (Afghan Era) بھی ہوسکتا ہے۔ اس سب کا اندازہ امریکا کے پیچ وتاب سے لگایا جاسکتا ہے۔ اب امریکا کی زبان حال تحکم کو ظاہر نہیں کرتی۔ کبھی اسے چین کو اپنے نظام کو جمہوریت کہنے کے خلاف جمہوریت کی تعریف کرنے کے لیے اجلاس بلانا پڑتا ہے اور اوراب چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی ہائوس ایک ایسے بل کی منظوری دے رہا ہے جو واضح طور پر چین کو مخاطب کررہا ہے۔
4فروری 2022ء کو امریکی ہائوس نے دی امریکا کمپٹیز ایکٹ (The America Competes Act, 2022)کے نام سے ایک بل پاس کیا جس مین بائیڈن حکومت کی معاشی مشکلات کو حل کرنے کی بات کی گئی ہے، خاص طور پر سیمی کنڈکٹرز کے عالمی بحران کو اس میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اور اس طرح کے دیگر معاشی مسائل نے بائیڈن حکومت کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ کوویڈ کی وجہ سے متاثر ہوئی معیشت کے بحال کرسکیں۔
یہ بل امریکا کے کچھ معاشی اُصولوں کو بھی بدل دے گا۔ نئے قائم ہونے والے کاروبار کو اب عالمی سطح پر مقابلے کی سوچ سے چلایا جائے گا۔ لامحالہ اس بل کا تمام تر زور چین کی معیشت کا مقابلہ کرنے پر ہے۔
یہ معاملہ گزشتہ سال جون کے مہینہ کا ہے جب ایسا ہی ایک بل سینیٹ سے پاس ہواتھااور وہ بھی حزب مخالف کی تائید سے ۔ اب قانون دانوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ سینیٹ اور ہائوس کے پاس کردہ بلوں میں کیا فرق ہے اور اس کا نفاذ کس طرح سے ہوگا۔ قسطوں میں سامنے آنے پر اسے طویل قانون سازی (Sweeping legislation)کہتے ہیں۔پہلے سینیٹ کے بل کو ایک نظر دیکھ لیتے ہیں۔
حزب مخالف کی تائید سے پاس شدہ سینیٹ بل (جون2021ء)
اِس بل کی رُو سے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکی ٹیکنالوجی، سائنس اور ریسرچ پر 200بلین ڈالر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ بل 32کے مقابلے میں 68ووٹوں سے پاس ہوا۔ یہ جوبائیڈن کی بڑی کامیابی شما رکیا جاتا ہے کیوں کہ اس میں ریپبلکن کے بھی 19ووٹ شامل ہیں۔ یہ بل چین کا بہت سے محاذوں پر مقابلہ کرنے کے لیے لایا گیا ہے اور آنے والی نسلوں کی تربیت کا پروگرام اپنے اندر رکھتا ہے۔
اِس بل پر بہت سے اعتراضات خود حکومتی اراکین کی طرف سے عائد کیے گئے ہیں۔ ان میں سے ایک ناسا کے لیے 10بلین ڈالر کی رقم کا مختص کیا جانا ہے جو ایک رائے کے مطابق من پسند لوگوں کی کمپنیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہے۔اسی طرح سیمی کنڈکٹر کا معاملہ ہے جن پر پیسے لگانے کا مقصد کچھ لوگوں کو فائدہ پہنچانا ہے۔ یعنی رائے رکھنے والے سب کچھ سائنس اور ٹیکنالوجی کو دینے کے پیچھے کچھ گروہوں کے مفادات کو چھپا ہوا دیکھتے ہیں۔
سٹریٹجک کمپیٹشن ایکٹ
یہ کام دو سینیٹرز کا ہے جن کے نام سکمر اور ینگ ہیں۔ اِنھوں نے یہ 2020ء میں متعارف کرایا تھا اس لیے اسے اینڈلیس فرنٹیریر ایکٹ کہا گیا۔اس میں کچھ ترامیم کی گئیں اور جب سینیٹ سے یہ حزب مخالف کی مدد سے پاس ہوگیا تو اسے سٹریٹجک کمپیٹشن ایکٹ کا نام دیا گیا۔اس ایکٹ میں 54بلین ڈالر سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کے لیے مختص کیے گئے جو خالصتاً چین کا مقابلہ کرنے کے لیے مختص کیے گئے۔ اِسی طرح سائبر سکیورٹی اور بائیو ٹیکنالوجی کے لیے بھی رقم مختص کی گئی۔ 10بلین ڈالر کامرس پر لگانا تجویز کیا گیا اور خاص طورپر دیہاتی علاقوں میں ۔
مجموعی طور پر بائیڈن کی سائنس اور ٹیکنالوجی پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کی پالیسی پر سب کا اتفاق کرنا مشکل لگ رہا تھا۔فرنٹیر ایکٹ میں کی جانے والی ترامیم میں سے ایک ناسا کے لیے 10بلین ڈالر مختص کرنا بھی تھا جس کے بارے میں کہا گیا کہ وہ ایک کمپنی کو فائدہ پہنچانے کے لیے ہیں۔
سینیٹ سے ہائوس تک
ہائوس سے پاس ہونے والے امریکا کمپیٹز ایکٹ میں درج ذیل چیزوں کو رکھا گیا ہے:
سیمی کنڈکٹر کی صنعت
پانچ سال کے لیے 52بلین ڈالر سیمی کنڈکٹر کی صنعت کے لیے مختص کیے گئے۔ حالیہ صورت حال یہ ہے کہ سیمی کنڈکٹر عالمی طور پر بحران کا شکار ہے اور اس کی وجہ سے امریکا میں کاروبار بہت متاثر ہواہے۔ مثال کے طور پر جنرل موٹرز اورفورڈ نے چپ کی کمی کے باعث اپنے پلانٹ بند کردیے ہیں۔
ایک وقت تھا کہ امریکا چپ بنانے میں چیمپین تھا لیکن اب یہ اعزاز چین کو حاصل ہے اور امریکا کو دیگر ممالک سے چپ درآمد کرنا پڑرہی ہے۔ امریکا میں سیمی کنڈکٹر کی پیداوار 1990ء کے مقابلے میں 37فیصد سے کم ہو کر 12فیصد رہ گئی ہے۔ سیمی کنڈکٹر کے حوالے سے سینیٹ اور ہائوس کے بل میں کوئی فرق نہیں۔
تجارتی پالیسی میں تبدیلی
ہائو س بل نے تجارتی پالیسی میں بھی تبدیلی کو تجویز کیا ہے اور اس کے لیے کھیت تک کو کاروبار کے لیے صاف کرنے کی بات ہوئی ہے۔ اس کا مقصد اُن بے روزگار لوگوں کو روزگار فراہم کرنا ہے جو اپنی نوکریاں حالیہ بحران میں کھو چکے ہیں یا پھر جو زیادہ درآمدات کی وجہ سے کم معاوضے لینے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح درآمدت کے معاملے میں یہ تجویز کیا گیا کہ غریب ملکوں سے آنے والی درآمدات پر ڈیوٹی ختم کی جائے۔
اِس پالیسی میں ’میڈ اِن امریکا‘ کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے یعنی زیادہ سے زیادہ چیزیں امریکا میں بنائی جائیں ۔ ایسی چیزوں کو درآمد کرنے کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو مکمل طور پر باہر تیار ہوتی ہوں۔ صرف کل پرزے باہر سے منگوائے جائیں او رچیزیں امریکا میں تیار کی جائیں۔ یہ اصل میں اُس پالیسی کا اُلٹ ہے جوامریکا نے کبھی اپنائی کہ چھوٹی چیزوں پر توجہ دینے کے بجائے اُنھیں باہر سے منگوالیا جائے اور خود اسلحہ سازی اور اس طرح کی ٹیکنالوجی پر توجہ دی جائے۔ اسی طرح ملک میں ضرورت ہونے کی صورت میں کمپنیاں اپنی مصنوعات باہر کے ملکوں کو نہیں بیچ سکیں گی۔ سینیٹ بل کے مقابلے میں ہائوس بل تجارتی پالیسیوں کے حوالے سے زیادہ سخت ہے اور سینیٹ بل کے پیمانوں کو ناکافی خیال کرتا ہے۔
ترسیل کو مضبوط کرنا
45بلین ڈالر ترسیل کو یقینی اور مضبوط بنانے کے لیے مختص کیے گئے ہیں تاکہ امریکا کی صنعت قائم رہے۔ یہ سینیٹ بل کے مطابق ہی ہے۔ البتہ ہائوس بل نے اس کے لیے ایک باقاعدہ آفس کے قیام کی بات کی ہے جو اس بات کی نگرانی کرے کہ کس چیزکی ضرورت زیادہ ہے اور کس کی کم ۔ یہ آفس سٹاک پر نظر رکھے گا تاکہ کسی چیز کی کمی نہ ہونے پائے ۔اسی طرح 3بلین ڈالر سولر مصنوعات کو تیار کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں تاکہ چین کی مصنوعات پر سے انحصار کم کیا جاسکے۔ مزید براں 10.5بلین ڈالر ادویات اور طبی آلات کو سٹاک کرنے کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔
تحقیق اور اختراع کے لیے فنڈ
سینیٹ اور ہائو س دونوں کے بلوں میں تحقیق کے شعبے میں رقم مختص کی گئی۔ ہائو س بل کےمطابق تحقیق کے لیے 160بلین ڈالر مختص کیے گئے ہیں۔ نیشنل سائنس فائونڈیشن کے فنڈز میں مزید اضافہ کیا جائے گا۔ سکول اور کالج کی سطح پر بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے فنڈ میں اضافہ کیا جائے گا۔
امکانات کیا ہیں
سوال یہ ہے کہ کیا امریکا اس بل پر عمل درآمد کرکے چین کا جن میدانوں میں مقابلہ کرنا چاہتا ہے کر پائے گا۔ چین نے ایک عرصہ لگا کر دنیا کو اپنی مصنوعات کا خوگر کردیا ہے۔ امریکا کتنے عرصے میں اس اثر کو ختم کرسکے گا۔ بیلٹ روڈ منصوبے کا ابھی تک امریکا کی طرف کوئی جواب نہیں اور نہ ہی کوئی پروگرام سامنے آرہا ہے۔ اس بل میں ایک ہی چیز کو زیادہ محور بنایا گیا ہے کہ امریکا کسی طرح اُن چیزوں میں خو د کفیل ہوجائے جو اُسے باہر سے منگوانی پڑرہی ہیں اور خاص طور پر وہ چیزیں چین کی بنی ہوئی ہیں یعنی امریکا اپنی ضروریات کے لے چین کی مصنوعات کا محتاج ہے۔ اس طرح سے یہ صاف نظر آرہا ہے کہ بیلٹ روڈ منصوبہ ابھی دور کی بات ہے یا کم از کم امریکا کا اس حوالے سے ابھی کوئی پروگرام سامنے نہیں آسکا۔
دوسری طرف امریکا کے اندر کے حالات کو سامنے رکھیں تو ابھی اس بل پر سامنے آنے والے تحفظات کو دور نہیں کیا جاسکا ۔ ووٹ تو کسی نہ کسی طرح حاصل کرلیے گئے لیکن جن کمپنیوں کو اس سے جوڑا جارہا ہے کہ وہ اس سے فائدہ حاصل کرپائیں گئی ان کو جواب دینا ابھی باقی۔ اس طرح کی باتیں امریکی ایوان میں کسی ترقی پذیر ملک کی علامت لگتی ہیں۔ یعنی پہلے تو ایسی باتیں پاکستان سے متعلق ہی سننے کو ملتی تھیں کہ فلاں کمپنی کو نوازنے کے لیے حکومت فلاں پراجیکٹ شروع کررہی ہے۔ اب یہ بات امریکا کے ضمن میں بھی سامنے آرہی ہے تو یہ واضح طور پر زوال کی علامت ہے۔ امریکا جیسی جمہوریت میں اس طرح کی پیش رفت کسی اور ہی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
اِسی طرح حزب مخالف کا بل کی حمایت میں آنا اور ڈیموکریٹک کا اسے اپنی فتح قراردینا بھی کچھ عجیب لگا۔ ایسی صورت حال ماضی قریب میں پاکستان سینیٹ اور اسمبلی میں سامنے آئی جب حزب مخالف کی بھرپور مخالفت کے باوجود ان کے ووٹ حاصل کرلیے گئے۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کا انتخابات کے نتائج کے موقع پر ہلہ بولنے والا معاملہ ابھی تک زیر بحث ہے اور ری پبلکن کے ووٹ حاصل کرلیے گئے۔