پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت
ستمبر 2020ء میں ایک معروف امریکی ادارے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ نے دنیا کے 128 ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی اور عدالتی نظام ہائے سے متعلق اعداد و شمار جمع کر کے ایک رپورٹ جاری کی جس میں مختلف انڈیکس شامل ہیں۔ اِس رپورٹ میں شامل رول آف لاء انڈیکس کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اِس انڈیکس پر پاکستان 128 ممالک میں سے 122ویں نمبر پر موجود ہے۔ یہ پوزیشن نہ صرف ملک کے نظام انصاف کی کمزوریوں کا اُجاگر کرتی ہے بلکہ اِس بات کی جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان میں عدالتی اصلاحات کس قدر ناگزیر ہو چکی ہیں۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انصاف جلد اور معیاری ہونے کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ مگر افسوس کہ آزادی کے بعد ستر سال سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی ہمارے ملک میں عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول اب بھی ایک خواب ہے۔ یہاں مقدمے کا فیصلہ آنے میں پندرہ سے بیس سال لگ جاتے ہیں اور بسا اوقات مدعی انصاف مانگتا اِس دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔
اِسی جانب اشارہ کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کچھ ہفتے پہلے اپنے خطاب میں کہا کہ ’’ہم اپنے عدالتی نظام کو بہتر کر رہے ہیںجس میں کریمنل جسٹس سسٹم کی اصلاحات سب سے اہم ہیں، ملک میں امن و امان سے متعلق پیش آنے والے واقعات کی بڑی وجہ بھی یہ ہے ہمارا کریمنل جسٹس سسٹم انصاف دینے میں بہت دیر کرتا ہے جس سے مجرمان کو حوصلہ ملتا ہے۔‘‘
انصاف کا حصول تیسری دنیا اور ہمارے جیسے بے سمت معاشروں میں اُس وقت تک دشوار رہے گا جب تک انصاف کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ریاستی سطح پر اقدامات پر اتفاق رائے نہیں ہوتا کیوں کہ عدلیہ سے متعلق کچھ لکھنے سے پہلے سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ قلم کسی غلطی کا مرتکب نہ ہو جائے اور یوں توہین عدالت کے الزام پر عدالت طلب کرلے۔ یہ عمل احتیاط کا متقاضی اور دشوار گزار راستے پر چلنے کے مترادف ہے۔ ہمارے ہمسایہ ممالک میں ریاستی ستونوں کی کش مکش کی گفتگو بہت پرانی ہے۔ ملکی اور عالمی قوانین کے مطابق عوام کو انصاف مہیا کرنے کے لیے پاکستان کے عدالتی نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس وہ اہم مثالیں ہیں جو اصلاحات کی ضرورت کو مزید اُجاگر کرتی ہیں۔ اصلاحات سے ہی ریاست کے تینوں ستون اپنا اپنا کام بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔ انصاف تمام عوام کے لیے برابر ہونا چاہیے خواہ وہ امیر ہوں یا غریب، ججوں کے احتساب کا عمل بھی جائز اور قانونی طریقے سے ہو۔ موجودہ حالات اِس بات کے متقاضی ہیں کہ عدالتی اصلاحات کو ترجیح ملے اور سیاسی ٹمپریچر کم کیا جا سکے۔ پاکستان کو ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی قانون کی حکمرانی کے انڈیکس میں دیکھا جائے تو وہ مسلسل آخری نمبروں میں نظر آتا ہے۔ 2020ء کی رپورٹ کے مطابق 128 ممالک میں پاکستان 122ویں پوزیشن پر ہے۔ اِسی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں چالیس ہزار ، پانچوں ہائی کورٹس میں تین لاکھ اور زیریں عدالتوںمیں بیس لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں جو انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا عملی سبب بنتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے اِس اساسی نظریہ کو اپنی سیاسی جماعت کا نعرہ بنایا اور اُن کی تمام تر کوششیں پسے ہوئے اور محروم طبقوں کے لیے آواز بلند کرنا اور انصاف کی فراہمی کے لیے دوہرے معیاروں کے خاتمہ کے لیے ہیں۔
عمران خان نے تو حکومت میں آتے ہی کہا تھا کہ عدلیہ ریفارمز کرے، اِس کے لیے عدلیہ حکومت سے جو بھی چاہے گی، فراہم کیا جائے گا۔ لکھنے والے لکھتے ہیں کہ پاکستان کے عدالتی نظام میں تاخیر کسی المیے سے کم نہیں، انصاف کی فراہمی کے لیے ماڈل کورٹس متعارف کرائی گئیں جنھوں نے چند ہفتوں میں بہت عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا مگر معاملہ آگے نہ بڑھ سکا۔ ایک عرصہ سے خود جج صاحبان کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام اصلاحات کا متقاضی ہے۔ تقریباً 80 فیصد سائلین کا واسطہ ضلعی عدلیہ سے پڑتا ہے اور پاکستان میں سب سے بری صورت حال ضلعی عدالتوں کی ہے۔ جج کم ہیں اور مقدمات بہت زیادہ۔ صرف پنجاب ہائی کورٹ کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ ہر سال حکومت 2000 ججوں کی تنخواہیں اور دوسرے اخراجات کے لیے بجٹ فراہم کرتی ہے مگر پنجاب میں ججز کی تعداد چودہ ساڑھے چودہ سو سے زیادہ کبھی نہیں رہی۔ برسوں سے فوج داری اور دیوانی مقدمات التوا کا شکار ہیں۔ دیوانی مقدمات تو نسل در نسل چلتے ہیں۔ انصاف کی تلاش میں نکلے سائلین کی خواری معمول کی بات ہے۔ کتنے ہی جرائم میں اضافے کی بنیادی وجہ یہی تاخیر ہے۔ عدالتی ٹرائل کے ذریعے ملزمان کی مجرمان میں تبدیلی کی شرح بہت کم ہے اِس لیے سول (دیوانی) کریمنل (فوجداری) دونوں شعبوں میں اصلاحات انتہائی ضروری ہیں۔ ایک سابق چیف جسٹس نے کہا تھا کہ ہمارا سسٹم عام آدمی کو صحیح معنوں میں ڈلیور نہیں کر پا رہا اور وہ اِس کے لیے شرمندہ ہیں۔
جب عمران کی حکومت آئی تو عدلیہ کے بارے میں عجیب و غریب باتیں سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔ کچھ لوگ کہتے تھے کہ اسمبلی میں عدلیہ ریفارمز ایکٹ لایا جارہا ہے جس کے تحت ججز کو کنٹریکٹ پر لگایا جائے گا۔ ججز کے لیے ایک نیا سزا و جزا کا نظام ترتیب دیا جارہا ہے جس کے تحت عدلیہ میں بورڈ آف گورنرز بنایا جائے گا۔ عدالتوں کی مینجمنٹ بھی پرائیویٹ کردی جائے گی مگر باقی باتوں کی طرح یہ تمام باتیں بھی ہوا میں تحلیل ہوگئیں۔ ایک خیال یہ ہے کہ جوڈیشل ریفارمز پارلیمان کی ترجیح ہی نہیں، دوسرا خیال یہ ہے کہ ساری خرابیاں عدالتی نظام میں دوسرے اداروں کی مداخلت کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عدالتی چھٹیاں بھی مقدمات میں تاخیر کی ایک اہم وجہ ہیں۔ پاکستان میں لگ بھگ ڈھائی مہینے تک چھوٹی بڑی تمام عدالتیں بند رہتی ہیں۔ گرمیوں کے مہینوں میں جج صاحبان کام نہیں کرتے۔ یہ روایت برطانوی دور سے چلی آرہی ہے جن دنوں یہاں انگریز جج ہوتے تھے، اُن کے لیے گرمیوں کے موسم میں عدالتی کام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور وہ دو مہینے کے لیے واپس انگلینڈ چلے جاتے تھے۔ کچھ ججز کا خیال ہے کہ پراونشل جسٹس کمپنی ایک ایسا فورم ہے جس کو بروئے کار لاکر صوبے میں مختلف ڈیپارٹمنٹس کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کو بڑھا کر سائلین کے مسائل کو کم کیا جا سکتا ہے۔
اِسی طرح ہمارے ہاں دو معاملات پر وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ ایک یہ کہ ہمارا جسٹس سسٹم شکستہ اور کمزور ہے۔ چناں چہ اگر کسی کے ساتھ ریاست یا معاشرے کی طرف سے زیادتی ہوتی ہے اور وہ اُس کی دادرسی چاہتا ہے تو تاخیر سے ملنے والے انصاف یا اُس کی عدم دستیابی کی صورت میں وہ مزید محرومی کا شکار ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ تنازعات کو حل کرنے سے قاصر ایک نظام اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ ایک ریاست جو ایسا نظام قائم کرنے میں ناکام رہے جو کم از کم شہریوں کی قانونی مساوات کا بھرم ہی رکھ لے، اُس میں ہر کوئی ذاتی تحفظ کے لیے طاقت حاصل کرنا چاہے گا۔ ایسا نظام قانون کی حکمرانی کے تصور کے منافی ہوتا ہے۔ حقیقی چیلنج طاقت ور اشرافیہ اور افسران کے رویے میں تبدیلی کی تحریک پیدا کرنا ہے۔ افراد کے مقابلے میں اگر نظام کی مضبوطی کا عمل موجود نہ ہو تو یہ نظام طاقت ور افراد کے ہاتھوں یرغمالی کا منظر نامہ پیش کرتا ہے کیوں کہ کمزور لوگوں کی بنیادی خواہش افراد کے مقابلے میں اداروں کی مضبوطی ہوتی ہے اور اِن ہی اداروں سے اُن کو انصاف یا اپنے بنیادی حقوق شفاف انداز میں مل سکتے ہیں۔
پاکستان میں انصاف کے نظام کو تین بنیادی چیلنجز ہیں۔ اول یہ نظام طبقاتی بنیادوں پر قائم ہے جہاں طاقت ور اور کمزور کے درمیان تفریق کا پہلو نمایاں ہے۔ دوم، انصاف کے نظام میں سیاسی اور با اثر افراد کی مداخلتیں، کرپشن، بدعنوانی پر مبنی مسائل کی بہتات، سوم ہمارے عدالتی نظام میں پائی جانے والی خامیاں، پولیس اور تفتیش کا نظام، انصاف میں تاخیر اور اِس تناظر میں اصلاحات کا نہ ہونا جیسے اُمور سرفہرست ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مجموعی طور پر لوگوں کو اپنے انصاف سے جڑے اداروں پر اعتماد نہیں اور اِس بحران نے عدالتی نظام اور عام آدمی میں ایک بڑی نمایاں خلیج پیدا کردی ہے جو ریاستی و عوامی رشتہ کو کمزور کرتی ہے۔
عدالتی نظام کے حوالے سے جو سب سے اہم مسئلہ عام یا کمزور آدمی کو درپیش ہے وہ عدالتی نظام میں طاقت ور افراد کو سٹے آرڈر کا ملنا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے عدالت یہ جانتے ہوئے بھی کہ طاقت ور اپنے مفاد کے لیے کیسے سٹے لیتا ہے، اُسے سٹے دے دیا جاتا ہے۔ پولیس، وکیل اور ججوں کے درمیان ہونے والا یہ باہمی گٹھ جوڑ کمزور لوگوں کے لیے وبال جان بن جاتا ہے۔ سٹے آرڈر کا مطلب کمزور مخالفین کو دبائو میں لانا، اُسے عدالتوں میں ذلیل و خوار کرنا اور مقدمات کو طول دینا ہوتا ہے تاکہ کمزور لوگ ہمت ہار کر گھر بیٹھ جائیں۔
ہم میں سے جو افراد جسٹس سسٹم سے واقف ہیں، وہ اِس نظام کے اِسی طرح عادی ہو چکے ہیں جس طرح ٹریفک سگنل پر بھیک مانگنے والے بچوں سے سماجی نظام کی بے اعتناعی۔ عام شہریوں کو انصاف کی عدم فراہمی ہماری راتوں کی نیند ہرگز خراب نہیں کرتی اور پھر اس گلے سڑے نظام سے کچھ مفادات بھی وابستہ ہیں۔ تمام شہریوں کو میسر قانونی مساوات اشرافیہ کو سماجی، سیاسی اور معاشی ناہمواری سے حاصل ہونے والے فائدے کا مداوا کر سکتی ہے لیکن جہاں ایسی مساوات قائم کرنے والا نظام ہی موجود نہ ہو، وہاں جس کسی کے پاس بھی دولت یا طاقت ہوگی، وہ اسے استعمال کرتے ہوئے ان میں اضافہ کرتا چلا جائے گا۔ یہ صورت حال امیر اور غریب کے درمیان حائل معاشی خلیج کو زیادہ وسیع اور گہرا کرتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں معاشی طور پر پسے ہوئے طبقات میں مزید اشتعال پیدا ہوتا ہے کیوں کہ وہ ایک ایسے نظام کا حصہ بننے پر مجبور ہوتے ہیں جو اُن کی سماجی اور معاشی ترقی میں معاون ثابت ہونے کے بجائے رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ چناں چہ اُن کی غربت اور پس ماندگی کی زنجیریں نہیں ٹوٹتیں جس کے نتیجہ میں طاقت ور اشرافیہ انصاف اور معاشی ہمواری کے اُصولوں کو لاگو کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے میں اپنا کردار ادا کرتی رہے گی کیوں کہ وہ اِس نظام سے مستفید ہوتے ہیں۔ لیکن ایک ریاست اور معاشرے میں جو بھی خرابیاں پنپتی ہیںاور جس کی جڑیں ناقص نظام انصاف میں گڑی ہوتی ہیں، اُس صورت حال سے بچنے اور اپنے مال، جان، عزت محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں تنازعات کا مؤثر اور منصفانہ حل موجود ہو۔ چند سال پہلے اشتر اوصاف علی (سابق اٹارنی جنرل) نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر کھڑے وکلا کے ایک گروپ سے پوچھا کہ ہمیں کسی شخص کی وفات کے بعد اُس کے ورثا کے لیے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے عدالت جانے کی کیا ضرورت ہے، کیا یہ کام نادرا نہیں کرسکتا کیوں کہ اُس کے پاس تمام ریکارڈ موجود ہے اور جہاں کوئی تنازع ہو، وہاں متاثرہ فریق عدالت سے رجوع کر سکتا ہے۔ ہم اِس سادہ لیکن باسہولت تصور کو نافذ کیوں نہیں کرتے؟ لیکن بات یہ ہے کہ ہم ایک ایسے نظام کے ساتھ کام کرنا بہتر سمجھتے ہیں جس میں فیصلوں کے التوا کا فائدہ کسی اہم فریق کو پہنچے۔ بعض صورتوں میں جائز ورثا کا تعین ہونے اور جائداد کی تقسیم میں کئی برس لگ جاتے ہیں۔ ہم بعض ایسے مقدمات میں دلائل دینے میں بہت زیادہ وقت گزار دیتے ہیں جو ایک آدھ پیشی میں طے ہو سکتے ہیں۔ ہم تین مرحلہ نظام انصاف کیوں نہیں اپناتے جیسا کہ مقدمہ، اپیل اور حتمی اپیل۔ اس کے ذریعے فوری انصاف کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہمارے قوانین خراب ہیں اور وہ لوگوں کو بے ایمانی پر اُکساتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے کرائے داری کے قوانین کرائے داروں کو ترغیب دیتے ہیں کہ وہ حلفیہ وعدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جائداد کا قبضہ اپنے پاس رکھیں جب کہ اُسے خالی کرانے کے لیے کیا کیا کیس برس ہا برس تک چلتا رہے۔ زمین کی ملکیت کے درست قوانین کی غیر موجودگی میں لینڈ مافیا وجود میں آتی ہے اور مقدمات شروع ہو جاتے ہیں۔ ابھی تک ہم زمین کا غیر متنازع ریکارڈ طے کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں مینجمنٹ نام کی کوئی چیز نہیں۔ سپیشلائزیشن کے اِس دور میں ایک جج صاحب بیک وقت بہت سے کام کیوں کرتے ہیں؟ کیا وہ ایک ضمانت کی اپیل ملنے کے بعد پھر اگلے کیس میں کسی اراضی تنازع کی سماعت کرنے یا کسی معاہدے کی خلاف ورزی کا کیس سننے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں؟ کیا کیسز کی گروپنگ نہیں ہونی چاہیے؟ اگر آپ نے ایک سو کیسز کا فیصلہ کرنا ہے تو کیا آپ تمام کی سماعت ایک وقت شروع کر سکتے ہیں؟ یقیناً ایسا نہیں ہوسکتا۔ تو یہی وجہ ہے کہ مقدمات برس ہا برس تک چلتے رہتے ہیں اور پھر اگر دلائل مکمل نہیں ہیں اور اگر وکلا نے اِس کی تیاری کے لیے وقت مانگا ہے تو پھر اُسے عدالت میں کیوں لگا دیا جاتا ہے؟ پاکستان میں اگر ایک منصفانہ اور شفاف نظام کو لانا ہے تو یقینی طور پر اُس کی ایک بڑی بنیاد سیاسی، سماجی اور معاشی انصاف پر مبنی نظام ہوگا اور اسی بنیاد پر ہم ایک مہذب اور ذمہ دار معاشرہ کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں۔ جو بھی معاشرہ انصاف کے نظام کے تناظر میں برابری یا عدم تفریق کے بجائے طبقاتی بنیادوں پر انصاف کا نظام قائم کرے گا، اُس کی کوئی سیاسی، اخلاقی اور قانونی ساکھ نہیں ہوتی۔ اس طرز کے معاشروں میں ریاست، حکومت، سماج اور قانونی اداروں کے درمیان ایک بڑی خلیج اور بداعتمادی کے سائے گہرے ہوتے ہیں اور لوگ اداروں سے انصاف کی توقع رکھنے کے بجائے خود سے انصاف کرنا چاہتے ہیں۔ انصاف کی بنیاد اگر طبقاتی، سیاسی سمجھوتوں، اقربا پروری پر مبنی کھیل، طاقت ور اور کمزور پر کھڑی ہوگی تو عدل پر مبنی معاشرہ بہت پیچھے چلا جاتا ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ موجودہ معاشرہ اِس نظام کی چکی میں پس رہا ہے۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک معزز جج نے ریمارکس دیے کہ ملک میں نظام عدل تقریباً ختم ہو چکا ہے جو ایک بڑے نکتہ کی طرف ہم سب کو متوجہ کرتا ہے کہ انصاف کا نظام کہاں کھڑا ہے۔ عمومی طور پر ہم پاکستان میں انصاف کے نظام پر عوامی یا اہل دانش سمیت رائے عامہ کو بنانے والے افراد یا اداروں کی رائے لیں تو سب انصاف کے نظام پر سوال اُٹھاتے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر میڈیا میں ہمیں ایسی خبریں جن میں عدم انصاف کی دردناک یا ظلم سے بھری کہانیاں سننے یا پڑھنے کو ملتی ہیں تو یقینی طور پر کوفت ہوتی ہے کہ لوگوں کا حصول انصاف کے لیے کن بڑی مشکلات اور مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خاص طور پر دو طرح کا انصاف کا نظام جو طاقت ور اور کمزور کے درمیان مختلف ہوتا ہے، بجائے خود بڑا تکلیف دہ امر ہے۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے قوم کے سامنے باربار نئے پاکستان کا ذکر کرتے ہوئے اِس اہم نکتہ کو اُٹھایا ہے کہ انصاف کے حصول کے مواقع طاقت ور اور کمزور کے لیے یکساں ہونے چاہییں۔ یہ وہ خواب ہے جس کی تعبیر وزیراعظم ملک میں خوش حالی اور ترقی کے لیے چاہتے ہیں۔ سستا اور فوری انصاف بظاہر ایسا لگتا ہے کہ محض ایک خواہش یا خوا ب بن کر رہ گیا ہے یا یہ ریاست اور حکومت کی بڑی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ دانش وروں اور لکھاریوں کے مطابق سوال یہ ہے کہ انصاف کا نظام اگر ختم ہوتا جارہا ہے تو اِس کا کوئی ایک فریق نہیں اور نہ ہی کسی ایک پر ذمہ داری ڈال کر ہم مسئلے کی اہمیت کو کم کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مجموعی ناکامی ہے جو ہمارے سیاسی، انتظامی، معاشی، قانونی اور سماجی نظام سے جڑی ہوئی ہیں اور اِس میں افراد اور ادارے دونوں کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں۔ اگر ہم نے اپنے مجموعی انصاف کے نظام کو سمجھنا ہے یا اِسے پرکھ کر بہتری کی طرف پیش قدمی کرنی ہے تو یہ کام کسی سیاسی تنہائی میں نہیں ہوگا۔ ہر فریق کو اپنی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا اور غیر معمولی صورت حال کے پیش نظر کچھ غیر معمولی ہی اقدامات کی طرف پیش قدمی کرنا ہوگی۔ یہ کام ایک بڑی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کا تقاضا کرتا ہے کیوں کہ جو بگاڑ ہے وہ کوئی معمولی نہیں بلکہ ایک بڑے مرض کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہ درستی روایتی طریقوں سے ممکن نہیں۔ کیا وجہ ہے کہ ہمارے انصاف کے نظام سے جڑے تمام فریقین جن میں سیاسی، انتظامی اور قانونی افراد یا ادارے شامل ہیں، وہ کیوں کر ایک بڑی اور غیر معمولی جوڈیشل ریفارمز کی طرف نہیں جاتے؟ کیا اُن میں صلاحیت کا فقدان ہے یا اُن کی ترجیحات وہ نہیں ہیں جو ہم دیکھنا اور سمجھنا چاہتے ہیں؟ ہم نے اپنے انصاف سے جڑے نظام میں جو بڑے پیمانے پر سیاسی بنیادوں پر مداخلتوں کا کھیل کھیلا ہے، وہ بھی ایک بڑی بگاڑ کا سبب بنا ہے۔ خاص طور پر ہمارے لوئر عدالتی نظام میں بڑے پیمانے پر عام یا کمزور طبقات کو استحصال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بڑا مسئلہ تو ہماری پولیس اور اِس سے جڑا تفتیش کا نظام ہے۔ جب تفتیش کے نظام میں ہی بڑا بگاڑ موجود ہوگا اور اُس کی بنیاد ہی طبقاتی ہوگی تو اِس تفتیشی نظام میں ہماری عدالتیں کیا انصاف کر سکیں گی! ہمارے انصاف کے نظام میں بہتری عدالتی نظام کے ساتھ ساتھ پولیس اور تفتیش کے نظام میں بڑی اصلاحات یا غیر معمولی تبدیلیوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اِسی طرح کمزور عدالتی نظام کے باعث ہماری بری حکمرانی اور عدم مساوات کا شفاف نظام بھی سامنے آتا ہے جو مزید مسائل میں اضافہ کرتا ہے لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ جہاں ہماری سیاسی قیادت کی ترجیحات میں انصاف کے نظام کو مضبوط کرنے میں کمزوری نظر آتی ہے وہیں ہمارا عدالتی نظام بھی کسی غیر معمولی کام کے لیے تیار نہیں۔ حالاں کہ اگر ہمارا عدالتی نظام اپنے داخلی محاذ پر کچھ بہتری پیدا کرنا چاہے تو اِن حالات میں بھی ہمیں بہت بہتر تصویر دیکھنے کو مل سکتی ہے۔
عمران خان کی حکومت کا سب سے بڑا نعرہ ہی سیاسی، انتظامی، قانونی اور معاشی اصلاحات پر مبنی ایجنڈا تھا۔ پولیس ریفارمز بھی اِسی سلسلے کی کڑی تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ حکومت بھی اصلاحات سے زیادہ ردعمل کی سیاست کا شکار ہوئی ہے۔ بہت سی اصلاحات پر یا تو سیاسی سمجھوتے کر لیے گئے ہیں یا ترجیحات کی تبدیلی ہوئی ہے یا عددی برتری نہ ہونے کی وجہ سے وہ واضح قانون یا پالیسی سازی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کو سمجھنا ہوگا کہ ایک اچھی حکومت اور جمہوریت یا سیاست بنیادی طور پر نظام کو مضبوط بناتی ہے اور تمام افراد کو، چاہے وہ چھوٹے ہوں یا بڑے، قانون کے تابع کرتی ہے۔
حکومت کو اِس تصور کو سیاسی شکست دینا ہوگی کہ افراد اتنے طاقت ور ہوجائیں کہ اُن کے سامنے قانون کمزور ہو۔ عملی طور پر اداروں اور قانون کی حکمرانی کا تصور مضبوط ہو تاکہ سب ہی قانون کی حکمرانی کے سامنے کھڑے ہو سکیں۔ وزیر اعظم نظام کی خرابیوں کا تو خوب ماتم کرتے ہیں اور اچھی بات ہے کہ اُنھیں اندازہ ہے کہ ہمارا نظام فرسودہ اور طاقت ور کے قبضہ میں ہے۔ لیکن محض ماتم سے کام نہیں چلے گا بلکہ اِس کے لیے وزیر اعظم او راُن کی حکومت کو کچھ آگے بڑھ کر غیر معمولی حالات میں عملی طور پر غیرمعمولی اقدامات ہی کرنا ہوں گے ۔
عدالتی نظام میں اصلاحات ہماری بنیادی ترجیح ہونی چاہیے۔ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات اور انصاف میں تاخیر سے ہمارے نظام کی ساکھ پر پہلے ہی سوالیہ نشان ہے۔ اصلاحات کے تناظر میں ہمیں چھ بنیادی باتوں پر توجہ دینا ہوگی۔ اول: عدالتی نظام کو Digitalize کیا جائے بالخصوص لوئر عدالتی نظام کو، دوم: اوپر سے لے کر نیچے تک ججز کی تقرری کے نظام کو اور زیادہ منصفانہ، شفاف بنایا جائے، سوم: عدلیہ میں موجود ججز اور اسی طرح وکلا کی جدیدیت کی بنیاد پر اور دنیا میں آنے والی نئی تبدیلیوں، طریقہ کار پر تربیت کے نظام کو مؤثر بنانا ہوگا۔ چہارم: سیاسی مداخلتوں کے خاتمہ کے لیے ایک داخلی جامع پلان بنایا اور اُس میں شفافیت کے عمل کو پیدا کیا جائے۔ پنجم: بار ایسوسی ایشن میں اصلاحات اور اِس تاثر کی نفی کرنا کہ وکلا تنظیمیں بھی عدالتی ریفارمز میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں۔ ششم: ججز کو ایسے پاپولر بیانات کی نفی کرنا ہوگی جو عدالتی نظام کی شفافیت کو خراب کرنے کا سبب بنتی ہیں اور اپنے داخلی نظام میں مربوط خود احتسابی کے نظام کو وضع کرنا ہوگا۔ بدقسمتی سے پارلیمنٹ عدلیہ پر اور عدلیہ پارلیمنٹ یا حکومت پر الزام لگا کر اپنا اپنا دامن بچانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہماری سول سوسائٹی، سیاسی جماعتوں، میڈیا، اہل دانش، بار ایسوسی ایشنز، رائے عامہ بنانے والے افراد سمیت پالیسی سازوں میں انصاف کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لیے ایک سنجیدہ مکالمہ کی عملی طور پر ضرورت ہے۔ ہمیں الزام تراشیوں کے بجائے اصلاح کے پہلوئوں کو تلاش کرنا ہے۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کہاں مسائل نئی قانون سازی سے حل ہوں گے اور کہاں، پہلے سے موجود قانون میں مزید اصلاحات یا عمل درآمد کے نظام میں موجود رکاوٹوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اِس حوالے سے ہمیں ایک روڈ میپ تیار کرنا ہوگا۔ ہمیں دنیا میں ہونے والے انصاف کے نظام سے بھی سیکھنا ہوگا کہ وہاں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں اور کون سی ایسی اصلاحات ہیں جن کی مدد سے اُن کے نظام میں انصاف کے نظام کو تقویت ملی ہے۔ عدالتی ریفارمز کے سلسلے میں قابل غور اور افسوس کہ ہمارے ملک میں جتنی بھی پالیسیاں آئی ہیں، وہ ناکام رہی ہیں۔ 1974ء کے مقدمات بھی ابھی تک زیر سماعت ہیں۔ عدالتوں میں فائلیں موجود ہیں۔ تیز ترین انصاف ہونا چاہیے 85 فیصد کیسز صرف عدم شہادت کی بنا پر ختم کر دیے گئے ہیں۔ قاضی عیسیٰ کیس ریفرنس حکومت نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے بنوایا تھا کیوں کہ قاضی فائز عیسیٰ نے حکومت کے خلاف فیصلے دیے تھے۔ لاپتا افراد کیس میں بھی اُنھوں نے فیصلہ دیا۔ یہ ریفرنس غیر قانونی تھا۔ ججوں کو آزادی دینا چاہیے۔ سینئر وکیل اور صدر لاہور بار ملک سرور کے مطابق قانون بدلتے رہتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اِن میں اصلاحات ضروری ہیں اور اصلاحات ہوتی رہتی ہیں۔ ہمارا آئین تحفظ دیتا ہے لیکن اِس کے باوجود ہمارے ادارے آزاد نہیں ہیں۔ آئین کا 209 آرٹیکل ختم کرنا غیر قانونی ہے۔ یہ آرٹیکل ججوں کے احتساب کے بارے میں ہے۔ اِس کو ختم کرنے سے بھی معاملات بگڑ جائیں گے اور دوسری طرف آئین کے مطابق عدلیہ کو آزادی دینا چاہیے۔ ہمارے ملک میں عدلیہ بظاہر آزاد ہے لیکن عملی طور پر آزاد نہیں۔ اِن حالات اور ہمارے معاشرے میں انصاف کی عدم فراہمی کے مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں۔ پاکستان میں عدالتی اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ اُنھوں نے قاضی فائز عیسیٰ کیس کے حوالے سے کہا کہ اس کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ عدلیہ پر بیرونی قوتیں اثر انداز ہونی کی کوشش کرتی ہیں۔ سابق چیف جسٹس چودھری افتخار کیس کو پوری دنیا نے دیکھا۔ پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔ عدلیہ میں ججز کی کمی دور کی جائے اور پارلیمنٹ پرانے قوانین کو وقت کے لحاظ سے تبدیل کیا جائے، نئے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔