ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کی کارکردگی
ٹوکیو اولمپکس کے فائنل میں پاکستانی نیزہ باز ارشد ندیم کی کارکردگی قابل داد تھی۔ تمغہ جیتنا کسی بھی مقابلے میں یقیناً اہمیت رکھتا ہے مگر جیت سے بھی اہم یہ ہے کہ کوئی جیتنے کے لیے کس طرح کوشش کرتا ہے۔ یہی سپورٹس مین شپ ہے اور اِس حوالے سے ارشد ندیم کی کارکردگی بے مثال تھی۔ نیزہ بازی کے فائنل مقابلے میں اگرچہ وہ پانچویں پوزیشن پر آئے اور اِس طرح پاکستان میڈل سے محروم رہا مگر اِس کھیل کو دیکھنے کا دوسرا زاویہ یہ ہے کہ دنیا بھر کے ہزاروں نیزہ بازوں میں پاکستانی کھلاڑی کا پانچویں نمبر پر آنا بجائے خود اہم ہے۔ ارشد ندیم کا کریئر اِس لحاظ سے بھی بے مثال تھا کہ ٹوکیو اولمپکس میں شامل پاکستانی دستے میں وہ واحد ایتھلیٹ تھے کہ جن کی شمولیت ملکی کوٹے پر نہیں بلکہ ذاتی کارکردگی کے معیار پر ہوئی تھی۔ اِس تناظر میں دیکھا جائے تو اِس مایہ ناز ایتھلیٹ نے کسی کو مایوس نہیں کیا۔ پاکستان کے ہر طبقہ فکر کے لوگوں نے اِس کارکردگی کی خوب داد دی ہے اور تمغے سے محرومی پر بھی قوم کی نفسیاتی کیفیت کسی جیت سے کم نہیں ہے۔ ارشد ندیم سے پہلے ویٹ لفٹر طلحہ طالب نے بھی قوم کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی تھی۔ طلحہ طالب بھی معمولی فرق سے تمغہ نہ جیت سکے مگر قومی سطح پر اُن کی صلاحیتوں کی بھرپور پذیرائی کی گئی۔ مگر یہ پذیرائی، یہ ستائشی بیان بازی اور واہ واہ اُن حقیقی اقدامات کا متبادل نہیں ہو سکتی جو کسی کھلاڑی کو عالمی سطح کے مقابلوں کے لیے تیار کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔
عالمی مقابلوں کی تیاری کے لیے منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کی تربیت پر مسلسل کام کرنا پڑتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ کام موسمی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ جب مقابلوں کی تاریخ کا اعلان ہو جاتا ہے تو ہم کھلاڑیوں کے تربیتی کیمپ منعقد کرتے ہیں۔ ارشد ندیم اور طلحہ طالب جیسے کھلاڑیوں میں صلاحیت تو بہت ہوتی ہے مگر عالمی سطح کے مقابلوں کے لیے اِن صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے جس درجے کی تربیت اور دیگر لوازمات درکار ہوتے ہیں، وہ یہ ہونہار کھلاڑی اپنے محدود نجی وسائل سے پورے نہیں کر سکتے۔ اپنی فطری صلاحیت اور اپنے محدود وسائل کے دم پر کی گئی تربیت اُنھیں کھیل کے آخری راؤنڈ تک تو لے جاتی ہے مگر وہ مد مقابل جو ہمارے کھلاڑیوں کے مقابلے میں زیادہ تیار ہوتے ہیں، آگے نکل جاتے ہیں۔ فائنل راؤنڈ سے باہر ہونے والے کھلاڑیوںکی صلاحیتوں پر کوئی سوال نہیںکیا جا سکتا بلکہ سوال اُن اداروں کی کارکردگی پر بنتا ہے جو کھیلوں کے فروغ کے ذمہ دار ہیں۔ کھلاڑیوں کا حتمی مقابلوں سے باہر ہونا اور پاکستان کا 29 سال سے اولمپکس میں کوئی تمغہ نہ جیت پانا اِس امر کی گواہی ہے کہ کھیلوں کے فروغ کے ذمہ دار اداروں نے اپنا کام ٹھیک طرح سے نہیں کیا۔ حالیہ اولمپکس مقابلوں نے اِس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ چناں چہ جہاں کھلاڑیوں کی مقابلتاً بہتر کارکردگی پر اُنھیں شاباش دی جارہی ہے، وہیں کھیلوں کے فروغ کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی ہدفِ تنقید ہے۔ عالمی کھیل صرف کھیل ہی کے مقابلے نہیں ہوتے بلکہ کسی ملک کی آگے بڑھنے کی لگن، مقابلے اور جیت کے جذبے اور صحت مندانہ رجحانات کے عکاس بھی ہوتے ہیں۔ چناں چہ ہمیں بھی اِسی نقطہ نظر اور ولولے کے ساتھ کھیلوں کے مقابلوں میں قومی نمائندگی کے لیے اپنے لوگوں کو تیار کرنا چاہیے کہ وہ اپنی کارکردگی کے ذریعے دنیا میں پاکستان کا پرچم بلند کر سکیں۔ اگر ہم کھیل کو محض کھیل سمجھتے رہیں گے تو وہ ذہنی سطح کبھی حاصل نہیں ہو سکتی جو ہمیں عالمی مقابلوں کے لیے تیار کر سکے۔ ایک کھلاڑی کے لیے عالمی سطح پر مقابلے کے لیے چند ہی برس ہوتے ہیں۔ اگر کھیلوں کے فروغ کے ادارے اپنی ناقص کارکردگی سے کھلاڑیوں کی زندگی کے وہ قیمتی سال ضائع کر دیں تو اُس کھلاڑی کے لیے یہ ایک سانحہ ہے ہی مگر ایک قومی نقصان بھی ہے کیوں کہ ہزاروں، لاکھوں افراد میں کوئی ایک ایسا جوہرِ قابل نکلتا ہے جسے قدرت نے اِس خاص کھیل کی صلاحیتوں سے آراستہ کیا ہوتا ہے۔ اِن صلاحیتوں کو نکھارنا اُن اداروں کا کام ہے۔ اگر وہ نہیں کرتے تو اپنے مشن سے وفاداری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
ارشد ندیم، طلحہ طالب، نجمہ پروین اور دیگر کھلاڑی جنھوں نے ٹوکیو اولمپکس میں پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کا پوری دیانت داری سے مظاہرہ کیا، اُن کی عمر کا یہ حصہ اُن کے متعلقہ کھیلوں اور کھیل کے عالمی منظرنامے میں پاکستان کی شناخت کے لیے بے حد اہم ہے۔ اِس لیے اِس جوہرِ قابل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ اولمپکس کا اختتام پاکستان میں محض داد و تحسین کے ڈونگروں پر نہ ہو بلکہ ناکامی کی وجوہ پر دیانت داری سے توجہ بھی دی جائے۔ پاکستان اولمپکس ایسوسی ایشن اپنی کارکردگی کا جائزہ لے۔ خود کو شک کا فائدہ دینا آسان ہے مگر اپنی کارکردگی کو قومی مقاصد کے مد نظر دیانت داری سے پرکھنا آسان نہیں۔ پاکستان کے کھیلوں کے میدان سے یاسیت کا خاتمہ اُسی صورت ممکن ہے جب کھیلوں کے فروغ کے ذمہ دار اداروں کی کارکردگی کا منصفانہ اور کڑا جائزہ لیا جائے۔ وزیراعظم عمران خان چوں کہ کھیل کا نمایاں پس منظر رکھتے ہیں، اُن سے بڑھ کر اِس شعبے میں در پیش رکاوٹوں اور اُنھیں ہٹانے کے طریقوں کو کون جانتا ہو گا۔ مگر حیرت ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے دور میں کھیل کے میدان میں کارکردگی زیادہ پسپائی کا شکار ہے اور اِسے بہتر کرنے کی جانب کوئی قابل ذکر پیش رفت نظر نہیں آتی۔ یہ ہمارے اربابِ بست و کشاد کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔