Monday , June 5 2023
Home / Archive / نیٹو اور یورپی یونین میں توسیع

نیٹو اور یورپی یونین میں توسیع

Listen to this article

نیٹو اور یورپی یونین میں توسیع

عالمی امن پر اثرات

یورپی یونین کے اکثر ممالک نیٹو کے رُکن ہیں اور اگر ایک عشرہ پہلے کی بات کریں تو شاید یورپی یونین اور نیٹو کوالگ الگ بیان کرنا عجیب تھا لیکن اب صورت حال میں تبدیلی آرہی ہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے سے کئی قسم کی تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں۔ اس کے ساتھ امریکا کا ایک دفعہ ایشیا کو خیر باد کہہ دینا بھی دھیان میں رہنا چاہیے ، گو اب اُسے اپنی غلطی کااحساس ہوا ہے اور وہ دوبارہ ایشیا میں اپنے پنجے جمانے کے لیے ہاتھ پائوں مارہا ہے۔

امریکا وہ طاقت تھی جس نے دوسری جنگ عظیم کے بحران سے یورپ کو نکالا اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ اس سے یورپ پر امریکا کی سیادت نصف صدی سے زیادہ کا قصہ بن گیا تھا۔ نیٹو قائم ہوا تو مغربی یورپ کے تقریباً تمام ممالک ا س کے رُکن بن گئے اور اس کا مقصد اپنے آپ کو سوویت روس سے بچانا تھا۔ بہرحال یہ وقت گزر گیا اور ا مریکا کے بلامقابلہ عروج نے اپنی فطری عمر پوری کرلی۔ 2008ء کے معاشی بحران نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تو برطانیہ یہ سوچنے پر مجبور ہوا کہ اُسے اپنا پونڈ بچانا چاہیے۔ اس کا نتیجہ بالآخر اس کے یورپی یونین سے اخراج کی صورت میں برآمد ہوا۔ افغانستان سے پسپائی کے بعد امریکا میں وہ دم خم باقی نہ رہا نیز امریکا انڈو پیسفک میں چین کی طرف زیادہ متوجہ ہوگیا اور اب اس کی توجہ کا مرکز نیٹو کے بجائے کواڈ بن گیا۔ اصل میں کواڈ کو ایشیا کا نیٹو بھی کہا جارہا ہے۔ اس صورت حال میں یورپ نے اپنے طور پر اپنی بساط بچھانے کی کوشش کی۔ حالیہ سالوں میں یورپ کے اندر جرمنی کا ایک مضبوط ملک کے درجے سے نیچے آجانا اور فرانس کو اس کی جگہ لینے کے لیے اٹلی سے معاہدہ کرنا ایسی چیزیں تھیں جو اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ اب یورپ امریکا کی سیاست کے بجائے اپنی سیاست کی طرف توجہ دے رہاہے۔

فرانس کے صدر ایمانویل میکخواں نے تو تین سال قبل نیٹو کو دماغی طور پر مردہ قرار دے دیا تھا اور یور پ کو اپنی حکمت عملی ترتیب دینے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ میکخواں اسی وجہ سے یورپ میں اُبھرتی ہوئی قیادت قراردیے جارہے ہیں اور دوسری مرتبہ صدارتی انتخاب جیت چکے ہیں۔

نیٹو ابھی تک کیوں زندہ ہے؟
نیٹو شاید ابھی تک قصہ پارینہ بن چکا ہوتا لیکن روس کے یوکرین پر حملے نے اسے ایک دفعہ پھر فعال کردیا ہے۔روس کے یوکرین پر حملے کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یوکرین نیٹو کا حصہ بننے جارہا تھا۔ گو وہ نیٹو کا شراکت دار ضرور ہے لیکن اس کا رُکن نہیں۔ روس اپنی سرحد پر یہ سب کچھ برداشت نہیں کرسکتا تھا اور اسی کو بنیاد بنا کر اُس نے فروری میں یوکرین پر حملہ کردیا۔ روس کے مطابق اور معروضی حقائق کے حوالے سے سوویت یونین کے بعد نیٹو کا کوئی جواز نہ رہا تھا اور نیٹو نے یہ عہد بھی کیا تھا کہ وہ اپنے اندر مزید توسیع نہیں کرے گا لیکن یوکرین کے مسئلے پر ایسا نہ ہوا۔ روس کے اس حملے کی وجہ سے یورپ کوروس کا خطرہ لاحق ہوگیا اور وہ پھر ایک دفعہ نیٹو کی طرف دیکھنے لگا۔ نہ صرف یہ ہوا بلکہ فن لینڈ اور سویڈن نے نیٹو میں شمولیت کے لیے درخواستیں بھی دے دیں۔ دیکھا جائے تو فن لینڈ اور سویڈن کو روس سے کوئی فوری اور خاص خطرہ درپیش نہ تھا لیکن پھر بھی وہ نیٹو کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ اصل میں یہ سویڈن اور فن لینڈ کی اپنی مرضی پر منحصر نہیں لگ رہا کیوں کہ ان ممالک کی نسوانی حکومتیں چین کی بنسری بجا رہی ہیں۔ یہ یورپ میں امریکا کی سیادت کو دوبارہ قائم کرنے یایوں کہہ لیں کہ یورپ میں امریکا کے احساس کو قائم رکھنے کے لیے ایک علامت ہے۔ اس سے قبل فن لینڈ اور سویڈن سرد جنگ کے دور میں غیر جانب دار رہے تھے لیکن اب وہ اس غیر جانب داری کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ سویڈن نے یہاں تک کہا کہ نیٹو میں شمولیت کا مطلب یہ نہیں کہ نیٹو کے اڈے وہاں قائم کر دیے جائیں گے یا پھر جوہری ہتھیار ا س ملک میں آجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ ہونے نہیں جارہا تو پھر نیٹو میں شمولیت کا کیا فائدہ، یہ کام تو صرف شراکت داری پر بھی ہوسکتا ہے۔ نیز فن لینڈ اور سویڈن کی نسوانی حکومتوں کے شب و روز کو دیکھا جائے تو نہیں لگتا کہ اُن کا اس سارے کھیل کے ساتھ کوئی سروکار ہے۔

نیٹو میں حالیہ توسیع: کیا بالٹک جھیل نیٹو جھیل بن جائے گی؟
فن لینڈ اور سویڈن نے تو نیٹو کے حالیہ اجلاس میں باقاعدہ درخواستیں جمع کرادی ہیں اور کچھ عرصے میں وہ نیٹو کے باقاعدہ رُکن بن جائیں گے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ ممالک اس طرف جارہے ہیں۔ ان میں بوسنیا ہرزے گووینا ، جارجیا، مالدووا اور جنگ کا مارا ہوا یوکرین شامل ہیں۔ ان ممالک کے نیٹو میں آجانے سے بالٹک ریاستوں سمیت کل آٹھ ملک بن جائیں گے جو کہ بالٹک جھیل کے اردگرد موجود ہیں اور اس طرح سے بالٹک جھیل ایک نیٹو جھیل بننے جارہی ہے۔
یاد رہے کہ نیٹو میں شامل ہونے والے آخری دوممالک میں ایک مونٹی نیگرو ہے جو 2017ء میں ا س کا رُکن بنا اور دوسرا مقدونیا ہے جو مارچ 2020ء میں اس کا رُکن بنا۔

کیا یورپ روس سے توانائی کے حصول کو نظر انداز کرسکے گا؟
یوکرین کی جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک یورپ کی طرف سے رو س پر پابندیوں کے چھ دور گزر چکےہیں جب کہ جرمنی نے فی الوقت کئی ارب ڈالرز کی نورڈ سٹریم 2 پائپ لائن کو منسوخ کر دیا ہے جس کا مقصد روسی گیس کو شمالی جرمنی تک پہنچانا تھا۔لیکن یہ معاملہ سارے یورپ کا نہیں ہے۔ ایک تو روس کی گیس اور گندم کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ ہنگری کی بات کریں تو اس پر پہلے بھی یورپی یونین کی طرف سے اعتراضات ہیں اور وہ جرمنی کی اینجلہ مرکل کی وجہ سے ابھی تک ان اعتراضات کی زد میں نہیں آیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ اُس نے روس کی گیس کو رد کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یاد رہے کہ ہنگری کا وزیراعظم روس نواز ہے اور اس لحاظ سے یورپی یونین میں ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ پولینڈ کی صورت حال بھی اس سے مختلف نہیں۔

یورپ کو نیٹو سے کیا توقعات ہیں؟
جیسا کہ بیان ہوچکا کہ نیٹو کا یورپ میں ورود ایک ہنگامی صورت میں ہوا ہے اور یورپ کے شمالی ممالک اور خاص طور پر بالٹک ریاستوں کو روس سے خاص طور پر خبردار کیا گیا ہے۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ ان ممالک جن میں اسٹونیا، لیتھونیا اور یوکرین شامل ہیں نیٹو کی افواج نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ ممالک چاہتے ہیں کہ ان میں سے ہر ملک میں کم ازکم نیٹو کی ایک ڈویژن فوج ہونا ضروری ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ایک تو نیٹو اتحاد میں وہ دم خم نہیں رہا جو کبھی تھا دوسرا یورپ اس کو ا س نظر سے بھی دیکھ رہا ہےکہ امریکا صرف اس کی پشت تھپتھپا رہا اور اسلحے کی مد میں کوئی خاص مد دنہیں کررہا۔ ظاہر ہے امریکا ایسا کربھی کیسے سکتا ہے کیوں کہ اب اُسے دو محاذوں پر نبرد آزما ہونا ہے یعنی یوکرین اور انڈو پیسفک اور اُس کے لیے اب پیسفک زیادہ اہم محاذ کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا چاہتا تو ہے کہ یورپ میں اُس کا نام رہے لیکن وہ یورپ کی قیمت پر ہی ہے۔ یہ چیز مستقبل قریب میں یورپ کو کچھ اور سوچنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ ویسے جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر تھے تو اُنھوں نے کھلے عام دھمکی دی تھی کہ اگر دیگر رُکن ممالک نے اپنا بوجھ نہ اُٹھایا تو وہ امریکا کو اس اتحاد سے نکال لیں گے۔اس بیان کے پیش نظر یورپی ممالک کے تحفظات بے بنیاد نہیں۔ اصل میں صرف پولینڈ، ہنگری اور چیک ریپبلک کے اخراجات میں امریکا کا حصہ ایک تہائی ہے اور امریکا اس خرچے سے اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے۔

نیٹو فوجی کے بجائے سیاسی اتحاد
نیٹو کی توسیع پر ایک اور سوال یہ آرہا ہے کہ نیٹو میں اس طرح ہر ملک کو شامل کرنے سے یہ ایک فوجی کے بجائے سیاسی اتحاد بن جائے گا اور اس کی افادیت تقریباً ختم ہوکرر ہ جائے گی۔ یہی نیٹو کا سب سے بڑا بحران نظر آرہا ہے کہ کیا وہ ختم ہونے جارہا ہے؟ امریکا کی تنبیہ سے تو یہی لگ رہا ہے کہ امریکا اسے ایک سیاسی اتحاد بناناچاہتا ہے جس میں ہر ملک اپنے فوجی اخراجات کا خود ذمہ دار ہوگا۔ ا س طرح سے امریکا کانام بھی رہے گا اور وہ اپنی ذمہ داریوں سے بھی سبکدوش ہوجائے گا نیز وہ روس کے خلاف دنیا کو بھڑکاتا رہے گا۔

یورپی یونین میں توسیع کاامکان
دوسری طرف یورپی یونین میں فوری طور پر تو کوئی توسیع نہیں ہورہی بلکہ برطانیہ کے نکلنے کا صدمہ ابھی تک چل رہا ہے لیکن یورپی یونین کا گلوبل گیٹ وے اس طرف کچھ اشارے کررہا ہے۔ نیز حال ہی میں جرمن چانسلر اولاف شولز نے اس سلسلے میں ایک بیان جاری کیا ہے جس میں یورپی یونین میں شمولیت کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ اس وقت یوکرین، البانیہ اور مقدونیا یورپی یونین میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اولاف شولز نے ان سے متعلق اظہار رائے کرتے ہوئے کہا کہ انھیں شمولیت کی تمام شرائط کو پورا کرنا ہوگا اور پوری طرح احتیاط کے ساتھ طریق عمل کومکمل کرنا ہوگا وگرنہ ان کی شمولیت یقینی نہیں رہے گی۔

اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یورپی یونین اپنی توسیع کے حوالے سے خاصی محتاط ہے او رنیٹو کے برعکس وہ ہرکسی کو اس کی دعوت نہیں دے رہی۔ یاد رہے کہ یورپی یونین ایک معاشی اتحاد ہے اور معاشی بحران کے دور میں ایسے اتحاد کو بڑھانے پر ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ اس لیے یورپی یونین اس معاملے میں زیادہ بے چین نہیں۔ اس سے قبل یورپی یونین کو پولینڈ اور ہنگری سے سخت شکایت ہے کہ وہ اپنی امیگریشن کی پالیسی میں یورپی یونین کے قانون کے مطابق تبدیلی نہیں کررہے جس کی وجہ سے دیگر رُکن ممالک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور اب وہ وقت نہیں رہا کہ جب سرحدوں پر آزادانہ نقل و حرکت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ معاشی بحران کے دور میں ایسی آزادانہ نقل و حرکت معیشت پر بہت گہرے اثرات ڈال رہی ہے اس لیے اس حوالے سے امیگریشن کی پالیسیوں کو بدلنا بہت ضروری ہے۔ یورپی یونین کی ساری سیاست اسی ایک بات کے گرد گھومتی ہے۔ برطانیہ کے یونین سے نکل جانے کا سبب یہی تھا اور اب یورپ یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ ایسا ہی کوئی اورطاقت ور ملک پھر اُس سے جدا ہوجائے کیوں کہ برطانیہ کےبعد فریگزٹ کا شور بھی سنائی دیتا رہا ہے۔

یورپ کا اصل ہدف چین ہے یا روس؟
یہ بیان ہوچکا کہ یورپ کسی اور سمت میں اڑان بھرنے لگا تھا کہ روس کا مسئلہ بیچ میں آگیا۔ دوسری طرف روس نیٹو کی پریشانی زیادہ ہے اور یورپ کی کم بلکہ اُلٹا یہ سلسلہ ہوا کہ یورپ کو اپنی گیس اور تیل سے محروم ہونا پڑرہا ہے جو وہ روس سے درآمد کرتا تھا۔ اس لحاظ سے یہ بات کہنا زیادہ غلط نہ ہوگا کہ یورپ کا مسئلہ روس نہیں بلکہ دنیا میں بڑھتی ہوئی طاقت کا مظہر چین ہے۔ دسمبر 2021ء میں یورپی یونین نے گلوبل گیٹ وے کو متعارف کرایا تو اس کا مقصد دنیا میں چین جیسے اثرورُسوخ کو حاصل کرنا تھا۔ اس کے لیے یورپی یونین نے ٹیم یورپ اپروچ کا نعرہ دیا جو یورپ کو اکٹھے ہوکر دنیا میں اپنی حیثیت بنانے کا پلیٹ فارم کہا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے یورپین انوسٹمنٹ بینک اور یورپین بینک فار رکنسٹرکشن اینڈ ڈویلپمنٹ کو مزید فعال کرنے کی بات ہوئی۔ گلوبل گیٹ وے کا زیادہ زور مال کے نئے ذرائع پر ہے۔ اس کے لیے یورپ کے پہلے سے موجود اداروں اور تنظیموں کو فعال کرنے کا پروگرام موجود ہے۔ ان میں نیبور ہڈ ڈویلپمنٹ اینڈ انٹرنیشنل کوآپریشن انسٹرومنٹ (NDICI)، گلوبل یورپ، دی انسٹرومنٹ آف پری ایکسیشن اسسٹنٹ، انوسٹ ای یواور یورپی یونین ریسرچ اینڈ انوویشن پروگرام کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپی یونین یورپین ایکسپورٹ کریڈٹ فیسلٹی کے قیام کا ارادہ بھی رکھتا ہے جو تیسری دنیا میں اپنے بزنس کو پھیلائے گا اور اس کا مقصد خاص طور پر چین کا مقابلہ کرنا ہے۔ یاد رہے کہ تیسری دنیا میں بزنس کا پھیلائو چین کا دیا ہوا تصور ہے۔

عالمی امن پر اثرات
کمزور ممالک کو شامل کرنے کے نتائج
یورپی یونین اور نیٹو کے پرانے رُکن ممالک کا ایک بہت بڑا اعتراض یہ ہے کہ نیٹو میں ہرکمزور اور چھوٹے ملک کو شامل کرنے کا مطلب ہے کہ نیٹو کی دفاعی ذمہ داریاں بڑھتی جائیں گی اور کمزور ممالک سے کچھ ملنے کے بجائے اُلٹا ان پر خرچ کرنا پڑے گا۔ معاشی بحران نے پہلے ہی ہرکسی کی کمر توڑ رکھی ہے اور نیٹو کے کرتا دھرتا اندھا دُھند اس میں ملکوں کو شامل کیے جارہے ہیں۔ دوسری طرف امریکا اپنے اوپر زیادہ ذمہ داری لینے کو بھی تیار نہیں۔ اس طرح سے اس کا ایک ہی نتیجہ نکل سکتا ہے کہ دنیا کو فوجی بحران کا شکار کرکے اُنھیں اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ لامحالہ اس سے دنیا کے امن کو بہت بڑا خطرہ لاحق ہوجائے گااور دنیا سرد جنگ سے بھی زیادہ گھمبیر صورت حال سے دوچار ہوجائے گی۔ ایسے میں ایک تیسری عالمی جنگ کے خطرے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جاسکتا جس کے آخر میں یہ ہوگا کہ کسی ملک کو یہ پتا نہیں ہوگا کہ وہ کس لیے لڑ ررہا ہے۔ اس وقت جنگ نیٹو کے نام پر شروع ہوئی لیکن ختم وہ کسی نام پر بھی نہ ہوگی۔

امریکا دفاعی بجٹ بڑھانے میں سب سے آگے ہے اور یوکرین کی جنگ کے بعد اس نے نیٹو کے ممبر ممالک پر بھی زور دیا ہے کہ وہ اپنا دفاعی بجٹ بڑھائیں۔ ظاہر ہے نیٹو کے بڑے رُکن ممالک کو ا س کی بات ماننا پڑے گی۔ اس جنگ کے شروع ہونے کے صرف تین دن بعد جرمنی نے اعلان کیا کہ وہ دفاع کے لیے اضافی 100 ارب یورو مختص کرے گا جس سے اس کا حتمی کوٹہ دو فیصد سے بڑھ جائے گا۔

علاوہ ازیں نیٹو کے سربراہ نے اعلان کیا کہ 30 میں سے نو رُکن ممالک 2 فیصد ہدف تک پہنچ چکے ہیں یا اس سے آگے بڑھ چکے ہیں، جب کہ 19 ارکان کے 2024ء تک اس تک پہنچنے کے واضح منصوبے ہیں۔جنز سٹولٹنبرگ نے کہا کہ دو فیصد ’بنیادی خرچ ہونا چاہیے، زیادہ سے زیادہ نہیں۔‘
اس سے واضح ہوتا ہے کہ یوکرین کی جنگ کو ایک طویل المیعاد منصوبہ سمجھا جارہا ہے اور یہ واضح طور پر سرد جنگ کی جگہ لے سکتی ہے۔ نیٹو کے ترجمان اس کا اظہار کرچکے ہیں کہ اس جنگ کے جلد ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔

دوسری طرف روس بھی اس محاذ سے کسی طرح پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور چین اس کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ روس اور چین دونوں ہائپر سونک میزائل تیار کرنے میں مغرب سے آگے ہیں جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ اور غیر متوقع پرواز کے راستے پر اپنے ہدف کی طرف سفر کر سکتے ہیں۔ یعنی جو کچھ امریکا دفاعی مد میں کررہا ہے اورروس اور چین اس سے بڑھ کر اُس کی تیاری میں لگے ہوئے ہیں۔ اس صورت حال کا سب سے بُرا اثر معیشت اور غذا کے بحران کی شکل میں سامنے آرہا ہے اور اس سے جنگ کے شعلے مزید بھڑکنے کا سامان پیدا ہوتا ہے۔ یعنی جنگ پہلے ہی جاری ہے جب معاشی اورغذائی بحران شدت اختیار کرے گا تو اس سے متاثر ہونے والے ممالک بھی لامحالہ اس جنگ کا حصہ بن جائیں گے۔ روس نے اعلان کیا ہے کہ وہ آئند ہ سے صرف اپنے دوست ملکوں کو گندم فراہم کرے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکی اور روسی بلاک کی سیاست ایک دفعہ پھر شروع ہونے جارہی ہے جو لامتناہی جنگ کا عندیہ ہے۔

Check Also

Website Under-Construction

Listen to this article  

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *