B3Wمنصوبہ
محرکات اور دنیا پر اِس کے اثرات
باہمی تعاون کے بجائے محاذ آرائی، پرامن بقائے باہمی کے بجائے مخاصمت اور عالمی خطرات سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کے بجائے نظریاتی اتحادوں کی تشکیل جیسے معاملات عالمی سیاست، معیشت اور سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر رہے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ، جیوسٹریٹجک مخاصمت، جیو پولیٹیکل مقابلہ آرائی اور جیو اکنامک اختلافات جنگ عظیم دوم کے بعد تشکیل پانے والے ورلڈ آرڈر کی غیر جانب دارانہ انداز میں تنازعات حل کرنے کی صلاحیت کو تیزی سے ختم کر رہے ہیں۔ اُصولوں پر مبنی (Rules-based) لبرل ورلڈ آرڈر کے زوال کے پیچھے کارفرما محرکات میں امریکا اور چین کے درمیان علاقائی سکیورٹی، عالمی تجارت اور مالیات اور کثیرالجہتی (Multilateral) سفارت کاری کے شعبوں میں غلبہ حاصل کرنے کے لیے شدید مقابلہ بازی جاری ہے جو کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ سرد جنگ کی سی صورت اختیار کرتی جا رہی ہے۔
یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ امریکا اور چین کے مابین تعلقات شروع سے ہی ایسے نہیں تھے۔ امریکا کے سیکر ٹری آف سٹیٹ ڈاکٹر ہنری کسنجر کا پاکستان کی معاونت سے کیا گیا دورہ چین، دونوں ممالک کو قریب لانے کا سبب بنا۔ صدر ماؤزے تنگ کے ’’ثقافتی انقلاب‘‘ کی وجہ سے چینی معیشت کی تباہی اور اِس کے نتیجے میں وہاں پھیلنے والے معاشرتی انتشار کے باعث صدر ڈینگ ژاؤپنگ نے چیئرمین ماؤ کی پالیسیوں کو خیرباد کہا اور ملک میں کلیدی اصلاحات متعارف کروانے کا فیصلہ کیا۔ اِن اصلاحات میں معیشت میں نیم سرمایہ دارانہ اُصولوں پر مبنی مارکیٹ اکانومی کا قیام بنیادی حیثیت کا حامل تھا اور اِسی فیصلے نے امریکا اور چین کے درمیان موجود خلیج کو پاٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ صدر ڈینگ کے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے چینی مارکیٹ کھولنے اور چینی خصوصیات کے ساتھ آزاد منڈی کی معیشت کو اپنانے کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی حکومت نے چین کو عالمی معاشی اور تجارتی اداروں کی رکنیت حاصل کرنے میں مدد فراہم کی۔ اِس موقع پر امریکی پالیسی سازوں کا خیال تھا کہ چین بالآخر ایک جمہوریت بن جائے گا اور مرکنٹلسٹ (Mercantilist) تجارتی پالیسیوں اور کمیونسٹ دور سے چلی آرہی منصوبہ بند معیشت کا نظام ترک کر دے گا تاہم امریکی خواہشات کے برعکس چین نہ صرف اپنی سوشلسٹ مارکیٹ اکانومی کے نظام پر ہی کاربند رہا بلکہ یہ مغربی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کا گزشتہ 30 سالوںمیں سب سے بڑا حریف بن کر اُبھرا ہے۔ چین نے دنیا کو اپنے معاشی نظام کی افادیت سے روشناس کروانے اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو چینی نظام اپنانے پر رضامند کرنے کے لیے مختلف اقدامات اُٹھائے ہیں۔ اِس سلسلے میں اِس نے ترقی پذیر ممالک کی انفراسٹرکچر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسیع وسائل بھی متحرک کیے ہیں۔ بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو ایک ایسا ہی عظیم انقلابی منصوبہ ہے جس نے پوری دنیا میں چینی اثر و رسوخ میں زبردست اضافہ کیا ہے اور تیزی سے بڑھتے ہوئے اِسی اثرورسوخ نے مغربی ممالک کے ایوان ہائے اقتدار میں زلزلہ بپا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب امریکا نے اپنے اتحادیوں سے روابط کو مستحکم کرنے کے حوالے سے تیزی سے اقدامات لینا اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو غیرمؤثر اور ناکام کرنے لیے وسیع پیمانے وسائل کو بھی متحرک کرنا شروع کردیا ہے۔ حال ہی میں برطانوی قصبے کارنوال میں منعقد ہونے والے جی سیون ممالک کے سربراہی اجلاس کے بعد سامنے آنے والا Build Back Better World یا B3W نامی منصوبہ اِسی بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے جو چین کی بڑھتی ہوئی طاقت پر قابو پانے کے لیے امریکا کے مقتدر حلقوں نے تشکیل دی ہے۔ یہ منصوبہ محض صدر جوبائیڈن کے ذہن کی اختراع نہیں بلکہ اِس پر گزشتہ کئی سالوں سے باقاعدہ کام جاری ہے۔ چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کی پالیسی کا باقاعدہ اطلاق صدر باراک اوباما کے دور میں ہوا جب کہ صدر ٹرمپ نے اِس کو نہ صرف باقاعدہ اپنی انتخابی مہم کا حصہ بنایا بلکہ اپنے دور صدارت میں چین مخالف جذبات کو بام عروج تک پہنچا دیا۔ موجودہ صدر جوبائیڈن نہ صرف اِس پالیسی پر کاربند ہیں بلکہ B3W منصوبے کے اعلان سے اُنھوں نے چین،امریکا مخاصمت کو ایک نئی جہت دے دی ہے۔
صدر جوبائیڈن کے منصب صدارت پر فائز ہونے سے جو ایک اُمید پیدا ہوئی تھی کہ وہ مخاصمت کے بجائے صحت مند مقابلے کی پالیسی اپنائیں گے، اب رفتہ رفتہ دم توڑ رہی ہے۔ امریکی تاریخ کے سب سے سینئر اور تجربہ کار صدر جوبائیڈن کے جی سیون سمٹ اور بعدازاں برسلز میں نیٹو کے سالانہ اجلاس میں شرکت اور اِن کے دوران مغربی رہنماؤں سے طویل ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے اعلامیوں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ China containment اب مغربی ممالک اور امریکا کا مشترکہ مقصد ہے۔ امریکا میں داخلی طور پر بھی ری پبلکن اور ڈیموکریٹ دونوں سیاسی جماعتیں یکساں طور پر چین مخالف پالیسوں پر کاربند رہیں گی۔ جی سیون سمٹ کے اعلامیہ میں دیگر الزامات کے علاوہ صدر جوبائیڈن نے ’’بلڈ بیک بیٹر ورلڈ‘‘ منصوبے کا اعلان کیا۔ اِس کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کی جانے والی ایک پریس ریلیز کے ذریعے اِس منصوبہ کے چند خدوخال بیان کیے گئے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
پریس ریلیز کے مطابق B3W ایک بولڈ اقدام ہے جس کے تحت 2035ء تک کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں بنیادی انفراسٹرکچر کی مد میں 40 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جی سیون اور دیگر جمہوری ممالک نجی اور سرکاری سرمائے کو متحرک کرنے کے لیے آپس میں تعاون کریں گے اوراِس منصوبہ کے ذریعے آب و ہوا، صحت، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی، صنفی مساوات جیسے معاملات پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائے گی نیز شفافیت اور احتساب کو یقینی بنایا جائے گا اور بلیو ڈاٹ نیٹ ورک کے قوانین کے ذریعے مالی شفافیت، ماحولیاتی استحکام اور سماجی و اقتصادی ترقی کو ملوظ خاطر رکھا جائے گا۔ بلیو ڈاٹ نیٹ ورک ایک کشیر الجہتی قدم ہے جس کی بنیاد امریکا، جاپان اور آسٹریلیا نے 2019ء میں رکھی تھی اور اِس کا مقصد بنیادی انفراسٹرکچر کے اُن منصوبوں کی سرٹیفیکشن کرنا ہے جو لیبر، معاشرتی، حفاظتی اقدامات اور انسداد بدعنوانی کے طریقہ کار کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔ بلیو ڈاٹ نیٹ ورک اِس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ مستقبل کے انفراسٹرکچر منصوبے محفوظ، شفاف اور قابل احتساب انداز میں تعمیر کیے جائیں اور متعلقہ ممالک کو اعلیٰ معیار کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے نجی شعبہ میں مستحکم اور قابل اعتماد آپشنز دستیاب ہوں۔
مذکورہ پریس ریلیز میں2015ء کے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے پیرس معاہدے کے مطابق B3W پلیٹ فارم کے تحت گرین بنیادی ڈھانچے کی تعمیرکا عزم کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ اِس منصوبہ کا دائرہ عالمی سطح پر ہوگا اور جی سیون ممالک کو انفراسٹرکچر منصوبوں کی تعمیر کے لیے مختلف جغرافیائی خطے تفویض کیے جائیں گے لیکن بنیادی توجہ کم اور درمیانے ترقی یافتہ ممالک پر ہی مرکوز ہو گی۔
اگر BRI اور B3W کا موازنہ کیا جائے تو دونوں ہی اپنی اپنی جگہ پر فوائد کے ساتھ ساتھ نقصانات کے بھی حامل ہیں۔
BRI کے نقصانات میں غیرپیداواری (Non-productive) قرضہ جات کا اِس قدر بڑھ جانا ہے کہ مقروض ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق،BRI کے پلیٹ فارم کے تحت سرمایہ کاری اور مراعاتی یا تجارتی قرضوں سے مستفید ہونے والے آٹھ ممالک قرض ادا نہ کر پانے کی صورت حال سے دوچار ہیں۔ اِن ممالک میں ایتھوپیا، مصر، یمن، یوکرین، شام، عراق، اُردن اور افغانستان شامل ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ BRI میں صرف چین ہی سرمایہ کاری یا قرض فراہم کرتا ہے۔ یہ یک طرفہ سرمایہ کاری ہے جو اشیا اور خدمات کے لحاظ سے قرض حاصل کرنے والے ممالک کے چین پر کلی انحصار کا سبب بنتی ہے جس کی وجہ سے یہ ممالک خاص طور پر سفارتی معاملات میں چین سے برابری کی سطح پر بات کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اور اگر کبھی چین میں کوئی معاشی بحران آ گیا تو بھی یہ ممالک عدم استحکام اور بے چارگی کی کیفیت کا شکار ہو جائیں گے۔
مثال کے طور پر عالمی وبا کووڈ19 کی وجہ سے مواصلات میں تعطل اور کاروباری سرگرمیوں کی بندش سے کم و بیش 20 فیصد BRI پراجیکٹس متاثر ہوئے ہیں۔ اِسی وبا کے باعث ہی BRI کے اہم ترین حصے سی پیک کے حوالے سے قائم کی گئی جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی کا اجلاس ڈیڑھ سال کی تاخیر کے بعد منعقد ہو رہا ہے۔ اِس کے علاوہ داسو حملہ کی وجہ سے پاکستان میں تعمیر ہونے والے داسو ڈیم کو چین نے سکیورٹی خدشات کی وجہ سے روک دیا گو کہ بعدازاں پاکستان کی اعلیٰ ترین سیاسی اور عسکری قیادت کی مداخلت سے حالات دوبارہ نارمل ہوئے۔
ایک اور الزام جو چین پر عائد کیا جاتا ہےوہ یہ ہے کہ چین BRI ممالک میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے کے لیے اپنی افرادی قوت ہی بھیجتا ہے جس سے اُن ممالک میں مقامی لوگوں کے لیے اُتنا رورزگار پیدا نہیں ہوتا جتنا کہ اِن منصوبوں کے افتتا ح کے وقت بتایا جاتا ہے یا دوسرے لفظوں میں جس کا لوگوں کو خواب دکھایا جاتا ہے۔ اِس سے اِن ممالک میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوتا ہے جو کہ منصوبوں کی بروقت تکمیل کی راہ میں رکاوٹوں کی صورت میں اپنا اثر دکھاتا ہے۔
اِسی طرح B3Wبھی مختلف خامیوں کا حامل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ابھی تک اِس بات کی کوئی وضاحت نہیں دی گئی اورنہ ہی کوئی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں کہ یورپی یونین اور امریکا کس طرح 40 ٹریلین ڈالرز کی مالی معاونت متحرک کر پائیں گے۔ دوسرا بڑا ایشو یہ ہے کہ B3Wایک کثیرجہتی قدم ہے جس میں جی سیون کے دیگر رکن ممالک بھی شامل ہیں۔ اِس سے فیصلہ سازی میں تاخیر اور اور مالی وسائل کی بروقت دستیابی مشکل بن سکتی ہے اور بالآخر اِس منصوبے کا بیڑا امریکا کو خود ہی اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔ تیسرااہم مسئلہ نجی سرمائے کو متحرک کرنا ہے جو کہ بذات خود ایک بڑا سر درد ہوگا کیوں کہ نجی سرمایہ کار ہمیشہ رسک لینے سے گریزاں ہوتا ہے اور اگر وہ رسک لے بھی لے تو وہ اپنی سرمایہ کاری کے بدلے میں زیادہ منافع کا طلب گار ہوتا ہے۔ اُن کے مطالبات پورے کرنا کم ترقی یافتہ ممالک کے لیے مشکل ہوگا تاوقتیکہ امریکی حکومت سرکاری سرمائے سے نجی شعبہ کو سبسڈی فراہم کرے تاہم اِس سے منصوبہ کی لاگت کئی گنا بڑھ جائے گی۔
اگر ہم فوائد کی بات کریں تو BRI کا سب سے بڑا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ منصوبہ دنیا میں موجودہ وقت کی واحد سپرپاور امریکا کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے شروع نہیں کیاگیا تھا بلکہ یہ خالصتاً ایک اقتصادی منصوبہ ہے جو مختلف ممالک میں بنیادی انفراسٹرکچر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے 2013ء میں لانچ کیا گیا تھا۔ BRI کا اقتصادی ترقی پر فوکس ہی اِس کو سب ممالک کے لیے قابل قبول بناتا ہے۔ یاد رہے کہ اِس منصوبہ کے ساتھ کسی قسم کی جیوپولیٹیکل شرائط عائد نہیں کی جاتیں۔
اِس منصوبہ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ یہ B3W کی طرح کوئی ہوائی قلعہ نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی حقیقت ہے۔ اِس منصوبے کے تحت 140 ممالک میں 3.7 ٹریلین ڈالر کی مالیت کے 2600 کے قریب منصوبوں پر کام جاری ہے۔ BRIکے تحت بیش تر سرمایہ کاری سٹریٹجک انفراسٹرکچر جیسے بندرگاہیں اور مواصلات (5 جی وغیرہ) میں کی جارہی ہے جو علاقائی اور بین الاقوامی رابطوں کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہوگی۔ علاوہ ازیں چین میں قائم یک جماعتی نظام کی وجہ سے ریاستی پالیسیوں میں تسلسل اور چینی ریاست کے تحت سرمایہ کاری کی وجہ سے آنے والی کئی دہائیوں تک وسائل کی بلاتعطل اور یقینی فراہمی کی وجہ سے BRIاپنے حریف B3Wسے کافی بہتر منصوبہ ہے۔
مذکورہ بالا خامیوں اور مسائل کے ساتھ ساتھ B3Wمنصوبے کو نفاذ کے حوالے سے جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک رکاوٹوں کے باعث بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اِس تناظر میں پہلی اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ مغرب نے 1948ء (جب امریکی سیکرٹری خارجہ جارج سی مارشل (George C. Marshall) نے جنگ زدہ یورپ کی تعمیر نو کے لیے 15 ارب ڈالر سے زائد کے مارشل پلان کا اعلان کیا تھا) سے لے کر اب تک انفراسٹرکچر کا کوئی بڑا منصوبہ تعمیر کرنا تو درکنار، شروع بھی نہیں کیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے حوالے سے مغرب کا تجربہ اور مہارت محدود بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ یورپ اور امریکا کی امداد ہمیشہ جیوپولیٹیکل اور معاشی عوامل سے منسلک ہوتی ہے۔ معروف برطانوی اخبار The Guardianنے امریکا اور یورپی امداد کو ’’فراڈ‘‘ قرار دیتے ہوئے اِس کی حقیقت سے پردہ اُٹھایا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ یہ امداد مستفیض ہونے والے ممالک میں عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ علاوہ ازیں ’’دوحہ ڈیبیٹ‘‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کی ہر سال کم از کم 2 ٹریلین ڈالر امداد، قرض اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی مد میں Global North یعنی شمالی امریکا اور یورپ میں موجود ممالک سے Global South یعنی لاطینی امریکا، افریقہ، ایشیا اور اوشنیا میں موجود ممالک کی جانب آتی ہے۔ لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ مؤخرالذکر سے کم و بیش 5 ٹریلین ڈالر غیرقانونی مالی سرگرمیوں، ٹیکس چوری، غیرقانونی منی ٹرانسفر اور قرضوں اور اُن پر سود وغیرہ کی ادائیگی کی مد میں واپس گلوبل نارتھ ممالک کی جانب چلے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال مغرب کی جانب سے مشرق کے ساتھ روا رکھے گئے استحصالی تعلقات کی نشان دہی کرتی ہے۔ اِس سے یہ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ امریکا کا یہ الزام کہ چین استحصالی تجارتی سرگرمیوں میں ملوث ہے نہ صرف جھوٹ ہے بلکہ اِس سے یہ الزام واپس امریکا اور مغرب کے سر آ جاتا ہے۔ مزید برآں اِس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ یورپ اور امریکا کے لیے اپنے معاشی مفادات کے باعث رقوم کے اِس انتہائی منافع بخش بہاؤ کو روکنا کم وبیش ناممکن ہو گا جس سے B3Wکی راہ میں مزید رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
B3W کے پاکستان پر بھی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کی چین کے ساتھ ’’سٹریٹجک، کوآپریٹو شراکت داری‘‘ قائم ہے کیوں کہ BRIکا فلیگ شپ پروجیکٹ چین پاکستان اقتصادی راہداری یعنی سی پیک منصوبہ یہاں عوامی سیاسی اتفاق رائے سے نافذ کیا جارہا ہے- چین نے اُن ممالک کو جو کہ BRIکا حصہ بننے کے حوالے سے مغربی پروپیگنڈے کے باعث گومگو اور تذبذب کی کیفیت میں ہیں، یقین دلانے کے لیے سی پیک کو کیس سٹڈی بنانے کی خاطر کثیر سفارتی اور مالی سرمایہ کاری کی ہے۔ یوں سی پیک کی کامیابی یا ناکامی اِس امر کا تعین کرے گی کہ BRI کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری ترقی پذیر ممالک کو درپیش معاشی و اقتصادی مسائل کو حل کرنے میں کس قدر مؤثر ثابت ہو سکتی ہے۔ سی –پیک کی پاک، چین تعلقات میں مرکزی اہمیت امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں (ورلڈ بینک، آئی ایم ایف، ایف اے ٹی ایف، وغیرہ)کی مسلسل مخالفت کا بنیادی محرک رہی ہے جس کا مقصد ہی یہ ہے کہ پاکستان پر دباؤ ڈال کر سی پیک کو آہستہ کیا جائے یا IMFکی کڑی شرائط کے تحت اِسے تعطل کا شکار کر دیا جائے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان مستقبل میں B3W کا حصہ بن سکتا ہے؟
معروضی حالات اِس بات کا جواب نفی میں دیتے ہیں۔ اِس کی وجوہات میں ایک تو سی پیک پر تیزرفتاری سے جاری کام جب کہ دوسرا صدر جوبائیڈن کا اپنے قدم کو BRI کا ’’جمہوری متبادل‘‘ قرار دینا ہے جو کہ پاکستان کی اِس منصوبہ میں شرکت کو ناممکن حد تک مشکل بنا دیتا ہے۔ تاہم اِس بات کا امکان بہرحال موجود ہے کہ امریکا دو طرفہ طور پر اور عالمی مالیاتی اداروں کے ذریعے پاکستان پر دباؤ بڑھا ئے گا اور ہر ممکن کوشش کرے گا کہ سی پیک کی مغرب کی جانب توسیع میں رکاوٹیں پیدا ہوتی رہیں۔ تاہم دوسری جانب یہ بھی ممکن نہیں کہ تمام تر مشکلات کے باوجود پاکستان کسی بھی صورت سی پیک کو رول بیک کر دے۔ پاکستان میں چین کے موجودہ سفیر جناب نونگ رونگ نے جون 2021ء میں ایک معروف مقامی اخبار میں ایک مضمون لکھا جس میں اُنھوں نے اعلان کیا کہ سی پیک کے تحت 2015ء سے لے کر اب تک 46 منصوبے یا تو مکمل ہوچکے ہیں یا آخری مراحل میں ہیں۔ اِن منصوبوں کی مشترکہ ویلیو کم وبیش 25.4 ارب ڈالر ہے۔ علاوہ ازیں اِن منصوبوں نے مقامی افراد کے لیے 75000 کے قریب ملازمتیں بھی پیدا کی ہیں۔ مشترکہ کوآرڈینیشن کمیٹی، جو کہ سی پیک کے حوالے سے فیصلہ سازی کا اہم ترین فورم ہے، کا 10واں اجلاس بھی جلد متوقع ہے جس میں ML-1منصوبے کی منظوری دی جائے گی۔ یہ کثیر سرمایہ کاری اور اِس کے نتیجے میں چین کے ساتھ پاکستان کے خوش گوار سفارتی تعلقات پاکستان کے قومی مفادات کے لیے اِس قدر ناگزیر ہیں کہ پاکستان سی پیک کے تحت ہونے والے منصوبوں پر ہونے والی پیش رفت کو روکنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف سر توڑ مزاحمت جاری رکھے گا۔
اِس وقت دنیا کو بالعموم اور ترقی پذیر ممالک کو بالخصوص بنیادی انفراسٹرکچر کی شدید ضرورت ہے۔ میکینسی گلوبل انسٹیٹیوٹ (McKinsey Global Institute) نے 2016ء میں اپنی ایک رپورٹ میں تخمینہ لگایا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو سالانہ بنیا دوں پر بنیادی انفراسٹرکچر کی ضرورتوں اور دستیابی کے مابین پائے جانے والے فرق کو پورا کرنے کے لیے 3.3 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری درکار ہے لیکن یہ ممالک اپنی کمزور معیشتوں کے باعث یہ ضرورت پوری نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے ہرسال 350 ارب ڈالر کا فرق باقی رہ جاتا ہے جو کہ 2030ء تک 5.3 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ اگر ہم ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (Sustainable Development Goals) کو حاصل کرنے کے لیے درکار مالی وسائل کو شامل کریں تو 2030ء تک یہ فرق 15.9 ٹریلین ڈالر سے بڑھ سکتا ہے۔
اِس وقت دنیا کو اعلیٰ معیار کے انفراسٹرکچر کی انتہائی سخت ضرورت ہے اور یہ بلاشبہ خوش آئند بات ہے کہ مغرب نے رابطے یعنی Connectivity اور انضمام یعنی Integration کی اہمیت کا احساس کرنا شروع کردیا ہے۔ B3W کو کامیاب بنانے کے لیے اِس کا غیر سیاسی ہونا اور دنیا کے تمام ممالک کے لیے آسانی سے قابل رسائی ہونا اشد ضروری ہے۔ لیکن بدقسمتی سے امریکا B3W کو چین کے ساتھ نظریاتی جنگ لڑنے کے لیے ایک نئے مید ان کے طور پر استعمال کرنے پر تلا ہوا ہے۔ ہسپانوی خانہ جنگی (1936ء تا 1939ء) کو بھی جمہوریتوں اور آمریتوں کے مابین جنگ قرار دیا گیا جو بالآخر دوسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔ اب ’’ ہم بمقابلہ وہ‘‘ (us versus them) جیسی اپروچ سے ہر قیمت پر اجتناب کیا جانا چاہیے کیوں کہ یہ رویہ ممالک کے مابین نفرتوں کے بیج بوتا ہے جو بالآخر اُنھیں جنگوں کے دہانے تک لے جاتا ہے۔ معاشی اُمور میں نظریاتی معاملات کو غیر ضروری طور پر گھسیٹنے سے دنیا کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تاہم لگتا ہے کہ 1945-47 کے Red Scare کے بعد اب امریکا کو ایک اور خطرے یعنی Dragon Scare کا سامنا ہے۔
تاہم ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کو کثیر جہتی عالمی چیلنجز بشمول ماحولیاتی تبدیلی، کووڈ 19 وغیرہ کے باعث رواں صدی کے بدترین معاشی بحران اور مستقبل میں اِس جیسے مزید بحرانوں کے خدشات، جوہری ہتھیاروں میں اضافہ اور SDGs پر انتہائی سست رو پیش رفت کا سامنا ہے۔ اِن مسائل کی موجودگی میں دنیا کی سپرپاور اور ایک اُبھرتی ہوئی عالمی قوت کے مابین تصادم دنیا کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔ کسی بھی شعبے میں سرد جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کا کوئی بھی امکان بین الاقوامی امن و استحکام اور ترقی کے لیے سنگین مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ یہ وقت ہے کہ امریکا اور چین دونوں دشمنی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی پالیسی سے اجتناب کرتے ہوئے دانش مندی کا مظاہرہ کریں اور سیاسی ڈائیلاگ سے دنیا کو درپیش مسائل کا حل تلاش کریں۔