Sunday , June 4 2023
Home / Archive / عدالتی اصلاحات اور پارلیمنٹ کا کردار

عدالتی اصلاحات اور پارلیمنٹ کا کردار

Listen to this article

عدالتی اصلاحات اور پارلیمنٹ کا کردار

حالیہ عدالتی بحران نے ملک میں پھر پرانی بحث شروع ہوگئی جس میں عدلیہ کے کردار کو طے کیا جا رہا ہے لیکن یہ صرف بیانات سے ہی طے کیا جا رہا ہےکیوں کہ ابھی تک کسی کے پاس دوتہائی اکثریت موجود نہیں کہ وہ آئین میں عدلیہ سے متعلق کوئی ترمیم کرسکے۔ قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قراردادپیش کی گئی جس کی تجویزبلاول بھٹو نے پیش کی جب کہ عملاً اسے وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا۔ اس قرارداد کی رُو سے قوانین کو بنانا اور ان میں ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے ، عدلیہ تشریح کا کام کرسکتی ہے ترمیم کا نہیں۔ آئین اداروں میں اختیارات کی تقسیم کرتا ہے ، اس لیے کسی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔
عدلیہ اور انتظامیہ کا معاملہ کافی اُلجھی ہوئی چیز ہے اور اس کا دارومدار قوانین سے زیادہ قوانین کی پاس داری والی روایات پر ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسی روایات قائم نہیں ہوسکیں جس کی وجہ سے عدلیہ اور انتظامیہ کی ہمیشہ ٹھنی رہتی ہے ۔ عام طور پر حکومتیں اپنے خلاف ہونے والے فیصلوں کو ماننے سے گریزاں نظر آتی ہیں۔

پاکستان کے پہلے پچاس سالوں میں زیادہ عرصہ فوجی حکومتیں رہیں جس کی وجہ سے جمہوری رویے اپنی شناخت نہ قائم کرسکے۔ جب ضیاالحق کے بعد جمہوری حکومتوں کا دور آیا تو اس میں یہ طے نہ ہوسکا کہ حکومت کی حدود کیا ہیں اور عدالت کی کیا ہیں۔ اسمبلی اپنی پہچان نہ قائم کرسکی اور جب معاملات میں اسمبلی میں طے نہ پاتے تو لامحالہ اُنھیں پر عدالت کی طرف لے جایا جاتا ۔ اسمبلی کی کارروائی اُسی وقت عدالت میں جائے گی جب اسمبلی کااپنے آپ پر اعتماد نہیں کرے گی۔ اس طرح سے عدلیہ پر بھی اُنگلیاں اُٹھنے لگیں کہ وہ مقدموں کے فیصلے انصاف کی بنا پر نہیں کررہیں۔ مثال کے طو ر جب بے نظیر کی پہلی حکومت کو صدر غلام اسحاق خان نے برطرف کیا تو بے نظیر معاملے کو عدالت میں لے گئیں لیکن اُن کی حکومت بحال نہ ہوئی۔ جب کہ صدر غلام اسحاق کے ہاتھوں ہی نواز شریف کی برطرفی پر عدالت نے نواز شریف کو بحال کردیا۔ اُس وقت بے نظیر نے کہا تھا کہ لاہور کے بیٹے کو تو انصاف ملتا ہے لیکن لاڑکانہ کی بیٹی کو انصاف نہیں ملتا۔ لیکن اگلا مرحلہ یہ پیش آیا کہ جب نواز شریف کی حکومت بحال ہوئی تو بے نظیر نے لانگ مارچ کا اعلان کیا جس پر فوج نے درمیان میں آکر نواز شریف اور صدر غلام اسحاق دونوں کو مستعفی ہونے پر راضی کرلیا اور نئے الیکشن کرا دیے۔ اس طرح سے بے نظیر جیسی جمہوری حکمران بھی اسمبلی کے معاملے کو عدلیہ سے بھی آگے فوج میں لے گئیں۔ اس طرح معاملات مزید بگڑ گئے۔

دوسری مرتبہ نواز شریف بھاری مینڈیٹ کے ساتھ منتخب ہوئے تو اُن کے پاس نادر موقع تھا کہ وہ اداروں کو مضبوط کرتے اور جمہوری روایات کی بنیاد رکھتے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اُلٹا حکومت اور عدلیہ میں محاذ آرائی شروع ہوگئی اورنوبت یہاں تک پہنچی کہ حکومتی حمایتوں نے سپریم کورٹ پر دھاوا بول دیا۔

اداروں کی اسی کمزوری کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے پرویز مشرف نے اُس بھاری مینڈیٹ والی حکومت کو ختم کردیا اور فوجی حکومت کا سب سے پہلا ہدف عدالتیں ہی بنیں جس کے نتیجے میں فوجی حکومت اور عدالتوں میں جنگ شروع ہوگئی جس میں پرویز مشرف کے ہی مقررکردہ افتخار چودھری ملکی دوروں کی راہ پر چل نکلے۔

فوجی حکومت میں ظاہر ہے فوجی حکومت اپنی رٹ کو بزور منوالیتی ہے اور ایسے ہوتا رہا لیکن پرویز مشرف کے جانے کے بعد جب پیپلزپارٹی کی جمہوری حکومت قائم ہوئی تو یہ مسئلہ جوں کا توں رہا۔ ن لیگ جو پیپلز پارٹی کی اتحادی بن کر سامنے آئی اور اسے ایک خوش آئند تبدیلی قراردیا جارہا تھا کو پنجاب سے ختم کرنے کے لیےپرویز مشرف کی باقیات کو معزول کرنے کے نام پر سپریم کورٹ کے ججوں میں تبدیلی کی گئی۔اس کے نتیجے میں شہباز شریف پنجاب کی حکومت کے حوالے سے نااہل قرارپائے۔ اس پر ن لیگ نے لانگ مارچ کا آغاز کیا اور پھر فوج کو دمیان آکر صلح صفائی کرانی پڑی۔

پرویز مشرف کے اقتدار کے ختم ہونے کے بعد یہ اُفق واضح ہوچکا تھا کہ اب فوج کے دوبارہ اقتدار میں آنے کا امکان بہت کم ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ چل رہا ہے لیکن اس کے باوجود جمہوری حکومتوں نے اداروں کی مضبوطی اور جمہوری روایات کو قائم کرنے کا کوئی اہتمام نہیں کیا جس کی وجہ سے عدلیہ اور انتظامیہ کی جنگ ابھی تک جاری ہے۔

یوسف رضا گیلانی پر فردجرم عائد ہوئی تو وہ اپنے عہدے سے دست بردار نہ ہوئے حالاں کہ تمام قانون دانوں کی یہ متفقہ رائے تھی کہ وہ اب وزیراعظم رہنے کے حق دار نہیں رہے۔آخر کار سپریم کورٹ کو خود ہی فیصلہ کرنا پڑا کہ یوسف رضا گیلانی کو گھر جانا چاہیے۔ اس کے فوراً بعد ہونے والے ضمنی انتخاب میں یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کامیاب ہوئے تو آصف علی زرداری نے یہ بیان دیا کہ اصل عدالت سپریم کورٹ نہیں بلکہ اصل عدالت عوام کی عدالت ہے جس نے آپ کو ووٹ دیا ہے۔
اس طرح سے حکومت اور عدالت کا باہمی اعتماد قائم نہ ہوسکا۔

عدلیہ کا رویہ
دوسری طرف عدلیہ میں بھی غیر جانب داری کی روایات قائم نہ ہوسکیں۔ نواز شریف کی دوسری حکومت میں جسٹس سجاد علی شاہ کا معاملہ اس کی سب سے بڑی مثال ہے کہ وہ سیاسی اختلافات کی نذر ہوکر عدلیہ سے رُخصت ہوئے اور پھر یہ سلسلہ چلتا رہا۔ جسٹس افتخار کا حکومت کے خلاف مہم پر نکلنے سے لے کر جسٹس فائز عیسیٰ کیس تک عدلیہ میں سیاست عروج پر نظر آتی رہی۔ یعنی اُصول کو روایت نہ بنایا جاسکا۔

عائشہ ملک کیس: سنیارٹی کا اُصول
جسٹس عائشہ ملک کو جونیئر ہونے کے باجود سپریم کورٹ کا جج مقرر کرنے پر ہر طرف سے تنقید ہوئی۔ اس پر یہ سوال اُٹھایا گیا کہ اس سے پہلے بھی جونیئر جج سپریم کور ٹ کے جج بنے لیکن کبھی کوئی تنقید نہ ہوئی۔ اس سوال پر خود عدلیہ بھی تضاد کا شکار نظر آتی ہے۔ یعنی اس سے قبل جونیئر ججوں کو سپریم کورٹ میں جگہ دی گئی اور دوسری طرف جب عائشہ ملک پر سوال آیا تو اس کی کئی توجیہات پیش کردی گئیں جن میں ایک یہ تھی کہ عائشہ ملک آزاد خیال تھیں۔ اس پر سوال یہ آیا کہ کیا باقی ججوں کو تنگ نظر قراردیا جائے گا۔

عدم اعتماد اور پنجاب میں حکومت کی تبدیلی
اس سلسلے میں حالیہ بحران عمران خان کی حکومت کے خاتمہ کا ہے جب پی ٹی آئی کی حکومت نے عدم اعتماد کے جمہوری اختیار کو بعض وجوہات کو پیش کرکے ماننے سے انکار کردیا تو معاملہ سپریم کورٹ میں چلا گیا جس پر سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو کالعدم قراردے دیا اور اس طرح سے حکومت کو گھر جانا پڑا۔ بدقسمتی سے یہی معاملہ چار ماہ کے اندر ہی پنجاب میں پیش آیا تو وہاں بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق حمزہ شہباز کو اقتدار چھوڑنا پڑا ۔ اس پر اسمبلی میں موجودہ قرارداد پیش کی گئی۔ ایک طرح سے یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا ایک سنگین بحران ہے جس میں انا آڑے آرہی ہے۔ ایک ہی بنچ کا فیصلہ ایک وقت میں ایک پارٹی کو منظور ہے تو وسرے وقت میں دوسری پارٹی کو۔ اس میں پھر باربار نیوٹرل کا ذکر بحران کو مزید سنگین کررہا ہے اور ایک مرتبہ پھر سب کی نظریں شاید اس بات پر لگی ہیں کہ کسی طرح فوج مداخلت کرکے معاملات کو حل کرے۔ اس طرح ہم اپنے آپ کو 90کی دہائی میں کھڑا پاتے ہیں یعنی ہم اکیسویں صدی میں داخل ہی نہیں ہو پائے۔

بلاول بھٹو کا انیسویں ترمیم کے بارے میں بیان
بلاول بھٹو کی اس سلسلے میں کئی نکات پر تنقیدسامنے آئی ہے۔مرکز میں عدم اعتماد پر تو اُن کی جیت ہوئی تھی اس لیے اس پر پی ڈی ایم کا کوئی بیان سامنے نہیں آتا لیکن پنجاب کے معاملے پر بلاول کا کہنا تھا کہ یوں لگتا ہے کہ 58(2)(b) صدر سے عدالت کے پاس چلی گئی ہے۔اسی طرح اس سے بلاول بھٹو نے یہ بھی کہا کہ اگر اٹھارھویں ترمیم کو قائم رکھا جاتا اور ن لیگ انیسویں ترمیم کو رد کرنے میں ہماری مدد کرتی تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ایک نظر اٹھارھویں اور انیسویں ترمیم کو دیکھ لیا جائے کہ وہ عدالت کے معاملے میں کیا کہتی ہیں۔

اٹھارہویں ترمیم
اٹھارہویں ترمیم آئین پاکستان کی اہم ترین مجموعہ ترامیم ہے اور اس میں سو سے زیادہ تبدیلیاں عمل میں آئیں اور یہ آئین کے 83آرٹیکلز پر اثرانداز ہوئی۔ عدلیہ کے حوالے سے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ پہلے یہ اختیار صرف صدر مملکت کو حاصل تھا، اب اس کا اختیار جوڈیشل کمیشن اور پارلیمنٹ کی ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا ۔اٹھارہویں ترمیم کے بعض حصوں کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں 17 رُکنی بنچ نے ججوں کی تعیناتی کے اختیار میں بہت حد تک تبدیلی کر دی۔ یہ چیز انیسویں ترمیم کی شکل میں سامنے آئی جسے پیپلز پارٹی نے بادل نخواستہ قبول کیا اور آج تک اس کا شکوہ کیا جاتا ہے کہ ن لیگ نے اس وقت پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں دیا۔

انیسویں ترمیم
اس کا بنیادی مقصد اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی بھرتی کے نئے طریقہ کار جو آئین پاکستان میں اٹھارہویں ترمیم میں واضح کیا گیا تھا اس میں سپریم کورٹ کی ہدایات کے مطابق تبدیلی کرناتھا۔یہ ترمیم 2011ء میں کی گئی۔انیسویں آئینی ترمیم میں اعلیٰ عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی سے متعلق آئین کی شق’175۔اے‘ میں ترمیم کی گئی ہے اور اس میں جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ کے دو سنیئر ججوں کے بجائے چار جج صاحبان کو شامل کیا گیا ہے اور اب جوڈیشل کمیشن کے ارکان کی تعداد سات سے بڑھ کر نو ہوگئی۔اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صوبائی بار کونسل جوڈیشل کمیشن میں ’ایک سینئر وکیل‘ کو نامزد کرتی تھی لیکن اب انیسویں ترمیم کے بعد ’پندرہ برس تک ہائی کورٹ کی پریکٹس کرنے والے وکیل‘ کو نامزد کرنے کی پابند ہوگی۔ انیسویں ترمیم کے تحت قومی اسمبلی کے تحلیل ہونے کی صورت میں ججوں کی بھرتی کے لیے پارلیمانی کمیشن کے تمام اراکین ایوان بالا سینیٹ سے شامل کیے جائیں گے جب کہ پہلے پارلیمانی کمیشن اپنی سفارشات صدر کو بھیجتی تھی اب وزیر اعظم کو بھیجے گی۔ انیسویں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ججوں کی بھرتی کے متعلق پارلیمانی کمیشن کی کارروائی کو خفیہ تو رکھنے کی شرط عائد کی گئی ہے لیکن اس پر پارلیمان میں بحث ہو سکے گی۔

حالیہ صورت حال
اب مسئلہ پھر وہیں آکر کھڑا ہوگیا ہے کہ عدلیہ کے فیصلوں پر لے دے ہورہی ہے۔ اس میں سب سے بڑا اعتراض یہ آرہا ہے کہ ازخودنوٹس پر اپیل کا حق ملنا چاہیے اور وہ اس طرح سے ہو کہ اگر تین رُکنی بنچ نے ازخود نوٹس کے تحت فیصلہ دیا ہے تو ایک پانچ رُکنی یا سات رُکنی بنچ ا س کی سماعت کرے گا۔ اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس وقت مسئلہ پارلیمان کے ماحول کو بدلنے کا ہے۔ اگر یہ دعویٰ کیا جا تا ہے کہ ترمیم کرنا پارلیمان کا کام ہے نہ کہ عدلیہ کا تو پھر یہ بھی ضرور ہونا چاہیے کہ پارلیمان کے فیصلے عدلیہ میں جائیں ہی نہ اور اگر یہ فیصلے عدلیہ میں جانے ہیں تو عدلیہ کا کام بہرحال اُن کی تشریح کرنا بنتا ہے اور یہ اُس کا بنیادی فرض ہے۔
اس وقت جو قرارداد پیش کی گئی ہے اس کا اصل ہدف یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ عدلیہ کو خودمختار کرنے کے بجائے عدلیہ میں انتظامیہ کے اثر کو بڑھانا ہے۔ یہ خدشہ اس بنا پر ظاہر کیا جارہا ہے کہ قرارداد میں ایک تو پارلیمانی کمیٹی بنانے کی سفارش کی گئی ہے جس سے یہ ہوگا کہ عدلیہ کے پارلیمنٹ سے متعلق سارے فیصلے پھر پارلیمنٹ کے پاس ہی لوٹ کر آئیں گے اور اس میں پارلیمنٹ کی صوابدید ہو گی کہ وہ فیصلہ تسلیم کرے یا نہ کرے۔ اس طرح سے صورت حال پھر الجہاد کیس سے پہلے والی پوزیشن پر چلی جائے گی۔

اس کے علاوہ جسٹس (ر) وجیہ الدین نے یہ انکشاف کیا ہے کے حکومت جوڈیشل کمیشن میں ججوں کی تعداد کم کرنے جارہی ہے۔ یہ بات سپریم کورٹ کی موجودہ آسامیوں کے پر کرنے سے پیدا ہو نے والے تعطل کے ضمن میںسامنے آئی ہے۔ جوڈیشیل کمیشن کی آخری منعقد ہونے والی نشست میں دوحاضر سروس ججوں نے وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے حق میں بات کی ہے اس طرح سے ججوں کی اکثریت اقلیت بن گئی۔

سینیٹ میں مجوزہ ترمیمی بل
اس چیز کو سامنے رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی طرف سے ترمیمی مسودے کی شکل میں ایک بل سینیٹ میں پیش کیا گیا جسے کہ پارلیمانی اُمور کی قائمہ کمیٹی کو رپورٹ کے لیے ارسال کردیا گیا جس کا دورانیہ 15روز ہوتا ہے۔

پیش کیے جانے والے بل میں آئین کی شق 175الف کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی ہے جس کے بعد ایک حاضر سروس اور ایک ریٹائرڈ جج کو جوڈیشل کمیشن سے ختم کردیا جائے گا اور اس طرح سے جوڈیشل کمیشن کی تعداد 9سے 7ہوجائے گی۔ اِسی طرح ہائیکورٹ میں ہونے والی تقرریوں کے لیے کمیشن ممبران کی تعداد 13سے 11ہوجائے گی۔ ججوں کی تعداد کم کرنے سے مقصد حکومت کا اثرورُسوخ بڑھانا ہے۔ علاوہ ازیں ہائیکورٹ کے ججوں کے تقرری جو پہلے متعلقہ چیف جسٹس کا اختیار تھا اب اس میں ایڈووکیٹ جنرل اور ممبر بارکونسل بھی تقرریاں کرنے کے عمل میں شامل ہوگا۔ اس طرح ایڈووکیٹ جنرل اور ممبر بارکونسل بھی جج کی پوسٹ کے لیے اُمیدوار بن سکتے ہیں۔ اس طرح سے حکومت کو کئی جگہوں سے عدلیہ پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا موقع مل جائےگا اور صورت حال ضیاالحق کے دور میں چلی جائے گی۔ اسے الجہاد کیس کے ذریعے بے نظیر کے دورحکومت میں ختم کیا گیا تھا۔ اٹھارہویں ترمیم میں اسے پھر واپس گیر لگانے کی کوشش کی گئی لیکن انیسویں ترمیم میں ا س کا سدباب کردیا گیا اور اسی وجہ سے پیپلز پارٹی شکایت کرتی ہے کہ اُس وقت ن لیگ نے ساتھ دیا ہوتا تو آج یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔ اب صورت حال کو پھر ایک دفعہ بیک گیر لگانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ابھی امکان کم ہے کیوں کہ ابھی تک دوتہائی اکثریت موجود نہیں جس کے ذریعے آئین میں ترمیم کی جاسکے لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم انتظامیہ اور عدلیہ کے مابین توازن میں کسی بھی قسم کی روایات بنانے میں ناکام رہے ہیں اور چیز ملک کی سلامتی کو سوال کرنے والی چیز ہے کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔ یعنی ایک عرصہ لگا کر اگر عدلیہ کی کوئی سمت واضح ہوئی تھی تو اُسے پھر واپس لے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

Check Also

Crowning of the King

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *