عالمی توانائی و معاشی بحران
تخمینے کیا ہیں
سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس کے ایوانوں میں اس وقت کا اہم ترین مسئلہ یہ ہے کہ آیا عالمی معاشی بحران آ رہا ہے یا نہیں۔اربوں ڈالر کے انتظام کے ذمہ دار سیاست دان اس معاملے کا تجزیہ کر رہے ہیں اور اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ اقتدار کے اعلیٰ سطحی حلقوں کو یہ تشویش لاحق ہے۔عالمی بینک کے سربراہ ڈیوڈ مالپاس نے خبردار کیاہے کہ توانائی، خوراک اور کھاد کی قیمت بڑھنے پر یہ دیکھنا مشکل ہے کہ ہم کس طرح کساد بازاری سے بچ سکتے ہیں۔اُنھوں نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں دگنے اضافے کا محض خیال ہی اپنے طور پر کساد بازاری کو جنم دینے کے لیے کافی ہے۔
دنیا کا اس وقت بنیادی عقیدہ معاش ہے جس پر تمام دنیا کے لوگ متفق بھی ہیں اور اُن کی ساری تگ و دو اسی چیز کے گرد گھوم رہی ہے۔ اس کے باوجود دنیا معاشی بحران کا شکار ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ جدید دنیا کا طرز زندگی ہے جو بہت مہنگا ہے اور ہر کوئی اسے حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نتیجتاً ہرچیز کی طلب اس کی رسد سے زیادہ ہے اور اس طرح سے ہر چیز کمیابی کا شکار ہے اور یہ چیز معاشی بحران کو جنم دیتی ہے۔
وجوہات جو بھی ہوں اس وقت دنیا میں مہنگائی گزشتہ 40 برسوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ اسٹاک کی قیمتیں ڈوب رہی ہیں۔ امریکی فیڈرل ریزرو نے شرح سود بڑھاتے ہوئے قرض کا حصول مزید مشکل بنا دیا ہے۔ نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر کی اقتصادی منڈیاں لڑ کھڑا رہی ہیں۔
ان چیزوں کا مدنظر رکھتے ہوئے معاشی مبصرین دنیا کو ایک زبردست معاشی بحران کی نوید سنا رہے ہیں۔ یہ معاشی بحران کیسا ہوگا اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اس سلسلے میں کچھ باتیں پیش کی جارہی ہیں۔
اگر امریکا کی بات کریں تو امریکا گزشتہ سال بڑی مشکل سے کوویڈ کے اثرات سے اپنے آپ کو نکال پایاتھا کہ رواں سال کے شروع میں یوکرین جنگ نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔ پہلی سہ ماہی میں امریکا کی معیشت پھر ڈانواں ڈول ہوچکی ہے۔ جون میں امریکا کے فیڈ (فیڈرل ریزرو) نے بنیادی شرح سود میںریکارڈ اضافہ کردیا تھا تاکہ افراط زر پر قابو پایا جاسکے۔ پریشان کن صورت حال یہ ہے کہ یہ اضافہ پچھلے تیس سالوں میں سب سے زیادہ تھا اور اس میں مزید اضافے کا امکان موجود ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ لوگوں کی قوت خرید اس مہنگائی کے باوجود قائم ہے اور کارخانے اپنے ملازمین کو بھی نہیں نکال رہے۔ نیز سرمایہ کار اسی رفتا ر سے سرمایہ کاری کررہے ہیں لیکن صورت حال بالکل اطمینان بخش نہیں کیوں کہ مہنگائی میں اضافہ بہرحال خطرے کی گھنٹی ہے۔اصل میں لوگوں کی قوت خرید کوویڈ کے دنوں میں بچت کرنے کی وجہ سے قائم ہے اور سرمایہ کاروں کو بھی کوویڈ کے ضمن میں جو ریلیف ملے ہیں اس کی وجہ سے ابھی فوراًحالیہ مہنگائی کا اثر اُن پر نہیں پڑرہا لیکن یہ صورت حال زیادہ دیر قائم نہیں رہے گی اگر مہنگائی کی شرح یہی رہی۔ اسی صورت حال کے پیش نظر تو امریکا میں شرح سود میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکی اقتصادی تحقیقاتی ادارے ہائی فریکوئنسی اکنامکس میں چیف اکانومسٹ روبیلہ فاروقی کے مطابق ’’معیشت کو مشکلات کا سامنا ضرور ہے۔‘‘ ایسی علامات پیدا ہو رہی ہیں، جو مستقبل میں کساد بازاری کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق مہنگائی فیڈرل ریزرو بینک کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہوئی ہے اور یہ مستقل بھی ہے۔ دوسری جانب روس کے یوکرین پر حملے نے بھی عالمی سطح پر خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی رفتار کو تیز تر کر دیا ہے جب کہ کورونا وباء کی وجہ سے چین میں سخت لاک ڈاؤن لگے اور نتیجتاً Supply chain بھی متاثر ہوئی ہے۔‘‘
امریکی مبصرین کو سب سے زیادہ پریشانی شرح سود میں اضافے کے ساتھ ہے کیوں کہ فیڈ اس ذریعے سے مہنگائی کے جن کو قابو کرنا چاہتا ہے لیکن اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے سال امریکا کو کساد بازاری کا سامنا کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔جرمن کے ماہرین معاشیات کے مطابق ابھی امریکا کو اگلے سال تک 3.6فیصد شرح سود میں اضافہ کرنا پڑے گا اور یہ چیز اسے کساد بازاری سے نہیں بچا سکتی لیکن فیڈ کے ذمہ داران کے مطابق اس کے اثرات محدود ہوں گے۔
اس صورت حال میں امریکی صدر کا بیان ملا جلا تھا۔ امریکی صدر بائیڈن نے عالمی سطح پر معاشی بحران کو لے کر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم تیز رفتار ترقی سے مستحکم ترقی کی طرف بڑھیں گے تو ایسے میں امریکہ کی معیشت تھوڑی نیچے آتی ہوئی نظر آئے گی۔ یہ اوپر والے کی خواہش ہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ہم بحران کے دور میں جا رہے ہیں۔‘‘
سری لنکا کی مثال: خطے کے دیگر ممالک کے لیے خطرہ
اس وقت سری لنکا خاص طور پر جنوبی ایشیا کے لیے ایک عبرت ناک مثال بنا ہوا ہے اور خاص طور پر پاکستان کو بار بار اس سے موازنے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ 16 جولائی کو آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کرسٹلینا جورجیوا کا کہنا تھا کہ وہ ممالک جنھوں نے بہت زیادہ قرض لے رکھا ہے اور اُن کے پاس اپنی پالیسی بدلنے کی گنجائش کم ہے، اُنھیں کہیں دُور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ ممالک سری لنکا کی مثال سے ہی سبق لے سکتے ہیں۔ ظاہر ہے ا س کا واضح اشارہ پاکستان کی طرف ہے۔
یاد رہے کہ سری لنکا پچھلے بیس سا ل سے قرض کی دلدل میں دھنستا جارہا تھا جس کا حتمی نتیجہ دیوالیہ پن کی صورت میں سامنے آیا۔
کیا چین سری لنکا کے بحران کا ذمہ دارہے؟
سری لنکا کے معاملے میں یہ کہا جارہا ہے کہ اُس کے دیوالیہ ہونے کے پیچھے چین کی قرض پالیسی ہے۔ ایک تو چین جس ملک کے ساتھ قرض کا معاملہ کرتا ہے اُس کی شرائط کو مبہم رکھتا ہے جس سے اس بات کا پتا نہیں چلتا کہ ملک کس طرف جارہا ہے۔ چین پر دوسرا الزام یہ ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو ایسے مہنگے منصوبوں پر آمادہ کرتا ہے کہ بعد میں وہ اُس ملک کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اورنج ٹرین کا منصوبہ اسی چیز کی ایک مثال ہے۔ البتہ چین کے حمایتوں کا کہنا ہے وہ اپنے معاشی مفادات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرتا ہے لیکن دوسرے کو نقصان پہنچانے کا نہیں سوچتا۔ یہ دوسرے ملک پر ہے کہ وہ ان منصوبوں سے کیسے فائدہ اُٹھائے۔ اس کے لیے اسے اپنے نظام اور معاشرے کی ترجیحات کو درست کرنا ضروری ہے۔ اس لیے اگر کوئی ملک اس سے نقصان اُٹھا رہا ہے تو یہ اس ملک کا قصور ہے نہ کہ چین کا۔
سری لنکا کے بعد لائوس کو دیوالیہ ہونے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں اور اس کی وجہ بھی چین کے و ہ منصوبے بتائے جاتے ہیں جو اُس نے لائوس میں شروع کیے تھے۔ لائو س کے قرضے اُس کے کل پیداوار کا 88فیصد ہوچکے ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کا نام لیا جارہا ہے کیوں یہاں بھی مہنگائی کی شرح ریکارڈ سطح سے تجاوز کرگئی ہے۔ البتہ پاکستان کا ابھی آئی ایم ایف سے تعلق بحال ہے اس لیے اس کے بحران سے نکلنے کےکے امکانات کم نہیں۔ بنگلہ دیش کو بھی تجارتی خسارے کا سامنا ہے اور وہاں بھی مہنگائی کی شرح تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔
چین اور بڑی طاقتیں عالمی بحران کی ذمہ دار کیسے ہیں؟
البتہ یہ ضرور ہے کہ چین اور دوسری بڑی طاقتوں خاص طور پر امریکا کے درمیا ن معاشی مخاصمت بھی ممکنہ بحران کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔ہر طاقت یہ کوشش کررہی ہے جس کے لیے وہ مختلف قسم کے اتحاد قائم کررہی ہے اور معاہدے بھی کر رہی ہے کہ کسی طرح معیشت پر اُس کی بالادستی قائم ہوجائے۔ اس وقت امریکا گزشتہ سال سے انڈو پیسفک میں کئی اتحاد قائم کرچکا ہے کہ کسی طرح چین کی معاشی پالیسیوں کو اس خطے سے ختم کیا جائے۔ ظاہر ہے مختلف معاشی منصوبوں کےلیے چیزوں کی طلب بڑھے گی اور اس کا سیدھا نتیجہ معاشی بحران کی صورت میں سامنے آئے گا۔ نیز دوسرے کے معاشی منصوبوں کو ناکام کرنے سے اُن معاشی منصوبوں میں لگا سرمایہ اور محنت ضائع ہوگی اور یہ چیز بھی معاشی بحران کی بہت بڑی وجہ ہے۔
معاشی بحران کا بنیادی محرک: توانائی کا بحران
معاشی بحران کے پیچھے بنیادی محرک توانائی کا بحران ہے جو حالیہ عرصے میں مختلف واقعات کے وقوع پذیر ہونے سے شدید ہوگیا ہے۔ اس کی آگے پھر مختلف جہتیں ہیں۔
توانا ئی کا بحران اور عالمی سیاست
روس اور امریکا ایک بار پھر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں اور یوکرین کا مسئلہ شدت اختیار کرتا جار ہا ہے۔ اس وقت روس سے تیل اور گیس کی سپلائی میں تعطل آرہا ہے اور اس کا سب سے بڑا خریدار یورپ ہے۔ لہٰذا یورپ کی وساطت سے ہونے والی تجارت پر براہ راست اثرات پڑ رہے ہیں یعنی ساری دنیا اس سے متاثر ہورہی ہے۔ بجائے اس کے کہ اس مسئلے کو حل کیا جاتا امریکا پیسفک میں تائیوان کی شکل میں چین کے ساتھ ایک نیا محاذکھول کر بیٹھ گیا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ تائیوان دوسرا یوکرین بننے جارہا ہے۔ ایسا ہونے کی صورت میں پیسفک میں ہونے والی تجارت پر اثر پڑے گا اور توانائی کے وہ ذرائع جن کا انحصار پیسفک کی تجارت پر ہے نایاب ہوجائیں گے اور توانائی کا ایک نیا بحران سامنے آئے گا۔
اس وقت امریکا مشرق وسطیٰ پر زور دے رہا ہے کہ وہ تیل کی پیداوار کو زیادہ کرے تاکہ اس کا روس پر انحصار کم ہو۔ اب یہ سراسر سیاست چل رہی ہے اور ا س میں دوسری چیزوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔ جب تک اس سیاست کےتھمنے کا کوئی امکان ظاہر نہیں ہوتا اُس وقت تک توانائی کے بحران کا بھی کوئی حل نہیں نکلے گا اور یہ چیز سارا بوجھ معیشت پر ڈالے گی۔ یعنی اصل میں دنیا کی سیاست مسئلہ ہے جو بالواسطہ طور پر تمام مسائل کو شدید کررہی ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی اور توانائی کے مسائل
ماحولیات کے ماہر اقوام متحدہ کےفورم سے بارہا خبردار کرچکے ہیں کہ Fussil Fuel کے استعمال میں کمی کی جائے لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ امریکا اپنی سیاست کے لیے اس کو مزید بڑھانے کی بات کررہا ہے۔ توانائی کی طلب میں کمی کے بجائے اس میں اضافہ ہورہا ہے۔ طلب کا یہ اضافہ جہاں معاشی بحران پیدا کررہا ہے وہیں ماحول کو بھی نہ رہنے کے قابل بنا رہا ہے۔ ہمیں خبردار کیا جاچکا ہے کہ ہمارے پاس سانس لینے کے لیے آٹھ سال کا عرصہ ہے لیکن Fossil Fuels میں فوری طور پر کوئی کمی دیکھنے میں نہیں آرہی۔ حالیہ عرصے میں ماحولیاتی تبدیلیوں نے اُلٹا توانائی کے ذرائع کو ہی کس طرح سے متاثر کیا ہے اس کی چند مثالیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں:
قدرتی آفات اور توانائی کا بحران: آسٹریلیا کی مثال
یہ بات عجیب ہے کہ آسٹریلیا جیسے ملک کو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سامناکرنا پڑ رہاہے اور ا س کی وجہ یہ ہے کہ آسٹریلیا کے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ سیلاب کے باعث ڈوب چکے ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار میں کمی آگئی ہے اور حکام عوام سے اپیل کررہے ہیں کہ وہ بجلی کا استعمال کم سے کم کریں۔ اس میں اصل نکتہ یہ ہے کہ یہ مصیبت خود کوئلے کو جلانے سے ہی نازل ہوئی ہے۔ ظاہر ہے کوئلہ گندی ترین آلودگی میں شمار کیا جاتا ہے جو نہ صارف کاربن کے اخراج کا باعث ہے بلکہ دیگر خطرناک گیسوں کو بھی خارج کرتا ہے۔ آسٹریلیا توانائی کے دیگر ذرائع اختیار کرنے کے لیے مشہور ہے لیکن ابھی تک وہ کوئلے سے اپنی جان نہیں چھڑا سکا کیوں کہ کوئلہ اس کے اپنے ملک کی پیداوار ہے جس سے وہ فائدہ اُٹھانا اپنا حق سمجھتا ہے۔
انڈیا میں شدید گرمی
انڈیا میں شدید گرمی کے باعث ائیرکنڈیشنر کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا جس کی وجہ سے اُسے بھی بجلی کی کمی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ انڈیا کو ترقی پسند ہونے کے باعث پسند کیا جاتا ہے اور پاکستان کےموازنے میں اس کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں کہ کس طرح دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں انڈیا میں سرمایہ کاری کرنے کو ترجیح دیتی ہیں اور کس طرح سے آسٹریلیا نے چین کو خیر باد کہہ کر انڈیا کو اپنی منڈی بنالیا ہے لیکن نتیجہ یہ ہے کہ اس بے پناہ اندسٹری نے انڈیا کی گرمی میں بے پناہ اضافہ کردیا اور اب اس بڑی منڈی کو بجلی فراہم کرنا ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔
افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں اس میں مفت میں ہی متاثر ہورہا ہے۔ ہرسال انڈیا کی آلودگی سردیوں میں پاکستان کا رُخ کرتی ہے اور پاکستان کو سموگ جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالاں کہ پاکستان میں انڈیا کے مقابلے میں صنعت نہ ہونے کے برابر ہے۔
توانائی کے لیے تیل پر انحصار: بنگلہ دیش کی مثال
بنگلہ دیش سیاسی وجوہات کی بنا پر پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا لیکن اسے اچھی سیاست کبھی نصیب نہیں ہوسکی۔ بے پناہ سیلابوں والا ملک آج بھی خاطر خواہ ڈیم تعمیر نہیں کرسکا اور تیل کی بدولت بجلی پیدا کررہا ہے۔ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت اضافی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے لیے تیل میسر نہیں یا موجودہ صورت حال میں بہت مہنگے داموں میسر ہے۔ بنگلہ دیش میں 2009ء میں پاور پلانٹس کی تعداد 27 تھی جو اب 152 ہو گئی ہے۔ اس وقت بجلی کی پیداواری صلاحیت 5,000 میگاواٹ یومیہ سے کم تھی جو کہ اب 25,566 میگاواٹ ہے۔ بلاشبہ ملک میں بجلی کی اتنی مانگ نہیں ہے۔ متعلقہ افراد کے مطابق ملک میں بجلی کی طلب 15 سے 16 ہزار میگاواٹ ہے۔
اس طرح سے پاکستان کے لیے معیشت میں مثال بننے والاملک بھی توانائی کےمسئلے کا شکار ہے۔ تیل مہنگا ہونے کی وجہ سے بجلی مہنگی مل رہی ہےاور اس کی وجہ سے حکومت کو شدید قسم کے مظاہروں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
حکومتیں سب سڈی کو خیر باد کہہ رہی ہیں
معاشی بحران کی ایک اور بڑی علامت یہ نظرآرہی ہے کہ حکومتیں سب سڈی سے اپنی جان چھڑارہی ہیں۔ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے میں ایک وجہ بہت زیادہ سب سڈی دینا تھا۔ اس وقت پاکستان میں بھی یہی رُجحان چل رہا ہے کہ حکومت سب سڈی کو ختم کرتی جارہی ہے۔ انڈیا میں بھی یہی شکایت دیکھنے میں آرہی ہے کہ اتنی بڑی آبادی کو سب سڈی دینے سے حکومت چلانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ بی جے پی لیڈر اور وکیل اشونی اپادھیائے نے گزشتہ دنوں سپریم کورٹ میں درخواست داخل کر مفت کی چیزیں تقسیم کرنے کا وعدہ کرنے والی پارٹیوں کی منظوری رد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس درخواست پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے کہا ہے کہ وہ مالیاتی کمیشن سے معلوم کرے کہ پہلے سے قرض میں ڈوبی ریاستوں میں مفت اسکیموں پر عمل کو روکا جا سکتا ہے یا نہیں۔
وکیل کا نکتہ تھا کہ جس طرح سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں مفت سکیموں کا اعلان کرتی ہیں، یہ ووٹروں کو رشوت دینے والی بات ہے۔ ظاہر ہے جیت جانے کے بعد کیے گئے تمام وعدوں سے مکرنا ممکن نہیں ہوتا اور بہت ساری چیزوں میں سب سڈی دینا پڑتی ہے اور اس پر خزانے پر بوجھ پڑتا ہے۔
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ڈائریکٹر کرسٹلینا جارجیوا نے زیادہ نرم لہجے، جس میں تشویش کا عنصر واضح طور پر جھلک رہا تھا کہا کہ ’افق تاریک ہو چکا ہے۔‘جارجیوا نے مزید کہا کہ کووڈ 19 وبا کے اثرات، مالیاتی منڈیوں میں ہیجان، موسمیاتی تبدیلی کے مسلسل خطرے، یوکرین میں جنگ اور خوراک کا موجودہ بحران سب اکھٹا ہو گیا ہے جس سے ’آفات اکٹھی‘ ہو گئی ہیں۔یہ تمام تجزیے اور بیانات ایک بھیانک صورت حال کا چہر ہ دکھا رہے ہیں اور اس سے بچائو کے لائحہ عمل کو پیش تو کیا جا رہا ہے لیکن شاید اس پر ابھی تک عمل کی نوبت نہیں آئی۔ کیا یہ بحران سے پہلے ہوسکے گا یا سب کچھ بحران آنے کے بعد ہی کیا جائے گا؟ ؟