شنگھائی تعاون کی تنظیم
وزرائے خارجہ کا اجلاس
29جولائی کو ازبکستان کے شہر تاشقند میں شنگھائی تعاون کی تنظیم کا وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں ممبر ممالک نے اس تنظیم کی بیس سالہ کارکردگی کا جائزہ لیا اور ستمبر 2022میں ہونے والے اس کے سربراہی اجلاس کے لیے لائحہ عمل طے کیاگیا۔ اس کا سربراہی اجلاس 15-16 ستمبر کو ازبکستان ہی کے شہر سمرقند میں منعقد ہوگا۔
1996ء میں شنگھائی فائیو کے نام سے قائم ہونے والی اس تنظیم کو 2001ء میں چین اور روس کی طاقتوں کے ساتھ چار وسط ایشیائی ریاستوں کی شمولیت سے شنگھائی تعاون کی تنظیم کا نام دیا گیا۔ پاکستان اور انڈیا کو 2017ء میں اس کی رُکنیت حاصل ہوئی۔ اس میں شامل ہونے والا آخری ملک ایران ہے جو 2021ء میں اس کا رُکن بناا۔
شنگھائی تعاون کا محور: افغانستان
یاد رہے کہ شنگھائی تعاون کی تنظیم افغانستان میں عسکری گروہوں کی موجودگی جن میں کہ القاعدہ سرفہرست تھی کی وجہ سے منظر عام پر آئی تھی۔ ظاہر ہے امریکا کی یہاں موجودگی میں اس تنظیم کو کردارمزید اہم ہوگیا تھا اور اب امریکا کے جانے کے بعد افغانستان پھر ایک اہم اور حل طلب مسئلہ ہے اس لیے اس کے باقی جو بھی اور جتنے بھی مقاصد ہوں افغانستان ایک اہم مسئلے کے طور پر اول سے آخر تک اس کی پالیسی کا حصہ ہے۔
اس سلسلے میں شنگھائی کی تنظیم شروع سے لے کر آخر تک جنگی مشقیں کرانے پر زور دیتی ہے اور اس نے کئی مرتبہ مختلف ملکوں کی مشترک جنگی مشقیں کروائی ہیں۔ ان میں 2021ء میں ہونے والی پب (سندھ) کی جنگی مشقیں پاکستان میں منعقد ہوئی تھیں۔ اس طرح سے کہا جاسکتا ہے کہ شنگھائی تعاون ایک فعال تنظیم ہے لیکن ان جنگی مشقوں کے باوجود شنگھائی تعاون نے اپنے آپ کو فوجی اتحاد قرارنہیں دیا۔
افغانستان کی شنگھائی تعاون میں حیثیت
یاد رہے کہ افغانستان شنگھائی تنظیم میں ایک آبزرور کے طور پر موجود ہے اور اس کی خواہش ہے کہ وہ شنگھائی تعاون کا مستقل رُکن بن جائے لیکن ابھی تک اس سلسلے میں کوئی پیش رفت نظرنہیں آئی۔ اصل وجہ یہ ہےکہ ابھی تک افغان طالبان اپنا نقطۂ نظر پوری طرح سےدنیا پر واضح نہیں کرسکے۔ وہ ایک طرف دنیا سے تعلقات بھی قائم کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن وہ جدید قانون کو اپنے ہاں جگہ دینے کے لیے تیار نہیں اور اس کا امکان بھی کم ہے کیوں کہ اُن کی ساری جدوجہد اسی بیانیے کے گرد گھومتی ہے کہ جدید قانون اُن کے لیے ایک اجنبی چیز ہے اور وہ اس کے واضح اور کھلے حریف ہیں۔
اس حوالے سے بھی شنگھائی کا اجلاس اہم ہے کہ وہ افغانستان کے مسئلے کا کوئی پائیدار حل نکالے اور افغان طالبان کو کسی ایک پالیسی کے اختیار کرنے پر مائل کیا جاسکے۔
بلاول بھٹو کا خطاب : افغانستان کا مسئلہ
حالیہ اجلاس میں پاکستان کی طرف سے بلاول بھٹو نےاجلاس سے خطاب کرتے ہوئے زیادہ تر افغانستان کے حوالے سے ہی اپنا نقطۂ نظر پیش کیا جس میں یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ افغانستان کا پُرامن حل پاکستان کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں اور یہ کہ پاکستان سب سے زیادہ اس سے متاثر ہورہا ہے۔مبصرین کا کہنا تھا کہ بلاول اس اجلاس میں زیادہ سے زیادہ خیرسگالی کےجذبات کا اظہار کرسکتے ہیں اور اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔ بہرحال بلاول نے افغانستان کے مسئلے کو اس کے ساتھ منسلک کرکے اپنی ایک پوزیشن ضرور بنالی جو اُن کی ذہانت کی غمازی کرتا ہے۔
اس موقع پر بلاول بھٹونے افغانستان کے منجمد اثاثوں کی طرف توجہ دلائی اور زور دیا کہ افغانستان کے ان اثاثوں کو افغانستان کے مسائل حل کرنے کے لیے بحال ہونا ضروری ہے اور اُنھوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار اداکرے۔
بلاول نے دیگر شعبوں کے حوالے سے بھی باہمی تعاون کی ضرورت پر زور دیا۔ اُنھو ںنے یوکرین کی جنگ سے پیداشدہ بحران کا تذکرہ بھی کیا اور اس کے پُرامن حل پر زور دیا۔اُنھوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں فوجی تنازعات کے دوبارہ اُبھرنے اور ایندھن اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافے کو چیلنجز کے طور پر دنیا بھر کے ممالک اور شہریوں کو پہنچنے والے بھاری نقصان کا بھی ذکر کیا۔ اس طرح سے پاکستان کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے اُنھوں نے تمام رسمی باتوں کو احاطہ کیا او راجلاس میں اپنی اہمیت کو جتایا۔
ٹرانس افغان ریل منصوبہ
بلاول بھٹو نے افغانستا ن اور ازبکستان کے ساتھ جاری ریل منصوبے کی اہمیت کو بھی اُجاگر کیا۔اس سلسلے میں اُنھوں نے ازبکستان کے وزیرخارجہ سےسائیڈلائن ملاقات کی اور اس سلسلے میں اس منصوبے کا تیز کرنے پر زور دیا۔ اُنھوں نے ازبکستان کو گوادر کی بندرگاہ کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا کہ دونوں ملک تجارت کے ضمن میں اس سے بہت فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
افغانستان کی سی پیک میںشمولیت
افغانستان اور چین کے وزرائے خارجہ سے ملاقات میں بلاول بھٹو اور چینی وزیر خارجہ سے اس بات پر اتفاق کیا کہ سی پیک کو افغانستان تک وسیع کیا جائے گا۔ اس موقعہ پر چینی وزیرخارجہ نے کہا کہ چین نے افغانستان کے لیے ویزا پالیسی کا اجرا کردیا ہے نیز افغانستان کو تجارت کے لیے چین سے ٹیکس کے ضمن میں رعایت فراہم کی جائے گی۔
انڈیا کے سوا بلاول بھٹو نے شنگھائی تعاون کے تمام ممالک سے تفصیلی ملاقات کی جس میں دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کی بات کی گئی اور بلاول نے وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے پاکستان کی بندرگاہوں کی اہمیت کا اُجاگر کیا۔ اُنھوں نے ازبکستان کے وزیرخارجہ سے بات کرتے ہوئے ظہیر الدین بابر کے تاریخی کردار کے حوالے سے دونوں ملکوں کی ثقافتی کاوشوں کو بھی سراہا۔
پاکستان کیوں اہم ہے ؟
جو بھی ہو پاکستان اس خطے میں اپنی جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے اہم ہے اور شنگھائی تعاون والے اسے کسی صورت بھی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ پاکستان نے اپنی قومی سلامتی پالیسی میں اپنے اہداف کا جغرافیائی کی نسبت معاشی زیادہ قراردیا ہے اور اپنی اس معاشی حیثیت کو آگے بڑھانے کا عزم کیاہے۔ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کودنیا میں غذا کی ترسیل کے لیے استعمال کرسکتا ہےاور اس سے خاص طور پر افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ وسط ایشیائی ریاستوں کو سب آسان سمندری رسائی صرف پاکستان سے مل سکتی ہے۔ علاوہ ازیں ساری دنیا کا مسئلہ ماحولیات بنا ہوا ہے تو اس حوالے سے بھی پاکستان اہم ہے اور اس کا تعلق پھر جغرافیائی حیثیت سے ہے۔ سی پیک منصوبہ توانائی کی بچت کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے۔ اس سے قبل چین کو بحیرہ جنوبی چین سے 13ہزار کلومیٹر کا سمندری سفر کرنا پڑتا تھا لیکن اب خلیج تک پہنچنے کے لیے اسے کاشغر سے 3ہزار کلومیٹر سفرکرنا پڑے گا اور بھی زمینی۔ اس سے جہاں توانائی کی بچت ہوگی وہیں سرمائے کی بھی بچت ہوگی۔ ان سب حقائق کے باوجود یہ طے ہے کہ ان چیزوں کو پُرکشش بنانا اور سب سے اہم یہ کہ ان سے فائدہ حاصل کرنا بہرحال پاکستان کی سفارت کاری پر منحصر ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ اس خطے سے شنگھائی کے ممالک تو فائدہ اُٹھاتے رہیں لیکن خود پاکستان اس سے کوئی بھی فائدہ نہ اُٹھاسکے۔
موجودہ صورت حال میںپاکستان کا نقطۂ نظر کیا ہوسکتا ہے؟
پاکستان اس وقت زبردست معاشی کے ساتھ سیاسی بحران سے بھی گزر رہا ہے۔ گزشتہ حکومت نے مغرب کی طرف کچھ سخت پالیسی کا آغاز کیا تھا جسے کہ موجودہ حکومت دانش مندی نہیں سمجھتی۔ موجودہ حکومت کے عہدے داران مختلف عالمی فورم پر ان خیالات کا اظہار کرچکے ہیں کہ گزشتہ حکومت کا مغرب اور امریکاکو سست کہنا ایک غلط پالیسی تھی جس کا پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے اور موجودہ معاشی صورت حال کا ذمہ دار بھی گزشتہ حکومت کا مغرب اور امریکا کے بارے میں یہی رویہ تھا۔ موجودہ حکومت مغرب اور امریکا کے ساتھ تعلقات کو اہم سمجھتی ہے اور اسے مزیدآگے بڑھانا چاہتی ہے۔ اب اس صورت حال میں پاکستان کیا نقطۂ نظر اپنائے کہ جسے وہ شنگھائی تعاون کی تنظیم میں بھی پیش کرسکتے ایک سوال طلب مسئلہ ہے۔
مغرب اور شنگھائی تعاون تنظیم کے درمیان
یہ درست ہے کہ مغرب اور امریکا سے تعلقات کو بگاڑنا عقل مندی نہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ تعلقات میں توازن قائم کیا جائے۔ یعنی جس طرح امریکا کے ساتھ تعلقات ہیں اسی طرح چین اور روس کے ساتھ بھی تعلقات ہوں۔ ا س کی سب سےبڑی مثال ہمارا ہمسایہ ملک انڈیا ہے جس نے دونوں طرف اپنے تعلقات کو مستحکم رکھا ہواہے۔ وہ امریکا کے نزدیک بھی ٹھیک اور شنگھائی تعاون کی تنظیم کےساتھ دیگر کئی معاہدوں میں بھی چین کے ساتھ شریک ہے۔ اسی طرح وہ روس سے بھی برابر کے تجارتی ، حتیٰ کہ فوجی تعلقات رکھتا ہے۔ موجودہ حکومت کا یہ فعل سفارت کاری کی رُوح کے منافی ہے کہ وہ گزشتہ حکومت کی خارجہ پالیسی کو عالمی فورم پر متنازعہ قراردے رہی ہے۔ البتہ بلاول بھٹو کا رویہ اس ضمن میںمثبت نظرآیا جب اُنھوں نے امریکا میں عمران خان کے دورہ روس کا جواز پیش کیا۔
بہرحال مبصرین کا خیا ل ہے کہ پاکستان کا جھکائو مغرب اور امریکا کی طرف اتنا زیادہ ہے کہ وہ مشرق کی طاقتوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔
انڈیا کی کارگزاری
یہ اجلاس انڈیا اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے لیے ایک اچھا فورم ہے۔ اگر وزرائے خارجہ کوئی خاطر خواہ تبادلۂ خیالات نہیں کرسکے تو آنے والے سربراہی اجلاس میں اس ضمن میں پیش رفت کی جاسکتی ہے۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان کامیاب مذاکرات سے شنگھائی تعاون ایک مضبوط فورم بن سکتا ہے لیکن یہ بعید از قیاس ہی لگتا ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پاکستان کشمیر کے ذکر کو جانے دے لیکن ایساکرنا پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے کیوں اب کشمیر یوں کو ان کے دیے گئے حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔
انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکرنے بھی اپنے خطاب میں زیادہ تر زور افغانستان پر ہی دیا۔ انڈیا کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو اس نے امریکی دور میں افغانستان پر بے بہا سرمایہ کاری کی تھی جوامریکا کے جانے سے صفر ہوگئی اور دوسرا یہ تھا کہ اسے افغانستان کے محاذ سے پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کا کھلا موقع مل جاتا تھا۔
اس چیز کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات مزید واضح ہوجاتی ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان بات چیت کا کتنا امکان ہوگا۔ گو باقی ممالک کی نظریں ان دوملکوں پر لگی ہوئی ہیں کہ وہ کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں لیکن درجہ حرارت دونوں طرف زیادہ ہی نظر آرہا ہے۔
انڈیا اس حوالے سے ایک بہتر پوزیشن پر ہے کہ وہ دنیا کے اکثر اور اہم معاشی معاہدات کا حصہ ہے اور اس کی بدولت ہرجگہ اس کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ انڈین نژاد لوگ اقوام متحدہ کے اہم عہدوں پر موجود ہیں۔ اس لیے وہ ہرشعبے اور ہر پہلو پر بات کرسکتا ہے اور جب ان باتوں کے ضمن میں وہ اپنے مقاصد کو بیان کرتا ہے تو سننے والوں کو وہ عجیب معلوم نہیں ہوتے۔ جیسا کہ افغانستان کے ساتھ اُس کا کوئی جغرافیائی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود اُس نے پوری تفصیل کے ساتھ افغانستان کے معاملے پر اس اجلاس میں بات کی اور ایک طرح سے اسے ایک اپنا مسئلہ قراردیا جب کہ دوسری طرف پاکستان اس تفصیل کے ساتھ کشمیر کے مسئلے پر بات نہیں کرسکتا کیوں کہ پاکستان کے پاس دوسرا کوئی فورم موجود نہیں اور دوسری کوئی حیثیت موجود نہیں کہ جس کے ضمن میں وہ اپنے دیرینہ مسائل کو عالمی فورم پر اُجاگر کرسکے۔ اس طرح سے بھارت اس اجلاس میں پاکستان کے اوپر بھاری رہا ۔
پاک بھارت تعلقات
شنگھائی تعاون کی ایک شرط یہ ہے کہ رُکن ممالک آپس کے اختلافی معاملات پر کوئی بات نہیں کریں گے۔ اسی وجہ سے نہ تو کشمیر پر کسی طرف سے کوئی بات ہوئی اور نہ ہی دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ نے آپس میں ملاقات کی۔ اُمید کی جاتی تھی کہ دونوں وزرائے خارجہ کسی بہانے آپس میں مل بیٹھیں لیکن ایسا نہ ہوسکا۔
ایران کی شمولیت اور بیلارس کی درخواست
شنگھائی تعاون کی تنظیم میں ایک اور اہم پیش رفت اس میں ایران کی شمولیت ہے۔ روس اور چین کے بعد ایران وہ ملک ہے جو بھرپور طریقے سے امریکا کا حریف ہے۔ اس طرح ایک اتحاد میں امریکاکے تین حریفوں کا اکٹھا ہوجانا ایک اہم بات ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے اس حوالے سے تعاون کی اہم راہوں کی نشان دہی کی ہے ۔
ایران کے علاوہ بیلاروس نے بھی شنگھائی تعاون کی تنظیم میں شمولیت کی درخواست دی ہے جسے حالیہ اجلاس میں قبول کیا گیا ہے اور اسے آئندہ سربراہی اجلاس میں زیر بحث لایا جائے گا۔
شنگھائی تنظیم کے ممکنہ فوائد
سوسائٹی آف ہائر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ کے ایک مقالے میں پاکستان کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم میں رہنے کے ان فوائد کا ذکر کیا گیا تھا:
1- ایس سی او میں پاکستان تجارت اور مناسب سرمایہ کاری کے ذریعے ترقی کے لیے بڑی علاقائی طاقتوں سے معاشی مدد حاصل کر سکتا ہے۔
2- ایس سی او ایک اُبھرتا ہوا سکیورٹی بلاک ہونے کے ناتے روایتی اور غیر روایتی خطرات سے نمٹنے میں پاکستان کے لیے بہت مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
3- ایس سی او پاکستان کو اپنے علاقائی اور عالمی دشمنوں کے خلاف ایک اہم سٹریٹیجک پوزیشن فراہم کر رہا ہے۔
4- ایس سی او پاکستان کو علاقائی شراکت داروں کے انتخاب کے لحاظ سے بہتر اختیارات دے رہا ہے۔ یہ اسے روس کے ساتھ ساتھ وسطی ایشیائی ریاستوں کے قریب لا رہا ہے۔
5- ایس سی او کا پلیٹ فارم پاکستان اور انڈیا کو اپنے اختلافات کی بنیاد پر تناو کم کرنے اور تعلقات کو بہتر بنانے کا موقع فراہم کر سکتا ہے۔
6- ایس سی او کے ذریعے پاکستان خطے میں اپنی سفارتی تنہائی ختم کر سکتا ہے۔
7- پاکستان خطے میں دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے مدد طلب کر سکتا ہے اور اس طرح کے چیلنج کا سامنا کرنے والے دیگر رکن ممالک کے ساتھ اپنے تجربات شیئر کر سکتا ہے۔
(انڈیپنڈنٹ اردو)