شجاع نواز کی کتاب
The Battle for Pakistan
پر ایک نظر
شجاع نواز کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ اُنھوں نے اپنی لیاقت کا لوہا پاکستان کی فوج کے بارے میں اپنی پہلی کتاب Crossed Swords , Pakistan , Its Army , and the Wars Within لکھ کر منوا لیا تھا۔ زیر نظر اُن کی نئی کتاب اُن کے بقول پہلی کتاب کا ہی تسلسل ہے۔
شجاع نواز پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل آصف نواز جنجوعہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ اِس لیے اُن کی رسائی انتظامیہ اور فوج کے اُن کونوں کھدروں تک ہے جہاں دوسرے دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کے جاتے ہوئے پر جلتے ہیں۔دوسری طرف امریکا میں ایک نہایت اہم ادارے میں کام کرنے کی وجہ سے اُن کی رسائی واشنگٹن میں حساس اداروں اور فیصلہ سازوں تک بھی ہے۔اِس لیے اُن کے پاس معلومات کا ذخیرہ دوسرے لوگوں سے بہت زیادہ ہے۔ –اُن کے ہر لکھے ہوئے لفظ کو ساری دنیا میں پالیسی ساز بہت اہمیت دیتے ہیں اور اُن کی تحریروں کی قدر کرتے ہیں۔
اپنی تازہ ترین تصنیف The Battle For Pakistan: The Bitter US Friendship and a Tough Neighbourhood میں اُنھوں نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔
مذکورہ کتاب کے 13 باب ہیں۔
- The Revenge of Democracy
- Friends or Frenenemies
- 2011 A Most Horrible Year!
- From Tora Bora to Pathan Gali.
- Internal Battles
- Salala: Anatomy of a Failed Alliance.
- The Mismanagement of the Civil-Military Relationship.
- US Aid: Leverage or Trap.
- Mil to Mil Relations: Do More.
- Standing in the Right Corner.
- Transforming the Pakistan Army.
- Pakistan’s Military Dilemma
- Choices.
اِس کتاب کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے شجاع نواز کا کہنا ہے: ’’میری کتاب کا اصل مقصد اُن مسائل کی آگاہی میں اضافہ ہے جو پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں اور مستقبل میں ایسے حالات کے بارے میں تصویر کشی کرنا ہے جن کی مدد سے پاکستان اپنے مقاصد کو حاصل کر سکے۔ اِس کتاب میں میں نے امریکی عسکری اور سفارتی قیادت کی حکمت عملی اور اُس کی خامیوں پر بھی نظر ڈالی ہے جن میں وہ پاکستان کو افغان پالیسی میں ذیلی حیثیت دیتے تھے۔
کتاب کے شروع میں Important Milestones 2007-19 جنھیں آپ اہم واقعات بھی کہہ سکتے ہیں کی تاریخیں دی ہیں۔ کتاب کے ابتدائیہ (Preface) Salvaging a Misallianceمیں وہ لکھتے ہیں کہ امریکا اور پاکستان کے تعلقات کوایک بری شادی بھی کہا جاتا ہے۔اِس کے علاوہ چینی اور جاپانی محاورے میں ایک ایسی جوڑی بھی کہا جا سکتا ہے جو سوتی تو ایک بستر پر ہے مگر خواب الگ الگ دیکھتی ہے۔یہ شادی ٹوٹنے جارہی ہے مگر اِسے دونوں پارٹیوں اور خطے کے مفادات کے لیے بچانا ضروری ہےکیوں کہ پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں یہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
پچھلے ستر سالوں میں پاک،امریکا تعلقات میں بہت اونچ نیچ دیکھنے میں آئی ہے۔محبت کی پینگیں بھی چڑھائی گئی اور تو تکار کی نوبت بھی آئی۔پاکستان میں ابھی جمہوریت پوری طرح نہیں آئی اور سویلین حکومتوں اور فوج کی کش مکش جاری ہے، گو کہ ایک پیج کا نعرہ بھی لگایا جاتاہے۔ شجاع نواز کا کہنا ہے کہ اُنھیں اِس بات پر فخر ہے کہ اُن کی کئی نسلوں نے فوج میں خدمات انجام دیں ۔ وہ وردی کی عزت کرتے ہیں۔ –اُن کا تعلق جنگ جو قبیلہ راجپوت جنجوعہ سے ہے۔مگر وہ سویلین حکومت کے متبادل کے طور پر فوج کی حمایت نہیں کرتے۔ اِس کتاب میں اُنھوں نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے اچھے اور خراب پہلوئوں کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ایک وقت آیا کہ امریکنوں نے افغانستان سرحد سے داخل ہوکر پاکستانی فوجیوں کو مار دیا جس کے جواب میں پاکستانی فوج نے بھی کارروائی کی۔امریکا نے جواباً پاکستان کی مالی امداد روک دی جو کہ اِس نے افغانستان میں فوجی کارروائی میں مدد کرنے پر جنرل مشرف کے زمانے میں وعدہ کی تھی۔اُن کا کہنا ہے کہ امریکا ہندوستان کے ساتھ دوستی کے بارے میں پاکستان کے جذبات اور تحفظات کو خاطر خوا اہمیت نہیں دیتا۔
شجاع نے سوات میں مذہبی انتہا پسندی کے فروغ اور ملٹری ایکشن کا جائزہ بھی لیا ہے۔اُنھوں نے میمو گیٹ، امریکی فوجیوں کے اسامہ بن لادن کے لیے ایبٹ آباد مشن پر بھی روشنی ڈالی ہے۔اُن کا کہنا ہے کہ راحیل شریف کے آئی ایس آئی کے سربراہ نے بھی حکومت کا تختہ اُلٹنے کے کوشش کی تھی۔ اُن کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کے ایک افسر نے، جو آج کل امریکا میں رہتا ہے، امریکا کو اسامہ بن لادن کے بارے میں معلومات دیں۔ اپنی کتاب میں وہ لکھتے ہیں کہ اقبال سعید نامی آئی ایس آئی اہل کار نے 2011ء میں اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت کے فوراً بعد ڈیفنس اسلام آباد میں واقع اپنا گھر خالی کر دیا تھا۔ اِس کتاب کے مطابق اقبال سعید جنھوں نے فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر سکیورٹی کنٹریکٹر کا کام شروع کر دیا تھا، اِن دنوں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سین ڈیاگو میں رہائش پذیر ہیں اور اُنھوں نے اپنا نام تبدیل کر کے ’’بیلی خان‘‘ رکھ لیا ہے۔ وہ 24 لاکھ ڈالر مالیت کے گھر میں رہتے ہیں اور یہ گھر اُنھی کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم نے واشنگٹن میں اعلان کیا کہ پاکستان نے اسامہ کے معاملہ میں امریکا کی مدد کی تھی۔ ڈرون حملوں کا بھی عجیب پس منظر تھا۔ ایک طرف پاکستان حکومت کی اجازت سے یہ ہوتے تھے دوسری طرف حکومت پاکستان اِس کی مذمت کرتی تھی۔اِن حملوں سے پاکستان میں امریکا غیر مقبول ہو گیا۔ بمبئی دہشت گردی کے واقعہ کے بارے میں شجاع نے پاکستان کے سفیر حسین حقانی کے حوالے سے لکھا ہے کہ آئی آیس آئی کے چیف نے حقانی کو بتایا کہ یہ ہمارے آدمی تھے مگر مشن ہمارا نہیں تھا۔
گو وہ ذاتی طور پر چاہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات مزید پھلے پھولیں مگر وہ امریکی کردار کے زبردست ناقد بھی ہیں۔ –اُنھوں نے اِس سلسلہ میں ایک بہت ہی اہم امریکی دانش ور اینڈریو ولڈر کے جائزہ کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ پاکستان صرف عسکریت کے بل بوتے پر خوش حال ملک نہیں بن سکتا،اِس کے لیے اسے اپنے شہریوں کی تعلیم و تربیت اور ہنر مندی اور سماجی بھلائی پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اُن کی یہ حقیقت پر مبنی رائے ہے کہ چوں کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایٹمی جنگ کے نتیجہ میں دونوں ملک تباہ ہو جائیں گے اِس لیے یہ کام پاکستان کے سارے ہمسایوں کے ساتھ پرامن تعلقات اور تجارت بڑھانے سے ہی ممکن ہے۔ شجاع نے تین سابق آئی ایس آئی کے سربراہان کے ساتھ اپنی بات چیت کا حوالہ دیا ہے جن کے خیال میں دہشت گرد ویزا لے کر نہیں آتے۔اِس لیے ویزا میں آسانی ہونی چاہیے۔
پاکستان کے اندرونی معاملات کے حوالے سے کتاب کے ساتویں باب میں وہ لکھتے ہیں ’’ماضی کی حکومتوں کی طرح 2008ء میں منتخب ہونے والے پی پی پی کی حکومت نے بھی معمول کے کام عسکری حکام کے حوالے کیے اور غیر معمولی طور پر عسکری قیادت کو ایسی عزت و تکریم سے نوازا جس سے عوام میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ ملک میں دو طرفہ حکومت ہے، حالاں کہ پی پی پی کی حکومت جمہوریت کی بالادستی کا پرچار کرتی رہی۔ پاکستان میں سویلین حکومت نے فوج کی حمایت حاصل کرنے کے لیے انھیں جگہ دی، وسائل دیے اور اُنھیں قانونی تحفظ فراہم دیا تاکہ وہ ایسی کارروائی کر سکیں جو قانون اور انصاف کے دائرے سے باہر ہوں۔‘‘
کتاب کے صفحہ 185 پر شجاع نواز لکھتے ہیں کہ ’’2014ء میں افواہیں گرم تھیں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اُس وقت کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان تحریک انصاف اور اِس کے سربراہ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنے کے انعقاد میں مدد کر رہے تھے۔‘‘ اِسی بارے میں وہ صفحہ 262 پر پاکستان میں امریکا کے سابق سفیر رچرڈ اولسن سے اپنی گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’امریکی سفیر نے اُنھیں بتایا کہ ’ستمبر 2014ء میں ہمیں اطلاع ملی کہ جنرل ظہیر الاسلام پاکستان میں فوجی بغاوت کا منصوبہ بنا رہے ہیں مگر اُس وقت کے فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف نے اِس منصوبے کو پنپنے نہیں دیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ کو اُن کے عہدے سے ہٹا دیا۔ جنرل ظہیر کور کمانڈرز سے بھی رابطے رکھے ہوئے تھے اور اگر اُنھیں راحیل شریف کی حمایت ہوتی تو حکومت کا تختہ اُلٹ چکا ہوتا۔‘‘
اِسی طرح کا ایک اور واقعہ اُنھوں نے صفحہ 34 پر بیان کیا ہے جس میں وکلا تحریک کا ذکر کرتے ہوئے شجاع نواز لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان پیپلز پارٹی کے اعتزاز احسن نے اُنھیں بتایا کہ اُنھیں اِس تحریک کے دوران ملکی حالات کے تناظر میں شک تھا کہ فوج تختہ نہ اُلٹ دے مگر وہ پریشان نہیں تھے کیوں کہ وکلا تحریک کے نتیجے میں صدر پرویز مشرف کو اپنے عہدے سے استعفا دینا پڑا تھا۔‘‘
غرض شجاع نواز کی کتاب سیاست اور عالمی معاملات پر ایک بہت ہی اہم اضافہ ہے۔خاص کر پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے بارے میں اِس کتاب میں جتنی معلومات ملتی ہیں وہ اور کہیں نہیں ہیں۔سو یہ سیاست، تاریخ اور انٹرنیشنل افیئرز کے ہر طالب علم کو پڑھنی چاہیے۔