سی پیک فیز ٹو
امکانات اور جائزہ
سی پیک بلاشبہ کوئی عام منصوبہ نہیں، یہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے بلکہ دنیا کے لیے ایک نئی تاریخ کی نوید ہے۔ لامحالہ اس کے خلاف سازشیں بھی اتنی ہی زیادہ ہوں گی۔ خاص طور پر امریکاایسا ہوتا ہرگز نہیں دیکھ سکتا۔ گو امریکا کے حالات خود اب ایسے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو ہی بچا لے تو ایک بڑا کام ہوگا۔ اسی طرح اس منصوبے سے انڈیا کی بھی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔ سی پیک میں رکاو ٹ ڈالنے کے حوالے سے کچھ چیزیں واضح ہیں۔ سب سے اہم پروپیگنڈا مشینری ہے۔ سی پیک بہت بڑا منصوبہ ہے جس کے اندر کئی بڑے بڑے منصوبے ہیں۔ اس لیے کسی وقت اس پر کام کا وقتی طور پر رک جانا ایک عام سی بات ہے۔ لیکن یہ پروپیگنڈا کرنے والوں کے لیے بڑا نادر موقع ثابت ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موجودہ حکومت کے آغاز سے اس منصوبے کی رفتار میں کچھ کمی دیکھنے میں آئی جس کی کئی وجوہات ہیں لیکن پروپیگنڈا مشینری نے شور مچا دیا کہ سی پیک کو بند کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ حکومت کی تبدیلی کو قراردیا گیا۔ یاد رہے کہ گوادر کی تعمیر کاکام مشرف دور میں شروع ہوا۔ سی پیک کا باقاعدہ آغاز پیپلزپارٹی کی حکومت میں ہوا۔ مختلف منصوبوں پر کام مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں شرو ع ہوا۔ ان منصوبوں پر کام موجودہ حکومت میں جاری ہے۔ اورنج لائن ٹرین اس کا حصہ تھا جو موجودہ حکومت میں فعال ہوئی۔ گوادر پورٹ اس وقت پوری طرح فعال ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں زیادہ تر سرمایہ کاری چین کی ہے تو ایسا کیسے ممکن ہے کہ وہ آسانی سے اس منصوبے کا سبوتاژ ہونے دے گا۔ جس طرح ہر حکومت نے اس میں اپنے انداز سے کام کیا اسی طرح موجودہ حکومت کا بھی اپنا ایک انداز ہے۔
سابق صدر پرویز مشرف نے 2006ء میں چین کے ساتھ مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے تھے جن میں 50 کے قریب منصوبوں پر کام ہونا تھا۔18 ویں ترمیم جوکہ پیپلز پارٹی کے دور میں پاس ہوئی کے بعد صوبوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سی پیک کے منصوبوں سے متعلق اپنی سفارشات وفاقی حکومت کو منظوری کے لیے بھیج سکتے ہیں۔اس دوران سب سے زیادہ تجاویز پنجاب اور سندھ سے پیش ہوئیں اور خیبر پختونخوا اور بلوچستان اس کا حصہ دیر سے بنے اور سیاسی چپقلش کی وجہ بھی بنے۔ اسی طرح سی پیک اتھارٹی ایکٹ موجودہ حکومت میں پاس ہوا۔
فیز ٹو سے کیا مرا د ہے؟
یاد رہے کہ سی پیک تین مرحلوں پر مشتمل منصوبہ ہے جو کہ ایک دوسرے کے متوازی چلیں گے۔ فیز ون 2020ء تک تھا اگرچہ اس پر مختلف وجوہات کی بنا پر کام ابھی بھی چل رہا ہے۔ فیز ٹو 2025ء تک کا منصوبہ ہے اور سب سے اہم اور طویل المیعاد منصوبے فیز تھری میں آئیں گے جو 2030ء میں مکمل ہوگا۔ متوازی سے مراد یہ ہے کہ فیز تھری کے منصوبوں کا آغاز 2017ء میں ہوچکا ہے۔
موجودہ حکومت میںسی پیک کے حوالے سے دوچیزیں شروع کی گئیں۔ ایک تو سی پیک اتھارٹی قائم کی گئی جس میں کہ چین کی تجویز بھی شامل تھی۔ دوسرا سی پیک فیز ٹو کا آغا زکیا گیا۔ عمران خان کا حالیہ دورہ چین بھی اسی ضمن میں تھا۔ اس لیے جب ہم فیز ٹو کی بات کریں گے تو اس میں سی پیک اتھارٹی کی کارکردگی کو چانچنا ہوگا۔ باقی منصوبے ایک تو پہلے سے چل رہے ہیں اور جو نئے شروع ہوں گے اُن کی بھی منصوبہ بندی پہلے سے کی جاچکی ہے اُن پر صرف کام ہونا باقی ہے۔ مثال کے طور پر گوادر ائیر پورٹ سی پیک منصوبے کا حصہ ہے البتہ ابھی تک وہ مکمل نہیں ہوسکا۔ اس لیے کسی منصوبے پر کام تیز یا سست ہونا یا کام شروع ہونا فیز ٹو کا مسئلہ نہیں ہے۔ فیز ٹو کا مسئلہ یہ ہے کہ اب سی پیک میں آنے والی اندرونی اور بیرونی رکاوٹوں کو کس طرح سے دور کرکے اس منصوبے کو کامیابی سے مکمل کیا جائے۔
’ون پلس فور‘ کہے جانے والے اس منصوبے میں ون سی پیک کو کہا جاتا ہے اور چار اس کے تحت منصوبے ہیں جن میں گوادر بندرگاہ، توانائی اور مواصلاتی نظام اور صنعتی زونز کو بہتر بنانا شامل ہیں۔ان منصوبوں میں کچھ مکمل ہوکر اپنا کام کررہے ہیں، کچھ تکمیل کے مراحل میں ہیں اور کچھ پر ابھی کام شروع ہونا ہے۔
فیزٹو میں شراکت داری کے نئے قوانین کی ضرورت
مختلف وجوہات کی بنا پر جن میں سکیورٹی قابل ذکر ہے، سی پیک منصوبے التوا کا شکار ہونے کے بعد پاکستان نے سی پیک اتھارٹی کو نہ صرف بااختیار بنانے بلکہ اس میں چین کی نمائندگی کو بھی یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک منصوبوں میں مسائل سامنے آنے کے بعد چین کی خواہش پر سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ حکام کے مطابق چین نے پاکستان کو بتایا کہ وہ سی پیک کے تحت منصوبوں پر پیش رفت سے مطمئن نہیں ہے۔
ایک ایسی اتھارٹی کا قیام عمل میں لانے کا مقصد نہ صرف مانیٹرنگ کو یقینی بنانا ہے بلکہ اتھارٹی یہ بھی دیکھے کہ کسی منصوبے میں کیا ’پروسس فالو‘ ہو رہے ہیں۔
سی پیک منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی تشکیل دی گئی جس کی سربراہی مشترکہ طور پر پاکستان کی سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین اور چین کے نیشنل ڈیویلپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن کے وائس چیئرمین کرتے ہیں۔ اس کمیٹی کے تحت ایک جوائنٹ ورکنگ گروپ بھی ان منصوبوں کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے کام کرتا ہے، جس میں دونوں ممالک کی نمائندگی شامل ہے۔
سی پیک اتھارٹی کیا ہے ؟
موجودہ حکومت کے قیام کے ساتھ ہی سی پیک اتھارٹی کا قیام عمل میں آگیا تھا۔ کچھ عرصہ یہ اتھارٹی ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اپنا نظم و نسق چلا تی رہی۔ خیال رہے کہ چین کے ساتھ پاکستان نے سی پیک کا معاہدہ گزشتہ حکومتوں کے دور میں کیا تھا مگر سی پیک اتھارٹی جیسے کسی ادارے کو ان معاہدوں کی نگرانی نہیں دی گئی تھی۔
صدارتی آرڈیننس کی مدت پوری ہونے کے بعد اب اس اتھارٹی کو قانونی جواز بخشنے کے لیے موجودہ حکومت قانون سازی کے عمل سے گزارا گیااور اسے سی پیک اتھارٹی ایکٹ کا نام دیا گیا۔دیگر قانون سازیوں کی طرح یہ بھی اپوزیشن کے بغیر ہی سرانجام پاگئی اس لیے اپوزیشن کو اس اتھارٹی کے حوالے سے بہت سے اعتراضات ہیں۔ اپوزیشن کا ایسے معاملات میں سیدھا سا پروپیگنڈا پھر یہ ہوتا کہ سی پیک کو بند کیا جارہا ہے اس لیے اپنی من مانی کے لوگ ا س کی نگرانی پر لگائے جارہے ہیں۔
سی پیک اتھارٹی کے سابق سی ای او زکریا علی شاہ کے مطابق اس اتھارٹی کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ اس کے ذریعے سی پیک کے منصوبوں کی تکمیل کو معینہ مدت میں یقینی بنایا جا سکے۔ اُن کے مطابق ایسے بہت سے معاملات ہوتے ہیں جو حکومتوں اور کمپنیوں کے درمیان کے ہوتے ہیں جنھیں آگے لے کر جانا ہوتا۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ چینی کنٹریکٹرز نے اس اتھارٹی کو بہت پسند کیا ہے کیوں کہ یہ اتھارٹی اُن کے لیے ’ون ونڈو‘ کے طور پر کام کرتی ہے یعنی انھیں اپنے کاموں کی تکمیل کے لیے مختلف وزارتوں اور محکموں میں خوار ہونا نہیں پڑے گا۔
صدارتی آرڈیننس سی پیک اتھارٹی کو وہ اختیارات نہیں دے رہا تھا جس کے تحت یہ اپنے قیام کے مقاصد کو بطور احسن انجام دے پاتی۔ لہٰذا وزیر اعظم نے پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کو یہ ٹاسک سونپا کہ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر اس اتھارٹی سے متعلق تجاویز (قانون سازی سے متعلق سفارشات) تیار کریں۔
اس قانون سازی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سی پیک کے معاملات کو تھوڑا خودمختار کیا جائے۔ یہ اتھارٹی وزارت منصوبہ بندی کے تحت صحیح معنوں میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی۔
قانون سازی سے متعلق مسودے میں اس اتھارٹی کے دائرہ اختیار سے متعلق مزید تفصیلات بھی ملتی ہیں۔ اتھارٹی کو سی پیک منصوبوں کی تکمیل کے لیے متعدد اقدامات اُٹھانے کے اختیارات حاصل ہوں گے۔وفاق اور صوبے اس اتھارٹی کی مدد کرنے کے پابند ہوں گے۔ذرائع کے مطابق ابھی صوبوں نے اس اتھارٹی کے صوبائی دفاتر کے قیام پراتفاق نہیں کیا۔ تاہم مجوزہ قانون سازی میں صوبائی حکومتوں کے تحت اداروں کو اس اتھارٹی سے تعاون کا پابند بنایا گیا ہے۔
اتھارٹی کو معلومات تک رسائی دی جائے گی۔ اتھارٹی معلومات کو حاصل کرنے کے لیے کسی شخصیت کو بھی طلب کر سکے گی۔ تعاون سے انکار کی صورت میں سزا تجویز کی گئی ہے۔ اس ڈرافٹ میں سی پیک اتھارٹی سے متعلق غیر متعلقہ افراد تک معلومات پہنچانے پر بھی سخت سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔اس میں سی پیک بزنس کونسل کے قیام کے علاوہ سی پیک اتھارٹی کے لیے ایک خصوصی فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔
اتھارٹی یہ فنڈ حکومتی گرانٹس کے علاوہ دیگر ذرائع سے بھی حاصل کرنے کی مجاز ہوگی اور اتھارٹی اضافی فنڈز کے بہتر استعمال کے لیے کسی بہتر کاروبار میں سرمایہ کاری بھی کرنے کی مجاز ہو گی۔چیئرمین سی پیک کو چار سال کی مدت کے لیے تعینات کیا جائے گا البتہ مدت ملازمت میں چار سال تک کی توسیع بھی مل سکے گی۔
وزیر اعظم اس اتھارٹی کے ممبران کا تقرر تین سال کے لیے کریں گے اور اُن کی مدت ملازمت میں بھی تین سال تک کی توسیع کی جا سکے گی۔ کسی بیورو کریٹ کو اتھارٹی کے سربراہ کا کلیدی عہدہ نہ دینے کی تجویز بھی اس مسودے کا حصہ ہے۔ادارہ شماریات اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کی طرح سی پیک اتھارٹی بھی اپنے معاملات کو آگے بڑھانے میں آزاد ہے۔
فیز ٹو میں سرمایہ کاری اور پراجیکٹس
فیز ٹو کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں چینی حکومت سے زیادہ چینی کمپنیاں سرمایہ کاری کریں گی۔ جیسا کہ سی پیک اتھارٹی کے ضمن میں بیان ہوچکا کہ کمپنیوں کی سہولت کے لیے اتھارٹی کو خود مختا ر بنایا گیا ہے۔ فیز ٹو میں ملٹی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔ فیز ٹو میں چین کی مختلف کمپنیوں نے درج ذیل پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا:
گوادر میں ایک سٹیل اور میٹل ری سائکلنگ پلانٹ کا قیام جو تین سا ل کی مدت میںمکمل ہوگا۔ یہ پلانٹ 4.5بلین ڈالر کی دھات بنا سکے گا اور اس سے چالیس ہزار نوکریاں فراہم کی جائیں گی۔
ملک میں زراعت کو کاروباری بنیادوں پر آگے بڑھایا جائے گا جس سے اس کا معیار اور مقدار دونوں میں اضافہ ہوگا۔ مثلاً کچھ کمپنیاں یہاں سویا بین کی کاشت میں دلچسپی لے رہی ہیں۔
کراچی میں ایل این جی کی سٹوریج قائم کی جائے گی۔ لاہور قصور روڈ پر ٹیکسٹائل سے متعلق ایک سنٹر قائم کیا جائے گا۔
گاڑیوں کی ایک کمپنی یہاں 50ملین ڈالر کی سرمایہ کرنا چاہتی ہے۔ طبی آلات کے لیے 200ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کا کہا جارہا ہے جب کہ آپٹیکل فائبر کے لیے 2بلین ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے۔
پ
اکستان سٹیل مل کی نج کاری کے حوالے سے بھی کچھ کمپنیاں دلچسپی کا اظہار کررہی ہیں۔
فیز ون میں کل 53بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا ہدف تھا جن میں سے 25بلین ڈالر کے منصوبے مکمل ہوچکے ہیں جب کہ 28ملین ڈالر کے منصوبے زیر عمل ہیں۔
وزیراعظم کا حالیہ دورہ چین اور سی پیک کے لیے اُمیدیں
وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ مختلف چیزوں کے لیے تجدید عہدتھا۔ البتہ سب کچھ کا انحصار سی پیک پر ہی تھا جو چین اورپاکستان دونوں کی اُمیدوں کا مرکز ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اس دورے میں چین کی 500کمپنیوں کے نمائندوں سے بیس سے زیادہ میٹنگز کیں اور اُنھیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی۔ پاکستان کے لیے اس میں بنیادی بات یہی ہے کہ وہ کیسے سی پیک اتھارٹی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ سی پیک سے متعلق تمام قسم کے مسائل کو حل کرسکے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے معاون خصوصی برائے سی پیک خالد منصور کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے چین میں مختلف میٹنگز میں شرکت کی، چین کے صدر سے ون آن ون ملاقات بھی کی جس میں دو طرفہ تعلقات سمیت سی پیک کے اُمور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اُن کے مطابق وزیراعظم نے سی پیک میں سرمایہ کاری کرنے والی کمپنیوں کو یقین دلایا کہ سی پیک ون ونڈو آپریشن اتھارٹی کے پیچھے وہ کھڑے ہیں۔ وزیراعظم آفس بھی چینی سرمایہ کاروں کے مسائل کے حل میں مدد کرے گا۔
اُنھوں نے بتایا کہ ای سی سی نے 100 ارب روپے سی پیک کے آئی پی پیز کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ سی پیک کے آئی پی پیز کو 50 ارب دے دیے گئے، چین جس قسم کی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اس میں 37 قسم کی منظوریاں لینی پڑتی ہیں لیکن چینی سرمایہ کاری کی منظوری کو آسان بنایا گیا ہے۔ سی پیک اتھارٹی میں چینی سرمایہ کاروں کے لیے فیسلی ٹیشن سینٹر بنایا گیا ہے۔اصل میں سی پیک اتھارٹی میں ون ونڈو آپریشن ہے۔خالد منصور کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے چین کو تمام مسائل جلد از جلد حل کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، سی پیک میں کچھ پاور پراجیکٹ تاخیر کا شکار ہیں لیکن اب ان کے مسائل کے حل کی طرف پوری توجہ دی جارہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے وہ سیکٹرز جن کو ہماری معیشت کی ضرورت ہے ان پر ایک کتاب مرتب کی گئی ہے۔ اس کتاب میں تمام سیکٹرز کا موازنہ کیا گیا کہ چینی کیوں پاکستان میں آکر سرمایہ کاری کریں،وزیراعظم نے چین کے صدر کو وہ کتاب پیش کی۔ اس بات سے بھی آگاہ کیا گیاکہ ایک بہت بڑا کنسورشیم ہے جس نے گوادر میں دھاتوں کو پگھلانے کے لیے کارخانہ لگانےکی پیشکش کی ہے، اس سے روزگار کے 40 ہزار مواقع پیدا ہوں گے۔
خالد منصونے یہ بھی کہا کہ چین کے ساتھ زرعی پیداوار بڑھانے کے منصوبوں پر بھی بات ہوئی۔ چین کی ایک کمپنی نے پاکستان میں ایگری کلچر ٹیکنالوجی ٹرانسفر سینٹر بنانے کی پیشکش کی ہے جس میں پاکستان کی زراعت کو بہتر بنانے کے لیے مشینری فراہم کی جائے گی۔ علاوہ ازیں 50 کروڑ ڈالر سے چین نے کراچی میں ایل این جی اسٹوریج بنانے کا عزم کیا ہے جب کہ ایک چینی کمپنی نے پاکستانی کمپنی کے ساتھ مل کر بڑےشہروں میں آپٹیکل فائبر لگانے کا معاہدہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک کمپنی نے سائنس و ٹیکنالوجی زون میں زمین لےکر موبائل پارٹس بنانے کا کہا ہے۔ موبائل پارٹس بنانے کے لیے 200 ملین ڈالر ابتدائی طور پر سرمایہ کاری کی جائے گی، سیمی کنڈکٹر چپ کی ٹیسٹنگ سہولت بھی پاکستان میں شروع کی جائے گی۔
خالد منصور کا کہنا تھا کہ رشکئی میں ایک نجی کمپنی نے الیکٹرک وہیکل میں سرمایہ کاری میں دلچسپی ظاہر کی جب کہ چائنا انرجی اور پاور چائنا نے پانی اور بجلی منصوبوں میں 204 ارب ڈالر تک مختلف منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ چائنا اسٹیٹ کنسٹرکشن کمپنی نے پی ایم کے پروگرام کے تحت 5000 گھر بنانے کی پیش کش کی جب کہ چائنا ریلوےگروپ نے کلین انرجی، ہاؤسنگ منصوبے اور سپیشل اکنامک زون میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ چائنا ریلوے گروپ نے ریلوے کے ایم ایل ون منصوبے میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے۔معاون خصوصی برائے سی پیک کا کہنا تھا کہ چین کی ایک کمپنی نے پاکستان سٹیل مل میں بھی دلچسپی ظاہر کی ہے جب کہ ایک پیٹروکیمیکل کمپنی نے گوادر میں ریفائننگ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ ای سی پیٹروکیمیکل گروپ نے کہا کہ 300 ملین ڈالر انوسمنٹ سے اپنی ریفائننگ کمپنی منتقل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے چین کو اپنی ریفائننگ کمپنی منتقل کرنے کی دعوت دی اور اُنھیں ہر طرح کی معاونت کی یقین دہانی کرائی ہے۔