Wednesday , March 22 2023
Home / Archive / سرد جنگ کی طرف واپسی

سرد جنگ کی طرف واپسی

Listen to this article

سرد جنگ کی طرف واپسی

نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی

روس والے کبھی سوویت یونین کو نہیں بھول سکتے اور روس کی حالیہ جنگی کارروائیوں میں اِسی ماضی کی یاد انگڑائیاں لے رہی ہے۔ سوویت روس کی شکست کے پیچھے امریکا تھا، اِسے کوئی نہیں بھلا سکتا تو روس کے ضمیر میں یہ بات فطری ہے کہ وہ امریکا کوبھی ایسے ہی انجام سے دوچار دیکھنا چاہتا ہے۔
اِس کی ایک قسط تو اُس وقت خود بخود پوری ہوگئی جب امریکا افغانستان سے بوریا بستر سمیٹ کر نکلا۔ یہ سوویت روس سے بھی زیادہ بدتر پسپائی تھی جس میں افغانیوں کے ساتھ دنیا میں کوئی بھی نہیں کھڑا تھا۔ لیکن امریکا ابھی تک دم خم کے ساتھ کھڑا ہے اور ایشیا میں دوبارہ داخلے کے لیے ہاتھ پائوں ماررہاہے۔ اِس کے لیے امریکا نیٹو کو نہ صرف فعال کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ اِس کے متوازی نئے اتحاد بھی بنائے جارہے ہیں۔ کواڈ کو جنوب مشرقی ایشیا کا نیٹو کہا جارہا ہے۔ انڈوپیسفک اکنامک فورم یعنی آئی پیف بھی اِسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھی جارہی ہے۔
اِس ضمن میں نیٹو کا نیا بیانیہ سامنے آیا ہے جس کے مطابق نیٹو کو سب سے زیادہ اور براہ راست خطرہ روس سے ہے جب کہ چین کی توسیع پسندانہ پالیسیاں بھی نیٹو کے مفادات، سلامتی اور اقدار کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔میڈرڈ میں حالیہ نیٹو سمٹ کے دوران مغربی دفاعی اتحاد کے رکن ممالک نے روس کے یوکرین پر حملے کے تناظر میں اپنا نیا نظریہ سلامتی جاری کیا ہے۔ اِس سمٹ کے دوران نیٹو کی جانب سے مشرقی یورپ میں اِس اتحاد کے فوجی دستوں کی تعیناتی کا اعلان بھی کیا گیا۔نیٹو کا نیا نظریہ سلامتی
نیٹو کے اعلامیہ کے مطابق نیٹو اب روس کو اپنے ایک سٹریٹیجک پارٹنر کے طور پر نہیں دیکھتا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیٹو روس کے ساتھ کوئی تنازعہ بھی نہیں چاہتا اور نہ ہی نیٹو روس کے لیے کوئی خطرہ ہے۔
دوسری جانب چین سے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’وہ وسیع پیمانے پر سیاسی، اقتصادی اور عسکری سرگرمیوں کے ذریعے اپنی طاقت کا اظہار کرتا ہے۔‘‘ پہلی مرتبہ نیٹو کی جانب سے چین سے متعلق مؤقف کو باقاعدہ پالیسی کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ اِس پالیسی میں کہا گیا ہے کہ چین کے توسیع پسندانہ عزائم نیٹو کی سلامتی کے لیے بڑا چیلنج ہیں۔
نیٹو کے رکن ممالک نے اِس نئی پالیسی پر میڈرڈ سمٹ کے دوران دستخط کیے۔ نیٹو اِسی پالیسی کے تحت آئندہ برسوں کے لیے اپنے اہداف اور سرگرمیوں کی منصوبہ بندی کرے گا۔ اِس اتحاد نے آخری مرتبہ اپنی ایسی پالیسی 2010ء میں ترتیب دی تھی۔
نیٹو رہنماؤں نے روس کے یوکرین پر فوجی حملے کے تناظر میں مشرقی یورپ میں اِس اتحاد کے مزید فوجیوں کی تعیناتی کا اعلان بھی کیا۔ یہ اتحاد اپنی ریپڈ ری ایکشن فورس کی تعداد کو چالیس ہزار سے بڑھا کر تین لاکھ تک کر دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ نیٹو کی یہ فورسز عام طور پر اِس اتحاد کی مرکزی کمان کو رپورٹ کرتی ہیں اور اِنھیں کسی بھی رکن ملک میں تعینات کیا جا سکتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد کا سب سے بڑا سکیورٹی بحران
نیٹو سیکرٹری جنرل ژینس سٹولٹن برگ کا کہنا ہے کہ میڈرڈ میں نیٹو اتحادیوں کی سمٹ ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے، جب اِس اتحاد کے رکن ممالک کو دوسری عالمی جنگ کے بعد کے سب سے سنگین سکیورٹی بحران کا سامنا ہے۔

یوکرین پر روسی فوجی حملے نے یورپ میں شدید نوعیت کے سکیورٹی خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ نیٹو کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں مشرقی یورپ میں ہتھیار اور فوجی تعینات کیے جا رہے ہیں۔ اس اتحاد کے رکن ممالک نے یوکرین کی مدد کے لیے اربوں ڈالر کی عسکری اور سویلین امداد وہاں پہنچائی ہے۔ اسٹولٹن برگ نے کہا کہ سرد جنگ کے بعد پہلی مرتبہ نیٹو اتنے بڑے پیمانے پر دفاعی اعتبار سے تبدیلیاں کر رہا ہے۔

یوکرینی صدر کا نیٹو ممالک سے مطالبہ
یوکرین کے صدر زیلنسکی نے ایک ویڈیو لنک کے ذریعے نیٹو رکن ممالک کے رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نیٹو نے اس جنگ زدہ ملک کا مکمل اور کھل کر ساتھ نہیں دیا۔ زیلنسکی نے روسی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مزید 

ہتھیاروں کا مطالبہ بھی کیا۔
صدر زیلنسکی نے کہا کہ نیٹو کی کھلے دروازے کی پالیسی کییف کے ٹرام سٹیشنوں کے پرانے دروازوں جیسی نہیں ہونی چاہیے جو ہر وقت کھلے رہتے ہیں لیکن جب کوئی ان کے قریب جائے تو وہ بند ہو جاتے ہیں۔ زیلنسکی نے نیٹو ممالک سے مزید جدید ہتھیاروں کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔ زیلنسکی نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ یا تو نیٹو روس کو شکست دینے کے لیے یوکرین کی مدد کرے یا پھر روس اور نیٹو کی 

جنگ کے خطرے کا سامناکرے۔
لیکن نیٹو کی طرف سے مالی امداد اب ایک حساس موضوع بھی ہے۔ نیٹو کے صرف نو رکن ممالک ایسے ہیں، جو اِس اتحاد کی جانب سے طے کردہ، اپنے بجٹ کا دو فیصد حصہ دفاع پر خرچ کرنے کی شرط پورا کرتے ہیں۔ جرمنی نے حال ہی میں اپنے دفاعی بجٹ کو بڑھانے کا اعلان کیا تھا۔
شمالی کوریا کو بھی تنبیہ
نیٹو سمٹ کے آخری دن امریکا، جنوبی کوریا اور جاپان کے رہنمائوں کی میٹنگ اِس لحاظ سے خصوصی اہمیت کی حامل رہی کہ امریکا اپنے ان دونوں بڑے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔
اِن رہنمائوں کی میٹنگ کے بعد وائٹ ہاوس کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اُنھوں نے پورے ایشیا بحرالکاہل میں سہ فریقی تعاون کو بڑھانے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیااور یہ کہ میٹنگ میں بالخصوص شمالی کوریا کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے غیر قانونی ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگرام سے پیدا شدہ خطرات کا مقابلہ کرنے کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔
نیٹو نے اِس فوجی اتحاد کے لیے 2030ء تک جن چیلنجز کا ذکر کیا ہے اِس میں پہلی مرتبہ چین کو بھی نئے سٹریٹیجک نظریہ میں اپنے مفادات کے لیے چیلنج قرار دیا ہے۔

Check Also

15 Japanese Concepts

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *