خلافتِ راشدہ کی خصوصیات
ُپیغمبر اسلام ﷺ نبی اور رسول ہونے کے ساتھ اسلام کی پہلی ریاست کے سربراہ بھی تھے۔ یوں سیاسی ضابطے ایک طرح سے دین اسلام کا حصہ تصور کیے جاتے ہیں۔شروع میں سیرت کے مفہوم میں یہی بات آتی تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے بحیثیت سربراہ مملکت دوسری قوموں سے معاملات میں کیا روش اپنائی البتہ بعد میں سیرت کا دائرہ پھیل گیا اور اس میں نبی اکرم ﷺ سے متعلق تمام اُمور کا ذکر کیا جانے لگا۔ آپﷺ کے وصال کے بعد وحی کا سلسلہ بند ہوگیا تھا اِس لیے اب ریاست آپ ﷺ کے جانشینوں نے اپنی فہم وفراست سے ہی چلانی تھی۔
خلافت کا لغوی اور اصطلاحی مفہوم
خلافت سے مراد جانشینی کے ہیں۔ اسلام میں خلافت سے مراد ہے رسولﷺ کی جانشینی ہے۔ قرآن کے مطابق انسان زمین پر اللہ کاخلیفہ یعنی نائب ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان اللہ کی بنائی ہوئی تمام چیزوں سے افضل ہے اور باقی سب چیزیں اس کے لیے پیدا کی گئی ہیں۔گو انسان ان چیزوں کا محتاج ہے لیکن یہ سب کچھ اس کے لیے ہے۔ یہ اب انسان پر منحصر ہے کہ وہ کسی چیز کو اپنی مجبوری نہ بننے دے اور اپنی ضرورت کو بھی پورا کرے۔ خلافت کو سمجھنے کے لیے یہ نکتہ قابل غور ہے۔
اِس مفہوم کی بنا پر حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ الرسولﷺ کہا جاتا تھا یعنی رسول ﷺ کے جانشین اور حضرت عمرؓ کو خلیفۃ الرسولﷺ کہا گیا یعنی رسول ﷺ کے جانشین کے جانشین۔ یہ طرز جاری رکھنا ممکن نہ تھا اس لیے حضرت عمرؓ نے دیگر اصلاحات کے ساتھ خلیفہ کے لیے امیرالمومنین کی اصطلاح کو رائج کردیا جو بعد میں جاری رہی۔
اسلام میں خلیفہ کی حیثیت
رسول ﷺ کے جانشینی بہر حال وحی کے تابع نہ تھی اور اس بنا پر اس میں اختلاف ایک فطری امر تھاجو خود نبی ﷺ کے تربیت یافتہ صحابہ میں بھی ہوا۔ البتہ اسلام کے نظریہ ساز نبی اکرمﷺ کے قریبی ساتھیوں کی حکمرانی کو بقیہ مسلم حکمرانی سے الگ خیال کرتے ہیں اور نبیﷺ کی حدیث کی روشنی میں اُنھیں خلفائے راشدین کہتے ہیں اور اس حکمرانی کو خلافت راشدہ کہا جاتا ہے۔ نبیﷺ کی حدیث ہی کے مطابق اس کا عرصہ ان کے بعد تیس سال یعنی حضرت حسن ؓ کی خلافت تک شمار کیا جاتا ہے جو حضرت علی ؓ کے بعد چھ ماہ خلیفہ رہے۔
اِس طرح ایک چیز واضح تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس امر کو مسلمانوں کے مجموعی شعور پر چھوڑ دیا اور اس سلسلے میں ایک پیشین گوئی تک اکتفا کیا کہ حقیقی روح کے ساتھ خلافت کب تک رہے گی۔ بعض آراء حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کو رسول اللہ ﷺکے آخری ایام میں حضرت ابوبکرؓ کے نماز کی امامت کرانے سے جوڑتے ہیں جو محل نظر ہے کیوں کہ اپنے خلیفہ بنتے وقت خو دحضرت ابوبکر ؓ نے اس دلیل کو پیش نہیں کیا۔
اِس طرح سے خلیفہ ایک نگران تھا جو زندگی کے جملہ شعبوں میں شرعی ضابطوں کو نافذ کرنے کا پابند تھا۔ البتہ ان شرعی ضابطوں کی تشکیل علما اورفقہا کا کام تھا جب کہ تصوف معاشرے کی ذہن سازی کے ذریعے ان ضابطوں سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے والوں کی راہ روکتا تھا۔اس لیے جیسا کہ کہا گیا انسان دوسری مخلوقات پر برتری رکھتا ہے جب کہ وہ بہت ساری چیزوں میں جانوروں سے بھی کمزور ہے۔ اِسی طرح خلیفہ علما، فقہااور صوفیا سے علم میں کم ہونے کے باوجود ان پر ایک برتری رکھتا ہے اور سب کو اس کی عزت روا ہے کیوں کہ سب کا علم خلیفہ یا حکمران کے ذریعے ہی نافذ ہوتا ہے۔
اِس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے خلافت راشدہ کی خصوصیات کی درج ذیل خصوصیات گنوائی جاسکتی ہیں۔ ساتھ ساتھ اس کا جدید دور کے سیاسی اُصولوں سے موازنہ بھی پیش کیا جارہا ہے۔
خلیفہ کا تقرر:انتخاب اورچنائو میں فرق
یہ بات یاد رہے کہ خلیفہ کا بننا انتخابElection سے زیادہ چنے جانے Selectionسے مشابہ تھا۔ ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ انتخاب میں اکثریت کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ کس طرف ہے۔ اس لحاظ سے اکثریت انصار کی تھی، لیکن حضرت ابوبکرؓ بحث و تمحیص، گفت وشنید، مشورے اور دلائل کے ذریعے خلیفہ بنائے گئے۔ اسے چنا جانا یا Selection کہہ سکتے ہیں۔ آج کل کے دور میں اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ انتخاب میں ووٹنگ ہوتی ہے، جس کے ووٹ زیادہ ہوتے ہیں اسے سیاسی عہدہ مل جاتا ہے جب کہ دوسری طرف انتظامی عہدے کے لیے امیدواروں کا انٹرویو کیا جاتا ہے اور انھیں پرکھا جاتا ہے کہ وہ اس کے اہل ہیں کہ نہیں پھر انھیں عہدہ ملتا ہے، اِسے Selection یا چنائو کہتے ہیں۔
البتہ ایک چیز ہے نامزدگیNomination، یعنی کسی شخص کی صلاحیتوں اور خدمات کو سامنے رکھتے ہوئے اسے کسی عہدے پر لگانا۔ خلافت میں نامزدگی بھی ہوسکتی تھی یعنی موجودخلیفہ جاتے ہوئے کسی دوسرے کو خلیفہ نامزد کرسکتا تھا۔ ایسا جدید دور میں بھی ہوتا ہے کہ حکمران انتخاب جیتنے کے بعد بہت سے لوگوں کو مختلف عہدوں کے لیے ان کی خدمات اور تجربے کو پیش نظر رکھ کر نامزد کرتا ہے۔ خاص طور پر جب حکمران سمجھتا ہے کہ منتخب شدہ ارکان میں سے کوئی اس عہدے کونہیں چلا سکتا تو پھر تجربہ کار شخص کو نامزدگی کے ذریعے وہ عہدہ دیا جاسکتا ہے۔
اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علی ؓ کا چنائو ہوا تھا جب کہ حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکر ؓ نے نامزد کیاتھا۔
جو لوگ حکمران کا چنائو کرتے تھے اُنھیں اہل حل و عقد کہا جا تاتھا۔ جدید دور میں الیکٹورل کالج اس کامشابہ قراردیا جاسکتا ہے۔ البتہ دونوں کے اُصول میں فرق ہے۔ الیکٹرول کالج باقاعدہ عوامی ووٹ کے ذریعے بنتا ہے گو اس میں بہت سے درمیانی مرحلے بھی شامل ہیں۔ ایک سیاسی پارٹی کے منشور سے سمجھوتا کرنے میں بہت سے ایسے عوامل شامل ہوتے ہیں جو الیکٹورل کالج کے عوامی ہونے پر کئی سوال اٹھاتے ہیں۔ بہر حال الیکٹورل کالج عوام کے اعتماد کو سند کے طور پر پیش کرنے کا نام ہے۔ دوسری طرف اہل حل وعقد یہی اعتماد اپنے کردار یا اپنی گروہ بندیوں سے حاصل کرتے تھے۔ خلافت راشدہ کی بات کریں تو یہاں کردارکاعنصر غالب تھا۔
پرکھا جائے تو خاص طور پرکردارکے بل بوتے پر اعتماد ثابت کرنا بہت مشکل کام تھا۔ اس میں اپنے مخالفین سے بھی اپنے آپ کو منوانا ہوتا تھا جب کہ الیکٹورل کالج میں اکثریت کا اُصول اس مسئلہ کوتو آسان بنا دیتا ہے کیوں کہ اکیاون فیصد کو اپنی حمایت کے لیے تیار کرلینے کا نام اعتماد ہے، لیکن یہ چیز بہت سے مسائل کھڑے کردیتی ہے۔گنتی پوری کرنے کا ہدف بہت سی قباحتوں کو جنم دیتا ہے اور کردار والی بات بے معنی ہوجاتی ہے۔
نبوت کی طرز کا نظام
خلافت راشدہ کو خلافت علی منہاج النبوۃ کہا جاتا ہے جس سے مراد ایسا نظام حکومت ہے جو نبوت کے خد و خال رکھتی ہو۔ رسول اللہ ﷺنے اپنے اصحاب کی حکومت کے بارے میں پہلے ہی فرمادیا تھاجیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا۔ کیوں کہ چاروں خلفا رسول اللہﷺ کے انتہائی قریب رہے تھے جب کہ حضرت حسن ؓ آپ ﷺ کی گود میں پلے تھے اِس لیے ان کا طرز عمل نبوی طرز سے قریب ترین تھا۔
شورائی نظام
خلافت کا نظام مشورے سے چلتا تھا یہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ بھی تھا۔ ہر اہم معاملے میں مشورے کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اس کو اہمیت دی جاتی تھی۔ البتہ ایک چیز کا فرق کرنا ضروری ہے کہ مشورہ صرف اہل افراد سے لیا جاتا تھا نہ کہ ہر کسی سے۔ جن افراد سے مشورہ لیا جاتا تھااُنھیں اسلام کی اصطلاح میں مجلس شوریٰ کہتے ہیں۔ بعد میں اسے عمائدین سلطنت یا امرا کہاجاتا تھا۔ موجودہ دور میں اسے کابینہ کہتے ہیں۔
یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ جس نوعیت کا کام ہو اسی نوعیت کے شخص سے مشورہ لیا جائے۔ راستہ چلتے کسی سے بھی پوچھا جاسکتا ہے۔ البتہ کاروبار کے لیے مشورہ صرف کاروبار کا تجربہ رکھنے والے سے ہی لیا جائے گا۔ لامحالہ اُمور حکومت سب سے اہم چیز ہوتے ہیں اور صرف اہل افراد ہی سے اس کا مشورہ کیا جاسکتا ہے۔ شریعت کے نفاذ میں اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے جیسا کہ خلافت راشدہ کا معاملہ تھا۔علاوہ ازیںشریعت میں معاملہ اعتماد یا ووٹ والا نہیں رہتا کیوں کہ خدائی حکم کے بارے میں انسانوں کی رائے نہیں لی جاتی۔ البتہ تشریح اور فقاہت کا دروازہ کھلا ہے لیکن اس کی حد صرف علما اور فقہا ہیں اور اس میں بھی اکثریت کا کوئی اُصول کارفرما نہیں بلکہ صرف دلائل معتبر ہوتے ہیں۔
اسمبلی کے ذریعے خدائی احکامات کا نفاذ ایک جدید مسئلہ ہے جس کی ماضی میں کوئی دلیل نہیں ملتی اسی لیے جدید ریاستوں میں دین اوردنیا کی دوئی دیکھنے کو ملتی ہے۔
عدل وانصاف کی حکومت
خلافت راشدہ کا ایک بنیادی اُصول عدل وانصاف کی حکومت تھی۔ اس میں صرف قابل شخص کو ہی ذمہ داری دی جاتی تھی۔ علاوہ ازیں کسی کا رتبہ اور حسب نسب اسے سزا سے نہیں بچا سکتا تھا۔ اِس طرح سے ہم خلافت راشدہ کے عدل و انصاف کو دوخصوصیات کا مرکب کہہ سکتے ہیں: میرٹ اور انصاف۔
جاننا چاہیے کہ یہ اُصول آفاقی ہے اور کوئی بھی کامیاب حکومت، وہ قدیم دور کی ہو یا جدید دور کی اس کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس لیے اسے کسی سلطنت کی خوبی کے ساتھ ساتھ مجبوری بھی کہا جاسکتا ہے۔ البتہ خلافت راشدہ نے اس ضمن میں جو ضابطے لاگو کیے وہ پہلے اور بعد میں آنے والوں سے بہت زیادہ تھے۔
فلاحی ریاست
خلافت راشدہ ایک فلاحی ریاست تھی جس میں رعایا کی بنیادی ضروریات کو ریاست کی ذمہ داری سمجھا جاتا تھا اور ان کی خبر گیری کو خلیفہ کا فرض جانا جاتا تھا۔ خلفائے راشدین نے اپنے طرزِعمل سے ہمیشہ اسے ثابت کیا اور ریاست کے خزانوں کے منہ ہمیشہ رعایا پر کھولے رکھے۔خاص طور پر بیت المال کا انتظام خلافت راشدہ میں ایک انتہائی حساس معاملہ تھا جس میں ایک ایک درہم کا حساب رکھا جاتا تھا۔ خلافت راشدہ کے بعد کی حکمرانی میں ایک بڑی خصوصیت بیت المال کی نوعیت کے بدل جانے کو بھی کہا جاتا ہے جو مختلف نئے سیاسی ضابطوں کے منظر عام پر آنے سے ہوئی۔
انسانی مساوات
خلافت راشدہ میں کسی شخص کو قانون کے ضمن میں امتیازی حیثیت حاصل نہ تھی۔ خلیفہ تک کو عدالت میں پیش ہونا پڑتا تھا۔ قاضی پوری جرأت سے خلیفہ سے سوال جواب کرتے اور کئی بار ایسا ہواکہ فیصلہ خلیفہ کے خلاف سنایاگیا۔ ایک دفعہ حضرت علیؓ نے اپنی زرہ کی چوری کا مقدمہ ایک یہودی پر دائر کیا۔ قاضی نے گواہی مانگی تو آپ نے اپنے غلام کی گواہی پیش کی، قاضی نے کہا کہ آپ کے غلام کی گواہی قابل قبول نہیں اور مقدمہ خارج کردیا۔ یہ دیکھ کر یہودی مسلمان ہوگیا۔
جدید دور میں سربراہ حکومت کو عدالت طلب نہیں کرسکتی بلکہ اس کا مواخذہ صرف پارلیمنٹ کرسکتی ہے۔ خلافت میں خلیفہ عام آدمی کی طرح عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ یہ اُصول خلافت راشدہ سے بعد کی مسلم سلطنتوں میں بھی لاگورہا اور صرف قانونی یا فرضی طور پر نہیں بلکہ عملاً کئی سلاطین کو عدالت میں حاضر ہونا پڑا اور ان کے خلاف بھی فیصلے سنائے گئے۔
جہاد فی سبیل اللہ سے دین کا تحفظ
خلافت راشدہ کا ایک بنیادی وصف دشمنوں سے دین اور ایمان والوں کا تحفظ اور اشاعت اسلام کی راہ میں رکاوٹوں کو دور کرنا تھا جس کے لیے جہاد سبیل اللہ ہمیشہ جاری رہا۔ خلافت کے پورے دور میں جہاد کے لیے لشکر روانہ کیے جاتے رہے جنھوں نے کافر وں کے ساتھ جہاد کرکے اسلام کو ان کی شر سے بچائے رکھا۔
یہ تصور بھی شروع اسلام سے ہی موجود تھا۔ رسول اللہ ﷺ کی پہلی دعوت تھی یہی کہ قولولاالہ الا اللہ تفلحوا تملکواالعرب والعجم اللہ کے سوا سب کی عبادت چھوڑ دو تم کامیاب ہوجائو گے، عرب اور عجم کے مالک بن جائو گے۔ عرب اور عجم کے مالک بننے کا کلیہ جہا دتھا۔
خلافت کا عملی نفاذ:حضرت ابوبکرؓ کا چنائو اور خطبہ خلافت
خلافت کی ان خصوصیات کو مزید سمجھنے کے لیے پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر ؓکا چنائو اور ان کا خطبہ خلافت اہم ہےجس سے کہ اس کے عملی نفاذ کا آغاز ہوا۔ اس میں حضرت ابوبکر ؓ نے آئندہ کے لیے خلافت کے اُصول وقواعد طے کردیے تھے۔
رسول اللہﷺ کی تجہیز وتکفین کے دوران اطلاع ملی کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوکر خلافت کے بارے میں غور کررہے ہیں۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ کو ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔ انصار کے خیال میں خلافت کا حق اُن کا تھا کیوں کہ اُنھوں نے رسول اللہﷺ کو پناہ دی تھی۔ لیکن حضرت ابوبکر ؓ نے واضح کیا کہ عرب کے لوگ قریش کے علاوہ کسی کی سرداری کو قبول نہ کریں گے۔ یہ بحث ہورہی تھی کہ ایک انصاری صحابی ؓ نے ہی رسول اللہﷺ کا قول یاد دلایا کہ امام یا خلیفہ قریش میں سے ہوگا۔ اس کی گواہی دیگر کئی انصاری صحابہ نے بھی دی تو بحث رک گئی۔
اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فضائل کی بنا پر خود حضرت ابوبکر ؓ کے ہاتھ پر بیعت کی اور وہاں موجود دیگر صحابہؓ نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ مسجد نبویﷺ میں آئے اور درجِ ذیل خطبہ ارشادفرمایا:
’’میں آپ لوگوں پر حکمران بنایاگیا ہوں حالانکہ میں آپ میں سے سب سے بہتر انسان نہیں ہوں۔اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرواگر کج روی اختیار کروں تو مجھے سیدھا کردو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تمھارا ضعیف شخص بھی میرے نزدیک قوی ہے یہاں تک کہ میں دوسروں سے ا س کا حق اس کو نہ دلادوں۔ تمھاراقوی شخص بھی میرے نزدیک ضعیف ہے یہاں تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق حاصل نہ کرلوں۔ یاد رکھو! جو قوم جہاد فی سبیل اللہ چھوڑدیتی ہے اللہ اس کو ذلیل و خوار کردیتا ہے اور جس قوم میں بدکاری پھیل جاتی ہے اللہ اس کو عام مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے۔ اگر میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر میں اس کی نافرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت لازم نہیں۔‘‘
خطبہ خلافت کی اہمیت
خلافت طلب کرنا درست نہیں
اس خطبہ میں حضرت ابوبکر ؓ نے خلافت کے اُصول بیان فرمائے۔ اس کا بنیادی اُصول یہ ٹھہرا کہ خلافت طلب کرنا درست نہیں۔ یہ صرف اسی صورت میں درست ہے جب اسے پیش کیا جائے۔ البتہ خلیفہ کسی دوسرے کے حق میں خلافت کی وصیت کرسکتا ہے، جیسے حضرت ابوبکر ؓ نے مرض الموت میں حضرت عمرؓ کی خلافت کی وصیت کی۔یہ بات اس حدیث مبارکہ پر مبنی ہے جس کے لیے رسول اللہﷺ نے کہا کہ جو عہدہ طلب کرے وہ عہدے کا حق دار نہیں۔
علاوہ ازیں یہ تصور شروع اسلام سے ہی موجود تھا۔ مکہ میں تبلیغ دین کے دوران جب چالاک لوگ آپ کے سامنے آتے تو وہ فوراً پہچان جاتے کہ اسلام کی دعوت دنیا کے طول و عرض میں پھیل جائے گی۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے کہا کہ اگر میں اسلام قبول کرلوں تو میرا حصہ کتنا ہوگا۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے زمین سے تنکا اٹھا کر کہا اتنا بھی نہیں۔
اِسی طرح حدیث رسول ﷺ میں ہی ہے کہ اگر ذمہ داری طلب کی جائے تو اس میں اللہ کی مدد شامل حال نہیں ہوتی اور اگر ذمہ داری ڈال دی جائے تو اللہ کی مدد شامل حال ہوتی ہے۔
اس سے متعلق ایک اور بات حضرت ابوذرغفاری ؓ کے حوالے سے ہے جو اسلام لانے میں پہلے دس لوگوں میں شمار ہوتے ہیں یعنی ان کی فضیلت پر کوئی سوال نہ تھا لیکن رسول اللہﷺ نے اُنھیں نصیحت فرمائی کہ اے ابوذر! اگر تمھیں دو لوگوں پر بھی امیر(ذمہ دار) بنایا جائے تو مت بننا۔ اصل میں یہ ان کی طبیعت کے مطابق تھی کیوں کہ ان کی تمام تر توجہ زہد کی طرف مائل تھی۔ اس سے جو چیز اخذ کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ اپنی قابلیت کو خود مت جتلایا جائے بلکہ اس وقت تک خاموش رہا جائے جب تک دوسرے اسے تسلیم نہ کرلیں۔
اِس سلسلے میں حضرت علی ؓ کا معاملہ صورت حال کو مزید واضح کرتا ہے۔ حضرت علیؓ کی فضیلت بھی کسی طرح کم نہ تھی اور وہ سابقون الاولون نیز نبی ﷺ کے اہل بیت میں ہونے کی وجہ سے یہ خیال کرتے تھے کہ خلافت کی ذمہ داری اُنھیں دی جائے گی۔ لیکن اُنھوں نے کبھی بھی خود اپنے لیے بیعت نہیں مانگی حتیٰ کہ حضرت عثمان ؓ کی شہادت کے بعد لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے کہ خلافت کی ذمہ داری اٹھائیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ اِس سلسلے میں نبیﷺ کے طرز عمل کا بھی بغور مشاہدہ کیا کرتے تھے۔ جب آخری دنوں میں رسول اللہﷺ نے حضرت ابوبکرؓ کو اپنے مصلے پر کھڑا کیا تو حضرت علی ؓ کا قول ’نہج البلاغہ‘ میں درج ہے کہ اُنھیں یقین ہوگیا کہ خلافت حضرت ابوبکر ؓ کو ہی ملے گی حالاں کہ حضرت ابوبکر ؓ کو خلیفہ بنانے کے لیے یہ دلیل پیش نہ کی گئی۔
خلیفہ کی اطاعت مشروط ہے
حضرت ابوبکر ؓ نے واضح کیا کہ خلیفہ کی اطاعت اسی وقت تک ہے جب تک وہ احکامِ الٰہی کو بجالائے۔ اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی کی صورت میں خلیفہ کی اطاعت ضروری نہیں رہتی۔البتہ خلیفہ یا حکمران کب اللہ اور رسولﷺ کی نافرمانی کرتا ہے اس کا تعین کرنا ہرشخص کا کام نہیں۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ جب تک وہ تم میں نماز کا نظام قائم رکھیں ان سے مت لڑو۔ ذاتی حق کے لیے بھی حکمران سے لڑنادرست نہیں۔ صحابہ ؓ کی نبی ﷺ کے ہاتھ پر بیعت میں یہ الفاظ بھی ہوتے تھے کہ ہم ان سے نہیں لڑیں گے حتیٰ کہ ہم پر دوسروں کو ترجیح دی جائے۔
البتہ اختلاف رائے ہونے کی صورت میں لوگ حق پر ہوتے ہوئے بھی لڑائی کی طرف جاسکتے ہیں جیسے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت میں صحابہ کے مابین جنگوں کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہﷺ کا حضرت حسن ؓ کے بارے میں واضح ارشاد موجود ہے کہ میرا یہ بیٹا مسلمانوں کے دوگروہوں میں صلح کروائے گا۔ یعنی دونوں گروہ مسلمان ہی ہوں گے البتہ کسی نزاع پر جنگ کی طرف آجائیں گے اور یہ نزاع حضرت عثمان ؓ کا قصاص تھا جس پر اتفاق نہیں ہورہا تھا کہ وہ کس طرح لیا جائے۔
خلیفہ مقدس نہیںبلکہ ہر ایک کو جواب دہ ہے
اسلام میں خلیفہ یا حکمران کوئی مقدس ہستی نہیں بلکہ لوگ اس سے عدل و انصاف کی بابت سوال کرسکتے ہیں۔ یہ اُصول پوری اسلامی تاریخ میں کارفرما رہا اور کسی بھی بادشاہت یا سلطنت کو کبھی مقدس نہیں سمجھا گیا۔اسی طرح خلیفہ کو پرانے رواج کے مطابق سجدہ کرنا بھی جائز نہیں، نہ ہی اسلامی تاریخ میں یہ چیز کبھی رائج ہوئی۔یہ بات اس حدیث پر مبنی ہے جس میں فرمایا گیا کہ اگرایک حبشی غلام بھی تم پر امیر بنایا جائے تو اس کی اطاعت کرو۔ مسلمانوں کے دور حکمرانی میں مصر اور ہندوستان میں غلاموں کی حکومتیں قائم ہوئیں۔
اِسی طرح خلیفہ کی بیعت کے ساتھ بھی اختلاف کیا جاسکتا تھا جیسا کہ حضرت علی ؓ نے چھ ماہ تک حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت نہ کی حتیٰ کہ حضرت ابوبکر ؓ نے اُنھیں قائل کرلیا۔ خلافت کوئی جامد قانون نہ تھا اور پیغمبر اسلام ﷺ کے صحابہ اختلاف کی جرأت رکھتے تھے۔ اسلامی حکمرانی کا یہ وصف حکمران کو غیر مشروط اطاعت کے خیال سے دور رکھناتھا۔
خلافت کا بنیادی فرض: انصاف کا بول بالا
حضرت ابوبکر ؓ نے خلافت کا بنیادی فرض انصاف کی حکمرانی کوقراردیا جس میں مظلوم کی دادرسی کی جائے گی اورظالم کا ہاتھ روکا جائے گا۔ضعیف شخص کے قوی ہونے کا مطلب ہے کہ حکمران اس کا دین دار ہےجیسے قرض خواہ مقروض کے لیے طاقت ور ہوتا ہے۔ قوی شخص کے ضعیف ہونے کا مطلب ہے کہ حکمران کو اس کی کوئی پروا نہیں ہونی چاہیے جس طرح عام طور پر عام انسان کی کوئی پروا نہیں کرتا۔
خلافت کا بنیادی وصف: جہاد فی سبیل اللہ
حضرت ابوبکر ؓ نے جہاد کو اسلامی خلافت کے لیے ایک لازمی چیز قراردیا کیوں کہ اللہ نے عزت صرف جہاد میں رکھی ہے۔ اس سے نکل کر سوائے ذلت کے اور کوئی چیز ہاتھ نہیں آسکتی۔یہ اسلامی فتوحات کے آغاز کی طرف اشارہ بھی تھا۔ یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ اسلام صرف جزیرہ نمائے عرب تک ہی محدود رہ جاتا۔ آفاقی مذہب کے پیش نظر اسے دنیا میں پھیلنا تھا اور اس کے لیے دنیا کی طاقتوں اور نظاموں سے ٹکر لینی ناگزیر تھی۔
یہی وجہ تھی کہ حضرت ابوبکر ؓ نے خلیفہ بننے کے بعد سب سے پہلے اُسامہ بن زید کے لشکر کو روم کی سرحد کی طرف روانہ کیا جس کا حکم کہ رسول اللہﷺ دیا تھا۔ حالات مخدوش تھے لیکن پھر بھی یہ لشکر گیا اور کامیابی سمیٹ کر آیا۔