حقوق نسواں
مذہب، روایات، جدت
جدید دورکی ایک بہت بڑی پیش رفت عورتوں کا مردوں کی طرح گھروں سے باہر آکر کاروبار زندگی میں حصہ لینا اور آزادانہ اختلاط ہے۔ روایتی دنیا میں عام طور پر عورت گھر کی ذمہ داری نبھاتی تھی اور مردوزن کے اختلاط کی کسی صوررت اجازت نہ تھی۔ بنیادی طور پر عورت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ایسی چیز کے ہیں جس کے کھلے ہونے سے اُسے خطرات لاحق ہوجائیں یا وہ غیر محفوظ تصور کی جانے لگے۔ دوسری طرف انگریزی کے لفظ Womanکے معنی اس سے بھی محدود ہیں۔ اس لفظ میں عورت کا وجود مکمل طور پر مرد کا مرہون منت ہے کیوں کہ سولہویں صدی سے قبل یہ لفظ شادی شدہ عورت کے لیے استعمال ہوتاتھااور اس کی اِبتدا Wife of manسے ہے۔ اسی طرح بقیہ روایتی دنیا بھی عورت کے اس کردار پر متفق تھی اور اسے گھر کی چاردیواری تک محدود رکھتی تھی۔
روایتی دنیا میں عورت کی حفاظت کا تصور اُس کی عصمت کے حوالے سے تھا۔ مذاہب میں بھی اس کے لیے بڑے کڑے ضابطے وارد ہوئے ہیں۔لیکن جب یورپ میں مذہب کی عملی صورت کو رد کردیا گیا تو عورت کی عصمت کا تصور بھی تدریجاً ختم ہوگیا۔ جدید سوچ عورت کی عصمت کو مذہبی پیشوائوں کی دقیانوسی سوچ کا نتیجہ قراردیتی ہے اس لیے اسے فضول سمجھتی ہے۔یہ بات یاد رہے کہ روایتی نقطہ نظر مخالف جنسوں کی بے تکلفی تک کو عصمت کے دائرے میں لے کرآتا ہے اسی لیے چاردیواری کا تصور ہے۔
عصمت کا تصور دھندلا جانے سے عورتیں گھروں سے باہر آکر ہرطرح کے کام کرنے لگیں۔ حتیٰ کہ کھیلوں تک میں حصہ لینے لگیں۔ اُنھیں مرد کی طرح طلاق کا حق بھی دے دیا گیا۔ اس سے مردوزن میں مساوات کا خواب تو پورا ہوا لیکن عورتوں کے حوالے سے جنسی جرائم کی شرح میںبے پناہ اضافہ ہوا اور یورپ کا مؤثر پولیس کا نظام ان جرائم کی روک تھام میں ناکام رہا۔ یہ جرائم بدستور جاری ہیں لیکن عصمت کا تصور ختم ہوجانے کی وجہ سے یہ جرائم بہت معمولی خیال کیے جاتے ہیں۔دوسری طرف یورپ کے قانون ساز ادارے بھی ایسے قوانین کو بہت ہلکا لیتے ہیں۔ حال ہی میں یورپ میں ایک احتجاج سامنے آیا جس میں جنسی جرائم سے متعلق قوانین پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
حالیہ تحقیق کے مطابق پوری دنیا میں جنسی جرائم کا دائرہ اب بچوں تک وسیع ہوگیا ہے اور اسے باقاعدہ ایک طاقت ور نیٹ ورک کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ ایسے نیٹ ورک کا ترقی یافتہ ممالک بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ وائس آف امریکہ کی رپورٹ کے مطابق 2017ء میں امریکہ سے 25ہزار بچوں کو جنسی مقاصد کے لیے اغوا کیا گیا لیکن اس کے ردعمل کے طور پر کوئی بڑا احتجاج نظر نہیں آتا۔ اسی چیز کے پیش نظر یورپ اور امریکہ میں ایک طبقہ صورت حال سے بے زار ہے اور بعض مثالوں میں لڑکے اور لڑکیوں کی علیحدہ تعلیم کے لیے آواز اُٹھائی گئی۔
اقوام متحدہ کے منشور برائے انسانی حقوق میں عورت کو ہرقسم کی آزادی دی گئی ہے۔ اس میں لباس اور مردوں سے اختلاط کی آزادی حقوق نسواں کے حوالے سے خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ اس طرح سے دنیا کا ہر ملک اقوام متحدہ کا رکن ہونے کے حوالے سے حقوق نسواں کو قائم کرنے کا پابند ہے لیکن مشرقی اور خاص طور پر مسلم ممالک اسے اپنے طریقے سے رائج کرنے کی کوشش کررہے ہیں کیوں کہ یہاں روایات کا غلبہ زیادہ ہے۔
معاشی مسئلہ اور حقوق نسواں
عورتوں کے مردوں کی طرح کام کرنے سے معاوضوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ خاص طور پر ایسی جگہیں جہاں ماحول کو پُرکشش بنانا مقصود ہو وہاں مردوں کی نسبت عورتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مغربی ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں مرد عورت کی کفالت کی ذمہ داری نہیں لیتا چنانچہ عورت کواپنی گزرِاوقات کے لیے خود کام کرنا پڑتا ہے ۔ دوسرا مسئلہ وہاں یہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ہر ہر چیز کو گھر میں لانے کے لیے عورت اور مرد دونوں کو کمانا پڑتا ہے تب ہی وہ اخراجات پورے کرسکتے ہیں۔ مشرقی ممالک میں ابھی تک یہ مسائل نہیں ہیں۔ یہاں ابھی بھی آبادی کی اکثریت میں مرد عورتوں کی کفالت کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال بھی نسبتاً کم ہے جس کے باعث صرف مرد ہی کما کر گھر کے اخراجات پورے کرسکتا ہے۔ البتہ نوکریوں کے حوالے سے اب عورتیں بڑی تعداد میں سامنے آرہی ہیں جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جن عورتوں کو معاشی طور پر نوکری کی ضرورت نہیں وہ بھی جب نوکری کرنے لگتی ہیں تو ضرورت مند مردوں کی ایک بڑی تعدادنوکری سے محروم رہ جاتی ہے۔اس صورت حال کے پیش نظر اب روایتی گھرانوں کی عورتیں بھی ملازمت اختیار کرنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔
اسلام میں عورت کی حیثیت
اسلام نے عورت سے متعلق اُنہی ضابطوں کو قائم رکھا جو پہلے الہامی مذاہب میں رائج تھے۔ البتہ عربوں کے ہاں جاہلیت کے باعث عورتوں پر جو ظلم ہوتا تھا اُن کا خاتمہ کیا گیا۔ عورت کا مرد کی ذاتی ملکیت ہونے کے تصور کو باطل قرادیا گیا۔لیکن جاننا چاہیے کہ معاملہ مکمل طور پر ایسا نہ تھا، ایسی مثالوں کی کمی نہیں جن سے عورت کے معتبر ہونے کا پتا چلتا ہے۔ اِن میں ایک مثال حضرت خدیجہؓ کی ہے جو مردوں کے مقابلے میں ایک کامیاب تاجر تھیں۔ اِسی طرح ابوسفیان کی بیوی ہندہ تھی جو مردوں سے کمال قسم کی بحث کر لیا کرتی تھی۔ اس کا نمونہ فتح مکہ کے موقعہ پر دیکھنے کو ملا جب آنحضرت ﷺ نے ہندہ سے بیعت لی۔ اُس وقت اُس نے اپنے چہرے کو ڈھانپا ہواتھا۔ جب رسول اللہﷺ نے عورتوں کے فرائض گنواتے ہوئے کہا کہ اولاد کو قتل نہ کرنا تو ہندہ نے جواب دیا کہ ہم نے تو پال پوس کر جوان کیے تھے آپﷺ نے بدر میں قتل کردیے، اب آپ اور وہ باہم سمجھ لیں۔ اس جواب میں جہاں ماضی کی تلخی جھلکتی تھی وہاں حاضر دماغی اور پُراعتمادی بھی موجود تھی۔ ایسی صورت حال ایسے معاشرے میں ناممکن ہے جہاں عورت کی سرے سے کوئی حیثیت نہ ہو۔ تاریخ کی کتب میں اس کے علاوہ بھی ایسی عورتوں کا تذکرہ ملتا ہے جو مردوں جیسی خوبیوں کی مالک تھیں حتیٰ کہ جنگ میں مردوں کے شانہ بشانہ لڑ بھی لیا کرتی تھیں۔ البتہ کچھ سماجی رواج ایسے رائج ہوگئے تھے جو قابل مذمت کہے جاسکتے ہیں، لیکن ایسی باتوں سے آج کا جدید دور بھی چھٹکارا نہیں پاسکا۔
ایک مثال خود رسول اللہﷺ کی ہے۔ اُن کی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی حالاں کہ اُس وقت بالغ ہوتے ہی شادی ہو جایا کرتی تھی۔ اِس کی وجہ قریش کا شادی بیاہ کے معاملے میں حساس ہونا تھا۔ ہرکوئی امیر خاندان سے رشتہ کرنا چاہتا تھا۔ نبیﷺ پیدا ہوتے ہی یتیم تھے اس لیے کسی خاص اثاثے کے مالک نہ تھے۔ خود آپ ﷺ کے چچا ابوطالب نے بھی اس طرف توجہ نہ دی اور اپنی بیٹی اُم ہانی کا نکاح بنو مخزوم میں کردیا (ابوجہل اور خالد بن ولید کا قبیلہ)۔ اُس وقت بنومخزوم جاہ و حشم اور مال ودولت میں بہت آگے تھے اور ہر کوئی اُن کی طرف دیکھتا تھا۔ اس سے یہ تاثر غلط ثابت ہوتا کہ عرب معاشرے میں عورتوں کی حیثیت بھیڑ بکریوں کی سی تھی۔ آنحضرت ﷺ کی شادی میں تاخیر کی ایک یہی وجہ نظر آتی ہے۔
یہی وجہ تھی کہ رسول اللہﷺ نے شادی کے معاملے میں امیر مرد کی تلاش اور زیادہ حق مہر کی حوصلہ شکنی کی۔ مدینہ میں ایک مرتبہ ایک صاحب دولت صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے اپنی بیٹی کے نکا ح کے بارے میں کہا۔رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی کوجو سبزی فروش تھے پوچھا کہ کیا وہ شادی کرنا چاہتاہے۔ اُس صحابی نے جواب دیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ بھلا مجھے کون اپنی بیٹی دے گا میں تو نہایت غریب آدمی ہوں۔ یہ بات پھر اوپر والے خیال کی تصدیق کرتی ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اُس سے کہا کہ جائو فلاں کے گھر اور اُن سے کہوکہ رسول اللہﷺ نے مجھے رشتے کے سلسلے میں بھیجا ہے۔ وہ صحابی گئے اور جاکر اپنا مطلب بیان کیا۔ بیٹی کا باپ گھر آیا اور اپنی بیوی سے ماجرا بیان کیا۔اس سے قبل وہ کئی اچھے رشتوں سے انکار کرچکے تھے۔ اُس وقت اُن کی بیٹی ان کی باتیں سن رہی تھی۔ وہ فوراً درمیان میں آئی اور کہا کہ اس بات کو چھوڑیں کہ کون آیا ہے یہ دیکھیں کہ کس نے بھیجا ہے۔ چنانچہ اُس سبزی فروش صحابی کا رشتہ قبول کرلیاگیا۔پھر ایک وقت آیا کہ جب مدینہ میں زکوۃ نکلتی تھی تو سب سے زیادہ زکوٰۃ اُس صحابی کے گھر سے نکلتی تھی جو کبھی سبزی فروش تھے۔
اِسی طرح اسلام کی چودہ صدیوں میں مسلمان عورتوں نے تاریخ میں اپنا ایک نام بنایا۔ پردے اور مرد کی بالادستی اسے مختلف شعبوں میں کمال حاصل کرنے سے نہ روک سکی۔ حدیث کو روایت کرنے میں بہت سی خواتین نے امتیاز حاصل کیا۔ تصوف میں رابعہ بصری نے قلندر جیسا اہم امتیاز حاصل کیا اور سلوک کی منزلوں میں بہت سے مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مصر کے فاطمیوں کی خواتین کمال قسم کی شاعرہ ہوتیں اور پردے کے پیچھے سے مشاعروں میں حصہ لیا کرتی تھیں۔دہلی کے سلطان ایل تتمش نے اپنے بیٹوں کے ہوتے اپنی بیٹی کو تخت نشین کیا کیوں کہ اُس میں حکمرانی کی صلاحیتیں اپنے بھائیوں سے بھی زیادہ تھیں۔ چاند بی بی نے اکبر جیسے بادشاہ کی فوج کو پسپاہونے پر مجبور کردیا تھا۔ مغل دربار کی کنیزیں کما ل قسم کی فی البدیہہ شاعری کیا کرتی تھیں۔ لونڈیوں نے بڑے بڑے بادشاہوں اور سلاطین کو اپنی گودوں میں پال کر جوان کیا۔ شاہ جہاں نے اپنی بیوی سے محبت کو زمین پر ایک عجوبے کی شکل میں نقش کردیا۔دہلی کے چاندنی چوک کا نقشہ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا نے ڈیزائن کیا تھا۔ وقت پڑنے پر عورتوں نے جنگوں تک کی قیادت کی لیکن یہ سب کچھ ایک روایتی ماحول میں تھا جس میں مردوزن کے اختلاط کا کوئی تصور نہ تھا۔
پاکستان میں عورتوں کے حقوق
اس پس منظر میں پاکستان میں عورتوں کے حقوق کا جائزہ لیں تو پاکستان کا معاشرہ ایک روایتی معاشرہ ہے جس میں عورتوں کی حیثیت روایتی عورتوں جیسی ہے۔ جدید نظام کی بدولت عورتوں نے گھر سے باہر آکر کام کرنا شروع کیا اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم کو بھی فروغ دیا جارہا ہے۔ اسمبلیوں تک میں عورتوں کی نشستوں کو بڑھا دیا گیا ہے۔ عورتوں کے گھر اورکام کرنے کی جگہ پر تحفظ کے حوالے سے بہت سے قانون بن چکے ہیں لیکن پاکستانی عور ت کا طرز زندگی ابھی تک روایتی ہی ہے۔ عصمت، شادی اور گھر داری ایسے تصورات ہیں جو پاکستانی عورت کو مغربی معاشرے کی عورت سے علیحدہ کرتے ہیں۔
پرویز مشرف کے دور میں پیش کیے گئے روشن خیالی کے تصور نے عورت کی گھر سے باہر سرگرمیوں کی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی ۔ اب بہت سی طالبات وظائف پر بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ فلم اور ٹی وی کے شعبوں میں عورتوں کے حصہ لینے کے رُجحان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی طبقے اس چیز کو البتہ تشویش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس رُجحان کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
اِس سب کے باوجود طرزِزندگی میں پاکستان میں عورتیں مجموعی طور پر روایتی ہیں۔ پاکستان کے معاشرے میں روایت کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ یہاں جو عورتیں سیاست میں حصہ لیتی ہیں اُنھیں عوام کی حمایت حاصل کرنے کے لیے روایتی انداز ہی اپنانا پڑتا ہے۔ یاد رہے کہ اس معاملے میں انڈیا بھی اسی طرح روایتی ہے۔ وہاں بھی سیاسی خواتین روایتی لباس اور انداز رکھتی ہیں۔