جنوب کی ترقی کا ڈول
ساوتھ ساوتھ تعاون
ایک تہذیبی مطالعے کے مطابق روایتی تہذیبیں ایک چشمے کی طرح پھوٹتی تھیں یعنی ایک مرکز سے ہر طرف پھیلتی تھیں۔ اسلامی تہذیب کی بات کریں تو اس کا پھیلائو اُفقی نظر آتا ہے۔ جب کہ جدید تہذیب ایک دریا یا لہر کی طرح ایک طرف سے دوسری طرف کو چلتی ہے اور نقشے پر دیکھیں تو شمال سے جنوب کی طرف پھیلتی نظر آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جدید دنیا میں شمال کے ممالک ترقی یافتہ اور جنوب کے ممالک غیر ترقی یافتہ نظرآتے ہیں۔ خود براعظم امریکا میں شمالی امریکا ترقی یافتہ ممالک پر مشتمل ہے جب کہ جنوبی امریکا ترقی پذیر اور غریب ممالک پر مشتمل ہے۔
جنوبی امریکا کا مقدمہ
جنوبی امریکا کے ممالک جن میں برازیل، ارجنٹائن، یوراگوئے وغیرہ قابل ذکر ہیں پوری طرح سے اپنی شناخت سے متعلق حساس ہیں اور ترقی پسند بھی لیکن عشروں کی محنت کے بعد بھی وہ شمالی امریکا کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
شمال جنوب تعاون اور مثلثی تعاون
اس لیے جب بھی شمال اور جنوب کے کسی تعاون کی بات ہوتی ہے تو اس کا سیدھا سا مطلب ہوتا ہے کہ شمال کے ممالک کسی ضرورت یا آفت کے وقت جنوب کے ممالک کی مدد کررہے ہیں۔ اسی طرح ایک اصطلاح مثلثی تعاون (Triangular Cooperation)کی بھی استعمال میں رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ کوئی عالمی تنظیم جس میں اقوام متحدہ خاص طور پر قابل ذکر ہے شمال اور جنوب کے ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کرتی تھی تاکہ جنوب کے ممالک ایک معاہدے کے ذریعے تکنیکی تعاون حاصل کرسکیں۔ اس کی مثال جاپان کی ایک تعاونی کمپنی کی ہے جس نے کمبوڈیا اور کولمبیا کو آپس میں تعاون کرنے پر آمادہ کیا اور اس طرح سے کمبوڈیاکے متعلقہ مسائل کو حل کرنے میں مدد فراہم ہوئی۔
بنڈونگ کانفرنس
اس کی اصل شروعات بنڈونگ کانفرنس سے ہوئی جو 1955ء میں انڈونیشیا میں منعقد ہوئی اور اس میں ترقی پذیر ممالک کے معاملات کو دیکھا گیاتھا۔ اس کانفرنس کو گندمی لوگوں کی پہلی بین الاقوامی کانفرنس قراردیا گیا تھا۔
بیونس آئرس (ارجنٹائن کا منصوبہ)
اس چیز کو پیش نظر رکھتے ہوئے ارجنٹائن نے اقوام متحدہ کی چھتری تلے 1978ء میںایک کوشش شروع کی جس کا مقصد جنوب کے ممالک کا آپس کا تعاون تھا تاکہ اُنھیں ترقی کی راہ پر گامزن کیا جاسکے۔ اس وقت ایک اجلاس 18ستمبر1978ء کو ارجنٹائن کے دارالحکومت بیونس آئرس میں منعقد ہوا اور اسے ترقی پذیر ممالک کے تکنیکی تعاون کا بیونس آئرس منصوبہ نام دیا گیا (uenos Aires Plan of Action for Promoting and Implementing Technical Cooperation among Developing Countries (BAPA)۔
اس کے ساتھ ایک سائوتھ سائوتھ ڈویلپمنٹ ایکسپو بھی شروع کی گئی جس کا دسواں انعقاد 2018ء میں ہوا اور اس میں اقوام متحدہ نے سیکرٹری جنرل انٹونیو گیٹرر نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جنوب کی ترقی کی رفتار ٹھیک جارہی ہے اور کیوں نہ ہوکہ جنوبی امریکانے اس سال دنیا کی نصف بڑھوتری میں اپنا حصہ ڈالا ہے اور اس سے بہت سے خاندانوں کو غربت سے نکلنے میں مدد ملی ہے۔
اس کے لیے اقوام متحدہ کے 2030ء کے ایجنڈے کو ہدف بنایا گیا ہے کہ جنوب میں ایسے پروگرام ترتیب دیے جائیں کہ وہ 2030ء میں ترقی یافتہ ممالک کی صف میں آجائیں۔اب یہ پروگرام اقوام متحدہ کی زیرنگرانی کام کررہا ہے اور اسے United Nations South South Cooperation (UNSSC)کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس کی سب سے اہم میٹنگ مارچ 2019ء میں بیونس آئرس میں ہوئی جسے BAPA+40کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ اصل میں اس اتحاد کی چالیسویں سالگرہ کے طور پر منائی گئی اور اس میں اہداف اور ان کی کامیابی کا جائزہ پیش کیا گیا اور دنیا سے مزید تعاون کی اپیل کی گئی۔ اس میں چین سے بھی کہا گیا کہ جنوب کے دروازے اُس کے لیے کھلے ہیں کہ وہ اپنی سرمایہ کاری کا یہاں لائے۔ اس سے ایک چیز واضح ہے کہ ابھی تک سائوتھ سائوتھ تعاون اپیلوں پر ہی چل رہا ہے اور اس میں چالیس سال گزرنے کے بعد بھی اتنی طاقت نہیں آئی کہ وہ خود کسی کے لیے پُرکشش ہو سکے اور دنیا کے ممالک اس میں شامل ہوسکیں۔ اس وقت اس کا سب سے بڑا ایونٹ اس کا عالمی دن ہی ہوتا ہے جو 12ستمبر کو منایا جاتا ہے اور اس موقع پر کچھ بیانات جاری کیے جاتے ہیں۔ ابھی تک اس کا سالانہ اجلاس عالمی میڈیا کے لیے کوئی اہم چیز نہیں بن سکا۔
منصوبہ کیا ہے؟
اس منصوبے کو ہر طرح سے جامع بنایا گیا ہے یعنی اس میں ٹیکنالوجی بھی ہے ؛ ٹیکنالوجی کا انفراسٹرکچر اور اس کی مہارت کی منتقلی دونوں شامل ہیں۔ اس میں تعلیم مروجہ تعلیم بھی ہے اور انسانی حقوق کی پاس داری بھی۔ ٹیکنالوجی کے حوالے سے یہ بات پیش نظر رکھی گئی کہ اُن ملکوں کو آپس میں جوڑا جائے جن کو ٹیکنالوجی کے حوالے سے تقریباً ایک ہی طرح کے مسائل کا سامنا ہے تاکہ اُنھیں اپنے مسائل حل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد اور ایک دوسرے کے تجربات کا فائدہ ہو۔
2009ء کے افریقہ اور جنوبی امریکا کے اجتماع میں لیبیا کے کرنل قذافی کی طرف سے یہ تجویز بھی پیش کی گئ تھی کہ اس پلیٹ فارم سے ایک جنوب کا نیٹو بھی بننا چاہیے لیکن ظاہر ہے اس کا نتیجہ سب سے سامنے ہے۔
اس منصوبے کا اہم پہلو ترقی پذیر ممالک کا آپس کا تعاون ہے کہ وہ کس طرح سے ایک دوسرے کو اس سلسلے میں مختلف مہارتیں اور سازوسامان مہیا کرسکتے ہیں۔ البتہ اس میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ کوئی ملک دوسرے کے سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرے گا اور سب کی خودمختاری کا احترام کیا جائے گا، یہ چیز انسانی حقوق کے حوالے سے ہے۔
اس کی مثالیں کیا ہیں؟
یہ پروگرام صرف مفروضوں پر نہیں بلکہ مثالوں کو سامنے رکھ کر آگے بڑھایا جارہا ہے۔
2018ء میں اس تنظیم نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں 100کامیاب مثالوں کو بیا ن کیا گیا جسے سائوتھ سائوتھ تعاون نے اپنی مدد سے کامیاب بنایا۔ مثال کے طور پر اس میں کیوبا کی مثال تھی کہ کس طرح سے اُس نے ایبولا وائرس کے خلاف جنگ جیتی اور یہ سب سائوتھ سائوتھ تعاون کا نتیجہ تھا۔ اسی طرح میکسیکو اور کینیا کی مثال ہے کہ میکسیکو نے مکئی کی نئی قسم لانے میں کینیا کی مدد کی تاکہ اُس کی غذائی ضروریات کو پوراکیا جاسکے۔ اسی طرح کولمبیا نے بھوک کا مقابلہ کرنے کے لیے براعظم امریکا کے مختلف ممالک کی مدد کی۔ اسی طرح چلی نے کیریبین ممالک کی مدد کی کہ وہ صحت کےمعاملات کو بہتر بناسکیں۔