امریکا دنیا کی وہ واحد سپر پاور ہے جس کی طاقت اور رعونت کا سکّہ پوری دنیا میں چلتا ہے۔ اُس سے اچھے تعلقات قائم رکھنا ہر ملک کے اپنے مفاد میں سمجھا جاتا ہے۔ اِسی لیے ہر ملک امریکا سے اچھے تعلقات بنائے رکھنے کا خواہاں رہتا ہے لیکن پاکستان کے حوالے سے معاملہ بالکل اُلٹ ہے۔ یہاں امریکا خود پاکستان سے ہمیشہ اچھے تعلقات بنائے رکھنے کا خواہش مند رہا ہے۔ پاکستان، امریکا تعلقات میں جو کلیدی عوامل شامل ہیں، اُن میں افغانستان کا مسئلہ اور دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی ہے۔ پاکستان اگر اِن دونوں معاملات میں امریکا کی مدد نہ کرے تو شاید امریکا کو سوچ سے بھی زیادہ فوجی و معاشی نقصان اُٹھانا پڑے۔ افغانستان میں ایک طویل جنگ کے بعد امریکا کو سمجھ آ گئی ہے کہ کسی طرح کی بھی لمبی جنگ افغانستان کے مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ اِس کے لیے مذاکرات ہی بہترین ’’سلوشن‘‘ ہے جس کے ذریعے افغانستان میں امن لایا جا سکتا ہے اور دہشت گرد تنظیموں کا خاتمہ ممکن ہے۔ افغانستان میں سرگرم طالبان کو مذاکرات کی میز تک لانے کے لیے پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو یہاں امن کے لیے بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے اور یہ بات امریکا کو اچھی طرح معلوم ہے۔ اِسی لیے امریکا کے نزدیک پاکستان کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ۔ پاکستان بھی اِسی لیے مطمئن ہے اور مکمل طو رپر آگاہ ہے کہ پاکستان، امریکا کے لیے کتنا ناگزیر ہے۔ مبصرین کی اکثریت کی رائے ہے اور اُنھوں نے پیش گوئی کی ہے کہ صدر جوبائیڈن ممکنہ طور پر جنوبی ایشیا میں اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کر سکتے ہیں۔ یہاں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے امریکی حکام ایک خوف سا محسوس کر رہے ہیں وہ نہیں چاہتے جنوبی ایشیا میں چین کو کسی بھی قسم کا معاشی استحکام حاصل ہو۔ وہ افغانستان میں امن معاہدے کا بھی بڑی باریک بینی سے جائزہ لے رہے ہیں۔ اِن حالات کے تناظر میں امریکا پاکستان کی ضرورت اور اُس سے کئی محاذ وں پر ہم آہنگی کو پہلے سے زیادہ محسوس کرتا ہے۔ اِسی لیے وہ پاکستان کو کسی بھی صورت ہاتھ سے کھونا نہیں چاہتا۔ جنوبی ایشیا میں امریکا کے لیے ایک اہم چیلنج پاکستان ہے۔ جوبائیڈن سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ضروریات کیا ہیں اور وہ امریکا کی کتنی بڑی ضرورت ہے۔ ماضی میں جنوبی ایشیا کے لیے امریکا کی جو خارجہ پالیسی بنی اور جو کمیٹی پالیسی ترتیب دے رہی تھی، جوبائیڈن بھی اُس کمیٹی کے ایک اہم رکن تھے۔ اِس لیے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ امریکا کو جنوبی ایشیا میں اپنی خارجہ پالیسی کو لے کر کسی طریقے سے چلنا ہو گا۔ بارک اوباما جب امریکی صدر تھے تو جوبائیڈن اُنکے ساتھ بطور نائب صدر کام رہے تھے، اپنے اِس نائب صدارتی دور میں اُنھیں آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کے ساتھ بھی کئی بار بات چیت اور ملاقاتوں کا موقع میسر آیا اِس لیے جوبائیڈن پاکستان کے کلچر اور پاکستانی سیاست کے انداز کو بخوبی سمجھتے ہیں۔ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے اور نہ کرنا چاہیں گے کہ جس سے پاکستانی حکام اور عوام میں اضطراب پیدا ہو۔ پاکستان کا امریکا سے دور ہونا جنوبی ایشیا میں امریکا کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے اور اِس کا اندازہ جوبائیڈن اور اعلیٰ امریکی حکام کو ہے۔ بہت سارے معاملات پر امریکا اور پاکستان کے مابین واضح اختلافات کے باوجود عمران خان نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کیے۔ جوبائیڈن آئے تو پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ ماضی میں ہم نے مل کر کام کر کے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ جغرافیائی، سیاسی و سلامتی کے مشترکہ چیلنجوں کے تناظر میں ہمیں مل کر چلنا ہے۔ کہیں کوتاہی ہوئی تو اِس کا نقصان دونوں ملکوں کو ہو گا۔ وہ سیاسی اور معاشی سطح پر بہت پیچھے رہ جائیں گے۔ 20جنوری 2021ء کو وزیراعظم عمران خان نے صدر جوبائیڈن کو ایک پیغام ٹویٹ کیا جس میں کہا پاک امریکا تعلقات کو مزید مستحکم کرنے، خطے میں تجارت اور امن جیسے شعبوں میں مزید باہمی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزیر دفاع لائیڈ سمتھ پہلے ہی پاکستان کے ساتھ خوش گوار تعلقات کی ضرورت، خصوصاً افغانستان کے تناظر میں اِس کی سٹریٹجک اہمیت کا ذکر کر چکے ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ یہ اشارہ بھی دے چکی ہے کہ امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے پر وہ ہر طرح کی نظرثانی کے لیے تیار ہیں تاکہ امن کی بیل منڈھے چڑھے۔ چین فیکٹر بھی بسا اوقات مسائل پیدا کرتا ہے۔ امریکا، پاکستان کو چین سے دور کرنا چاہتا ہے۔ لیکن یہ کسی صورت بھی پاکستان کے لیے ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی پالیسی میں کئی مرتبہ بلیک میلنگ کا عنصر بھی پیدا ہو جاتا ہے اور شاید وہ پاکستان کی امداد روک کر اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ مگر پاکستان کے لیے یہ مشروط دوستی یا ایسی امداد منظور نہیں جو چین کی دوستی کو قربان کر کے ملتی ہو۔ تاہم آنے والے دنوں، مہینوں اور سالوں میں جنوبی ایشیا میں امریکی خارجہ پالیسی کا محور صرف ایک ہی ہو گا کہ پاکستان کو چین سے کس طرح دور کیا جا سکتا ہے۔ بھارت کے ساتھ امریکا کے بڑھتے ہوئے مراسم بھی اِسی بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ بھارت سے اپنی دوستی کے روابط کو مزید بڑھا کر چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو جنوبی ایشیا میں کم کر سکے۔