بھارت کی نئ صدر دروپدی مرمو
25جولائی 2022ء کو حلف اُٹھانے والی دروپدی مرموبھارت کی پندرھویں صدر ہیں۔ اُن کا تعلق بھارتی جنتا پارٹی سے ہے اور یہ پہلی عہدے دار ہیں جن کا تعلق قبائلی آبادی سے ہے۔ پراتیبھا پاٹل کے بعد وہ بھارت کی دوسری خاتون صدر ہیں۔ اس سے قبل وہ جھاڑکھنڈ کی گورنر رہ چکی ہیں اور اس عہدے پر وہ 2015ء سے لے کر 2021ء تک متمکن رہیں۔ اِسی طرح وہ 2000ء سے لے کر 2004ء تک اڑیسہ کی حکومت میں مختلف ذمہ داریوں کو نبھاتی رہیں۔ البتہ اپنی عملی زندگی کا آغاز اُنھوں نے محکمہ زراعت میں ایک کلرک کے طور پر کیا اور بعد ازاں اُنھوں نے سکول میں ایک لمبا عرصہ تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ وہ 1958ء میں اڑیسہ میں پیدا ہوئیں اور اس وقت اپنی عمر کے 65ویں سال میں ہیں۔اُن کا تعلق سنتھل برادری سے ہے جو قدیم عرصے سے ہندوستان میں آباد ہے اور ہندوستان کے بڑے قبائل میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
اُن کا سیاسی سفر 1997ء میں شروع ہوا جب وہ اپنے علاقے میں بطور کونسلر منتخب ہوئیں اور پھر یہ سفر ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔
وہ 2006ء سے لے کر 2009ء تک شیڈیولڈ قبائل یعنی نچلی جاتیوں کے قبیلوں کی صدر کے طور پر کام کرتی رہیں اوریہ وہ قبائل تھے جنھیں انڈیا نے انتہائی پسماندہ قراردے رکھا تھا۔ یہ سب کچھ اُنھوں نے بھارتی جنتا پارٹی کے رُکن کے طور پر کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کا سیاسی سفر ایک بھرپور سیاست تھی جس میں وہ عوام میں رہ کر کام کرتی رہیں۔ خاص طورپر پسماندہ علاقوں کے لیے اُن کا کام قابل تعریف تھا۔ وہ جب جھاڑ کھنڈ کی گورنر تھیں اُس وقت بھی اُن کا دفتر ہر کسی کے لیے کھلا رہتا اور کوئی بھی اُن سے مل سکتا تھا۔
انڈیا میں صدر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے لیکن انتظامی اختیارات استعمال نہیں کرتا۔ اسے پارلیمان کے دونوں ایوانوں اور ریاستوں اور وفاق کے زیر انتظام یونین علاقوں کی قانون ساز اسمبلیوں کے ارکان منتخب کرتے ہیں۔
پاکستان کی طرح انڈیا میں بھی صدر ایک علامتی عہدہ ہے جس کے پاس انتظامی یا پالیسی سازی کا اختیار نہیں ہوتا۔ البتہ انڈیا میں یہ روایت ہے کہ صدر کسی نچلے یانظر انداز طبقے سے یاپھر کسی علم کے ماہر کوبنایا جاتا ہے تاکہ ایک اچھا تاثر قائم ہوسکےاور نظر انداز شدہ لوگ بھی اپنی نمائندگی کو حکومت میں محسوس کرسکیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ انڈیا کا صدر حکومت کے کردار کے خلاف کوئی ایکشن بھی نہیں لے سکتا۔ اس حوالے سے دوسرے صدارتی اُمیدواریشونت سنہا کا اُن کے لیے یہ پیغام مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے کہ ’انڈیا کو اُمید ہے کہ 15ویں صدر کی حیثیت میں وہ آئین کی محافظ کے طور پر بغیر کسی خوف کے کام کریں گی۔‘
اُن کے ساتھ 20اور لوگوں کو بھی صدارتی اُمیداوار کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن اُن کی کارکردگی کے پیش نظر اُنھیں اس کے لیے منتخب کیا گیا۔ اُن کے مقابلے میں ہارنے والے اُمیدواریشونت سنہا ایک منجھے ہوئے سیاست دا ن تھے اور واجپائی کی حکومت میں بھارتی جنتا پارٹی کے وزیر کے طور پر ہی کام کرچکے تھے لیکن اب وہ نریندر مودی کی پالیسیوں کے سخت ناقد ہونے کی وجہ سے بھارتی جنتا پارٹی سے علیحدہ ہوچکے ہیں اور اس کے خلاف انتخاب میں حصہ لیا۔اُن کی نامزدگی اس وقت ہوئی جب اپوزیشن کے دو تجربہ کار سیاست دانوں شرد پوار اور فاروق عبداللہ اور مہاتما گاندھی کے پوتے گوپال کرشن گاندھی نے اپوزیشن کی جانب سے اس عہدے کے لیے کھڑے ہونے کی پیشکش کو مسترد کر دیا۔
دروپدی کے تاثرات یہ تھے کہ اُنھیں بالکل اُمید نہ تھی کہ وہ کبھی انڈیا کی اس طرح سے صدر بن سکیں گی اور اُنھیں یہ خوشی اچانک ملی اور وہ اس پر بے پناہ خوش ہوئیں۔اپنی نامزدگی کے بارے میں علم ہونے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا ’دُور دارز ضلع میور بھنج کی ایک قبائلی عورت کی حیثیت سے، میں نے کبھی اتنے اعلیٰ عہدے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔‘
وزیراعظم نریندر موودی نے بھی اس موقع پر دروپدی کے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُنھیں پورااعتماد ہے کہ دروپدی ایک عظیم صدر ثابت ہوں گی۔