Sunday , April 2 2023
Home / Archive / بدلتی دنیا کے نئے مسائل

بدلتی دنیا کے نئے مسائل

Listen to this article

بدلتی دنیا کے نئے مسائل

اس وقت امریکا کی عالمی توجہ کا نقطہ ماسکہ چین ہے۔ اِس باب میں سرد جنگ اب کوئی خفیہ حکمت عملی نہیں، بلکہ اِس کا کھلا اعلان کیا جا چکا ہے۔ اِس جنگ میں مرکزی کردار تو امریکا ہی ادا کرے گا، مگر اِس کی ترجیح یہ ہے کہ اِس جنگ میں ترقی یافتہ دنیا کے امیر اور خوش حال ممالک بھی ہراول دستے کا کردار ادا کریں۔ دوسری طرف تیسری دنیا کے غریب ممالک کو بھی اِس قافلے میں شامل کرنے کوشش ہو رہی ہے۔ پاکستان جیسے ممالک‘ جو چین کے بہت زیادہ قریب ہیں، اور اِس کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہیں، کو بھی شامل کرنے کی کوششیں تیز تر ہو چکی ہیں۔ یہ سرد جنگ کئی ممالک کو برباد کر دے گی، اور کچھ کا مقدر بدل دے گی۔ گویا اِس جنگ میں کچھ ممالک کے لیے لا محدود امکانات بھی ہیں، اور بے شمار خطرات بھی۔ اب اِس بات کا انحصار اُن غریب ممالک کی لیڈرشپ پر ہے کہ وہ دنیا کی نئی صف بندیوں میں اپنے لیے کس مقام اور کردار کا تعین کرتے ہیں۔ سرد جنگ کا یہ جو ڈول ڈالا جا رہا اِس پر ترقی یافتہ دنیا کی رائے عامہ متفق نہیں ہے۔ خود ریاست ہائے متحدہ امریکا اِس موضوع پر تقسیم ہے۔ امریکی رائے عامہ تو ایک طرف خود حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر اِس پر بڑا اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ اِس اختلاف رائے کا اظہار گزشتہ دنوں بڑے برنی سینڈرز نے بڑے مدلل اور جان دار انداز میں کیا ہے۔ سینڈرز نے صورت حال کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج امریکا کو ایسے عالمی چیلنجز کا سامنا ہے، جن کی تاریخ میں کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ اُن عالمی چیلنجز میں موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض، جوہری پھیلاؤ، بڑے پیمانے پر معاشی عدم مساوات، دہشت گردی، بدعنوانی اور آمریت جیسے گمبھیر مسائل شامل ہیں۔
یہ مسائل در حقیقت دنیا کے مشترکہ عالمی چیلنجز ہیں۔ کوئی ایک ملک تن تنہا یہ مسائل حل نہیں کر سکتا۔ اِس مقصد کے لیے بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ اِس کے لیے سب ملکوں کو مل کر کام کرنا ہو گا‘ اور اُن ملکوں میں زمین پر سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین بھی شامل ہے۔
لہٰذا، یہ تکلیف دہ اور خطرناک بات ہے کہ واشنگٹن میں تیزی سے ایک ایسا اتفاق رائے پیدا ہو رہا ہے، جو امریکا چین تعلقات کو ’ ’زیرو سم‘ ‘ معاشی اور فوجی جدوجہد کے طور پر دیکھتا ہے۔ اِس نظریہ کے پھیلاؤ سے ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا ہو گا، جس میں دنیا کو اِس وقت جس تعاون کی اشد ضرورت ہے، اسے حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہو جائے گا۔
یہ قابل ذکر بات ہے کہ اِس مسئلے پر روایتی دانش مندی کتنی جلدی بدل گئی ہے۔ ابھی دو دہائیاں قبل، ستمبر 2000 میں، کارپوریٹ امریکا اور ملک کی دونوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے چین کو مستقل طور تجارتی درجہ دینے کی بھرپور حمایت کی تھی۔ اِس وقت امریکی چیمبر آف کامرس، نیشنل ایسوسی ایشن آف مینوفیکچررز، کارپوریٹ میڈیا اور عملی طور پر واشنگٹن میں اسٹیبلشمنٹ کی خارجہ پالیسی کے ہر پنڈت نے اصرار کیا کہ امریکی کمپنیوں کی مسابقتی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُن کو چین کی بڑھتی ہوئی مارکیٹ تک رسائی دی جائے‘ اِس طرح چین کی معیشت میں لبرلائزیشن کے آنے کے ساتھ ہی جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے چین کی حکومت میں بھی لبرلائزیشن آ جائے گی۔
اس پوزیشن کو بظاہر واضح اور درست دیکھا گیا تھا۔ 2000ء کے موسم بہار میں سینٹرسٹ بروکنگس انسٹی ٹیوشن کے ماہر معاشیات نکولس لارڈی نے یہ دلیل دی تھی کہ مستقل تجارتی درجہ دینے سے چین کی قیادت کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔ چینی قیادت بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے، اور معاشی اصلاحات کے لیے اہم معاشی اور سیاسی خطرہ مول لے رہی ہے، لہٰذا اِس کے ہاتھ مضبوط کرنا ضروری ہے۔
دوسری طرف یہ درجہ دینے سے انکار کا مطلب یہ ہو گا کہ امریکی کمپنیاں اُن وعدوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گی، جو چین نے عالمی تجارت کی تنظیم (ڈبلیو ٹی او) کا رکن بننے کے لیے کیے تھے۔ اسی وقت قدامت پسند امریکی انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے سیاسی سائنس دان نورمن آئن سٹائن نے اسے زیادہ دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا۔ اُنھوں نے زور دے کر کہا ’ ’چین کے ساتھ امریکی تجارت ایک اچھی چیز ہے۔ یہ امریکا کے لیے اچھی چیز ہے، اور چین میں آزادی کے فروغ کے لیے لازم ہے‘ ‘ ۔
لیکن یہ خیال مجھ پر اتنا واضح نہیں تھا۔ اسی وجہ سے میں نے اِس تباہ کن تجارتی معاہدے کی مخالفت کی‘ لیکن جو کچھ مجھے معلوم تھا، اور بہت سارے محنت کش لوگوں کو معلوم تھا، وہ یہ تھا کہ امریکی کمپنیوں کو چین میں منتقل ہونے اور انتہائی کم معاوضوں پر مزدوروں کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دینے سے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اچھی تنخواہ والی ملازمتیں ضائع ہو جائیں گی‘ اور امریکی کارکنوں کو کم اجرت والے کام کرنا پڑیں گے۔ اور بالکل یہی ہوا۔ اِس کی وجہ سے دو ملین امریکی ملازمتیں ضائع ہو گئیں، چالیس ہزار سے زیادہ فیکٹریاں بند ہو گئیں، اور امریکی کارکنوں کو اجرت کی جمود کا سامنا کرنا پڑا‘ لیکن دوسری طرف اِس کی وجہ سے کارپوریشنوں نے اربوں ڈالر کمائے اور ایگزیکٹوز کو زبردست انعام و اکرام سے نوازا گیا۔
دریں اثنا، یہ سب پر ظاہر ہے کہ چین میں آزادی، جمہوریت اور انسانی حقوق کی صورت حال میں بہتری نہیں آئی۔ اِس کے بر عکس اُن مطالبات پر سختی سے قابو پایا گیا‘ اور عالمی سطح پر یہ ملک تیزی سے جارحانہ ہوتا چلا گیا ہے۔ واشنگٹن میں روایتی دانش مندی کا پینڈولیم اب دوسری طرف گھوم رہا ہے۔ اب یہ چین کے ساتھ تجارت کے مواقع کے بارے میں بہت زیادہ پُراُمید ہونے سے دور ہو چکا ہے‘ اور اب اُن لوگوں کو خطرات زیاہ نظر آرہے ہیں، ایک ایسے چین سے جو پہلے سے زیادہ امیر اور مضبوط ہے۔
فروری 2020 میں، بروکنگز کے تجزیہ کار بروس جونز نے لکھا تھا کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت، توانائی کے سب سے بڑے صارف اور دوسرے بڑے دفاعی خرچ کنندہ کی حیثیت سے چین کے عروج نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے‘ اور اِس بڑی طاقت کے ساتھ مقابلہ آنے والے دور میں امریکا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ کچھ ماہ قبل سینیٹر ٹام کاٹن نے چین کی طرف سے اِس خطرے کا موازنہ سرد جنگ کے دوران سوویت یونین کی طرف سے پیش آنے والے خطرے سے کیا۔ اِس نے کہا کہ ایک بار پھر ایک طاقت ور غاصب دشمن کا مقابلہ کرنا ہے، جو یوریشیا پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اورجو ورلڈ آرڈر کو دوبارہ تشکیل دینا چاہتا ہے‘ اور جس طرح واشنگٹن نے ماسکو کے ساتھ تنازع کے دوران تیاری کے لیے دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکی قومی سلامتی کی تعمیر کی تنظیم نو کی تھی، اسی طرح آج امریکا کی طویل مدتی معاشی، صنعتی اور تکنیکی کوششوں کو جدید بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ کمیونسٹ چین کے لاحق بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اور پچھلے مہینے امریکی قومی سلامتی کونسل کے ایشیائی پالیسی کے اعلیٰ عہدے دار، کرٹ کیمبل نے کہا تھا کہ وہ دور جس کو چین کے ساتھ بڑے پیمانے پر ’ ’انگیجمنٹ‘ ‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا، ختم ہو چکا ہے‘ اور اِس سے آگے کا راستہ مقابلے کا راستہ ہو گا۔ بیس سال پہلے، چین کے بارے میں امریکی معاشی اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی سوچ غلط تھی۔ آج اِس اتفاق رائے کو تبدیل کر دیا گیا ہے، لیکن یہ ایک بار پھر غلط ہے۔
اب چین کی طرف آزادانہ تجارت اور کھلے دل کی خوبیاں بیان کرنے کے بجائے، اسٹیبلشمنٹ نے ایک نئی سرد جنگ کا ڈھول پیٹنا شروع کر دیا ہے، اور چین کو ریاست ہائے متحدہ امریکا کے وجود کے لیے خطرہ قرار دے دیا ہے۔ ہم سیاست دانوں اور فوجی صنعتی کمپلیکس کے نمائندوں کو پہلے ہی اسے بڑے دفاعی بجٹ کا تازہ ترین بہانہ بنا کر پیش کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ اِس نئے اتفاق رائے کو چیلنج کرنا ضروری ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے پرانے اتفاق رائے کو چیلنج کرنا ضروری تھا۔ چین کی متعدد پالیسیاں اور طریقہ کار قابل اعتراض ہو سکتے ہیں۔ اُن کاموں میں ٹیکنالوجی کی چوری، کارکنوں کے حقوق اور پریس کو دبانے، تبت اور ہانگ کانگ میں ہونے والے معاملات، تائیوان کے ساتھ سلوک، اور چینی حکومت کی ایغور عوام کے بارے میں پالیسیاں اور اِس طرح کے دوسرے امور شامل ہیں۔ امریکا کو چین کے عالمی عزائم کے بارے میں بھی فکرمند رہنا چاہیے۔ امریکا کو چینی حکومت کے ساتھ دو طرفہ بات چیت اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل جیسے کثیر جہتی اداروں میں بھی اُن مسائل پر بات جاری رکھنا چاہیے۔ یہ نقطہ نظر کہیں زیادہ معتبر اور موثر ہو گا، اگر امریکا اپنے حلیفوں اور شراکت داروں کے بارے میں انسانی حقوق کے حوالے سے مستقل موقف برقرار رکھتا ہے۔
چین کے ساتھ تصادم کے ارد گرد خارجہ پالیسی کو منظم کرنا، سیاسی طور پر خطرناک اور سٹریٹیجک اعتبار سے نقصان دہ ہو گا۔ چین کا مقابلہ کرنے کے لیے جلد بازی میں دشمنی اور خوف کی فضا پیدا کرنے سے اجتناب ضروری ہے‘ جس طرح نائن الیون حملوں کے نتیجے میں ’ ’عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ ‘ کے لیے امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ نے جلدی سے یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ دہشت گردی کو امریکی خارجہ پالیسی کی سب سے بڑی توجہ کا مرکز بننا چاہیے۔ ٹریلین ڈالر خرچ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوئی کہ عجلت میں قومی اتحاد کا استعمال لا متناہی جنگوں کے لیے کیا گیا، جو انسانی، معاشی، اور تزویراتی لحاظ سے بہت زیادہ مہنگا ثابت ہوا اور اِس نے امریکی سیاست میں زینو فوبیا اور تعصب کو جنم دیا۔ اِس کا نتیجہ امریکا کی مسلم اور عرب برادری کو برداشت کرنا پڑا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ آج چین کے بارے میں خوف و ہراس پھیلانے والے ماحول میں، ایشیائی امریکیوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اِس وقت امریکا حالیہ تاریخ میں سب سے زیادہ تقسیم ہے‘ لیکن پچھلی دو دہائیوں کے تجربے سے ہم پر یہ واضح ہو جانا چاہیے تھا کہ امریکیوں کو دشمنی اور خوف کے تحت قومی اتحاد قائم کرنے کی کوشش کے فتنہ کے خلاف مزاحمت کرنی ہو گی۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے بجا طور پر آمریت کے عروج کو جمہوریت کے لیے ایک بڑا خطرہ تسلیم کیا ہے؛ تاہم، جمہوریت اور آمریت کے مابین بنیادی کش مکش ممالک کے مابین نہیں بلکہ اُن کے اندر ہی چل رہی ہے‘ اور اگر جمہوریت کی جیت ہو گی تو یہ روایتی میدان جنگ میں نہیں، بلکہ یہ ثابت کرنے سے ہو گی کہ جمہوریت حقیقت میں لوگوں کے لیے آمریت پسندی سے بہتر معیار زندگی فراہم کر سکتی ہے۔ اسی لیے ہمیں محنت کش خاندانوں کی طویل نظر انداز کردہ ضروریات کوپورا کر کے لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال کرنا ہو گا، اور امریکی جمہوریت کو زندہ کرنا ہو گا۔ ہمیں اپنے گرتے ہوئے انفراسٹرکچر کی تعمیرِ نو اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے لاکھوں اچھی ادائیگی والی ملازمتیں پیدا کرنا ہوں گی۔ ہمیں صحت کی دیکھ بھال، رہائش، تعلیم، انصاف، امیگریشن، اور بہت سارے دوسرے شعبوں میں جن بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے‘ اُن کو دور کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ کام نہ صرف اِس لیے کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں چین یا کسی دوسرے ملک کے ساتھ زیادہ مقابلے کے قابل بنائے گا بلکہ اِس لیے کہ یہ عوام کی ضروریات کو بہتر طور پر پورا کرے گا۔
اگرچہ امریکی حکومت کی بنیادی تشویش امریکی عوام کی سلامتی اور خوش حالی ہے، لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ ہماری باہم جڑی ہوئی دنیا میں، ہماری سلامتی اور خوش حالی ہر جگہ لوگوں سے جڑی ہوئی ہے۔ اِس لیے یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ ہم پوری دنیا میں معیار زندگی بلند کرنے اور معاشی عدم مساوات کو ختم کرنے کے لیے دوسری دولت مند اقوام کے ساتھ مل کر کام کریں۔ وہ خوفناک معاشی عدم مساوات آمرانہ طاقتیں اپنی سیاسی طاقت بنانے اور جمہوریت کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر جگہ جس کو استحصال کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
صدر بائیڈن انتظامیہ نے کم از کم عالمی کارپوریٹ ٹیکس پر زور دیا ہے۔ یہ ایک اچھا قدم ہے‘ لیکن ہمیں اِس سے بھی بڑا سوچنا چاہیے۔ ہمیں عالمی سطح پر کم سے کم اجرت کے بارے میں کچھ کرنا چاہیے، جو دنیا بھر میں مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ہمیں لاکھوں افراد کو مہذب، وقار بخش زندگی کا موقع فراہم کرنے اور ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کی دنیا کی انتہائی محتاج آبادی کا استحصال کرنے کی صلاحیت کو کم کرنے کے لیے فکرمند ہونا چاہیے۔ غریب ممالک کو عالمی معیشت میں ضم ہونے کے ساتھ ہی اُن کے معیارِ زندگی کو بلند کرنے میں مدد کے لیے، ریاست ہائے متحدہ امریکا اور دیگر امیر ممالک کو پائیدار ترقی میں اپنی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کرنا چاہیے۔ امریکی عوام کے پھلنے پھولنے کے لیے دنیا بھر کو یہ یقین کرنے کی ضرورت ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا اُن کا حلیف ہے اور اُن کی کامیابیاں ہماری کامیابیاں ہیں۔
بائیڈن عالمی سطح پر ویکسین کے لیے چار بلین ڈالرکی امداد فراہم کر کے، دنیا کے ساتھ 500 ملین ویکسین کی خوراکیں بانٹ کر، اور عالمی تجارتی تنظیم کی دانش ورانہ املاک کی چھوٹ کی پشت پناہی کے ذریعے بالکل صحیح کام کر رہے ہیں، جو غریب ممالک کو خود سے ویکسین تیار کرنے کے قابل بناتا ہے۔ چین ویکسین فراہم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے اعتراف کا مستحق ہے، لیکن امریکا اِس سے بھی زیادہ کام کر سکتا ہے۔ جب دنیا بھر کے لوگ امریکی پرچم دیکھتے ہیں، تو اسے زندگی بچانے والے امدادی پیکیجوں کے ساتھ جڑا ہونا چاہیے، ڈرون اور بموں سے نہیں۔
ریاست ہائے متحدہ امریکا اور چین‘ دونوں میں محنت کش لوگوں کے لیے حقیقی سلامتی اور خوش حالی پیدا کرنا یکساں طور پر ایک متوازن عالمی نظام کی تشکیل کا مطالبہ کرتا ہے، جو کارپوریٹ لالچ اور عسکریت پسندی کے مقابلے میں انسانی ضروریات کو ترجیح دیتا ہو۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں ٹیکس دہندگان کے اربوں ڈالرز کارپوریشنوں اور پینٹاگون کے حوالے کرنا، اور متعصبانہ جذبات کو ہوا دینے کا عمل اُن مقاصد کو پورا نہیں کر سکے گا۔
امریکیوں کو چین کے بارے میں کسی مغالطے کا شکار نہیں رہنا چاہیے۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ امریکی عوام کی عالمی اقدار کو مضبوط بنانے میں دلچسپی ہے، جو امریکا، چین اور پوری دنیا میں تمام لوگوں کے حقوق اور وقار کا احترام کر سکے؛ تاہم، مجھے خدشہ ہے کہ چین کے ساتھ محاذ آرائی کے لیے بڑھتے ہوئے دو طرفہ قدموں سے دونوں ممالک میں آمرانہ، تنگ نظر قوم پرست قوتوں کو تقویت ملے گی۔ یہ ماحولیاتی تبدیلی، وبائی امراض اور جوہری جنگ لانے والی تباہی جیسے حقیقی خطرے سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات سے بھی توجہ ہٹائے گی۔
برنی سینڈرز کا استدلال ہے کہ دنیا کو چین کے خلاف سرد جنگ میں گھسیٹنے کے بجائے باہمی تعاون اور تفہیم سے ایسی پالیسیاں اپنائی جائیں، جو دنیا میں خوفناک معاشی عدم مساوات اور ماحولیاتی تبدیلی کے گمبھیر مسائل سے نکلنے میں معاون ثابت ہوں۔ سنیڈرز کے خیالات سے کینیڈا جیسے ترقی یافتہ اور پاکستان و بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک یکساں طور پراستفادہ کر سکتے ہیں۔

Check Also

Pakistan in the 21st Century

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *