Tuesday , March 21 2023
Home / Archive / آزاد اور کُھلا بحرہند و بحرالکاہل

آزاد اور کُھلا بحرہند و بحرالکاہل

Listen to this article

آزاد اور کُھلا بحرہند و بحرالکاہل

امریکی سیکرٹری خارجہ انٹونی جے بلنکن کی تقریر سے اقتباسات

بحرہند وبحرالکاہل میں جو کچھ ہوتا ہے اُس کا اکیسویں صدی میں دنیا کی سمت متعین کرنے میں کسی بھی دوسرے خطے کے مقابلے میں کہیں زیادہ نمایاں کردار ہو گا۔
بحرہند و بحرالکاہل کرہ ارض پر سب سے زیادہ تیزرفتار ترقی کرنے والا خطہ ہے۔ دنیا کی معیشت کے 60 فیصد کا تعلق اِسی خطے سے ہے اور گزشتہ پانچ سال میں دنیا کی دو تہائی معاشی ترقی یہیں ہوئی ہے۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی اِسی خطے میں رہتی ہے اور 15 سب سے بڑی معیشتوں میں سے سات کا تعلق اِسی خطے سے ہے۔

یہ ایک شاندار انتہائی متنوع خطہ ہے جہاں 3,000 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں دو بڑے سمندروں کے آر پار اور تین براعظموں میں بہت سے عقائد کے ماننے والے لوگ پھیلے ہوئے ہیں۔

امریکا طویل عرصہ سے بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کا ملک رہا ہے، ہے اور رہے گا۔ یہ ایک جغرافیائی حقیقت ہے۔ بحر الکاہل کے ساتھ ہماری ساحلی ریاستوں سے لے کر گوام تک پھیلے ہمارے علاقے ایک جغرافیائی حقیقت ہیں۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا اظہار اِس خطے میں دو صدیوں سے قائم ہمارے تجارتی اور دیگر تعلقات سے ہوتا ہے۔

آج امریکا کے بڑے تجارتی شراکت داروں میں سے نصف کا تعلق بحرہند و بحرالکاہل کے خطے سے ہے۔ ہماری قریباً ایک تہائی برآمدات اِسی خطے میں ہوتی ہیں اور یہ امریکا میں 900 ارب ڈالر کی براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کا ذریعہ ہے اور اِس سے ہماری تمام 50 ریاستوں میں لاکھوں نوکریاں پیدا ہو رہی ہیں۔ امریکا سے باہر تعینات ہماری فوج کی سب سے بڑی تعداد اِسی خطے میں ہے جو یہاں امن اور سلامتی کو یقینی بنانے پر مامور ہے جس کا خطے کی خوش حالی میں اہم کردار ہے اور اِس سے ہم سب کو فائدہ پہنچتا ہے۔

ہم نے اِس خطے سے تعلق رکھنے والے بہت سے رہنماؤں کا اپنے ملک میں خیرمقدم کیا ہے جن میں پہلے دو غیرملکی رہنماؤں کی صدر بائیڈن نے اُس وقت میزبانی کی جب اُنھوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اُن میں جاپان اور جنوبی کوریا کے سربراہان شامل تھے۔ اِس کےعلاوہ ہم نے اِس خطے کے ممالک کے وزرائے خارجہ کا خیرمقدم بھی کیا۔ مجھے دفتر خارجہ میں اُن کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔

اگرچہ یہ غیرمعمولی طور پر متنوع خطہ ہے جہاں تمام ممالک کے الگ الگ مفادات ہیں اور سبھی ایک دوسرے سے الگ تصورات کے حامل ہیں لیکن بحرہند و بحرالکاہل کے ممالک کی اور ہماری سوچ بڑی حد تک ہم آہنگ ہے۔
اِس خطے کے لوگ اور حکومتیں اپنے لوگوں کے لیے مزید بہتر مواقع چاہتی ہیں۔ اُنھیں اندرون ملک، خطے کے دوسرے ممالک اور پوری دنیا کے ساتھ رابطے کے مزید مواقع درکار ہیں۔ وہ اِس وبا جیسے بحرانوں سے نمٹنے کی بہتر تیاری چاہتے ہیں۔ وہ امن اور استحکام چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکا کی اِس خطے میں پہلے سے بڑھ کر موجودگی ہو اور وہ خطے کے معاملات میں پہلے سے زیادہ مضبوط کردار ادا کرے۔ سب سے بڑھ کر وہ اِسے ایک ایسا خطہ بنانا چاہتے ہیں جو پہلے سے زیادہ آزاد اور پہلے سے زیادہ کُھلا ہو۔
اِس حوالے سے پانچ بنیادی چیزیں ہیں جن پر میں توجہ مرکوز کرنا چاہوں گا۔

سب سے پہلی بات یہ کہ ہم آزاد اور کھلے بحرہند و بحرالکاہل کو فروغ دیں گے۔
ہم ایک آزاد اور کُھلے بحرہند و بحرالکاہل کے بارے میں بہت سی باتیں کرتے ہیں لیکن عام طور پر ہم یہ واضح نہیں کرتے کہ اِس سے ہماری کیا مراد ہے۔ آزادی اپنا مستقبل خود بنانے اور اپنے علاقے اور اپنے ملک کے معاملات میں اختیار رکھنے کا نام ہے خواہ آپ کسی بھی پس منظر کے حامل کیوں نہ ہوں۔ کُھلا پن فطری طور پر آزادی سے جنم لیتا ہے۔ آزاد جگہیں نئی معلومات اور نقطہ ہائے نظر کے اظہار کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ وہ مختلف ثقافتوں، مذاہب اور طرز زندگی کے لیے کھلی ہوتی ہیں۔ ایسی جگہوں پر تنقید، غوروفکر اور تجدید کی ممانعت نہیں ہوتی۔

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک آزاد اور کھلا بحرہند و بحرالکاہل چاہتے ہیں تو اِس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ انفرادی سطح پر لوگ اپنی روزمرہ زندگی گزارنے اور کھلے معاشروں میں رہنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ اِس سے ہمارا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ریاستی سطح پر تمام ممالک اپنی مرضی کی راہ اختیار کرنے اور اپنی مرضی کے شراکت دار منتخب کرنے میں آزاد ہوں گے۔ اِس سے ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ علاقائی سطح پر دنیا کے اِس خطے میں مسائل سے نمٹنے کے لیے کھلے پن سے کام لیا جائے گا اور قوانین شفافیت پر مبنی ہوں گے اور اُن کا منصفانہ اطلاق ہو گا، اشیا اور لوگوں کی ایک سے دوسری جگہ، سائبر سپیس میں اور کھلے پانیوں میں نقل و حرکت آزادانہ ہو گی۔

دنیا میں سب سے زیادہ تحرک کے حامل اِس خطے کو یقینی طور پر جبر سے آزاد رکھنا اور اِسے سب کے لیے قابل رسائی بنانا ہم سب کے مفاد میں ہے۔ یہ خطے بھر کے لوگوں کے فائدے میں ہے۔ اِس سے امریکا کے لوگوں کو فائدہ ہو گا کیوں کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جب یہ وسیع خطہ آزاد اور کھلا رہا تو امریکا پہلے سے زیادہ محفوظ اور خوش حال ہوا۔ اِسی لیے ہم اِس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پورے خطے میں اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔

ہم خطے بھر میں انسداد بدعنوانی اور شفافیت کے لیے کام کرنے والے گروہوں، تحقیقاتی صحافیوں اور تھنک ٹینک کی صورت میں کام کرنے والے اداروں سے تعاون جاری رکھیں گے۔ سری لنکا میں ایڈووکیٹا انسٹی ٹیوٹ ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ ہمارے تعاون سے اِس انسٹی ٹیوٹ نے بینکوں اور فضائی کمپنیوں جیسے ریاستی ملکیت میں کام کرنے والے ایسے اداروں کی ایک پبلک رجسٹری بنائی ہے اور اِن میں اصلاحات کی تجاویز دی ہیں جو بھاری خسارے میں چل رہے ہیں۔

ہم ایسے رہنماؤں کے خلاف بھی کھڑے ہوں گے جو اپنے لوگوں کے حقوق کا احترام نہیں کرتے جیسا کہ ہم اِس وقت برما (میانمار) میں دیکھ رہے ہیں۔ ہم اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر برما کی حکومت پر زور دیتے رہیں گے کہ وہ بلا امتیاز، تشدد بند کرے، ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے تمام لوگوں کو رہا کرے، لوگوں کو ملک میں بلاروک و ٹوک رسائی دے اور تمام فریقین کی نمائندگی پر مبنی جمہوریت کی جانب برما کی راہ بحال کرے۔

آسیان نے چار نکاتی اتفاق رائے تیار کیا ہے اور یہ برما کی حکومت پر زور دیتا ہے کہ وہ مسئلے کے ایک ایسے پرامن حل کے لیے تمام فریقین کے ساتھ تعمیری بات چیت میں شامل ہو جس میں برما کے عوام کی خواہشات کا احترام کیا جائے۔ یہ ایک ایسا ہدف ہے جس کے حصول کی کوشش ہم ترک نہیں کریں گے۔

آزادی اور کھلے پن کو فروغ دینے کا ہمارا ایک اور طریقہ ایسے لوگوں کے خلاف ایک کھلے، باہم متعامل، محفوظ اور قابل اعتماد انٹرنیٹ کا تحفظ کرنا ہے جو انٹرنیٹ کو مزید بند کرنے، اِسے شکستہ کرنے اور اِسے غیرمحفوظ بنانے کے لیے فعال طور سے مصروف عمل ہیں۔ ہم اِن اُصولوں کے تحفظ کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے اور ایسے محفوظ اور قابل اعتماد نظام بنانے میں مدد دیں گے جو اِس کی بنیاد ہیں۔ اِس سال کے اوائل میں مون۔ بائیڈن رہنما کانفرنس میں جمہوریہ کوریا اور امریکا نے نئی آنے والی ٹیکنالوجی بشمول محفوظ 5جی اور 6 جی نیٹ ورک کے حوالے سے تحقیق و ترقی پر سرمایہ کاری کے لیے 3.5 ارب ڈالر سے زیادہ مالی وسائل مختص کرنے کا اعلان کیا۔
اِس حوالے سے آخری بات یہ کہ ہم قانون کی بنیاد پر قائم نظام کے تحفظ کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔ یہ وہ نظام ہے جو ہم نے اِس خطے کو یقینی طور پر کھلا اور قابل رسائی بنانے کے لیے باہم مل کر کئی دہائیوں کی محنت سے تشکیل دیا ہے۔

میں ایک بات کی وضاحت کرنا چاہوں گا: قوانین کی بنیاد پر قائم نظام (Rules-based Order) کے دفاع کا مقصد کسی ملک کو نیچا دکھانا نہیں بلکہ اِس کا مقصد تمام ممالک کے جبر اور خوف سے آزاد ہو کر اپنی راہ خود منتخب کرنے کے حق کا تحفظ کرنا ہے۔ یہ امریکا یا چین کے زیراثر خطے کے درمیان مقابلے بازی کا معاملہ نہیں ہے۔ بحرہند و بحرالکاہل بذات خود ایک خطہ ہے۔ ہمارا مقصد اُن حقوق اور سمجھوتوں کو قائم رکھنا ہے جن کی بدولت یہ خطہ اور دنیا انتہائی پرامن اور خوش حال دور دیکھ چکے ہیں۔

اِسی لیے شمال مشرقی ایشیا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک اور دریائے میکانگ سے لے کر بحرالکاہل کے جزائر تک چین کے جارحانہ اقدامت کے بارے میں بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ وہ کھلے سمندروں پر اپنا حق جتلا رہا ہے، ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والی اپنی کمپنیوں کو اعانتی رقومات (Subsidis) دے کر کھلی منڈیوں کو خراب کر رہا ہے، دوسرے ممالک کی برآمدات وصول کرنے سے انکار کر رہا ہے یا اپنے سے متضاد پالیسیوں کے حامل ممالک کے ساتھ کاروباری معاہدے ختم کر رہا ہے اور غیرقانونی، بلا اطلاع اور بے ضابطہ ماہی گیری میں ملوث ہے۔ خطے بھر کے ممالک اِس طرزعمل میں تبدیلی چاہتے ہیں۔

ہم بھی یہی چاہتے ہیں اور اِسی لیے ہم بحیرہ جنوبی چین میں جہاز رانی کی آزادی یقینی بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں جہاں چین کے جارحانہ اقدامات سے سالانہ تین کھرب ڈالر کی تجارتی نقل و حمل کو خطرات لاحق ہیں۔

یہاں یہ بات یاد رکھنا اہم ہے کہ اِن تین کھرب ڈالرز سے دنیا بھر کے لاکھوں لوگوں کا روزگار اور بہبود وابستہ ہے۔ جب کھلے سمندروں میں تجارتی سامان نہیں گزر سکتا تو کسان اپنی پیداوار دوسرے ممالک کو نہیں بھیج سکتے، کارخانے اپنی مائیکرو چپس ایک سے دوسری جگہ نہیں پہنچا سکتے اور ہسپتالوں کو زندگی بچانے والی ادویات کی فراہمی رک جاتی ہے۔

پانچ سال قبل ایک عالمی ٹریبونل نے ایک متفقہ فیصلہ دیا جس میں بحیرہ جنوبی چین میں جہاز رانی سے متعلق چین کے غیرقانونی اور توسیع پسندانہ دعووں کو عالمگیر قانون کے منافی کہہ کر مسترد کیا گیا تھا۔ عالمی قانون کی رو سے اِس فیصلے کی پابندی ضروری ہے۔ ہم اور بحیرہ جنوبی چین پر دعویٰ رکھنے والے ممالک سمیت دیگر ممالک ایسے طرزعمل کے خلاف مزاحمت جاری رکھیں گے۔ اِسی لیے آبنائے تائیوان (Taiwan Strait) میں امن و استحکام سے ہمارا دائمی مفاد وابستہ ہے جو ہمارے دیرینہ وعدوں سے ہم آہنگ ہے۔

دوسری بات یہ کہ ہم اِس خطے میں اور اِس سے پرے (Beyond) مضبوط تر روابط بنائیں گے۔ ہم جاپان، جمہوریہ کوریا، فلپائن اور تھائی لینڈ کے ساتھ اپنے معاہداتی اتحادوں (Treaty alliances) کو مزید مؤثر بنائیں گے۔ یہ روابط طویل عرصے سے خطے میں امن، سلامتی اور خوش حالی کی بنیاد چلے آ رہے ہیں۔ ہم اِن اتحادیوں کے مابین بھرپور تعاون ممکن بنانے میں مدد بھی دیں گے۔ ہم نے امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا پر مشتمل سہ فریقی تعاون کو مضبوط کر کے اور آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ سلامتی کے شعبے میں تعاون سے متعلق ایک نیا تاریخی معاہدہ کر کے یہی کچھ کیا ہے۔ ہم اپنے اتحادیوں کو اپنے شراکت داروں سے جوڑنے کے طریقے ڈھونڈیں گے جیسا کہ ہم نے Quad کو پہلے سے زیادہ مؤثر بنا کر کیا ہے۔ ہم مضبوط اور خودمختار آسیان کے ساتھ اپنی شراکت کو پہلے سے زیادہ مضبوط بنائیں گے۔

صدر بائیڈن آنے والے مہینوں میں آسیان کے رہنماؤں کو ایک کانفرنس کے لیے امریکا مدعو کریں گے جس میں باہمی تزویراتی شراکت کو مزید مضبوط بنانے پر تبادلہ خیال ہو گا۔

ہم خطے میں دیگر ممالک کے ساتھ اپنی تزویراتی شراکتوں کو بھی مضبوط بنا رہے ہیں جن میں سنگاپور، ویت نام، ملائیشیا اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔

اِس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ ہم بحرہند و بحرالکاہل میں اپنے تعلقات کو اِس خطے سے پرے بالخصوص یورپ میں اتحادوں اور شراکتوں کے ایک بے مثل نظام کے ساتھ جوڑنے کے لیے کام کریں گے۔ یورپی یونین نے حال ہی میں بحرہند و بحرالکاہل کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کا اجرا کیا ہے جو بڑی حد تک اِس کے خطے کے بارے میں ہمارے تصور سے ہم آہنگ ہے۔ نیٹو میں ہم اپنے تزویراتی تصور کو اِس طرح بہتر بنا رہے ہیں کہ اِس سے بحرہند و بحرالکاہل کی بڑھتی ہوئی اہمیت کا اظہار ہو۔ اِسی طرح ہم موسمیاتی بحران کے سکیورٹی کی صورت حال پر مرتب ہونے والے اثرات جیسے نئے خطرات سے نمٹنے پر کام کر رہے ہیں۔
ہم اِس حوالے سے جو کچھ کر رہے ہیں اِس کی ایک سادہ سی وجہ ہے کہ اِس سے ہمیں کسی بھی مسئلے پر قابو پانے، کسی بھی موقع سے فائدہ اُٹھانے اور کسی بھی مقصد کے لیے کام کرنے کی غرض سے وسیع تر اور انتہائی مؤثر اتحادوں کا ساتھ میسر آتا ہے۔ ہم اپنے مشترکہ مفادات کی تکمیل کے لیے جتنے زیادہ ممالک کو اکٹھا کریں گے، ہم اُتنے ہی زیادہ مضبوط ہوں گے۔

تیسری بات یہ کہ ہم وسیع البنیاد خوش حالی کو فروغ دیں گے۔ امریکا نے بحرہند و بحرالکاہل میں بیرون ملک براہ راست سرمایہ کاری کی مد میں پہلے ہی ایک کھرب ڈالر مہیا کیے ہیں۔ اِس خطے نے ہم پر واضح کر دیا ہے کہ وہ ہم سے مزید اقدامات کا خواہاں ہے۔ ہم اِس کا مطالبہ پورا کرنا چاہتے ہیں۔ صدر بائیڈن کی ہدایت پر ہم ایک جامع بحرہند و بحرالکاہل معاشی ڈھانچا تیار کر رہے ہیں جس کا مقصد تجارت اور ڈیجیٹل معیشت، ٹیکنالوجی، تجارتی سامان کی ترسیل کے مضبوط نظام، ماحول سے کاربن کے خاتمے اور صاف توانائی کے فروغ، بنیادی ڈھانچے، کارکنوں سے متعلق ضوابط اور مشترکہ دلچسپی کے دیگر شعبوں میں مشترکہ مقاصد کا حصول ممکن بنانا ہے۔

ہماری سفارت کاری اِس حوالے سے بنیادی کردار ادا کرے گی۔ ہم ایسے مواقع ڈھونڈیں گے جو امریکی کمپنیاں اپنے طور پر تلاش نہیں کر سکتیں اور اِن کے لیے اپنی مہارتوں اور اپنے سرمائے کو نئی جگہوں اور نئے شعبوں میں لانا آسان بنائیں گے۔ ہمارے سفارتی اہل کار اور بحرہند و بحرالکاہل بھر میں پھیلے ہمارے سفارت خانے پہلے ہی اِس معاملے میں رہنما کردار ادا کر رہے ہیں اور ہم اِن کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے تاکہ وہ اِس سلسلے میں مزید کام کر سکیں۔

ہم بڑھتی ہوئی ڈیجیٹل معیشت کے قوانین بنانے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔ اِس میں ڈیٹا پرائیویسی اور سکیورٹی جیسے اُمور پر خاص توجہ دی جائے گی۔ اِس سلسلے میں یہ مدنظر رکھا جائے گا کہ یہ قوانین ہماری اقدار کے عکاس ہوں اور اِن سے ہمارے لوگوں کے لیے نئے مواقع کھلیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ہم اِن قوانین کو متشکل نہیں کریں گے تو یہ کام دوسرے کریں گے۔ اِس کا قوی امکان ہے کہ وہ یہ سب کچھ اِس انداز میں کریں گے جس سے ہمارے مشترکہ مفادات یا ہماری مشترکہ اقدار کو فائدہ نہیں پہنچے گا۔

ہم منصفانہ اور مضبوط بنیادوں پر تجارت کو فروغ بھی دیں گے۔ یہ آسیان سنگل ونڈو کی بات ہے جو خطے بھر میں کسٹم کلیئرنگ سے متعلق واحد خودکار نظام کے لیے امریکا کے تعاون سے چلنے والا منصوبہ ہے۔ اِس نظام نے تجارت کو مزید شفاف اور محفوظ بنا کر اِسے باترتیب صورت دی ہے جس سے کاروباروں کے لیے لاگت اور صارفین کے لیے قیمتوں میں کمی آئی ہے۔ کسٹم کے نظام کو کاغذوں سے نکال کر ڈیجیٹل صورت دینے سے لاک ڈاؤن کے دوران بھی سرحد پار تجارت کو رواں رکھنا ممکن ہوا ہے۔

وبا کے پہلے سال میں اِس پلیٹ فارم پر دوسروں سے زیادہ متحرک ممالک کی تجارتی سرگرمی میں 20 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دوسرے طریقوں سے سرحد پار کی جانے والی بیش تر تجارت میں کمی واقع ہو رہی تھی۔ اکتوبر 2021ء میں امریکا۔ آسیان کانفرنس کے موقع پر صدر بائیڈن نے سنگل ونڈو کے لیے امریکا کی جانب سے مزید مدد فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔ ہم تجارتی اشیا کی ترسیل کے نظام مزید محفوظ اور مضبوط بنانے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کریں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب وبا میں دیکھ چکے ہیں کہ یہ نظام کس قدر کمزور ہیں اور ماسک کی کمی اور بندرگاہوں پر مائیکروچپس کے ڈھیر لگے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اِس نظام میں پڑنے والا خلل کس قدر تباہ کن ہوسکتا ہے۔
ہم تجارتی اشیا کی ترسیل کے نظام میں رکاوٹوں کو دور کرنے اور اُنھیں مستقبل کے حادثات کے خلاف مزید مضبوط بنانے کے لیے عالمی برادری کو اکٹھا کرنے کی کوششوں کی قیادت کر رہے ہیں۔ صدر بائیڈن نے تجارتی سامان کی ترسیل کے سلسلوں کو مضبوط بنانے کے حوالے سے رہنماؤں کی ایک کانفرنس بلائی۔ نائب صدر ہیرس نے خطے میں اپنے دوروں کے دوران ہونے والی ملاقاتوں میں اِس موضوع کو بات چیت کا مرکز بنایا۔ سیکرٹری تجارت ریمانڈو نے اپنے حالیہ دورے میں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سنگاپور اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر اِس مسئلے پر قابو پانے کے اقدامات کیے۔ امریکا کے تجارتی نمائندے نے تجارتی سامان کی ترسیل کے نظام سے متعلق بین الادارتی ٹاسک فورس قائم کی اور جاپان، جنوبی کوریا اور انڈیا کے دورے میں اِس مسئلے کو اجاگر کیا۔ نئے سال میں وزیر تجارت جینا ریمانڈو اور میں باہم مل کر ترسیل کے بین الاقوامی فورم میں دنیا بھر کی حکومتوں اور نجی شعبے کو اکٹھا کریں گے تاکہ اِن مسائل پر قابو پایا جا سکے۔ دنیا بھر میں زیادہ تر پیداوار اور تجارت کے مرکز کی حیثیت سے بحرہند و بحرالکاہل کا خطہ اِن کوششوں کا مرکز ہو گا۔

اِس ضمن میں آخری بات یہ ہے کہ ہم بنیادی ڈھانچے کے حوالے سے خلا پُر کرنے میں مدد کریں گے۔ جب موجودہ بنیادی ڈھانچے اور مستقبل کی ضرورتوں کی بات ہوتی ہے تو اِس خطے میں اور دنیا بھر میں بہت سی کمی دکھائی دیتی ہے۔ بندرگاہیں، سڑکیں، بجلی کے گرڈ اور براڈ بینڈ [یہ سب کچھ]عالمگیر تجارت، کاروبار، باہمی رابطوں، مواقع اور خوش حالی کی بنیاد ہیں۔ بحرہند و بحرالکاہل کی جامع ترقی میں اِن کی لازمی اہمیت ہے۔ لیکن ہم بحرہند و بحرالکاہل میں سرکاری حکام، صنعتوں، مزدوروں اور عام لوگوں کی جانب سے درست انداز میں بنیادی ڈھانچے کی عدم فراہمی سے متعلق بڑھتے ہوئے خدشات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ یہ خدشات ایسے بنیادی ڈھانچے سے متعلق ہیں جو مبہم اور بدعنوانی پر مبنی طریقہ ہائے کار کے ذریعے بنایا جائے یا ایسی غیرملکی کمپنیوں کا تعمیر کردہ ہو جو اپنے کارکن ساتھ لاتی ہیں، میزبان ملک کے وسائل حاصل کرتی ہیں، ماحول کو آلودہ کرتی ہیں اور مقامی لوگوں کو قرض دار بنا دیتی ہیں۔
بحرہند و بحرالکاہل کے ممالک ایک بہتر بنیادی ڈھانچا چاہتے ہیں۔ لیکن اِن میں بہت سے ممالک سمجھتے ہیں کہ اِس کی دستیابی بہت مہنگی ہے یا وہ بُرے معاہدوں کا دباؤ محسوس کرتے ہیں جن کی شرائط سرمایہ کاری کرنے والے ممالک نے طے کی ہوتی ہیں یا اِس کے لیے اُن کے ساتھ سرے سے کوئی معاہدے ہی نہیں کیے گئے ہوتے۔ اِسی لیے ہم اعلیٰ معیار اور ضوابط کے حامل ایسے بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر کے لیے خطے کے ممالک کے ساتھ کام کریں گے جن کے یہ لوگ حق دار ہیں۔ درحقیقت ہم یہ کام پہلے ہی سے کر رہے ہیں۔

حال ہی میں آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر ہم نے وفاقی ریاست ہائے مائیکرونیشیا، کیریباٹی اور نارو کے ساتھ ایک شراکت قائم کرنے کا اعلان کیا جس کا مقصد بحر الکاہل کے اِن ممالک کو انٹرنیٹ کے ذریعے روابط بہتر بنانے میں مدد دینے کے لیے زیرسمندر ایک نئی تار بچھانا ہے۔ 2015ء سے کواڈ کے رکن ممالک نے اِس خطے میں بنیادی ڈھانچے کے لیے سرکاری معاونت سے مالیاتی وسائل کی فراہمی کی مد میں 48 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم دی ہے۔ اِن وسائل کی مدد سے 30 سے زیادہ ممالک میں دیہی ترقی سے قابل تجدید توانائی کے ہزاروں منصوبوں پر کام ہوا ہے۔ اِس سے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچا ہے۔

کواڈ نے مزید سرمایہ کاری لانے کے لیے حال ہی میں بنیادی ڈھانچے سے متعلق رابطہ گروپ بنایا ہے اور یہ بنیادی ڈھانچے سمیت بہت سی مشترکہ ترجیحات پر جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک کے ساتھ شراکت کا متمنی ہے۔ امریکا اِس سے کہیں بڑھ کر تعاون کرے گا۔ ہم نے گزشتہ برس جون میں اپنے جی7 شراکت داروں کے ساتھ مل کر ’دنیا کی بہتر انداز میں بحالی‘ کا پروگرام شروع کیا تھا جس کے تحت ہم آنے والے برسوں میں شفاف اور پائیدار مالیات کے حوالے سے سینکڑوں ارب ڈالر اکٹھے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہم نے آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر بلیو ڈاٹ نیٹ ورک شروع کیا جس کا مقصد اعلیٰ معیار کے بنیادی ڈھانچوں کے ایسے منصوبوں کی تصدیق کرنا ہے جو جی20، او ای سی ڈی اور دیگر تنظیموں کی جانب سے بنائے گئے پیمانوں پر پورا اُترتے ہوں اور مزید سرمایہ کاروں کو اپنی جانب راغب کر سکیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ ہم بحرہند و بحرالکاہل کو مزید مضبوط بنانے میں مدد کریں گے۔ کووڈ۔ 19 وبا اور موسمیاتی بحران نے اِس کام کی ہنگامی ضرورت واضح کر دی ہے۔ وبا نے خطے بھر میں لاکھوں جانیں لیں۔ اِس وبا نے کارخانوں کی بندش سے لے کر سیاحت میں تعطل تک بڑے پیمانے پر معاشی نقصان بھی کیا۔

امریکا ہر قدم پر اِس خطے کے لوگوں کی مدد کے لیے موجود رہا جب کہ ہم اندرون ملک بھی اِس وبا کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ امریکا کی جانب سے دنیا بھر میں تقسیم کی گئی محفوظ و مؤثر ویکیسن کی 300 ملین خوراکوں میں سے 100 ملین بحرہند و بحرالکاہل کے خطے کے ممالک کو مہیا کی گئیں۔ آئندہ برس کے اختتام تک ہم دنیا بھر میں ویکسین کی 1.2 ارب سے زیادہ خوراکیں عطیہ کر چکے ہوں گے۔ ہم نے اِس خطے کو زندگیاں بچانے کے لیے مزید امداد کے طور پر 2.8 ارب ڈالر سے زیادہ مالی وسائل مہیا کیے ہیں جن میں انڈونیشیا میں ذاتی تحفظ کے سازوسامان سے لے کر ہسپتالوں میں طبی مقاصد کے لیے آکسیجن کی فراہمی کی غرض سے دیے گئے77 ملین ڈالر تک شامل ہیں۔ ہم یہ امداد کسی شرط کے بغیر مفت دے رہے ہیں۔ کوویکس کے ذریعے بیش تر عطیات دے کر ہم نے یہ یقینی بنایا ہے کہ اِن کی تقسیم سیاسی بنیادوں پر نہ ہو بلکہ یہ منصفانہ طور سے اور ضرورت کے مطابق ہو۔

اِسی دوران ہم وبا کو ختم کرنے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اِس ضمن میں کواڈ ممالک کی ویکسین کی فراہمی سے متعلق شراکت کا اہم کردار ہے۔ ہم ویکسین کے لیے مالی وسائل کی فراہمی، اِس کی تیاری، تقسیم اور جلد از جلد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکسین لگانے کے لیے باہم مل کر کام کر رہے ہیں۔ بہت سے ممالک انفرادی طور پر ہمارا ساتھ دینے کے لیے آگے آ رہے ہیں۔ انڈیا نے حال ہی میں یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ 2022ء کے آخر تک ویکسین کی مزید 5 ارب خوراکیں تیار کرے گا۔ جمہوریہ کوریا اور تھائی لینڈ بھی ویکسین کی تیاری کی کوششیں تیز کر رہے ہیں۔

وائرس کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہم بحرہند و بحرالکاہل اور دنیا بھر میں صحت کے نظاموں کی بہتر طور سے بحالی پر بھی کام کر رہے ہیں تاکہ مستقبل میں وبا کی روک تھام، نشان دہی اور اِس کے خلاف بروقت اقدامات ممکن بنائے جا سکیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں یہ کام کیسے ہونا ہے۔ امریکا اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کئی دہائیوں سے اِس خطے میں صحت کے نظاموں کو مضبوط بنانے کے لیے کام کر رہا ہے۔ صرف آسیان ممالک میں ہم نے گزشتہ 20 سال میں صحت عامہ پر 3.5 ارب ڈالر سے زیادہ مالیت کے وسائل خرچ کیے ہیں۔ ہم نے صحت عامہ کے نظام میں نمایاں بہتری لانے اور خطے کے ممالک سے گہرے تعلقات قائم کرنے سمیت یہاں بہت کچھ کیا ہے۔

آسیان کے لیے ہماری مدد کے طور پر صدر بائیڈن نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ ہم امریکا آسیان طبی مستقبل کے اقدام کے لیے 40 ملین ڈالر مہیا کریں گے اور اِس سے مشترکہ تحقیق، صحت کے نظاموں کو مضبوط بنانے اور صحت کے شعبے میں پیشہ ور لوگوں کی نئی نسل تیار کرنے کا کام تیزسے تیزتر ہوگا۔

ہم آسیان کا صحت عامہ سے متعلق ہنگامی رابطہ نظام تیار کرنے میں بھی مدد دے رہے ہیں۔ اِس سے خطے کے ممالک کو مستقبل میں صحت کے حوالے سے ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اقدامات مربوط بنانے میں مدد ملے گی۔ امریکا میں بیماریوں کی روک تھام اور اِن پر قابو پانے کے مرکز کا جنوب مشرقی ایشیا سے متعلق پہلا علاقائی دفتر پہلے ہی اِن کوششوں میں مدد دے رہا ہے۔ ہم نے یہ دفتر اِس موسم گرما میں ہنوئی (ویتنام) میں کھولا ہے۔

موسمیاتی بحران بھی یقیناً ایک اور ایسا عالمی مسئلہ ہے جس پر ہمیں اکٹھے قابو پانا ہے۔ پورے بحرہند و بحرالکاہل میں لوگ پہلے ہی اِس کے تباہ کن اثرات محسوس کر رہے ہیں۔ دنیا کی 70 فیصد قدرتی آفات اِسی خطے میں آتی ہیں اور 2019ء میں خطے میں 90 ملین سے زیادہ لوگ موسمیاتی آفات سے متاثر ہوئے۔ اِس سے اگلے سال بحرالکاہل کے ساحل پر ہماری ریاست کیلیفورنیا کے جنگلوں میں آگ لگنے کے پانچ بڑے واقعات پیش آئے جن کا شمار تاریخ میں ایسے چھ سب سے بڑے واقعات میں ہوتا ہے۔

اب خطے میں سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے بہت سے ممالک کو اِس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت کا احساس ہو گیا ہے جیسا کہ ہم COP26 میں اِن کے وعدوں کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ گلاسگو میں بحرہند و بحرالکاہل کے 15 ممالک نے ’گلوبل میتھین پلیج‘ پر دستخط کیے۔ اِس اقدام کا مقصد آئندہ دہائی میں میتھین گیس کے اخراج میں 30 فیصد تک کمی لانا ہے۔ اگر سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والے تمام ممالک ہمارے ساتھ شامل ہو جائیں تو اِس سے عالمی حدت میں جتنی کمی آئے گی وہ ہر بحری جہاز کو سمندر سے نکالنے اور ہر ہوائی جہاز کو فضا سے نیچے اُتارنے کے نتیجے میں حاصل ہونے والے نتائج سے کہیں زیادہ ہو گی۔

تاہم موسمیاتی مسئلے کو صرف خطرات کی نظر سے دیکھنا غلطی ہو گی۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ کرہ ارض پر ہر ایک ملک کو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے اور موسمیاتی تبدیلی کے ناگزیر اثرات کا مقابلہ کرنے کی تیاری کرنا ہے۔ اِس حوالے سے نئی ٹیکنالوجی اور نئی صنعتیں بھی نئی اور اچھی اجرتوں والی نوکریاں تخلیق کرنے کا ایسا موقع فراہم کرتی ہیں جو نسلوں میں ایک بار آتا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ موقع بحرہند و بحرالکاہل سے ہو کر گزرتا ہے اور ہم اِس سے فائدہ اُٹھانے کے لیے پہلے ہی اپنے شراکت داروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ صرف گزشتہ پانچ برسوں میں امریکا نے اِس خطے میں قابل تجدید توانائی کے شعبے میں 7 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ اِس معاملے میں اپنی کوششیں بڑھاتے ہوئے ہم اپنی شراکتوں کے منفرد مجموعے سے کام لے رہے ہیں۔ اِن میں کثیرملکی ادارے اور وکالتی گروہ، کاروبار اور فلاحی ادارے، محققین اور تکنیکی ماہرین شامل ہیں۔

پانچویں اور آخری بات یہ ہے کہ ہم بحرہند و بحرالکاہل کی سلامتی کو بہتر بنائیں گے۔ خطرات نئی صورت اختیار کر رہے ہیں اِس لیے سلامتی سے متعلق ہمارے طریقہ ہائے کار کو بھی اِن کے مطابق تبدیل ہونا ہو گا۔ ہمیں متشدد شدت پسندی سے لے کر غیرقانونی ماہی گیری اور انسانی سمگلنگ تک بہت سے مسائل پر قابو پانے کے لیے غیرفوجی شعبے میں سلامتی سے متعلق قریبی تعاون درکار ہو گا۔ ہم ایک ایسی حکمت عملی اختیار کریں گے جو ہمارے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ ہماری قومی طاقت کے تمام ذرائع یعنی سفارت کاری، فوج اور انٹیلی جنس کو مزید قریبی طور سے مربوط کرے گی۔ ہمارے سیکرٹری دفاع لائیڈ آسٹن اِسے [حریفوں کے لیے] ’’مربوط ڈر’’ کہتے ہیں۔

اِس کا مطلب ہماری طاقتوں کو مزید مضبوط بنانا ہے تاکہ ہم امن قائم رکھ سکیں جیسا کہ ہم نے اِس خطے میں کئی دہائیوں تک کیا ہے۔ ہم بحرہند و بحرالکاہل میں تصادم نہیں چاہتے۔ اِسی لیے ہم شمالی کوریا کے ساتھ سنجیدہ اور پائیدار سفارت کاری کے خواہاں ہیں جس کا حتمی مقصد جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنا ہے۔ ہم شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگراموں سے لاحق خطرات سے نمٹنے کے لیے اپنے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک باضابطہ اور عملی طریقہ کار سے کام لیں گے اور اِس کے ساتھ ساتھ خطرات کے خلاف قوت مزاحمت کا وسیع تر توازن بھی مضبوط بنائیں گے۔

Check Also

Fiscal Federalism

Listen to this article Please Login or Register to view the complete Article Send an …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *