امریکی گریٹ گیم اورمشرقِ وسطیٰ
پہلی جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کے رہنماؤں اور سرمایہ کاروں پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ تیل کی آئندہ کیا اہمیت اور افادیت ہو گی۔ تیل کا بڑھتا ہوا استعمال پوری دنیا کو اِس کی اہمیت کا احساس دلائے گا اور طلب و رسد کا مسئلہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہو گا۔ تب برطانیہ نے مشرقِ وسطیٰ اور دیگر میں تیل کی تلاش پر کام شروع کیا۔ 1930ء کے عشرے میں برطانوی تیل کی کمپنیوں نے مشرقِ وسطیٰ میں اتنا تیل دریافت کر لیا تھا کہ مزید کہیں کھدائی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ اِس حوالے سے برطانوی رہنما اور تھنک ٹینک اِس امر سے بخوبی آگاہ تھے تیل کے لگ بھگ تمام علاقے عربوں کے تسلط میں ہیں۔ ایسے میں برطانوی تھنک ٹینک اسرائیلی ریاست کا منصوبہ تیار کرنے لگے جس کے ذریعے ایک تیر سے تین شکار کا کھیل کھیلا گیا۔ ایک یہ کہ یہودیوں کی ہمدردیاں حاصل کی گئیں کہ اُنھیں ایک ریاست عطا کی جا رہی ہے۔ دوسرا اِس ریاست کو مضبوط بنا کر عربوں سے برسرِ پیکار رکھا جائے اور تیسرا عربوں کے تیل کے ذخائر پر گرفت مضبوط کر کے دنیا پر اپنا قبضہ جمایا جائے۔ لیکن دوسری عالمی جنگ کے بعد جو عالمی منظر نامہ ابھر کر سامنے آیا تب برطانیہ نے اپنا سپر پاور کا تاج امریکا کے حوالے کر کے اِس کا حلیف بننا پسند کیا۔ 1950ء کے عشرے میں مشرقِ وسطیٰ میں امریکی تیل کی کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہوئی اِس کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری بھی امریکا نے سنبھال لی جو تاحال جاری ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب عالمی معاشی نظام میں تیل کو بنیادی حیثیت حاصل وہ گئی تھی اور یہ توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا تھا۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ ظاہر ہوتا گیا کہ تیل کے ذخائر اور اُن کی بہ آسانی فراہمی کے بارے میں ابتدائی طور پر جو اندازے لگائے گئے تھے وہ تو بہت کم تھے۔ تیل کے ذخائر اِس سے کہیں زیادہ ہیں۔ امریکا دوسری جنگِ عظیم سے ذرا پہلے عالمی طاقت بنا ہے لیکن اِس سے پہلے ہی جب 1920ء کی دہائی میں دنیا مشرقِ وسطیٰ کے تیل کے ذخائر کی اصل حقیقت سے واقف ہوئی، اِس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنا اثر رسوخ بڑھانا شروع کر دیا تھا تا کہ عراق اور عمان کے تیل کے ذخیروں سے امریکی تیل کمپنیوں کو بھی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔ یہ وہ علاقے تھے جو پہلی جنگِ عظیم سے پہلے سلطنت عثمانیہ کے زیرِ نگیں تھے اور جنگ میں ترکوں کی شکست کے بعد جنھیں برطانیہ، فرانس اور ہالینڈ نے آپس میں بانٹ لیا تھا۔ 1930ء کی دہائی کے ابتدائی زمانے میں امریکی آئل کمپنیوں کو سعودی عرب میں کام کرنے کا موقع مل گیا اور واشنگٹن کو یہ جان لینے میں دیر نہیں لگی کہ یہ تو سونے کی چڑیا ہے جو اِس کے ہاتھ لگی ہے اور یہ کسی اور کے حصے میں نہیں آنی چاہیے۔
جب ہٹلر نے یہودیوں کو بری طرح ستایا اور جرمنی سے نکال دیا تو اُنھیں کوئی ملک بھی اپنانے کو تیار نہیں تھا۔ کیوں کہ صہیونی اپنی غلط کاریوں کی بنا پر اقوامِ عالم میں صدیوں سے بدنام ہو چکے تھے اسی لیے جب بحری جہازوں میں بھر بھر کر پناہ کے لیے دوسرے ملکوں میں داخل ہونے کے لیے گئے تو اُنھیں کسی نے بھی اپنی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی لیکن امریکا جو کہ تیل کی طاقت کو جانتا تھا اِس نے دانستاً یہودیوں کو ارضِ فلسطین پر لا کر ناجائز طور پر بسایا۔ لیکن آہستہ آہستہ صیہونیوں نے اُنھی عربوں کو مارنا اور ستانا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ تین بار کے انتقاضہ کے بعد صہیونیوں نے تقریباً 80 فیصد فلسطینیوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کر لیا اور اب چوتھی انتقاضہ میں پورے فلسطین کو ہضم کر جانے کی سازش میں ہیں اور امریکا نے اُن کو ایک بار پھر اِس کام کے لیے گرین سگنل دے دیا ہے۔ پچھلی سات آٹھ دہائیوں کے دوران اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیش کی جانے والی درجنون قراردادوں کو صہیونی ریاست ردی کے ٹکڑوں کی طرح کوڑے دان میں پھینکتی آئی ہے۔ دنیا میں ریاستی دہشت گردی اور سامراجی جارحیت کے نتیجے میں گرنے والی ہر انسانی لاش اُن اداروں اور بین الاقوامی کمیونٹی کا راز فاش کرتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور امریکا کی حالیہ پالیسیوں اور اقدامات سے اُن خدشات کو بڑھاوا مل رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں سیاسی عدم استحکام میں اضافہ کے علاوہ بعض غیر سیاسی تبدیلیاں بھی رونما ہو سکتی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ، شمال مشرقی افریقہ اور جنوب مغربی ایشیا میںا سرائیل واحد قوت ہے جس کے پاس سب سے زیادہ اور مہلک ترین کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔ اسرائیلی فضائیہ میں جدید ترین لڑاکا طیارے شامل ہیں جن میں بیش تر طیاروں کو اِس قابل بنایا گیا ہے کہ وہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں سے لیس ہو کر جنگی کارروائیاں کر سکیں۔ دوسرے لفظوں میں اسرائیلی ریاست جدید ہتھیاروں، ایٹمی اور کیمیائی اسلحہ خانہ کا ڈھیر ہے جو ناصرف اِس خطے کے لیے بلکہ عالمی امن اور سلامتی کے لیے بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ امریکا اسرائیل کو اسلحہ کا سب سے بڑا سپلائیر ہے حالاں کہ یہ ایک کھلا راز ہے کہ اسرائیل ہر قسم کے جدید اسلحہ کی تیاری میں خود کفیل ہے۔ ہر سال 12 ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ جب کہ بھارت اِس کے جدید ا سلحہ کا بڑا خریدار ہے۔ اِس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسرائیل مشرقِ وسطیٰ میں غیر اعلانیہ واحد ایٹمی قوت ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے ایٹمی ذخیرے میں دو سو سے زائد ایٹم بم اور دیگر ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مختلف باوثوق ذرائع گزشتہ ایک عرصے سے دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ 1960ء کے عشرے ہی سے اسرائیل نے ناصرف ایٹمی ہتھیار تیار کرنے کی جد و جہد شروع کر دی تھی بلکہ مہلک ترین حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری پر بھی بھرپور کام شروع کر دیا تھا۔
یہی وجوہات ہیں کہ اسرائیلی قیادت کی ہٹ دھرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ حالیہ اسرائیلی جارحیت اِس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہودی قیادت کے مدِ نظر فلسطینی قیادت کے ساتھ اپنے تنازعات پر امن طریقے سے حل کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے، اسرائیل کا یہ طرزِ عمل اِس خطے میں امن کے قیام کی کوششوں کو سبوتاژ کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ اسرائیل نے اچانک فلسطین پر حملے شروع کر دیےہیں آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں گزشتہ نصف صدی سے اسرائیل فلسطینیوں کو خون میں نہلا رہا ہے۔ وقفے وقفے سے صہیونی طاقت جسے مکمل امریکی آشیر آباد حاصل ہے نہتے فلسطینیوں کے خلاف درندگی و بربریت کا کھیل شروع کر دیتی ہے۔ اسرائیل عرب زمین پر جبری قابض ہے اور اِس کی خواہش ہے کہ زیادہ سے زیادہ علاقے پر قبضہ حاصل کر کے فلسطینی مسلمانوں کی نسل کو ختم کر دیا جائے۔ چوں کہ اسرائیل کو اپنے سر پرست اعلیٰ امریکا کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے اِس لیے دنیا بھر میں تنقید کا نشانہ بننے کے باوجود غزہ کے نہتے فلسطینیوں پر آتش و آہن برساتا چلا آ رہا ہے اور کوئی آگے بڑھ کر اِس کا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے، کہیں اقوامِ متحدہ کا کردار نظر آ رہاہے اور نہ عالمی اور انسانی حقوق کے عالمی ٹھیکیداروں کا ضمیر جاگتا محسوس ہوتا ہے۔