اقوام متحدہ کی قراردادیں اور کشمیریوں کا حق خود ارادیت
مئی-30 کو ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘ کے عنوان سے عوام سے ٹیلی فون پر براہ راست گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر اِس بات کا اعادہ کیا کہ کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کی بحالی تک بھارت کے ساتھ تجارتی روابط اور تعلقات کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ موجودہ صورت حال میں بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کشمیریوں کے ساتھ بڑی غداری ہو گی۔ اُنھوں نے کہا کہ اگر بھارت کشمیر کے بارے میں اپنے حالیہ اقدامات سے پیچھے ہٹتا ہے تو ہی پاکستان تنازعہ کشمیر پر مذاکرات دوبارہ شروع کر سکتا ہے اور اِسے حل کرنے کے لائحہ عمل پر رضامندی کے لیے بات چیت کر سکتا ہے۔ قبل ازیں وہ بار بار یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔
الفاظ اپنے اپنے ہیں، اندازجداگانہ ہے، مگر بیان ایک جیسا ہے۔ بیان یہ ہے کہ کشمیریوں کوحق خود ارادیت ملے بغیربھارت سے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ یہ بات پاکستان کے تقریباً ہر حکمران نے اپنے دور میں کہی ہے۔ وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان نے بھی یہ بات حال ہی میں ایک بار پھر اپنے انداز اور اپنے الفاظ میں دہرائی ہے۔ اُنھوں نے واضح کیا کہ کشمیر کے حق ِخودارادیت کے بغیر بھارت کے ساتھ تعلقات نارمل نہیں ہو سکتے۔ اُن کا کہنا تھا : ’’اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے انڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے ہوں۔ ایک طرف ہمارے پاس چین ہے جو دنیا کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، دوسری طرف انڈیا جہاں ایک ارب سے زیادہ کی آبادی ہے، وہ [بھی ایک] بڑی مارکیٹ ہے۔ ہماری تجارت شروع ہو جائے رابطے، بحال ہو جائیں تو جب تجارت بڑھتی ہے تو سب کو فائدہ ہوتا ہے۔ تو اِس میں تو کوئی شک نہیں کہ اگر ہمارے انڈیا کے ساتھ تعلقات اچھے ہو جائیں جو میں نے پہلے دن ہی اقتدار میں آ کر بہتر کرنے کی پوری کوشش کی۔ ہمارا ایک ہی مسئلہ ہے کشمیر کا جو ہم بات چیت سے حل کریں۔ ’لیکن جو اِس وقت صورت حال ہے، ہم اگر انڈیا کے ساتھ تعلقات معمول پر لاتے ہیں تو اِس کا مطلب ہے کہ ہم کشمیر کے لوگوں سے بہت بڑی غداری کریں گے۔ اُن کی ساری جدوجہد جس میں ایک لاکھ سے اوپر کشمیری شہید ہو چکے ہیں، اِس کا مطلب ہے کہ ہم اس سب کو نظر انداز کر دیں گے۔‘
اُنھوں نے مزید کہا کہ ’اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری تجارت بہتر ہوگی لیکن اُن کا سارا خون ضائع ہو جائے گا، لہٰذا یہ ہو نہیں سکتا۔ ہم کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور جانتے ہیں کہ اُنھوں نے کیا قربانیاں دی ہیں اور دے رہے ہیں۔ ہم کشمیریوں کے خون پر یہ سوچ لیں کہ پاکستان کی تجارت بہتر ہو جائے گی یہ نہیں ہو سکتا۔‘
عام طور پر جب کشمیریوں کے حق خود ارادیت کا ذکر آتا ہے تو اِس کے ساتھ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا ذکر ضرور آتا ہے۔ پاکستان کا سرکاری مؤقف یہ رہاہے کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کو اقوام متحدہ کی قرادادوں کے تحت تسلیم کیا گیا ہے اور مسئلہ کشمیر کا حل اِن قراردادوں پر عمل درآمد ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان میں جہاں وسیع پیمانے پر اِن قراردادوں پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے، وہاں اتنے ہی بڑے پیمانے پران قراردادوں کے بارے میں غلط فہمیاں اور مغالطے بھی ہیں۔ عام آدمی تو ایک طرف اچھے خاصے دانش ور لوگوں کے لیے بھی یہ قراردادیں بھول بھلیوں کی طرح ہیں، جن سے کوئی واضح نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
کشمیرپراقوام متحدہ کی قراردادوں کی کہانی طویل اور پر اسرار ہے۔ یہ قراردادیں ایسی بھول بھلیاں ہیں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آتیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی پہلی دو قراردادیں یکے بعد دیگرے صرف تین دن کے وقفے سے پاس ہوئیں۔ اِن قراردادوں میں نہ تو مسئلہ کشمیر کا کوئی حل تجویز کیا گیا اور نہ ہی ریاست جموں وکشمیر کے مستقبل کے سوال پر کوئی رائے دی گئی۔ اِن قراردادوں میں کشمیری عوام کے مستقبل، استصواب رائے یا حق خود ارادیت کا کوئی بھی ذکر نہیں ہے، البتہ یہ تسلیم کیا گیا کہ کشمیر کی صورت حال فوری توجہ کی متقاضی ہے۔ تنازع کشمیر کے تصفیہ کے لیے ثالثی کی ضرورت پر زور دیا گیا اور اِس سلسلے میں کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔
قرار دادوں کی اِس کہانی کا آغاز پنڈت جواہر لعل نہرو کے خط سے ہوتا ہے۔ اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم نے یہ خط کشمیر میں جاری لڑائی کے پس منظر میں یکم جنوری1948ء کواقوام متحدہ کو لکھا تھا۔ اِس خط میں پنڈت جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ کے آرٹیکل35 کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ’’ اگر کوئی ایسا مسئلہ درپیش ہوجس کے تسلسل کی وجہ سے سے عالمی امن اور سلامتی کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہوتو کوئی بھی رکن ملک یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ آج انڈیا اور پاکستان کے درمیان اِسی طرح کی ایک صورت حال موجود ہے۔ حملہ آور ریاست جموں و کشمیر میں، جو بھارت سے الحاق کر چکی ہے، پاکستان کی مدد سے کارروائیاں کر رہے ہیں؛ چناں چہ بھارتی حکومت سکیورٹی کو نسل سے درخواست کرتی ہے کہ وہ پاکستان سے فوری مطالبہ کرے کہ وہ بھارت کے خلاف اِس جارحیت کو بند کرے۔‘‘پاکستان نے 15 جنوری کو سکیورٹی کونسل میں اِس شکایت کا مفصل جواب دیا۔ جواب میں پاکستان نے بھارت کے اِس دعوے کو مسترد کردیا کہ اِس نے کشمیر میں کسی قسم کی مداخلت کی ہے۔ کشمیر کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کرتے ہوئے انڈیا کے خلاف کئی سنگین اور سنجیدہ الزامات لگائے۔ بھارت کی طرف سے دائر کی گئی اِس درخواست پر لگائے گئے الزامات اور پاکستان کے جوابی الزامات پر کوئی پوزیشن اختیار کرنے کے بجائے صورت حال کو مزید خراب ہونے بچانے کے لیے سکیورٹی کونسل نے فوری طور پر ایک قرارداد پاس کی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کے باب میں یہ سکیورٹی کونسل کی پہلی قرارداد تھی۔ اسے قراردار نمبر 38 کہا جاتا ہے۔ یہ قرارداد 17 جنوری 1948ء کو منظور کی گئی۔ اِس قرارداد کے ذریعے پاکستان اور بھارت سے کہا گیا کہ وہ ریاست جموں و کشمیر میں صورت حال کو مزید بگاڑنے سے اجتناب کریں اور صورت حال میں بہتری کے لیے تمام ذرائع بروئے کار لائیں۔ اوردونوں ممالک سے کہا گیا کہ اگر صورت حال میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے، تو وہ اِس سے فی الفور سکیورٹی کونسل کو آگاہ کریں۔
بھارت کے لیے یہ ایک مایوس کن خبر تھی۔ ایک شکایت کنندہ یا درخواست گزار کے طور پر بھارت یہ توقع رکھتا تھا کہ سکیورٹی کونسل پاکستان کو فی الفور مداخلت روکنے کا حکم دے گی،مگر اِس توقع کے برعکس دونوں کو پر امن رہنے اور حالات کو مزید خراب ہونے سے بچانے کی تلقین کی گئی۔ اِس کے تین دن بعد یعنی 20 جنوری 1948ء کو اِس سلسلے کی دوسری قرارداد یعنی قرارداد نمبر 39 پاس کی گئی۔ اِس قرارداد کے ذریعے کشمیر کے مسئلے کو پُرامن طریقے سے سے حل کرنے میں مدد کرنے کی پیش کش کی گئی۔ اِس مقصد کے لیے ایک تین رکنی کمیشن بنانے کا اعلان کیا گیا۔ اِس کمیشن کا ایک ایک ممبر پاکستان اور بھارت کو چننے کا اختیار دیا گیا۔ اِن دونوںارکان نے باہمی رضامندی سے تیسرے رکن کا انتخاب کرنا تھا۔ اِس کمیشن کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ سکیورٹی کونسل کو مشترکہ معروضات پر مبنی خط لکھے، جس میں وہ یہ بتائے کہ خطے میں امن کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ کمیشن کا مینڈیٹ حقائق کی جانچ پڑتال کرنا اور سکیورٹی کونسل کی ہدایات پرعمل کرنا تھا۔ کمیشن نے بھارت کے یکم جنوری 1948ء کے خط میں لگائے گئے الزمات کا جائزہ لینا تھا۔ اور اگر سکیورٹی کونسل ہدایت کرے تو پاکستان کے 15 جنوری کے خط میں لگائے گئے الزمات کے بارے میں بھی حقائق جاننا تھا۔ اپنے جواب میں پاکستان نے بھارت کی تقسیم کے وسیع تناظر میں کئی الزمات لگائے تھے، جن میں پانچ نمایاں اور سنگین الزامات تھے۔ پاکستان کا پہلا الزام یہ تھا کہ بھارت ہندوستان کی تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسراالزام یہ تھا کہ بھارت مشرقی پنجاب اور دہلی میں مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہے۔ تیسرا بڑا الزام یہ تھا کہ بھارت نے ریاست جونا گڑھ پر ناجائز قبضہ کرلیا ہے۔ چوتھا الزام یہ تھا کہ بھارت نے تشدد اور دھوکا دہی کے ذریعے جموںو کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق کیا ہے۔ اور پانچواں بڑا الزام یہ تھا کہ بھارت نے پاکستان کو فوجی کارروائی کی دھمکی دی ہے۔ 20 جنوری1948ء کی یہ قرارداد نمبر 39 بلجیم نے پیش کی تھی، جو اِس وقت کونسل کا چیئرپرسن تھا۔ اِس قرارداد پر حکومتِ برطانیہ کا بہت گہرا اثر تھا۔ کہا جاتا ہے کہ حکومتِ برطانیہ نے فلپ نوال کی قیادت میں خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اپنا وفد اقوام متحدہ میں بھیجا تھا۔ فلپ کامن ویلتھ ریلیشن کا برٹش وزیر تھا۔ اِس کے پاس کامن ویلتھ ریلیشن کا تجربہ تھا۔ اور یہ وفد بھیجنے کا مقصد صرف تنازع کشمیر کو حل کرنا تھا۔
اس قرارداد پر بحث و مباحثے کے دوران اِس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جموں و کشمیر میں صورت حال فوری توجہ کی متقاضی ہے، لیکن کمیشن کے قیام کی قرارداد پاس ہونے کے باوجود اپریل 1948ء تک کمیشن کا قیام عمل میں نہیں لایا گیا۔ آخر کار جب اپریل میں کمیشن نے کام شروع کیا تو اُس وقت تک کشمیر کے زمینی حقائق یکم جنوری کی نسبت بہت بدل چکے تھے۔ کمیشن کی تشکیل میں اِس غیر معمولی تاخیر کے پیچھے کہیں ایک کہانیاں بیان کی جاتی ہیں، لیکن اِس میں سب سے بڑی بات وجہ کمیشن کے ارکان کی نامزدگی میں تاخیر تھی۔ خود پاکستان نے کمیشن کا ممبر اپریل 1948ء کے آخر میں نامزد کیا۔ پاکستان کی طرف سے اِس تاخیر کی دو ممکنہ وجوہات تھیں: پہلی یہ کہ پاکستان اِس مقدمے میں مدعی نہیں بلکہ مدعا علیہ تھا، اورتاخیر کی صورت میں اسے کشمیر میں زمینی حقائق تبدیل ہونے کی اُمید تھی۔ 20 جنوری کی قرارداد پاس تو ہو گئی لیکن اِس پرکسی قسم کا کوئی عمل نہیں ہوا۔ اوریہ قرارداد اِس طرح کی دیگر درجنوں قرار دادوں کے انبار میں دفن ہو گئی۔ فریقین نے ایک دوسرے کو اِس قرارداد پر عمل نہ کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا؛ تاہم سکیورٹی کونسل اِس پر خاموش رہی۔
ان قراردادوں کے مقاصد محدود تھے لیکن اِس کے باوجود اِن پر عمل درآمد نہ ہوسکا۔ کونسل کی ہدایات کے مطابق نہ تو کشمیر میں صورت حال کو مزید بگاڑ سے بچایا جا سکااور نہ ہی قراردادوں کی روشنی میں کمیشن کی تشکیل ہو سکی۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کو التوا، تاخیر اور عدم تعاون کاذمہ دار قرار دیا۔ اٹھارہ مارچ 1948ء کو چین نے ایک نئی قرارداد کونسل میں پیش کی، 21 اپریل 1948 ء کو یہ قرار داد منظور ہوئی۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعہ کشمیرپر تیسری قرارداد تھی۔ اسے قرارداد نمبر47 کہا جاتا ہے۔ اِس قرارداد کے ذریعے مجوزہ کمیشن کے ممبران کی تعداد تین سے بڑھا کر پانچ کر دی گئی۔ کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ برصغیر میں جا کر پاکستان اور بھارت کی حکومتوں کی خطے میں امن کے قیام اور ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے استصواب رائے کی تیاری میں مددکرے۔ قرارداد میں کشمیر تنازع کے حل کے لیے پاکستان اور بھارت سے مرحلہ وار کئی اقدامات کرنے کی سفارش کی گئی۔ پہلے قدم کے طور پر پاکستان سے کہا گیا کہ وہ قبائلیوں اور اپنے اُن تمام شہریوں کو ریاست سے نکالے جو لڑائی کی نیت سے کشمیر میں داخل ہوگئے ہیں۔ دوسرے قدم کے طور پر بھارت سے کہا گیا کہ وہ کشمیر سے اپنی فوجیں بتدریج باہر نکالے اور ریاست کے اندر صرف اتنی فوج باقی رکھے جو کشمیر میں امن و امان کے قیام کے لیے ضروری ہو۔ بھارت کمیشن کے مشورے سے امن و امان کے قیام کا بندو بست کرے اور اِس مقصد کے لیے زیادہ سے زیادہ کشمیر کے مقامی افراد ی قوت کا استعمال کرے۔ تیسرے قدم کے طور پربھارت سے یہ کہا گیا کہ وہ اِس اَمر کو یقینی بنائے کے کشمیر میں کولیشن حکومت کا قیام ہو اورتمام سیاسی پارٹیوں کو ریاستی حکومت میں شمولیت کی دعوت دی جائے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے نامزد کردہ استصواب رائے کے ایڈمنسٹریٹر کا تقرر کیا جائے جو کشمیر میں ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ استصواب رائے کا بندوبست کرے۔ سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ مہاجرین کی واپسی کا بندوبست کیا جائے اور ریاست میں سیاسی آزادیوں کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ اِس قرارداد پربھارت اور پاکستان دونوں نے شدیداعتراضات کیے، تاہم دونوں نے اقوام متحدہ کے کمیشن کی ثالثی کی پیش کش کو خوش آمدید کہا۔ یعنی قرارداد سے مکمل طور پر اتفاق کیے بغیر ثالثی پر رضامندی ظاہرکی۔ بھارت کا اعتراض یہ تھا کہ قرار داد میں اِس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ بھارت اِس مقدمے میں دراصل ایک مدعی اور شکایت کنندہ ہے۔ اِس حقیقت کو بھی نظر انداز کیا گیاہے کہ کشمیر کا بھارت سے الحاق ہو چکا ہے، لیکن قرارداد میں پاکستان اور بھارت کے ساتھ یکساں سلوک کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے فوجوں کے انخلا کے فارمولے اورکشمیر میں کولیشن حکومت کے قیام کو شیخ عبداللہ حکومت کے لیے خطرناک قرار دیا۔ اِس نے یہ بھی کہا کہ ایڈ منسٹریٹر کے اختیارات ریاستی خودمختاری کو متاثرکرتے ہیں۔ مہاجریں کی واپسی کا مطالبہ حقیقت پسندانہ نہیں ہے اور پاکستان کا کشمیر کے اندر استصواب رائے کے دوران کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے۔
پاکستان نے کشمیر میں بھارتی فوجوں کے مکمل انخلا کے بجائے امن و امان کے لیے اِس کی کچھ فوجیں رکھنے کے تجویز پر اعتراض کیا۔ پاکستان کا یہ کہنا تھا کہ کشمیر کے اندر بھارتی فوجوں کی تعداد خواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، اِن کی موجودگی میں آزادانہ استصواب رائے ممکن نہیں ہوگا۔ اِس کے علاوہ پاکستان نے ریاست میں کولیشن حکومت میں نمائندگی کے تناسب پر بھی اعتراض کیا۔ اِس قرار داد کا ایک خاص نکتہ یہ تھا کہ اِن قراردادوں کے ذریعے پہلی بار ریاست جموں وکشمیر سے غیر ریاستی فوجیں اور قبائلیوں سمیت ہر قسم کے حملہ آور باہر نکالنے کو کہا گیا تھا اور دوسرانکتہ یہ تھا کشمیریوں کے مستقبل کے تعین کے لیے باقاعدہ استصواب رائے کا لفظ استعمال کیا گیا۔ دونوں فریقوں نے قراردادوں پر اعتراضات کے باوجود کمیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اِس رضا مندی کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ آگے چل کر ارجنٹینا، بلجیم، کولمبیا، چیکو سلواکیہ اورامریکا کے ایک ایک نمائندے پر مشتمل کمیشن کا قیام عمل میں لایاگیا۔ اِس کے دو ماہ بعد تین جون 1948ء کو قرارداد نمبر 51 پاس کی گئی، جس میں ماضی کی تمام قراردادوں کو ’’ری کنفرم‘‘ کرتے ہوئے کمیشن کو ہدایت کی گئی کہ وہ متنازع علاقوں میں جائے اور سکیورٹی کونسل کی ہدایات کے مطابق اپنے فرائض سر انجام دے۔
سات جولائی کو کمیشن کا پہلا ممبر علاقے میں پہنچا۔ کام شروع کرتے ہی کمیشن کو احساس ہوا کہ برصغیر میں زمینی حقائق سکیورٹی کونسل میں دی گئی معلومات اور اِس پر ہونے والی مباحث سے بالکل مختلف ہیں۔ کمیشن کے ایک ممبر جوزف کاربل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کمیشن کو کراچی پہنچنے پر پتا چلا کہ پاکستانی فوج کے تین بریگیڈ مئی سے کشمیر میں لڑائی میں شامل ہیں۔ یہ نئی معلومات تھی کہ پاکستان اور بھارت کی باقاعدہ فوجیں کشمیر کے اندر لڑائی میں مصروف ہیں۔ اِن حالات کے پیش نظر 13 اگست 1948ء کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انڈیا اور پاکستان نے دونوں ممالک کی رضامندی سے ایک نئی قرار داد پاس کی۔ اِس قرار داد کے تین حصے تھے، پہلا حصہ یہ تھا کہ حکومت پاکستان اور بھارت ریاست جموںو کشمیر میں سیز فائر کا اعلان کریں۔ دوسرا حصہ یہ تھا کہ فریقین کے درمیان ایک جنگ بندی کے عارضی معاہدے پر دستخط ہوں۔ اور تیسرے حصے میں پاکستان اور بھارت سے کہا گیا کہ وہ اِس بات کا اعادہ کریں کہ ریاست کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر ی عوام کی آزادانہ مرضی سے کیا جائے گا۔ اِس مقصد کے لیے جنگ بندی کے معاہدے کے بعد دونوں حکومتیں کمیشن کے مشورے سے ایسے حالات کا تعین کریں گی جن میں عوام کی آزادانہ مرضی کو یقینی بنایا جا سکے۔ بھارت نے اِس قرارداد کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان نے اِس پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا۔ بہرحال کئی تحفظات، سوالات اور اعتراضات کے باوجود دونوں ممالک نے ایک سطح پر اِن تجاویز کو تسلیم کیا جس کے نتیجے میں یکم جنوری1949ء کو جنگ بندی کا اعلان ہوا۔
پاک بھارت تعلقات اور مسئلہ کشمیر
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا مستقبل مسئلہ کشمیر سے جدا نہیں ہے۔ دونوں ممالک میں یہی بنیادی مسئلہ ہے، اگرچہ دیگر تنازعات اور مسائل بھی ہیں مگر مسئلہ کشمیر کی حیثیت اُن سبھی پر برتر ہے۔ پانچ اگست 2019ء کے بھارتی حکومت کے وہ ناجائز اور غیرقانونی و غیر اخلاقی اقدامات جن سے مقبوضہ کشمیر کی علاقائی حیثیت میں تبدیلیاں کی گئیں، پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ بھارتی حکومت نے غلط طور پر یہ خیال کیا تھا کہ اِن ناجائز اقدامات سے وہ کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو کوئی اور رنگ دے سکے گی۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی حیثیت بدستور وہی ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں واضح ہے یعنی ایک مقبوضہ علاقہ جس کا الحاق بھی تسلیم شدہ نہیں۔ کشمیر ی عوام کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنی رائے ظاہر کریں کہ اُن کی ریاست کا الحاق کس ملک کے ساتھ ہو۔ بھارت نہ صرف یہ کہ تقسیم ہند کے وقت سے جموں و کشمیر پر بالجبر قابض ہے بلکہ 50ء کی دہائی سے وہ استصواب رائے کے کشمیری حق کی راہ میں بھی رکاوٹ بنا کھڑا ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کی جانب سے کشمیری عوام کو دیا گیا یہ حق آج بھی اُسی طرح تازہ ہے اور اقوام متحدہ اگر چاہے تو مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے مگر عالمی طاقتوں کے معاشی اور عسکری مفادات کے تناظر میں اُبھرتے ہوئے چین کے خدشات کے مقابل اُنھیں علاقے میں برتری کا کوئی جھوٹا دعویٰ دار درکار ہے اور اِس مقصد کے لیے بھارت حاضر ہے جو محض مغربی قربت کی طفل تسلیوں کے بل پر نہایت احمقانہ طریقے سے مغرب کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے۔ اِسی خود فریبی نے بھارت کو پاکستان کے ساتھ اپنے معاملات درست کرنے سے بھی باز رکھا ہے حالاں کہ بھارت کے سامنے کھلی تصویر اور خطے کے مستقبل کا پورا منظر نامہ موجود ہے۔ مغرب والے دیکھ سکتے ہیں کہ مشرق عالمی تجارت اور معیشت میں کس تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ بھارت اور مغربی ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے اور تعلقات کی نوعیت اب سٹریٹجک نہیں رہی بلکہ سرمایہ کاری اور صنعتی و معاشی تعلقات اہم ہیں۔ آنے والے وقت میں یہ تعلق مزید مضبوط ہوں گے اور تجارت بڑھے گی۔
پاکستان کو بھی اِس کا اندازہ ہے مگر اُصولی بات یہ ہے کہ مظلوم کشمیریوں کے خون سے گزر کر تو بھارت کے ساتھ ایسا ممکن نہیں۔ حقیقت میں ایسا ہو بھی نہیں سکتا۔ یہ ستر سال پرانا مسئلہ ہے جسے پاکستان تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا قرار دیتا ہے۔ بھارت اِس معاملے میں اگر کشمیری عوام کے حقوق کی پامالی جاری رکھے اور اقوام متحدہ کے استصواب رائے کے ایجنڈے کو بھی مکمل نہ ہونے دے تو اِس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ فی الحقیقت پائیدار قیام امن کا خواہش مند ہی نہیں؛ چناں چہ ایسے ملک کے ساتھ دوستی اور تعلقات کی بہتری کا کیا امکان ہے جس کی خواہشات ہی میں یہ شامل نہ ہو۔ بھارت جب خطے میں بہتر تعلقات کے لیے حقیقی طور پر آمادہ ہو گا تو اِس کی بنیاد وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی پیش رفت سے کرے گا۔