افغانستان کی بدلتی صورت حال اور خطہ
افغانستان میں نئی پیش رفت اور پاکستان اور خطے پر اِس کے ممکنہ اثرات کا جائزہ لینے کے لیے بلائے گئے قومی سلامتی کمیٹی کے خصوصی اجلاس کے اعلامیے میں اِس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان افغان مسئلے کے ایسے جامع سیاسی تصفیے کے لیے پُرعزم ہے جس میں تمام افغان گروپوں کی نمائندگی ہو۔ قومی سلامتی کمیٹی نے افغانستان میں تمام جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ قانون کی حکمرانی کا احترام اور تمام افغان دھڑوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کریں اور یہ امر یقینی بنایا جائے کہ کوئی بھی دہشت گرد گروپ افغان سرزمین کو کسی ملک کے خلاف استعمال نہ کرے۔اجلاس میں پاکستان کی جانب سے افغان جامع سیاسی تصفیے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے عالمی برادری اور تمام افغان فریقوں کے ساتھ کام جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا گیا۔افغانستان کی پیش رفت پر ہمسایہ ممالک کے جو تاثرات سامنے آئے ہیں اُن میں یہ واضح ہے کہ اِن سبھی ممالک نے اِس تازہ پیش رفت کا خیر مقدم کیا ہے اور اِسے افغان صورت حال میں ایک امکان کے طور پر لیا گیا ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے سے قبل چین کی جانب سے افغانستان کے ساتھ دوستی اور مشترکہ تعاون بڑھانے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ایران کی جانب سے بھی ایسے بیانات آئے ہیں جن میں افغانستان میں امن اور استحکام کی اُمیدکا اظہارکیا گیا جب کہ روسی وزیر خارجہ نے بین الافغان مذاکرات میں افغان حکومت کی غیر سنجیدگی کو موجودہ صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے افغان سیاسی ، مذہبی اور نسلی گروہوں کی شراکت سے مسئلے کا حل تلاش کرنے پر زور دیا۔ افغانستان کے قریب ترین ہمسایہ ممالک کے اِن تاثرات سے یہ امر واضح ہے کہ طالبان کو سیاسی اور عسکری حقیقت کے طور پر قبول کیا گیا ہے؛ تاہم اِن حالات نے سبھی فریقوں پر ذمہ داریوں کے بوجھ میں نمایاںاضافہ کیا ہے۔ کابل پہنچ جانا طالبان کے لیے حکمت عملی کے اعتبار سے یقیناً اہم ہو گا مگر افغان صورت حال میں خود کو منوانے کی قابلیت حاصل کرنے کے لیے اُنھیں سیاسی ہم آہنگی کے صبر آزما مراحل سے گزرنا ہو گا۔
افغانستان چالیس برس سے خون ریزی اور عدم استحکام کا مسلسل ہدف ہے اور یہ موقع اِس بد ترین دور کا خاتمہ یقینی بنا سکتا ہے بشرط یہ کہ سبھی دھڑے اِس سلسلے میں مخلص جذبے کے ساتھ کوشش کریں۔ افغان دھڑوں میں اختلافات کی نوعیت ایسی نہیں کہ اُنھیں نئی پہل سے روکتی ہو۔ بہت سے اختلافات محض دھڑے بندی کا نتیجہ ہیں ، اُن کی تہ میں نہ کوئی خالص نظریاتی مسئلہ ہے نہ ہی سیاسی ، لسانی یا ثقافتی اختلاف۔ چناں چہ افغان دھڑے بات چیت اور امن عمل کی شروعات کی بہترین پوزیشن میں ہیں ۔ ایک تذبذب ضرور ہے کہ دہائیوں تک جس فریق کے خلاف ہتھیار اُٹھائے اُس سے سلسلہ جنبانی کس طرح شروع کریں، مگر یہ ایسی چٹان نہیں کہ جسے سر کرنا اِس قدر مشکل ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ افغان آپسی بات چیت کے سلسلے کا آغاز کرنے کے اِس وقت جتنے قابل ہیں، ماضی میں کبھی نہ تھے۔ یہ موقع افغانوں کی تاریخ کا ایک نایاب موقع ہے اور یہ کوئی آسانی سے میسر نہیں آیا۔ اِس کے پیچھے چالیس برس کی شورش ہے۔ اِس لیے افغانستان کے سبھی ہمسایہ ممالک بھی اِس موقع کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے طالبان سمیت سبھی افغان دھڑوں پر زور دے رہے ہیں کہ اِس موقع سے فائدہ اُٹھائیں ۔ افغانستان کے عوام نے پچھلے چار عشروں کے دوران بے پناہ مصائب کا سامنا کیا ہے۔ بنیادی سہولتیں ، انسانی حقوق، جینے کا حق، معاشی نمو کے مواقع اور دنیا میں متمدن اور مہذب قوم کے طور پر پہچان ، افغان عوام کے لیے یہ سبھی صورتیں نایاب تھیں۔ اِس خطے میں کسی اور ملک کے عوام کو اِس درجے کے مصائب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اب ضروری ہے کہ افغان شہریوں کی اِن محرومیوںاور اذیتوں کا خاتمہ ہو۔ اُنھیں پُر امن ماحول میں جینے اور ترقی کے مواقع میسر آئیں۔ ایسا ممکن ہو تو قوی اُمید ہے کہ افغان عوام جو دو ، تین نسلوں سے اپنی توانائیاںاور صلاحیتیں میدان جنگ میں جھونکتے رہے ہیں وہ تعمیر اور تخلیق کے میدانوں میں اپنے جوہر دکھائیں اور اپنے ملک اور اِس خطے کے لیے کارآمد ثابت ہوں۔
ایسا ہونا یقینی طور پر ممکن ہے ، مگر اِس امکان کی کنجی طالبان کے ہاتھ میں ہے۔ چوں کہ افغان صورت حال میں وہی سیاسی، عسکری اور عالمی تعلقات کے لحاظ سے برتر پوزیشن میں ہیں؛چناں چہ اِس لیے اِس پیش قدمی کی ذمہ داری بھی اُنھی پر ہے کہ وہ دیگر دھڑوں کو ساتھ لے کر چلیں اور افغانستان کی سیاست کو فی الواقع ایسا گلدستہ بنا ئیں جس میں ہر رنگ کا پھول یک جا ہو کر تنوع اور حسن میں اضافے کا سبب بنے۔ یہ حقیقت ظاہر ہے کہ افغانستان میں صرف امن کی ارزانی ہے ورنہ اِس سر زمین کے معدنی ، جغرافیائی اور انسانی وسائل میں کوئی کمی نہیں۔ امن کا قیام ممکن ہو جائے تو بر اعظم ایشیا کا یہ اہم ملک دنیا کے اِس حصے میں ترقی کا سنگم بن سکتا ہے۔خشکی سے گھرا افغانستان اپنے چاروںا طراف کے علاقوں کے لیے بہترین تجارتی راہداری بننے کے قابل ہے۔ اَن گنت معدنی وسائل اور وسیع رقبہ اگر زرعی مقاصد کے لیے بروئے کار آ سکے تو افغانستان بے پناہ ترقی کر سکتا ہے۔ چار عشروں کے مسلسل انتشار نے اِن امکانات کی جانب افغانوں کا دھیان ہی نہیں جانے دیا۔ اندھیر نگری میں تعمیر کے مراحل ترجیح قرار نہیں پا سکتے، مگراِس وقت افغان تاریخ کے اِس دوراہے پر ہیں جہاں اُن کے پاس خود کو بدلنے اور ماضی سے تعلق منقطع کرنے کا بہترین موقع ہے۔